علی حسین عابدی ۔۔۔ شمار کرتے نہیں مجھ کو خاندان میں تم

شمار کرتے نہیں مجھ کو خاندان میں تم
مجھے یہ ڈال رہے ہو کس امتحان میں تم

یہ لگ رہا ہے نہیں مطمئن نشانے سے
رکھو گے تیر بھلا کب تلک کمان میں تم

یہ مانا حُسن میں رکھتے نہیں تم اپنا جواب
کہ کامیاب نہیں عشق کی اُڑان میں تم

تمہاری بندگی کرتا ہوں دیکھنا کیسے!
حروف اپنے نہ ڈالو مری زبان میں تم

محبتوں کے خزانے بکھیرتے ہی رہیں
زمیں کی گود میں ہم اور آسمان میں تم

ہوا میں اُڑتے پرندوں کو دیکھتے کیوں ہو
اکیلے ہی پڑے رہتے ہو کیا ، مکان میں تم

مجھے یقین ہے جب چھوڑ جائو گے مجھ کو
اکیلے ہی کہیں رہ جائو گے جہان میں تم

Related posts

Leave a Comment