علی حسین عابدی ۔۔۔ اہلِ دل، دل لگی سے ڈرتے ہیں

اہلِ دل، دل لگی سے ڈرتے ہیں
ایک ہم ہیں خوشی سے ڈرتے ہیں

اُن کو جینے کی آرزو ہے بہت
اور ہم زندگی سے ڈرتے ہیں

ٹوٹ جاتا ہے وہ جو پل بھر میں
دِل کی اُس نازکی سے ڈرتے ہیں

یاد شدت سے آ رہے ہیں وہ
ہم تواس بے کلی سے ڈرتے ہیں

اتنا آگے وفا میں نکلے ہیں
اب تو بس بے خودی سے ڈرتے ہیں

جب خیال آتا ہے بچھڑنے کا
ہم تری بے رخی سے ڈرتے ہیں

چوٹ وہ کھائی ہے محبت میں
ہم تو اب عاشقی سے ڈرتے ہیں

ہم عْدو کو گلے لگاتے ہیں
لوگ تو دوستی سے ڈرتے ہیں

Related posts

Leave a Comment