رسا چغتائی ۔۔۔ خواب اس کے ہیں جو چرا لے جائے

خواب اس کے ہیں جو چرا لے جائے

نیند اس کی ہے جو اُڑا لے جائے

زلف اس کی ہے جو اسے چھو لے

بات اس کی ہے جو بنا لے جائے

تیغ اس کی ہے، شاخِ گل اس کی

جو اسے کھینچتا ہوا لے جائے

اس سے کہنا کہ کیا نہیں اس پاس

پھر بھی درویش کی دعا لے جائے

زخم ہو تو کوئی دہائی دے

تیر ہو تو کوئی اٹھا لے جائے

قرض ہو تو کوئی ادا کر دے

ہاتھ ہو تو کوئی چھڑا لے جائے

لو دیے کی نگاہ میں رکھنا

جانے کس سمت راستا لے جائے

دل میں آباد ہیں جو صدیوں سے

ان بتوں کو کہاں خدا لے جائے

کب نہ جانے ابل پڑے چشمہ

کب یہ صحرا مجھے بہا لے جائے

خواب ایسا کہ دیکھتے رہیے

یاد ایسی کہ حافظہ لے جائے

میں غریب الدیار میرا کیا

موج لے جائے یا ہوا لے جائے

خاک ہونا ہی جب مقدر ہے

اب جہاں بخت نارسا لے جائے

Related posts

Leave a Comment