سعید راجا

جمالِ یار کا ہر زاویہ درست لگے
کہ جیسے طاق میں جلتا دیا درست لگے

یہ سرخ ہوتی ہوئی آنکھ چپ نہیں رہتی
کوئی بھی رت ہو اِسے بولنا درست لگے

ہُوا شہید میں جاتے ہوئے خود اپنی طرف
مرے بدن پہ لہو کی ردا درست لگے

کوئی تو ہو جو مجھے ڈھونڈتا ہوا آئے
کوئی تو ہو کہ جسے ڈھونڈنا درست لگے

فریب‘ قوسِ قزح کو بھی دل کہے‘ لیکن
تری ہتھیلی پہ رنگِ حنا درست لگے

عجیب شخص ہوں خود کو غلط سمجھتا ہوں
مجھے ہمیشہ کوئی دوسرا درست لگے

بھنور کے گھاٹ اترتے مسافروں کو سعید
لگے تو کیسے بتا ناخدا درست لگے

۔۔۔۔۔۔

دیدۂ و دل میں سرایت نہیں کرنے والا
عشق بے وجہ کرامت نہیں کرنے والا

جس نے پڑھ رکھی ہے مکہ سے مدینہ ہجرت
وہ امانت میں خیانت نہیں کرنے والا

خود پہ بھی مجھ کو بھروسہ ہے خدا پر بھی ہے
میں زمانے کی شکایت نہیں کرنے والا

ایک امیدِ سحر تاب کو رکھتا ہے امام
دل شبِ تار کی بیعت نہیں کرنے والا

آمدورفت ہے سانسوں کی اسی کے دم سے
میں کبھی ترکِ محبت نہیں کرنے والا

حجرۂ خوف میں بیٹھا ہے جو سہما ہوا شخص
آیتِ عشق تلاوت نہیں کرنے والا

اشک آنکھوں سے بہے جاتے ہیں چپ چاپ سعید
اور میں کوئی وضاحت نہیں کرنے والا

Related posts

Leave a Comment