حکیم خان حکیم

دیکھا نہیں تھا اُس نے نظر بھر کے آس پاس
موجود ہم بھی تھے کہیں منظر کے آس پاس

لگتا ہے پھر کسی نے یہاں کی ہے خودکشی
بیٹھے ہوئے ہیں لوگ سمندر کے آس پاس

تنہا کسی کی یاد نے ہونے نہیں دیا
کھلتے ہیں روز پھول مرے گھر کے آس پاس

مرنے کے بعد لی نہ کسی نے مری خبر
اگنے لگے ہیں خار مرے گھر کے آس پاس

یہ خودکشی حکیم نہیں واردات ہے
بکھرا ہوا ہے خون بھی بستر کے آس پاس

۔۔۔۔۔۔

ہم نے قضا سے درد کی تدبیر مانگ لی
بجھتے ہوئے چراغ سے تنویر مانگ لی

اُس کے رُخِ جمال سے جب رنگ اُڑ گیا
روٹھے ہوئے خیال سے تصویر مانگ لی

جب دن مری حیات کے سب خواب ہو گئے
پتھر مزاج یار سے تعبیر مانگ لی

چرخِ سخن پہ بجھنے لگے جب مرے حروف
خونِ جگر سے شعر کی تاثیر مانگ لی

جس روز اُس کا لطف و کرم سب پہ عام تھا
ہم نے خدا سے درد کی جاگیر مانگ لی

رکھنا تھا ہم کو دشتِ طلب کا بھرم حکیم
ہر گام اُس کے پیار سے تعزیر مانگ لی

Related posts

Leave a Comment