شوکت محمود شوکت ۔۔۔ دو غزلیں

نگاہِ نم میں طوفانوں کا منظر رقص کرتا ہے
بھنور میں ساتھ اپنے تو سمندر رقص کرتا ہے

ہمیں تو خرقہ پوشی راس آئی ہے جہاں والو!
ہُما ، ورنہ فقیروں ہی کے سر پر رقص کرتا ہے

تصور میں لیے ہر دم ، کوئی مہتاب سا چہرہ
سرِ دشتِ جنوں اک خاک پیکر رقص کرتا ہے

نگاہِ مست سے پیتے ہیں ، محو رقص رہتے ہیں
زمانہ بھی ہمارے ساتھ ، اکثر رقص کرتا ہے
غرورِ حسن سے کوئی ، ہوائوں میں اُڑے ایسے
کہ جیسے شاخِ گُل پر ، اک گُلِ تر رقص کرتا ہے

سکندر اپنی شوکت پر ، پریشاں آپ ہے ، لیکن
قلندر مسکراتا ہے ، قلندر رقص کرتا ہے

کسی کے عشق کا اعجاز شوکت ، اس کو کہتے ہیں
دِوانوں کی طرح کوئی جو در در رقص کرتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبت کی فسوں کاری، سرِ بازار می رقصم
محبت ایک بیماری ، سرِ بازار می رقصم

اِدھر ڈوبے ذرا سورج ، اُدھر وہ یاد آ جائے
پریشاں رات ہو ساری ، سرِ بازار می رقصم

میں مٹّی ہوں ، مجھے تو چاک پر گردش میں رہنا ہے
وہ نوری ہو کہ ہو ناری ، سرِ بازار می رقصم

چھپا کر دل میں سیلِ غم ، تبسّم لب پہ رہتا ہے
بڑھے جب گریہ و زاری ، سرِ بازار می رقصم

سرِ دشتِ جنوں ، مجنوں تو محوِ رقص رہتا تھا
ہے مجھ پر بھی جنوں طاری ، سرِ بازار می رقصم

نبھائے کب حسیں کوئی ، یہاں مخلص نہیں کوئی
ہوئی عنقا وفاداری ، سرِ بازار می رقصم

میں کھینچوں رنجِ مہجوری ، رہوں ماتم کُناں شوکت
ہے فطرت میں عزاداری ، سرِ بازار می رقصم

Related posts

Leave a Comment