ارشاد نیازی … سوزِ دروں کو آنکھ سے باہر نکال کر

سوزِ دروں کو آنکھ سے باہر نکال کر
ہر شاخ رکھ رہی ہے گْلِ تر نکال کر

لائے حسین آخری لشکر نکال کر
خیمے سے تشنہ لب علی اصغر نکال کر

تھوڑے ہی دن ہے شاخِ شجر پر یہ نغمگی
اڑجائیں گے یہ لوگ نئے پر نکال کر

اہلِ نظر کے سامنے رکھتا ہوں دیکھ لیں
لایا ہوں مشتِ خاک سے گوہر نکال کر

یوں بھی ہو مجھ کو چشمِ فنا ڈھونڈتی پھرے
رکھ دوں میں روح جسم سے باہر نکال کر

اس داستاں میں اور تو کچھ بھی نیا نہیں
اس کے بچھڑتے وقت کا منظرنکال کر

کرتا ہوں سجدہ آپ میں اپنے جمال کو
پتھر سے اک خیال کا پیکر نکال کر

اب شاعری  میں اور کسی کو بھی دیں جگہ
مجذوب و مست و فقر و قلندر نکال کر

شہروں کی بود و باش نے وحشی کیا اسے
پھرتا ہے قیس ہاتھ میں خنجر نکال کر

Related posts

Leave a Comment