سعید شارق ۔۔۔ ایک  تاریک  ہوتے ستارے سے اپنا خلا بھر رہا ہوں

ایک  تاریک  ہوتے ستارے سے اپنا خلا بھر رہا ہوں
کس لیے خود کو خالی کیا تھا کبھی اور کیا بھر رہا ہوں!

وہ بھی دن تھے یہاں خواہشوں کا کئی منزلہ گھر بنا تھا
اور اب رنج کی کالی مٹی سے دل کا گڑھا بھر رہا ہوں

مجھ کو معلوم ہے اب ترے کان پہلے سے تشنہ نہ ہوں گے
پھر بھی لفظوں کے خالی کٹوروں میں آبِ صدا بھر رہا ہوں

آج دل میں اُداسی کے پہلے جنم دن کی تقریب ہو گی
شام سے قہقہوں کے غبارے اُٹھائے  ہوا بھر رہا ہوں

اس عبارت میں کچھ اور لکھّوں تو با معنی ہو جائے لیکن
جانے کیوں میں ترا نام لکھ کر ہی خالی جگہ بھر رہا ہوں!

جانتا ہوں کہ میرے مرض کا علاج اب کوئی بھی نہیں ہے
خیر! خاموش !  میں شعر کی شیشیوں میں دوا بھر رہا ہوں

بس یونہی خود کو تنہائی کی پٹّیوں سے لپیٹا ہُوا تھا!
یہ بھی دیکھا نہیں، یوں ہرا ہو رہا ہوں میں یا بھر رہا ہوں!

خواب کے غار میں جانے کتنے برس کاٹ آیا ہوں،شارق ؔ
اور سوچوں تو لگتا ہے جیسے فقط  ثانیہ بھر رہا ہوں

Related posts

Leave a Comment