سید ریاض حسین زیدی ۔۔۔ گو چمک ہے بہت سی کپڑوں پر

گو چمک ہے بہت سی کپڑوں پر
پھر بھی رونق نہیں ہے چہروں پر

جو ہنر تھا یقین کا مظہر
واہموں پر ہے اور قیاسوں پر

وعدہ ان کا تھا روزِ روشن کا
تان ٹوٹی ہے کالی راتوں پر

احترام اٹھ گیا صحیفوں کا
حرف آنے لگا ہے لفظوں پر

کیسے دن پھر گئے خزاوں کے
خاک پڑتی گئی بہاروں پر

قہقہوں میں سرور ملتا ہے
کان دھرتا ہے کون آہوں پر

جن میں کشکول ہے گدائی کا
شرم آتی ہے ایسے ہاتھوں پر

کمتریں ہیں جو بیچ دیتے ہیں
من کی آشا کھنکتے سکوں پر

حرمتِ لفظ ہے گراں مایہ
رشک آتا ہے سچے حرفوں پر

منقسم ہو گیا مکاں سارا
وارثوں میں ٹھنی ہے حصوں پر

یہ تماشا ریاض کیسا ہے؟
غصہ آتا ہے ہم کو اپنوں پر

Related posts

Leave a Comment