سید ضیا حسین ۔۔۔ اب تو بس یہ کمائیاں ہوں گی

اب تو بس یہ کمائیاں ہوں گی
ہر جگہ خود ستائیاں ہوں گی

آج محفل میں جا نہیں پایا
آج میری بُرائیاں ہوں گی

اِس وبا کو تو ختم ہونے دو
ہر طرف رُونمائیاں ہوں گی

ایسے جانے سے، اے مِری ہمدم!
سوچ لے، جگ ہنسائیاں ہوں گی

سوچ کر ہی یہ جان جاتی ہے
کتنی لمبی جدائیاں ہوں گی

سردیاں آ گئی ہیں اب جانم!
خشک میوے، رضائیاں ہوں گی

اِس بڑھاپے میں، ایسے موسم میں
درد ہوں گے، دوائیاں ہوں گی

کوند جائے گی ایک بجلی سی
ہاتھوں میں جب کلائیاں ہوں گی

اِک طرف سے شکائتیں، شکوے
اِک طرف سے صفائیاں ہوں گی

ظلم تیرا رہا اگر جاری
ہر طرف پھر دُہائیاں ہوں گی

اِس نے کی گر تِری طرف داری
میری دل سے لڑائیاں ہوں گی

حسرتوں کی سنیں گے سب چیخیں
دل میں جس دن کُھدائیاں ہوں گی

اِک خدائی کو مانتے تھے ہم
کیا خبر تھی، خدائیاں ہوں گی

اِس طرف تو ضیاؔ وفا ہی ہے
اُس طرف کج ادائیاں ہوں گی

Related posts

Leave a Comment