شاہین عباس … اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی

اب ایسے چاک پر کوزہ گری ہوتی نہیں تھی
کبھی ہوتی تھی مٹی اور کبھی ہوتی نہیں تھی

بہت پہلے سے افسردہ چلے آتے ہیں ہم تو
بہت پہلے کہ جب افسردگی ہوتی نہیں تھی

تمھی کو ہم بسر کرتے تھے اور دن ماپتے تھے
ہمارا وقت اچھا تھا، گھڑی ہوتی نہیں تھی

اچانک مصرع ِ جاں سے برآمد ہونے والے
کہاں ہوتا تھا تُو جب شاعری ہوتی نہیں تھی

ہمیں جا جا کے کہنا پڑتا تھا ہم ہیں، یہیں ہیں
کہ جب موجودگی، موجودگی ہوتی نہیں تھی

تری ہوتی تھیں باتیں یا مری ہوتی تھیں باتیں
کوئی اک بات بھی تیری مری ہوتی نہیں تھی

برابر حصّوں میں بٹتی تھی شامِ ہجرِ یاراں
کسی کو بھی کسی پر برتری ہوتی نہیں تھی

یونہی ہم آتے جاتے تیرا نقشہ کھینچ لاتے
ترے غرفوں کی غیبت کس گلی ہوتی  نہیں تھی؟

ہمیں اُن حالوں ہونا بھی کوئی آسان تھا کیا
محبت  ایک تھی اور ایک بھی ہوتی نہیں تھی

کہو تو گفتگو سنواؤں تم کو اُن دنوں کی
ہمارے درمیاں جب بات بھی ہوتی نہیں تھی

Related posts

Leave a Comment