شہزاد احمد شیخ ۔۔۔ ایسی بھی کیا بے یقینی آگئی

ایسی بھی کیا بے یقینی آگئی
وسوسے اور پیش بینی آگئی

دیکھتے ہو کس لیے زیر و زبر
کیا تمھیں بھی نکتہ چینی آگئی

تیرے میرے درمیاں دنیا نہ ہو
کیا کروں؟ آخر کمینی آگئی

اِس لیے آیا تھا کیا دنیا میں ! مَیں
مجھ پہ ہر آفت زمینی آگئی

کھا چکا ہوں نِت نئے دھوکے یہاں
اِس لیے باریک بینی آگئی

سازشیں ہونے لگی ہیں تیز تر
ساعتِ گدی نشینی آگئی

مِل گیا تھا مجھ کو اِک دِن آئنہ
راس پھر خلوت نشینی آگئی

کس لیے کرتا رفوگر کو تلاش
اب قبا مجھ کو بھی سینی آگئی

اُن کے آنے کا سُنا شہزاؔد جب
ایک خوشبو بھینی بھینی آگئی

Related posts

Leave a Comment