طلعت شبیر ۔۔۔ تخیل میں جو صورت رہ گئی ہے

تخیل میں جو صورت رہ گئی ہے
وہی مٹی کی مورت رہ گئی ہے

محبت کی وضاحت رہ گئی ہے
یہی تو اِک اذیت رہ گئی ہے

مجھے تم چھوڑ کر چلتے بنے ہو
کہو اب کیا قیامت رہ گئی ہے

ہماری بات تک سنتا نہیں تھا
ہماری بھی شکایت رہ گئی ہے

تری گفتار کے چرچے بہت تھے
تری ساری مہارت رہ گئی ہے

ہوئی کارِ محبت سے فراغت
فراغت ہی فراغت رہ گئی ہے

میں اپنے گاؤں کو پھر لوٹ جاؤں
یہ دل میں ایک حسرت رہ گئی ہے

Related posts

Leave a Comment