علی اصغر عباس ۔۔۔ چاندنی عکسِ منور ہی مرے دوست کا ہے

چاندنی عکسِ منور ہی مرے دوست کا ہے
حسنِ ضوبار مصور ہی مرے دوست کا ہے

سرو قامت جو میں ہوں پست قدامت ہو کر
میرے شانوں پہ سجا سر ہی مرے دوست کا ہے

موج در موج تحرک ہی لپک ہے اُس کی
دل، جنوں خیز سمندر ہی مرے دوست کا ہے

اُس کی آنکھوں کی اداسی سے زمستاں چھائے
پیڑ اس رت میں ثمر ور ہی مرے دوست کا ہے

مرغزاروں پہ ہے رخسارِ حیا کا سایہ
موسمِ گل،رُخِ انور ہی مرے دوست کا ہے

گفتگو اس کی ہے اسرار و معارف کا بیاں
مرکزہ جوئے پیمبر ہی مرے دوست کا ہے

ہے تب و تابِ شفق زار تبسم اس کا
بارِ خورشید کھلا در ہی مرے دوست کا ہے

سانس مضرابِ رگِ جانِ تمنا چھیڑیں
نغمۂ زیست کہ تیور ہی مرے دوست کا ہے

عشق تقدیس کے پیکر میں ڈھلا دیکھتے ہیں
ایک تکریم کا پیکر ہی مرے دوست کا ہے

دل خداوندِ محبت کا پرستار ہوا
بسکہ یہ تابہ ابد گھر ہی مرے دوست کا ہے

Related posts

Leave a Comment