علی اصغر عباس ۔۔۔ گزار زندگی میری گزر گیا ہے وقت

گزار زندگی میری گزر گیا ہے وقت
مجھے ہی مار گیاہے کہ مر گیا ہے وقت

میں ایک آن میں صدیاں گزار بیٹھاہوں
مجھے سنبھال کے رکھنے سے ڈر گیا ہے وقت

خیال ہے کہ زمانے کی گردشوں میں ہے
یہاں سے ہوکے نہ جانے کدھر گیا ہے وقت

خلا میں تیرگی کی وسعتیں فزوں تر ہیں
جو کہکشاؤں کو لے کر اُدھر گیا ہے وقت

میں اپنے سائے کے قدموں تلے ہی روندا گیا
جو سر پہ دھوپ سی یہ تان کر گیا ہے وقت

لکیریں ہاتھ کی شاخیں بنی ہیں بیری کی
مری ہتھیلی پہ کیا چیز دھر گیا ہے وقت

جو روز و شب کی مشقت بھگت رہا ہوں میں
یہ میرے ساتھ بھی کیا ہاتھ کر گیا ہے وقت

ہمارے ساتھ محبت کیا کرو لوگو
ہمیں تو پیار کی خوشبو سے بھر گیا ہے وقت

Related posts

Leave a Comment