عمر قیاز قائل ۔۔۔ میں جو اِس بار ہَواؤں کی حمایت کرتا

میں جو اِس بار ہَواؤں کی حمایت کرتا
کون جلتی ہُوئی شمعوں کی حفاظت کرتا

شہر کا شہر تھا قاتل کی طرفداری میں
میں کہاں جا کے بھلا اپنی شکایت کرتا

ایک لمحے کی جُدائی بھی قیامت سمجھا
عُمر بھر کے لیے کیوں قطعِ محبّت کرتا

اپنا ہی شہر تھا سب لوگ مرے اپنے تھے
دُکھ کی یُورش تھی مگر کیسے میں ہجرت کرتا

اُس نے چھلنی مرے احساس کو کر دینا تھا
کون اُس خارِ مُغیلاں سے محبّت کرتا

لوگ اندھے بھی تھے بِہرے بھی تھے ورنہ قائل
جی تو کرتا تھا کہ سچ کہنے کی جُرأت کرتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کیوں کسی رام کہانی کی شُروعات کریں
آؤ مل بیٹھ کے اپنی ہی کوئی بات کریں

رات کو دِن تو بنایا گیا ہر بار مگر
آئو اِس دِن کو کسی پَل کے لیے رات کریں

دُوسرا رُخ بھی تو تصویر کا دیکھا جائے
خواب بھی دیکھیں مگر، فکرِ مکافات کریں

شہر کی آب و ہَوا اب نہیں پہلے جیسی
آؤ اُجڑے ہُوئے آباد مضافات کریں

اُگ چُکے درد بہت ارضِ سکوں پر قائل
اب ضروری ہے یہاں پیار کی برسات کریں

Related posts

Leave a Comment