محمد حفیظ اللہ بادل ۔۔۔ دن گزر جاتا ہے تو رات ڈھلے آتا ہے

دن گزر جاتا ہے تو رات ڈھلے آتا ہے
چاند تو چاند ہے سندور مَلے آتا ہے

یہ زمانے کا چلن ہے تو شکایت کیسی
جس کو سینے سے لگاؤ وہ گلے آتا ہے

واقعہ یہ ہے ہمیں چھوڑ کے جانے والا
واپس آتا ہے تو پھر ہاتھ مَلے آتا ہے

بے سبب سر پہ اٹھایا ہوا ہر شخص یہاں
دیکھتے دیکھتے پاؤں کے تلے آتا ہے

شب ڈھلے غور سے دیکھا تو وہ اک توبہ شکن
دھیرے دھیرے مری جانب ہی چلے آتا ہے

Related posts

Leave a Comment