محمد حفیظ اللہ بادل ۔۔۔ دن گزر جاتا ہے تو رات ڈھلے آتا ہے

دن گزر جاتا ہے تو رات ڈھلے آتا ہے چاند تو چاند ہے سندور مَلے آتا ہے یہ زمانے کا چلن ہے تو شکایت کیسی جس کو سینے سے لگاؤ وہ گلے آتا ہے واقعہ یہ ہے ہمیں چھوڑ کے جانے والا واپس آتا ہے تو پھر ہاتھ مَلے آتا ہے بے سبب سر پہ اٹھایا ہوا ہر شخص یہاں دیکھتے دیکھتے پاؤں کے تلے آتا ہے شب ڈھلے غور سے دیکھا تو وہ اک توبہ شکن دھیرے دھیرے مری جانب ہی چلے آتا ہے

Read More

حفیظ اللہ بادل … زمین کھینچتے ہیں، آسمان کھینچتے ہیں

زمین کھینچتے ہیں، آسمان کھینچتے ہیں ہم اپنے جسم سے کیا کیا جہان کھینچتے ہیں بس ایک خطِ محبت ہے اور کچھ بھی نہیں جِسے ہم اپنے ترے درمیان کھینچتے ہیں کِھنچے ہوے ہیں کسی خواب کی کمان میں ہم اس ایک اڑان سے سارا جہان کھینچتے ہیں ہم اپنی عاجزی میں مَست ہیں سو شہر کے لوگ  براے شغل ہمیں پر زبان کھینچتے ہیں یہاں تو قیس کی نِسبت سے ہیں، وگرنہ ہمیں مکین کھینچتے ہیں اور مکان کھینچتے ہیں غزالِ دشت! ہمارا مزاج اپنا ہے ہم اپنے ہاتھ…

Read More