حفیظ اللہ بادل … زمین کھینچتے ہیں، آسمان کھینچتے ہیں

زمین کھینچتے ہیں، آسمان کھینچتے ہیں ہم اپنے جسم سے کیا کیا جہان کھینچتے ہیں بس ایک خطِ محبت ہے اور کچھ بھی نہیں جِسے ہم اپنے ترے درمیان کھینچتے ہیں کِھنچے ہوے ہیں کسی خواب کی کمان میں ہم اس ایک اڑان سے سارا جہان کھینچتے ہیں ہم اپنی عاجزی میں مَست ہیں سو شہر کے لوگ  براے شغل ہمیں پر زبان کھینچتے ہیں یہاں تو قیس کی نِسبت سے ہیں، وگرنہ ہمیں مکین کھینچتے ہیں اور مکان کھینچتے ہیں غزالِ دشت! ہمارا مزاج اپنا ہے ہم اپنے ہاتھ…

Read More

جب تلک آنکھ کو لگایا نہیں ۔۔۔ حفیظ اللہ بادل

جب تلک آنکھ کو لگایا نہیں وہ مرے خواب تک میں آیا نہیں اس لیے ٹھیک دیکھ سکتا ہوں آنکھ کو بے سبب بہایا نہیں کھلی آنکھوں سے خواب دیکھتا ہوں نیند کو میں نے آزمایا نہیں تُو مرے ساتھ ساتھ رہتا ہے تُو مرا دوست ہے، تُو سایا نہیں صاف سیدھی لکیر کھینچتا ہوں سانپ کو ہاتھ تک لگایا نہیں بات کی تہہ میں تھا پہنچنا مجھے اس لیے بات کو گھمایا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہ نامہ فانوس، لاہور جلد: ۵۸، شمارہ: ۷ جولائی ۲۰۱۸ء

Read More