ڈاکٹر نعمان قیصر ۔۔۔ زاہدہ خاتون شروانیہ کے تخلیقی وجود سے مکالمہ

زاہدہ خاتون شروانیہ کے تخلیقی وجود سے مکالمہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انیسویں صد ی کے اوائل میں جن شاعرات نے اردو کی نظمیہ شاعری میں کمال حاصل کیا، ان میں ایک نمایاں نام ز۔خ۔ ش۔ یعنی زاہدہ خاتون شروانیہ ہے۔ انھوں نے غزلیں بھی کہیں اور نثرکو بھی اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا،لیکن ان کے تخلیقی وفور کا احساس ان کی نظمیہ شاعری میں نمایاں ہے۔ان کا تاریخی اور تہذیبی شعور انتہائی بالیدہ ہے۔ان کو اسلامی اقداروروایات سے دلی لگاؤ ہے،جس کا احساس ان کی نظموں کی قرأ ت سے ہوتا ہے۔ان کے یہاں مضامین کا تنوع بھی ہے،عصری حسیت اور عصری مسائل وموضوعات سے ہم آہنگی بھی ان کی نظموں میں نظر آتی ہے۔ان کی نظمیہ شاعری میں نسائی حسیت کا بھر پور اظہار بھی ملتاہے۔ زاہدہ خاتون شروانیہ غالباً اردو کی پہلی شاعرہ ہیں جو اپنی مثبت فکر اور منفردطرزِ اداکی وجہ سے اتنی نمایاں ہیں کہ انھیں نہ تو نظرانداز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی سرسری ذکر کرکے گزراجاسکتا ہے۔انیسویں صدی کی ابتدا میں ان کی تاریخی نظموں نےبہت مقبولیت حاصل کی۔انیسہ ہارون شروانی کے لفظوں میں ’’دنیاےادب میں انھوں نے تہلکہ مچادیاتھا۔پردۂ اِخفا میں رہنے کے باوجودوہ اپنی نغمہ باریوں سے عالم کومسحور و متحیر کرتی رہیں‘‘۔
ز۔ خ۔ ش۔کا اصل نام زاہدہ خاتون شروانیہ ہے، لیکن رسائل وجراید میں ز خ ش کے نام ہی سے ان کی تخلیقات منظر عام پر آئیں اور ادبی دنیا میں بھی وہ اپنے اسی مخفف نام سے جانی جاتی ہیں۔ان کاشاعری کا ذوق فطری تھا۔ دس برس کی عمر ہی سے انھوں نے شعر کہنا شروع کر دیے تھے اور اس وقت کے معیاری رسائل وجراید’ ’زمیندار ‘‘لاہور،’ ’خاتون‘ ‘ ،علی گڑھ،’ ’تہذیب ِنسواں‘‘،’’اخبارالنسا‘‘،’’ شریف بی بی‘‘،’’نظام المشائخ‘‘،’’کہکشاں‘‘لاہور، اور ’’ستارۂ صبح‘ ‘ وغیرہ میں ان کی شعری اورنثری کاوشیں اشاعت پذیر ہوئیں۔انھوں نے شاعری میں پہلے ’گل ‘ اور بعد میں ’نزہت ‘ تخلص اختیار کیا۔ان کے گھر کا ماحول علمی اور ادبی تھا۔ہوش سنبھالتے ہی ز۔خ۔ ش۔ کا گھر کے ادبی ماحول سے متاثرہونا فطری تھا۔ان کی بڑی بہن احمدی بیگم اور چھوٹے بھائی احمد اللہ خان کو بھی شعروادب سے خاص دل چسپی تھی۔شاعری میں احمدی بیگم ’نکہت ‘ تخلص کرتی تھیں جب کہ احمد اللہ خان کا تخلص ’حیران ‘تھا۔ز خ ش کے والد نواب مزمل اللہ خاں شروانی، سرسیداحمد خان کے افکارونظریات سے نہ صرف متفق تھے بلکہ وہ صحیح معنوں میں سرسیدکے متبعین میں سے تھے اور ان کے تعلیمی مشن کے فروغ میں عملی طورپر دل چپی بھی لیتے تھے۔نواب مزل اللہ خان بھی شعروداب کا عمدہ ذوق رکھتے تھے اور فارسی میں اشعاربھی کہتے تھے۔ اس وقت کے فارسی کے معروف شاعر آغا کمال الدین سنجر سے آپ مشورۂ سخن کرتے تھے۔۱؎
۸دسمبر ۱۸۹۴میں بھیکم پور،علی گڑھ (اتر پردیش ) میں زاہدہ خاتون شروانیہ کی ولادت ہوئی اور زندگی کی بہت کم بہاریں دیکھنے کے بعد محض ۲۷سال کی عمر میں ۲فروری ۱۹۲۲ءکو ان کا انتقال ہوگیا۔ان کے ادبی کارنامے کی مدت صرف سترہ سال پر محیط ہے۔لیکن سترہ برس کی قلیل مدت میں انھوں نے جو ادبی اور تخلیقی سرمایہ چھوڑا ہے، اس کے مطالعے سے ان کی افتادِ طبع اور ان کی تخلیقی اٹھان کا اندازہ ہوتا ہے۔’آئینہ حرم ‘ اور ’فردوس تخیل ‘ ان کے مجموعہ ہاے کلام ہیں۔۔ ’دیوان نزہت ‘ (نزہت الخیال )کے نام سےمنظرِ عام پر آیا۔۲؎
قیدِ فرنگ، گنج شہیداں، اضغاثِ احلام، عالمِ نسواں میں انقلاب، بہنوں سے دودو باتیں،مہذب بہنوں سے خطاب، اور چیست یاران طریقت بعد ازیں تدبیر ما! آئینہ حرم، تصادمِ رواج وشرع،دامِ فریب،قدومِ میمنت ملزوم،اور ثمر کا شجر سے خطاب ان کی مشہور نظمیں ہیں۔ز۔ خ۔ ش کی نظمیہ شاعری روایتی اسلوب کی پابند ضرور ہے لیکن اس میں مضامین کی رنگارنگی بھی ہے،اس میں عصری مسائل وموضوعات کی جلوہ گری بھی نظر آتی ہے۔
تعلیم کا فقدان اور دقیانوسی خیالات کے عام ہونے کی وجہ سے انیسویں صدی میں شعروادب سے خواتین کی دل چسپی معیوب تصور کی جاتی تھی،جب کہ اخبارات ومیگزین میں ان کے نام کی اشاعت ناپسندیدگی پرمحمول کی جاتی تھی۔میرے خیال سے اسی لیے زاہدہ خاتون شروانیہ نے اپنی تخلیقات کی اشاعت کے لیے مخفف نام( ز۔ خ۔ ش۔) کا سہارا لیا۔اس زمانے میں تعلیمِ نسواں کا رجحان عام نہیں تھا۔والدین اپنی بچیوں کے لیے گھریلوتعلیم ہی کو کافی سمجھتے تھے۔لیکن ز خ ش کے والد نواب مزمل اللہ خاں ایک تعلیم یافتہ اور روشن خیال انسان تھے اور وہ تعلیم کی اہمیت وافادیت سے بھی واقف تھے،اسی لیے انھوں نے اپنی بچیوں کی تعلیم وتربیت میں خصوصی دل چسپی لی۔ز۔خ۔ ش

۱۔ نواب صاحب کا فارسی مجموعہ ٔ سخن ’’درجِ لولوی فصاحت‘ ‘ کے نام سے ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا۔ (ادارہ)
۲۔ یہ دیوان شاعرہ نے ترتیب ضروریا تھا مگر منظر عام پر نہیں آ سکا، کیوں کہ ایک روایت کے مطابق ان کے والد نے یہ دیوان تلف کروا دیا تھا، البتہ اس دیوان سے متعلقہ بعض غزلیں اس زمانے کے اخبارات ’’تہذیبِ نسواں‘‘ اور ’’شریف بی بی‘‘ وغیرہ میں ضرور مل جاتی ہیں۔
کے لیے فارسی کی تدریس کے لیے ایران سے ترکِ وطن کر کے آنے والی باکمال شاعرہ فرخندہ بیگم طہرانیہ کی خدمات حاصل کی گئیں،جب کہ صرف ونحو،حساب اور فقہ کی تعلیم مولوی محمد اسرائیل سے حاصل کی اورعربی کی اعلیٰ تعلیم کے لیے مولوی سید احمد ولایتی جیسے متبحر عالم کا انتخاب کیا گیا۔
انتہائی کم عمر پانے کے باوجود ز۔خ۔ش نے نظمیہ شاعری کا جو قیمتی اثاثہ اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ کسی کارنامے سے کم نہیں ہے۔ان کی وقیع شعری خدمات کو جمیل الدین عالی نے کرامت سے تعبیر کیا ہے،وہ لکھتے ہیں: ’’اس دورِ جہالت کی ماری ہوئی حیرت انگیز خاتون نے صرف ۲۸ برس کی عمر پائی اور اتنا کچھ لکھ گئی کہ یہ شاعرہ قدرت کی ایک کرامت کہی جاسکتی ہے۔(اور میں معجزہ کہتے کہتے رک گیا ہوں )سچ تو یہ ہے کہ اس کے والد نواب سرمزمل اللہ خاں شروانی (علی گڑھ کے حوالے سے ہندوستان کی بہت مشہور شخصیت)نے گھر میں ہی ان کی اعلیٰ تعلیم کاانتظام کر رکھا تھا‘‘۔
’آئینہ حرم‘ زاہدہ خاتون شروانیہ کا اولین شعری مجموعہ ہے،جو۱۹۳۱میں دارالاشاعت پنجاب، لاہور سے شائع ہوا۔یہ ان کی مختصر نظموں کا مجموعہ ہے۔ ۳۹صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں ایک حمد کے علاوہ ۹نظمیں ہیں۔ اس مجموعے کی تمام نظموں میں قوم کی اصلاح اوراس کی بہتری کا جذبہ کارفرما ہے۔مجموعے کی بیش تر نظمیں خطابیہ آہنگ لیے ہوئے ہیں۔مجموعے کاانتساب خاص طورپر پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔انتساب میں قوم وملت کے تئیں شاعرہ کی دردمندی کوبھی محسوس کیا جاسکتا ہے۔زاہدہ خاتون نے مجموعے کی نظموں کو آنسوؤں کی لڑی سے تعبیر کیا ہے۔ملاحظہ کریں:
’’یہ آنسوؤں کی لڑی،یہ دردکی تڑپ، یہ سوزش کی آہ،ہاں ایک فریادی کااسترحام،ایک ناشاد کی نوحہ گری،ایک زخمی کی چیخ،یعنی کتاب آئینہ حرم،اسلام کے اس سچے شیدائی،تعلیم نسواں کے اس زبردست حامی کے نامِ نامی سے منسوب ومعنون کی جاتی ہے جس کا فیضان تربیت اس مجموعہ پریشان خیالی کی تسوید وتنشید کا معنوی سبب ہے اور جس کی قومی محبت وراثتی اثر ونسلی خصوصیت کے طورپر خاک سار مصنفہ کی رگ وپے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔‘‘
انتساب کا ایک ایک لفظ رقت آمیز و درد انگیزہے،جسے پڑھ کر قاری کے لوحِ دل پر دردوغم کی وہی لہریں مرتسم ہوتی ہیں جس سے شاعرہ کا ربطِ خاص رہا ہے۔
’فردوس تخیل ‘زاہدہ خاتون کا دوسرا شعری مجموعہ ہے، جو ۱۹۴۱ میں دارالاشاعت لاہور سے شائع ہوا۔ اس میں انھوں نے اپنی نظموں کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ مجموعے میں ایک طویل غزل بھی شامل ہے لیکن اس میں بھی نظم کی کیفیت نمایاں ہے۔ ایک مسلسل خیال ہے جوپوری غزل میں رواں ہے۔رومانی تصور یہاں بھی عنقا ہے۔ پوری غزل میں سنجیدگی کا پہلو نمایاں ہے،اس کا لہجہ بھی غزل کے لہجے سے میل نہیں کھاتا۔چوںکہ زاہدہ خاتون کی طبیعت اوران کے مزاج میں متانت ہے جو غزل کے رومانی تصورسے میل نہیں کھاتی،ان کی تخلیقات میں اقبال کے اثرات نمایاں ہیں۔وہ اقبال کی فکر سے بہت متاثر ہیں۔اس کی وجہ یہی ہے کہ دونوں کا مقصدایک ہے۔ زاہدہ خاتون کے اشعارمیں معنی ومفہوم کی سطح پر وہی گہرائی اور گیرائی ہے جس سے اقبال کی شاعری کے دروبام روشن ہیں۔موضوع اور مفہوم کی سطح پر مماثلت اور یکسانی کی وجہ سے ان کے اشعار پر کلام اقبال کاالتباس ہوتا ہے۔
ترقی پسند تحریک کا قیام ۱۹۳۶میں عمل میں آیا،لیکن اس کی تاسیس سے برسوں قبل زاہدہ خاتون شروانیہ اپنی شاعری میں عوامی جذبات واحساسات اور ترقی پسند نظریات کی ترجمانی کررہی تھیں۔ان کی ایک طویل غز ل ہے جس میں مزدوروں اور محنت کش طبقوں کی حمایت وتائید کے ساتھ ساتھ استحصالی قوتوں اور ظالمانہ نظام کے خلاف ان کا مزاحمتی رویہ اور احتجاجی آہنگ محسوس کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس میں وہ گھن گرج نہیں ہے جس سے ترقی پسندوں کاشعری سرمایہ مملو ہے۔ایک واضح مقصدکی ترسیل اورخاص نظریے کی تشہیرکے باوجود ان کی غزل پرنعرے بازی کاالزام عاید نہیں کیا جاسکتا۔ غزل کے چند اشعار ملاحظہ کریں ؂

شاہد ِ ارض کرے کیوں یہ دعاے مزدور
بہرِ زینت ہے وہ محتاجِ بقاے مزدور

دیکھ کر حسنِ مکاں کی صفت ِعقلِ مکیں

آہ! نکلی نہ کسی لب سے ثناے مزدور

کارخانے میں جو بارود کا بم آکے پھٹا

جل گیا پیکرِ بے جرم وخطاے مزدور

غلہ ڈھونے سے پسینے میں نہائے سوبار

جب ہو اک پارۂ ناں روزہ کشاے مزدور

کلبۂ برف دسمبر میں ہے سر کے اوپر

فرشِ آتش ہے مئی میں تہِ پاے مزدور

مذکورہ اشعار میں زاہدہ خاتون کے ترقی پسند نظر یات بدرجہ اتم محسوس کیے جاسکتے ہیں۔مزدوروں کی زبوں حالی اور امرا کے استحصالی رویے سے شاعرہ کبیدہ خاطر ہے۔ حالات کی ستم ظریفی شاعرہ کے حساس دل کو ملول ضرور کرتی ہے،لیکن امیدوں اورآرزوؤں کی قندیل کو وہ اپنے دل میں بجھنے نہیں دیتی۔انھیں آنے والے کل پر امید ہی نہیں، یقین بھی ہےکہ مایوسی کے بادل چھٹیں گے اور حالات بہتر ہوں گے۔ان کا یہ ماننا ہے کہ دشوار راہوں کا سفر مشکل ضرور ہوتا ہے،لیکن عزم جوان ہو اورحوصلہ بلند ہو تو مشکلیں بھی آسان ہوجاتی ہیں۔اشعار ملاحظہ کریں ؂

سناہے ہم نے دورِ عیش وعشرت آنے والا ہے
ہوئی کافور ظلمت، اب اجالا ہی اجالا ہے

یہ دونوں لفظ و معنی کی طرح ملزوم ولازم ہیں

یہ گل،وہ شاخ،یہ جاں،وہ بدن،یہ مے، وہ پیالا ہے

نہ سمجھو دل کو تم بے غم،نہ سمجھو غم کو معمولی

ہمارا درد بے پایاں، ہمارا زخم آلا ہے

زاہدہ خاتون شروانیہ نے قطعات ورباعیات کے علاوہ غالب اور اقبال کے کلام کی تضمین بھی کی ہے۔تضمین نگاری میں بھی انھوں نے فنی حرمت کا پاس ولحاظ رکھا ہے۔ان کے اشعار حسنِ معنی اور حسنِ اظہار دونوں اعتبارسے چونکاتے ہیں۔
کلام غالب کی تضمین:

دردِ الفت یونہی تھا رگ رگ میں ساری ہائے ہائے
کیوں لگایا پھر وفا کا زخم کاری ہائے ہائے

دنیا میں ہوں زحمت کشِ دنیا کوئی دن اور
ہے طوعاً وکرہاً مجھے جینا کوئی دن اور

تھا صبرو سکوں تم کو بھی زیبا کوئی دن اور

تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور

ز۔خ۔ش۔اپنے عہد کے حالات کی خاموش ناظر نہیں رہیں۔انھو ں نے اپنی شاعری،خطوط اور مضامین میں اپنے عہد کے سیاسی حالات،سماجی محرکات اورقومی وملی انتشار کو قلم بند کیا ہے۔انھوں نے طویل اور موضوعاتی نظمیں بھی کہی ہیں۔ان کے یہاں موضوع کی سطح پر جدت اور ندرت تو نہیں ہے، لیکن ان کی تخلیقات میں ان کے جذبۂ صادق،ان کے نازک احساس اور ان کی ملی درد مندی کوضرور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ان کی نظموں میں تاریخی شواہد بھی ہیں اور جمالیاتی احساس بھی۔وہ ہمیشہ مشرقی تہذیب کے فروغ کے لیے کوشاں رہیں۔ان کے انتقال پر تعزیتی نوٹ کے تحت ’تہذیب نسواں ‘ کے ایڈیٹر مولوی ممتاز علی نے اپنے تاثرات کااظہار ان الفاظ میں کیا:’’مرحومہ کی بے وقت موت سے تہذیب نسواں کو بے حد صدمہ پہنچا ہے۔وہ اپنی صنف کے لیے درد بھرا دل رکھتی تھیں اور اس درد کو تہذیب کے ذریعے ظاہر کرتی تھیں‘‘۔
مصور ِغم علامہ راشدالخیری نے رسالہ ’عصمت ‘ میں ز۔خ ۔ش کی بے وقت موت پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ز خ ش اس پائے کی عورت تھی کہ آج مسلمانوں میں اس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔علاوہ ذاتی قابلیت، جو اُن کے مضامین میں نظم ونثر سے ظاہر ہوتی ہے،ان کا دل قومی درد سے لبریز تھا‘‘۔حکیم الامت شاعر مشرق علامہ اقبال نے نواب مزمل اللہ خان کو ز۔خ۔ ش کے انتقال پر تعزیتی خط میں ان کی شعری اور تخلیقی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ’’اگر یہ طبعی عمر کو پہنچ پاتیں تو میری ہم پلہ شاعرہ ہوتیں‘‘۔ ان کے استاد مولوی یعقوب علی جو ایک معمر بزرگ اور اعلیٰ درجے کے انشا پرداز تھے،انھوں نے زخ ش کی فنی پختگی کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’صرف سترہ برس کی عمر میں ان کے کلام میں پختگی اور فکر میں وسعت پیدا ہوچکی تھی‘‘۔
ز خ ش کوترجمہ نگاری میں بھی مہارت تھی۔اس میدان میں بھی ان کی صلاحیت کو اہلِ نظر نے نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس باب میں ان کی کدوکاوش کو استحسان کی نظرسے بھی دیکھا ہے۔آخری ایام میں انھوں نے فرانسیسی مصنف پیر لوتی (Pier Loti) کے ناول ڈیزان شانتے (Desenchantees) کے فارسی ترجمے ’پری رویان ناکام‘ کا اردو ترجمہ کیا۔
ایک عرصے تک ز خ ش ادبی دنیا میں معمہ بنی رہیں، اس لیے ایک عرصے تک ان کے فکروفن پر کسی نے توجہ نہیں دی۔لیکن جب زمانے کا ورق پلٹا،تو ان کی تخلیقی اور فنی ہنرمندیوں کا اعتراف بھی کیا گیا۔’ز خ ش کی حیات وشاعری کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ ‘ کے عنوان سے سب سے پہلے فاطمہ حسن۱؎ نے ڈاکٹر اسلم فرخی کی نگرانی میں کراچی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی۔ان کی پھوپھی زاد بہن انیسہ خاتون شروانیہ نے ’حیاتِ ز خ ش ‘ کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی،جو اعجاز پرنٹنگ پریس چھتہ بازار حیدر آباد (دکن ) سے ۱۹۴۰میں شائع ہوئی۲؎۔’اس میں ’نکتۂ راز‘ کے عنوان سے شان الحق حقی نے ایک طویل مقالہ لکھا۔۳؎ زخ ش طاق نسیاں کا ایک روشن چراغ ‘ کے عنوان سے مدیحہ خانم شروانی نے ادبی ماہنامہ’آج کل‘ دہلی، اپریل ۱۹۹۶میں ایک مضمون قلم بند کیا۔صاحبِ طرزادیب اورمعروف انشائیہ نگار خواجہ حسن نظامی کی بیگم لیلیٰ خواجہ بانو سے ز خ ش کی طویل خط کتابت رہی۔ان مکاتیب میں ز خ ش کی پسند وناپسند کے علاوہ قوم وملت کے تئیں ان کی ہم دردی،خلوص اوران کے دلی اضطراب کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔

۱۔ صاحبِ مضمون کا یہ بیان محلِ نظر ہے،جب کہ سب سے پہلے ز۔خ۔ش پر جو کتاب لکھی گئی وہ ’’حیاتِ ز۔خ۔ش‘‘ کے نام سے ان کی پھوپھی زاد بہن نے تحریر کرکے شائع کی تھی۔ نیز فاطمہ حسن کی کتاب سے بہت پہلےپنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اردو کا ایک مقالہ ساٹھ کی دہائی میں لکھا گیا اور پھر دوسرا ایک اور مقالہ نام وَر محقق و نقاداور استاد ڈاکٹر زاہد منیر عامر کی نگرانی میں تحریر ہوا۔ فاطمہ حسن کا مقالہ اُن کی قابلِ قدر تحقیقی کاوشوں کے باوجود بعض گمراہ کن اغلاط کا بھی حامل ہے۔(ادارہ)
۲۔ افسوس کہ یہاں بھی صاحبِ تحریر سے غلطی سرزد ہوئی اور اس کا سبب وہی ہے کہ انھوں نے اپنے مقالے کی بنیاد زیادہ تر فاطمہ حسن کے اندراجات پر رکھی ہے۔فاطمہ حسن نے اپنے مقالے کے آخر میں، کتابیات کے حصے میں ’’حیاتِ زخ ش‘‘ کا سالِ اشاعت ۱۹۴۰ء تحریر کیا جب کہ یہ کتاب ۱۹۴۰ء میں لکھی تو گئی مگر اس کی طباعت و اشاعت ۱۹۵۵ء میں ہوئی۔ (ادارہ)
۳۔ ’’نکتۂ راز‘‘ مقالے کا عنوان نہیں بلکہ شان الحق حقی کے تنقیدی مضامین کے مجموعے کا نام ہے، اور شان الحق حقی کا مضمون’’حیاتِ ز خ ش‘‘ میں نہیں بلکہ ’’نکتۂ راز‘‘ میں شامل ہے جو یقینی طور پر صاحبِ تحریر کی نظر سے نہیں گزرا۔ (ادارہ)
زخ ش کے سینے میں ایک دردمند دل تھا جو ملت کی بہتری کے لیے دھڑکتا تھا۔قوم کے درد پر وہ تڑپ اٹھتیں،اور اس کے ازالے کی تدبیر وں پر غورو فکر کرتی۔ ترکی میں خلافت ِعثمانیہ کے زوال سے پوری قوم ایک ذہنی اضطراب میں مبتلا تھی۔حددرجہ حساس طبیعت رکھنے والی زخ ش بھلا اس قومی اور ملی سانحے سے خود کو بھلا کیسے دور رکھتی۔ڈاکٹر فاطمہ حسن اس حوالے سے لکھتی ہیں:
’’زاہدہ خاتون خود بھی غیر معمولی سیاسی اور سماجی شعور رکھتی تھیں اور اردگرد کے حالات سے شدیدمتاثر ہوتی تھیں۔ان کی زود رنج طبیعت دنیا کے تمام انسان خصوصاً مسلمانوں کے دکھ کو اس طرح محسوس کرتی تھی کہ وہ ان کا ذاتی غم بن جاتا۔خصوصاً ترکی کے حالات نے اس وقت برصغیر کے تمام مسلمانوں کو مضطرب کیا ہوا تھا۔زاہدہ خاتون اپنے اضطراب کااظہار شاعری اور مضامین میں کرتی رہیں۔‘‘
زخ ش کا تعلق علی گڑھ سے ہے۔یہ ایک قدیم شہر ہے،اس کی تاریخ کی کڑی ابراہیم لودھی سے ملتی ہے۔ اس کے آباد ہونے کی تاریخ پر ڈاکٹر فاطمہ حسن کچھ اس طرح روشنی ڈالتی ہیں:
’’لودھی خاندان کے اعلیٰ فرمانروا ابراہیم لودھی نے عیسیٰ خاں شروانی کو آگرے کا حاکم مقرر کیااور عمر خاں کے منجھلے فرزند محمد خاں شروانی کو کول کی حکومت سپر د کی۔کول آنے پر محمد خاں نے محسوس کیا کہ شہر کا پرانا قلعہ اب اس قابل نہیں رہا کہ اس سے ایسے اہم علاقے کی حفاظت ہوسکے اور اس کے چاروں اطرف آبادی کے پھیل جانے کی وجہ سے استحکام کی بجائے انتشار پیدا ہوگیا ہے۔چناںچہ اس نے ۱۵۵۴ میں ایک بڑا اور مستحکم قلعہ شہر سے دو میل شمال کی طرف تعمیر کیا اور اس کانام محمد گڑھ رکھا۔یہی وہ علاقہ ہے جس کا نام مغلوں کے آخری عہد میں ثابت خاں نے ثابت گڑھ رکھا اور جس کی وجہ سے صرف شہر کول بلکہ پورا نوا ح علی گڑھ کہلایا۔‘‘
ہندوستان میں شروانی خاندان کاشمار ہمیشہ سے معزز اور باوقار خاندان میں ہوتا رہا ہے،چوںکہ منصب اور امارت کے ساتھ ساتھ علم وادب میں بھی اس خاندان کے افراد پیش پیش رہے ہیں۔مولوی حبیب الرحمن خاں نواب صدر یار جنگ کا تعلق اسی شروانی خاندان سے ہے۔ ان کی علمیت ولیاقت سے بیش تر لوگ واقف ہیں۔ انھوں نے متعدد کتابیں تصنیف وتالیف کیں،وہ ’الندوہ ‘ کے مدیر بھی رہے۔نظام دکن نے ان کی ملی خدمات،علمی استعداد اور انتظامی صلاحیتوں کے اعتراف میں انھیں ۱۹۱۸میں صدرالصدور کے عہدے پر فائز کیا اور ۱۹۲۲ میں نواب صدر یار جنگ کے خطاب سے سرفراز کیا۔ حبیب الرحمن خاں شروانی کو جامعہ عثمانیہ حیدرآباد کے اولین وائس چانسلر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ انھیں مولانا ابوالکلام آزاد کی قربت بھی حاصل رہی، ایام اسیری کے دوران مولانا آزاد نے ان کو جو خطوط لکھے،وہ ’غبار خاطر ‘ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں اور وہ اردو میں ادب العالیہ کا درجہ رکھتے ہیں۔
زخ ش کے والد نواب مزمل اللہ خاں کا شمار بھی شروانی خاندان کے سرکردہ افراد میں ہوتا ہے۔نواب مزمل اللہ خاں ذاتی حوالے سے بھی معروف اور ممتاز شخصیت کے مالک تھے۔۱۸۲۰ میں بھیکم پور علی گڑھ میں پیدا ہوئے۔ سرسید کاقائم کردہ ادارہ’ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج میں عربی،فارسی اور انگریزی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔سرسید سے قربت کی وجہ سے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی میں حصہ لیااور ۱۸۸۶ میں ایم اے او کالج کے ٹرسٹی منتخب ہوئے۔ ۱۹۱۰ سے ۱۹۱۳ تک کالج کے سکریٹری کے طورپر خدمات انجام دیں،جب کہ ۱۹۱۸ میں آپ کو بورڈ آف ٹرسٹیز کا نائب صدر مقرر کیا گیا۔۱۹۰۴ میں انھیں ’خان بہادر‘ ۱۹۱۰ میں ’نواب ‘اور پھر ’سر ‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔زندگی بھر قومی اور ملی خدمات انجام دینے کے بعد ۲۸ستمبر ۱۹۳۸کو اپنی جان،جان آفریں کے سپر کردی۔
ز خ ش کی والدہ حجازی بیگم کا تعلق بھی ایک صاحبِ ثروت اور متمول خاندان سے تھا۔وہ علی گڑھ کے مضافات میں واقع بوڑھ گاؤں کے رئیس حاجی کریم اللہ کی صاحب زادی اور عنایت اللہ خاں کی نواسی تھیں۔محمد عنایت اللہ خاں رشتے میں مزمل اللہ خاں کے حقیقی چچا بھی تھے۔حجازی بیگم ان کی عم زاد بہن تھیں۔محمد عنایت اللہ خاں خود بھی علم دوست انسان تھے اور سرسید کے قریبی حلقۂ احباب میں تھے اور ان کی اعانت میں پیش پیش رہتے۔یونیورسٹی میں ان کی بہت سی یاد گاریں ہیں۔پکی بیرک کے کئی کمروں کے علاوہ اسٹریچی ہال میں ان کے نام کی تختی نصب ہے۔ کالج میں ایک بڑا کنواں اور ایک فوارہ ان کی یاد گار ہے۔

Related posts

Leave a Comment