مظفر حنفی ۔۔۔مولا خشک آنکھیں تر کر دے

مولا خشک آنکھیں تر کر دے

جھولی جھولی موتی بھر دے

شہپر دے بازو کٹنے پر

اونچا رہنے والا سر دے

انکھوے پھر سے پھوٹ رہے ہیں

زخمی ڈالی کو خنجر دے

آگ زنوں کے دل کو پانی

ہم بے گھر لوگوں کو گھر دے

خوشبو لٹ جاتی ہے ساری

رنگ نہیں ہم کو پتھر دے

مر جائیں گے بے تیشہ بھی

تیشہ دے تو دستِ ہنر دے

تتلی مانگ رہی ہے خوشبو

پھول دعا کرتے ہیں پردے

Related posts

Leave a Comment