اب درد و غم سے عرصہ مرے جی پہ تنگ تھا
آیا شبِ فراق تھی یا روزِ جنگ تھا
کثرت میں درد و غم کی نہ نکلی کوئی تپش
کوچہ جگر کے زخم کا شاید کہ تنگ تھا
لایا مرے مزار پہ اس کو یہ جذبِ عشق
جس بے وفا کو نام سے بھی میرے ننگ تھا
دل سے مرے لگا نہ ترا دل ہزار حیف
یہ شیشہ ایک عمر سے مشتاقِ سنگ تھا
مت کر عجب جو میرؔ ترے غم میں مرگیا
جینے کا اس مریض کے کوئی بھی ڈھنگ تھا
Related posts
-
محسن اسرار ۔۔۔ گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا
گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا یہ کوئی وقت ہے تیرے کمال کرنے کا برا... -
احمد فراز ۔۔۔ زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے تو محبت سے... -
فانی بدایونی ۔۔۔ آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ دردِ دل...