میر تقی میر ۔۔۔ سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اُس نخچیر کا

 

سیر کے قابل ہے دل صد پارہ اُس نخچیر کا
جس کے ہر ٹکڑے میں ہو پیوست پیکاں تِیر کا

سب کھلا باغِ جہاں اِلّا یہ حیران و خفا
جس کو دل سمجھے تھے ہم سو غنچہ تھا تصویر کا

بوئے خوں سے جی رکا جاتا ہے اے بادِ بہار
ہوگیا ہے چاک دل شاید کسو دل گیر کا

رہ گزر سیلِ حوادث کا ہے بے بنیاد دہر
اس خرابے میں نہ کرنا قصد تم تعمیر کا

بس طبیب اٹھ جا مری بالیں سے مت دے دردِ سر
کامِ جاں آخر ہوا اب فائدہ تدبیر کا

جو ترے کوچے میں آیا پھر وہیں گاڑا اُسے
تشنۂ خوں میں تو ہوں اس خاکِ دامن گیر کا

لختِ دل سے جوں چھڑی پھولوں کی گوندھی ہے ولے
فائدہ کچھ اے جگر اس آہِ بے تاثیر کا

کس طرح سے مانیے یارو کہ یہ عاشق نہیں
رنگ اُڑا جاتا ہے ٹک چہرہ تو دیکھو میرؔ کا

Related posts

Leave a Comment