نسیمِ سحر ۔۔۔ اَے سبھوں کے خُدا، مِری سُن تو !

اَے سبھوں کے خُدا، مِری سُن تو !
شک میں ڈوبا مِرا تیقُّن تو؟

ایک دُنیا نئی بنے شاید !
مَیں نے بھی کہہ دیا اگر ’کُن‘ تو؟

اپنے شعروں میں سانس لیتا ہوں
لگ گیا اِس ہنر کو جب گھُن تو؟

ٹھوکریں مار مت زمین پہ یوں
تیرا بگڑا کہیں توازُن تو؟

ماننا بعد کی ہے بات، مگر
کہہ رہا ہوں جو، غور سے سُن تو !

بے حِسی مجھ پہ حملہ آور ہے
جِسم میرا جو ہو گیا سُن تو ؟

جھانک کر دیکھ میرے دِل میں کبھی
گا رہا ہوں ابھی تِرے گُن تو

مَیں سہولت سے مر بھی سکتا ہوں
دوست کرتے رہے تعاوُن تو

اپنی کوئی خبر نہیں دیتا!
لے رہا ہے وہ میری سُن گُن تو

شاید اُن میں کوئی صَدف بھی ہو
سیپیاں ساحلوں سے کچھ چُن تو !

یہی ماحول گر رہے گا نسیمؔ
پھیلتا جائے گا تعفُّن تو!

Related posts

Leave a Comment