اعجاز حسین فاخر ۔۔۔ جان دینی تھی مگر جان نہیں دے پایا

جان دینی تھی مگر جان نہیں دے پایا
اپنے ہونے کا میں تاوان نہیں دے پایا

ترے عشاق میں گمنام اگر ہوں تو سبب
دل تجھے میں علی الاعلان نہیں دے پایا

خون سے اپنے رقم کی ہے جو دیواروں پر
اس کہانی کو میں عنوان نہیں دے پایا

وقت بزدل  نے مری پیٹھ میں خنجر گھونپا
موت مجھ کو مرے شایان نہیں دے پایا

خود کو بھی لے کے نکلنا تھا مجھے گھر سے مگر
اتنی مہلت تھی کہ میں دھیان نہیں دے پایا

جس محبت سے اسے خلق کیا تھا رب نے
وہ محبت اُسے انسان نہیں دے پایا

اس کی جھولی میں کئی میں نے مواقع ڈالے
پھر بھی دشمن مجھے نقصان نہیں دے پایا

جتنی ہنگامۂ دنیا سے ملی ہے فاخر
اتنی وحشت مجھے زندان نہیں دے پایا

Related posts

Leave a Comment