افضل خان ۔۔۔ المیہ

المیہ
۔۔۔۔۔۔

تم کو روکا نہ تھا؟
ایک مدت سے دیمک زدہ لکڑیوں کو نہ ایندھن فراہم کرو
نم سے عاری یہ خاروں بھری لکڑیاں دیکھ سکتی نہیں، سن بھی سکتی نہیں
یہ نہیں جانتیں کس طرف دشت ہے کس طرف بستیاں
ان کی آنکھیں نہیں
یہ اگر جل اٹھیں، شانہ ِ باد پر ہاتھ رکھ کر سفر کرنے لگ جائیں گی
کان ان کے نہیں
تم انھیں یہ بھی سمجھا نہیں پاؤ گے یہ مرا آشیاں ہے اسے چھوڑ کر تھوڑا آگے بڑھو
معذرت؛ معذرت؛
اب مرے پاس کس واسطے آۓ ہو؟
میرا گھر اس گلی کے دہانے پہ تھا، راکھ ہو بھی چکا
میں جو چاہوں بھی تو کچھ تمھاری مدد کر نہیں پاؤں گا
ایک چُلُو بھی پانی میسر نہیں
آنکھ بھی خشک ہے
اور پھونکوں سے یہ آگ بجھنی نہیں

Related posts

Leave a Comment