توقیر عباس… نظم

عکس اور تحریریں ذہنوں میں جگہ بناتے ہیں
وبا کے بعد ان کا بھرپور تجربہ ہوا
چھینکتے پہلے بھی تھے
کوئی ہم کو یاد کرتا ہے ، یہ تصور ابھرتا تھا
مگر اب چھینک کی آواز خطرے کے الارم کی طرح لگتی ہے
کھانستے پہلے بھی
گلے کی خراش یا گھی کی پھانس سمجھتے تھے
چائے پیتے گڑ کھاتے اور مزے اڑاتے تھے
مگر اب کھانسی کی آواز
ایمبولینس کے بلاوے کا نمبر ڈائل کرتی محسوس ہوتی ہے
بخار پہلے بھی ہوا کرتا تھا
رضائی اور لحاف میں قرنطینہ کرتے ، پسینہ بہاتے شام کو تازہ دم ہوتے تھے
مگر اب یہ تپش ذہن میں سیاہ سائے ابھارتی اور اندھیرے گھولتی گزرتی ہے
خطرے اور بیماری کے فاصلے مٹتے دکھائی دیتے ہیں
نزلہ زکام پہلے بھی ہوتا تھا
گھر میں بنفشے کا شربت پکتا
بھینس کے خالص گرم دودھ میں ملا کر پیتے
لحاف اوڑھ کر سو جاتے
مگر اب نزلہ زکام ناسور سے رستا پانی بن گیا ہے

الہی ! دور کیسا آ گیا ہے
کھانستے ہیں تو کھانستے چلے جاتے ہیں
نبض و رمز شناس حکما قبروں میں پڑے اپنے نسخوں کو دل میں چھپائے جہنم سجائے خوش پڑے ہیں ۔

مشینیں ہمارے جذبے نہیں پڑھتی ہیں
ہمارے گھٹتے بڑھتے کیمیکل اور مادوں کی پیمائش کرتی ہیں

ہم معصوم لوگ احتیاطوں سے نا آ شنا
زمانے کے چلن سے اجنبی
فقط قبروں میں اترنے کے منتظر ہیں
ہمارے نام کے کتبے پر پیدائش و وفات کے سانحے کے علاوہ کوئی کام کارنامہ رقم نہیں ہونا۔

Related posts

Leave a Comment