خاور اعجاز ۔۔۔ وقت آگیا ہے

زمانے!
مِرے لفظ جگنو بنیں
اور گلِ گفتگو جب کھِلے
اُس پہ تتلی جھُکے
میرے ہونٹوں پہ خوشبو رہے
میرے آنسو ستاروں کی مانند چمکیں
مِرے دِل کے دریا کنارے
پرندے نہائیں
تِرے گیت گائیں
گلابی اُفق پر
گذرتی ہُوئی شام
ہلکے سلیٹی لبادے میں ملبوس
بادل کے ہمراہ
پکنک پہ نِکلی ہُوئی ہے
سمندر کنارے پہ
اِک سرخ چھتری تلے
زِندگی نیم عریاں پڑی ہے
خمیدہ کمر والے بوڑھے کی
برفاب آنکھوں میں
جلتی ہُوئی آگ
چھتری کے نیچے پڑی لاش کو
اپنی خواہش کے تابوت میں رکھ رہی ہے
حیات آشنا موت کو چکھ رہی ہے
پرندوں کے گیلے پروں میں
ہوس چیونٹیاں رینگنے لگ گئی ہیں
نگاہوں میں جلتے ستارے بجھے جا رہے ہیں
مِرے ہونٹ خوشبو سے خالی ہُوئے جا رہے ہیں
گلِ گفتگو جیسے مرجھا گیا ہے
مِرے باغِ ہستی سے جانے کا وقت آ گیا ہے !

Related posts

Leave a Comment