درخت ۔۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم

ابھی ابھی برف کی چڑیلیں
ہری ہری مسکراہٹوں کو
شگفتہ چہرے سے نوچ لیں گی
ابھی ابھی باولے دنوں کی
سیہ لٹکتی ہوئی زبانیں
صرر صرر چاٹنے لگیں گی ترے بدن کو
خزاں کا سفاک لکڑ ہارا
ابھی ترا انگ انگ کاٹے گا، پھانسیاں سی
تجھے بلندی سے پستیوں میں کڑک کڑک
کھینچنے لگیں گی
مگر معطر لہو برستا ہے جب فضا سے
خنک خنک آگ جاگ اٹھتی ہے جب رگوں میں
تو ایسے موسم میں تیرے زخموں سے پھوٹ آئیں گی
عہدنامے کی آیتیں سی
تو مسکرا کر محبتوں کی گواہی دے گا
(کرن کا بے انت روشنی سے اٹوٹ رشتہ)
زمیں کے پرچم! تجھے نگوں کون کر سکا ہے
کھڑے کھڑے مر بھی جائے گا تو
مگر وہیں پر
جہاں کی مٹی سے تیرا ناتہ بندھا رہے گا
لگا ہوا اپنے آستاں سے
ملا رہا ہے یہاں کی پستی کو آسماں سے
مجھے بھی یہ شوکتیں عطا کر
مجھے بھی اپنا سا عزم دے دے
مجھے بھی آزادیوں کا، سر کو اٹھائے رکھنے کا
بھید سمجھا
یہاں میں نیچی چھتوں کو اوڑھے
چہار دیواریوں کا بُکل بدن پہ مارے ہوئے
کھڑا ہوں
دروں پہ بے اعتمادیوں کی، شکوک کی کنڈیاں لگی ہیں
ثقالتوں میں گڑا ہوں ہوں
(یہی بہت ہے
تری بلندی سے دیکھ لیتا ہوں آسماں کو)
مرے اندھیرے کی جھیل میں روشنی کی شبنم
ٹپکتی رہتی ہے کھڑکیوں سے
میں اپنے روزن سے تک رہا ہوں
کھلی فضا میں ترے لچکتے دراز بازو
اٹھے ہوئے ہیں
تو اپنی نمناک انگلیوں سے
فلک کے رخ پر
چمکتے چھینٹے اُڑا رہا ہے
یہ شب کی بھیگی ہوئی سی خوشبو
مرے مساموں سے کیوں نکلتی نہیں
کہ میں بھی
ہوا کو بھر دوں لطافتوں سے
وجود میرا
گیاہ زاروں کے بیچ میں جیسے کوئی سمٹا ہُوا  ہو صحرا
میں اپنے ہیجان کا جزیرہ ہوں
جس میں بدمست پیل پیکر سوال
چنگاڑتے ہیں

بے اطمینانیوں کی بلائیں، اندھی انائیں ہر سُو
’’نہیں نہیں‘‘  کی کٹار چیخوں پہ ناچتی ہیں
تجھے وفا کے، عبادتوں کے صلے میں شاید
سدا کا نروان مل گیا ہے
ازل کی پاکیزگی کا لمحہ
مرے تنفس میں گھو لتا ہے
تِری محبت کے گرم معنی
تو میں اندھیرے کا، چمنیوں کے دھوئیں کا پردہ
اٹھا کے اُس سمت دیکھتا ہوں
جہاں مجھے بے لباس دیکھا تھا تیری چھاؤں نے
مجھ پہ جھک کر
میں اک بگولا تھا سرکشی کا
جسے جُھلاتے رہے ہواؤں میں تیرے بازو
مجھے وہ لمحہ بھی یاد ہے جب مری رضا نے
مرے لیے وقت کی زمانے کی سر پرستی
قبول کر لی
میں تجھ سے بچھڑا تو پھر نہ لوٹا
جنم جنم کی رفاقتوں کو بُھلا چکا ہوں
عجیب معصومیت کے دن تھے
میں تیری اُس رقص کرتی چھاؤں میں
دھوپ کی تتلیاں پکڑتا تھا
اور تُو تالیاں بجا کر، مجھے اُٹھا کر
اُچھالتا تھا
مرے تصور کا سبز پیکر
ہوا کی گت پر چھڑا ہوا گیت طائروں کا
کبھی اندھیرے میں شاہزادہ دکھائی دیتا تھا
تو طلسمات کی زمیں کا
میں دیکھتا ہوں
کہ بلڈنگوں کے مہیب عضریت
تیرے سر پہ جھکے ہوئے ہیں
تو سنگ سڑکوں کی، تنگ رستوں کی
بیڑیاں ڈال کر کھڑا ہے
تُو اُگ رہا ہے مری ہوس کی
سیاہ مٹی میں
میرے لا انتہا خلا میں
کھڑا ہے تُو وقت کی عدالت میں
دے گواہی
یہ رُوپ …….میرا ……. مرا نہیں ہے
مجھے مری ذات کے سفر میں
مرے ارادوں نے،حادثوں نے
فنا کیا ہے
لٹک رہا ہوں صلیب پر
اور اپنا منکر ہوں ……جانتا ہوں
یہاں میں بن باس میں ہوں
یہ بے درخت دنیا مری نہیں ہے
کبھی کسی سچ کا اسم اعظم
مجھے رہائی دلائے اُس سے
جو میں نہیں ہوں
کبھی کسی راستے کا پربت
وجود کی گھاٹیوں سے مجھ کو
فراز کے دوش پر اُٹھالے
کبھی تری مامتا سی چھاؤں
کڑی اذّیت کی دوپہر سے مجھے بچا لے
تری پناہوں میں اتنا سوؤں
کہ اپنی تاریخ بھول جاؤں
میں تیری پہچان بن کے جاگوں

Related posts

Leave a Comment