جعفر طاہر

کبھی آسماں، کبھی آستاں، کبھی بام و در پہ نظر کرو
غمِ عشق تو غمِ عشق ہے، یونہی مر کے عمر بسر کرو

یہ شبِ الم سپہ ستم حشم بلا یہ ہجومِ غم
کبھی سوزِ دل سے بھی کام لو، کوئی دم تو رقصِ شرر کرو

اُٹھو شب زدوں کو خبر کرو کہ نئی سحر کا سلام لیں
وہ نئی سحر کا سلام لیں، اُٹھو شب زدوں کو خبر کرو

زہے دستہ دستہ یہ داغِ دل ، زہے غنچہ غنچہ چراغِ دل
ہے کھلا ہوا درِ باغِ دل کبھی اک نظر جو ادھر کرو

کسے دادخواہی کا حوصلہ، کسے کم نگاہی کا ہے گلہ
وہ نقاب اٹھا کے جو دے صدا تو نگاہ بھی نہ ادھر کرو

یہ جہاں تو خواب ہی خواب ہے، یہ فریب ہے یہ سراب ہے
وہ شراب کوئی شراب ہے جو پیو تو ہونٹ نہ تر کرو

جو نگاہ پھیر لے حکمراں تو اُڑے گی خاک جہاں جہاں
کبھی تختِ دل پہ قدم رکھو، سوئے سلطنت بھی نظر کرو

مری پستیوں کو پکارتی جو رہی ہیں تیری بلندیاں
میں فرازِ دار تک آ گیا، سرِ بام تم بھی گزر کرو

کوئی بات زلفِ دراز کی ، خمِ ابرواں رخِ ناز کی
کوئِ ذکرِ دار و رسن کرو، کوئی وصفِ تیغ و سپر کرو

کوئی پیچ و خم ہیں نہ فاصلے، کوئی منزلیں ہیں نہ مرحلے
جو اُتر کے بامِ جمال سے تا کنارِ شوق سفر کرو

غمِ عشق عیشِ حیات ہے کوئی لاکھ اس کو برا کہے
یہی عیب کام کی چیز ہے اسی عیب کو جو ہنر کرو

Related posts

Leave a Comment