اے ربِ تقدس
تری تقدیس کے مارے
سجدے میں رگڑتے ہیں جبینوں کے ستارے
سیارہِ تقدیر سفر کھینچ رہا ہے
لا وقت تدبر سے اثر کھینچ رہا ہے
کس حال میں ہم عقدہ کشاں دیکھ رہے ہیں
تجھ بھید کا کھلنا بھی تو ہے کھلنا ہمارا
اے سرِ زماں
لفظ کی توقیر کے صدقے
تاثیر بس اک نکتہء ملفوف سے نکلے
اور طُور کے اس پار تجلی کی نمو ہو
Related posts
-
اکرم سحر فارانی ۔۔۔ چھ ستمبر
ظُلمت کے جزیرے سے اَندھیروں کے رسالے آئے تھے دبے پاؤں اِرادوں کو سنبھالے دُشمن کے... -
حامد یزدانی ۔۔۔ سوالیہ اندیشے
سوالیہ اندیشے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خزاں کی نئی اداسی کا رنگ کتنے برس پرانا ہے؟ زندگی مسکرا... -
خاور اعجاز ۔۔۔ امکان (نثری نظم) ۔۔۔ ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)
امکان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو پیدا ہونے والی تاریکی روشنی کا مطالبہ کرتے ہُوئے گھبرا جاتی ہے...