ڈاکٹر خورشید رضوی ۔۔۔ اسیری

اسیری

۔۔۔۔۔۔۔

بلندیوں کی مہیب و خاموش وسعتوں میں
کبھی کبھی بادلوں کے روزن سے دیکھتا ہوں
ہرے بھرے پیڑ
ہم صفیروں کی خوش دلی
ندّیوں کا چھل بل

مگر اب ان میں کشش نہیں ہے
زمین کے سِحر کی حدیں ختم ہو چکی ہیں
مری اسیری
عجب اسیری ہے
میں فقط اپنے بال و پر کا اسیر ہوں
اور مرا قفس
میری اپنی پرواز کی حدیں ہیں

Related posts

Leave a Comment