یوسف خالد ۔۔۔ پانی کا ریلا

پانی کا ریلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہاڑوں سے اترتا تند رو پانی کا ریلا
کس قدر منہ زور ہوتا ہے
کسی صورت کوئی بھی اس کا رستہ روکنا چاہے
تو ٹکراتا ہے غراتا ہے
اپنی موج میں بہتا چلا جاتا ہے
کچھ پروا نہیں کرتا
چٹانیں توڑتا ہے پتھروں کو ریزہ ریزہ کرتا جاتا ہے
کبھی غصے میں بل کھاتا ہے
سر اوپر اٹھاتا ہے
عجب انداز سے سارے مناظر دیکھتا ہے
راستے ہموار کرتا ہے
جنوں کی داستاں تحریر کرتا بڑھتا جاتا ہے
پہاڑوں کی بلندی سے اتر کر
وادیوں میں ایک شانِ دلربائی سے اترتا ہے
تو ہر سو سبزہ و گل کا تبسم پھیل جاتا ہے
ہوائیں گیت گاتی ہیں
تلاطم خیزیاں گہرائیوں سے آشنا ہو کر
نیا منظر بناتی ہیں
جنوں آمیز لہریں وسعتوں کو اوڑھتی ہیں
پھیل جاتی ہیں
زمیں کے خشک ہونٹوں پر جمی پپڑی اترتی ہے
زمیں کی پیاس بجھتی ہے
محبت سرخرو ہوتی ہے
اتراتی ہے
خوشبو میں بسے احساس کو ملبوس کرتی ہے
محبت بہتا دریا ہے
جنوں پرور بھی ہے،منہ زور بھی
گہرائیوں اور وسعتوں سے آشنا بھی ہے
یہی دریا
ہماری ذات کی بنجر زمیں سیراب کرتا ہے
ہمیں شاداب کرتا ہے

Related posts

Leave a Comment