مامون ایمن ۔۔۔ تعارفِ مامون ایمن بہ قلم خود (رباعیات)

تعارفِ مامون ایمن بہ قلم خود
(رباعیات)

خود دیس کی ہا و ہُو سے بچھڑا ہوں میں
پردیس کی ہا و ہُو میں تنہا ہوں میں
مامون نے ایمن سے کہا ہے ہر پَل
ہر سانس پہ اک کرب کا چرچا ہوں میں
۔۔
یہ کرب، مری ذات کا سودا بھی ہے
سودا ہے کہ شیشہ ہے، جو بکھرا بھی ہے
آئینہ نے پوچھا ہے یہ ہنس کر اکثر
’’ تُو خود کو کسی حال میں سمجھا بھی ہے؟‘‘
۔۔۔
مَیں خود کو سمجھ لیتا، تو اچھا ہوتا
منزل کے جِلو میں نہ بھٹکتا ہوتا
ہم زاد بھی کرتا نہیں اِفشا یہ راز
ایسا نہیں ہوتا تو مَیں کیسا ہوتا
۔۔۔
ایسا بھی ہوں، ویسا بھی ہوں، تنہائی میں
اک خواب کی تعبیر ہوں، گہرائی میں
تخلیق کی دُنیا میں ہوں سِدرہ آسا
سَر رشک ہوں، پاتال کی پہنائی میں
۔۔۔۔
پاتال، کبھی سطح نے چوما مجھ کو
اَحباب نے اَغیار میں ڈھونڈا مجھ کو
تحسین مجھے نثر نے بخشی، ایمن!
تزئین سے شعروں نے نکھارا مجھ کو

Related posts

Leave a Comment