احمد سہیل ۔۔۔ ن م راشد: اردو شاعری کو نیا لہجہ دینے والا باغی اور مزاحمتی شاعر

ن م راشد: اردو شاعری کو نیا لہجہ دینے والا باغی اور مزاحمتی شاعر


ن م راشد یکم اگست 1910 کو گوجرانوالہ کے قصبے علی پور چٹھا/ کوٹ بگہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام راجا نذر محمد تھا۔ اردو ادب کی جدید تاریخ ن م راشد کے ذکر کے بغیر نا مکمل ہے۔ وہ جدید شاعری میں آزاد نظم کے بانی، علامت نگاری کی تحریک اور نفی دانش کے اولین مشعل بردار ہیں۔
اسکول کے زمانے ہی سے راشد نے شعر گوئی شروع کر دی تھی اور بمشکل سات (7) برس کی عمر میں انھوں نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان اگر میں غلط نہیں ہوں تو (انسپکٹر اور مکھیاں) تھا ۔ اوائلِ زمانہ میں انھوں نے اپنا تخلص گلاب رکھا اور ایک نظم لکھی جس پر ان کے والد نے ایک روپیہ انعام دیا تھا۔ ان کے دادا ڈاکٹر غلام رسول غلامی اردو اور فارسی کے شاعر تھے۔ یہ نظم والد نے انھیں بھجوائی اور لکھا کہ آپ کا پوتا آپ کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دادا نے اس پر ایک شعر لکھ کر بھیجا:

میرے میاں گلاب دہن میں گلاب ہو
خوش بو سے تیری بابا ترا فیض یاب ہو

ساتھ ہی انہوں نے نصیحت کی کہ شاعر بننے کی کوشش نہ کرنا، کسی کام کے نہ رہو گے۔ وہ پوتے کو شعر گوئی سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔
اس نصیحت کے باوجود ن م راشد نے شعر گوئی ترک نہ کی۔ پہلی نظم کے بعد انھوں نے حمد، نعت اور غزلیں کہیں۔ ان میں سے بعض گم نام رسالوں میں چھپتی رہیں۔ وہ یہ شاعری اپنے قلمی نام نذر محمد خضر عمر سے کرتے تھے۔ کچھ عرصے تک راشد وحیدی کے نام سے بھی مضامین اور نظمیں لکھیں۔ اک آدھ غزل خاطف جبلپوری کے نام سے بھی شائع ہوئی۔
ابتدا میں وہ علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک سے بہت متاثر رہے اور وردی پہن کر اور بیلچہ ہاتھ میں لیے مارچ کیا کرتے تھے۔اور خاکسار کے جلسے جلسوں میں بڑ چڑ کا حصہ لیتے تھَے۔
اسی دوران جدید دور کے ہولناک حالات اور نئے مغربی علوم راشد کے ادراک کا حصہ بن رہے تھے جنہوں نے فرد کے داخلی اور مبہم امکانات کو بھی قابلِ توجہ بنادیا تھا۔ چنانچہ ان کی شاعری میں نئے مضامین اور نئی ہیئت کا در آنا ایک فطری عمل تھا اور وقت کی ضرورت بھی جسے راشد نے قبول کر لیا۔
1939 میں راشد آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ ہو گئے اور کچھ عرصے بعد انہیں پروگرام ڈائریکٹر بنا دیا گیا اور تقسیم کے بعد ریڈیو پاکستان میں وہ ریجنل ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کرتے رہے- بعدازاں انہیں پاکستان کی طرف سے اقوامِ متحدّہ کے صدر دفتر نیویارک میں بھی خدمات انجام دینے کا موقع ملا- ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے انگلستان میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔
ن م راشد نے غزل کے روایتی پیرافرنیلیا کو چھوڑ کر غیر روایتی مضامین کو غیر روایتی ہیت میں ڈھالنے کے شعری تجربے کی ابتدا کی۔ ان کے کلام کے چار مجموعے ماورا (1942) ایران میں اجنبی (1955) لا= انسان (1959) اور گمان کا ممکن (1977) شائع ہوئے۔ ان کی شاعری کو سمجھنے کے لیے تخلیق کار کے مزاج سے آشنائی ضروری ہے کیونکہ موضوعات، ہیئت اور اسلوب ، اساطیر کی تاریخ کاری کے انتخابات میں شاعر کا بنیادی مزاج کار فرما ہوتا ہے۔
راشدؔ کی شاعری کی تفہیم کے لیے بھی ان کی شخصیت اور عہد سے متشکل ہونے والے ان کے فطین اور خلقی ذہن کی تفہیم اور آگہی ضروری ہے۔ راشد بلاشبہ اپنے عہد کے بڑے اور منفرد شاعر ہیں اور وہ اردو کی روایتی شاعری اور بنے بنائے فرسودہ سانچوں اور لسانی و فکری ساخت سے مطمئن نہیں ہیں۔
"ن م راشد نہ صرف شاعر، بلکہ ایک مفکر، مترجم اور ناقد بھی تھے۔ ان کی اپنی کتابوں کے لیے لکھے گئے ان کے دیباچے ان کی ناقدانہ سوچ کا اظہار کرتے ہیں۔ جدید فارسی شاعری اور جدید ایرانی شعراء پر ان کی کتاب ”جدید فارسی شاعری“ نہ صرف اس انقلاب کی عکاس ہے جس سے بیسویں صدی میں فارسی شاعری گزری، بلکہ ان کے بحیثیتِ ناقد ہنر کا ثبوت بھی ہے۔ انہوں نے نہ صرف پاکستانی ادب اور نفسیات کے ایران سے ربط پر روشنی ڈالی بلکہ جدید ایرانی فارسی شاعری کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ ان کی اپنی شاعری بھی فارسی شاعری سے متاثر نظر آتی ہے۔ ن م راشد کی نظموں میں فارسی تراکیب فارسی زبان سے اردو میں اس طرح منتقل کی گئی ہیں کہ وہ اردو کا ہی حصہ لگتی ہیں، جیسا کہ یزداں و اہرمن، سرزمینِ انجم، جلوہ گہ راز، فردوسِ گم گشتہ، ملائے رومی، مجذوبِ شیراز وغیرہ۔
فارسی سے متاثر ہونے کی یہی خصوصیت غالب اور اقبال کی شاعری میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ البتہ ن م راشد نے بحیثیتِ شاعر اردو میں غزل کی روایت سے بغاوت کی اور اردو شاعری میں ایک طرح سے نثری نظم کی بنیاد رکھی۔ ابتدا میں ان کی شاعری کئی انگریزی شاعروں سے متاثر تھی اور انہوں نے اردو میں سانیٹ بھی لکھے۔
راشد کے بعد کے مجموعہء کلام میں ان کے نظریات کافی پختہ دکھائی دیے۔ ان کی شاعری روایتوں میں جکڑی تعلیم یافتہ مسلمان نسل کی عالمی تناظر میں ذہنی صورتِ حال کی عکاس تھی۔ ان کا مخاطب بھی یہی بدلتی ثقافتوں میں حیران کھڑا تعلیم یافتہ شخص ہی ہے۔ ان کی شاعری میں جذبات بھی نظریات کے سائے میں میچور دکھائی دیتے ہیں۔ وہ نرم نہیں بلکہ کھردرے جذبات کے شاعر ہیں۔ ان کی شعری دنیا میں حیرت زدہ سراسیمہ کرداروں کا ہجوم ہے، آدم ہے، خدا ہے، فرشتے ہیں، اور حسن کوزہ گر ہے۔”خواب فروش، خواب گیر، ن م راشد ۔ از۔ سید مہدی بخاری 06 ستمبر ۔ ڈان نیوز،گناہ اور محبت میں پہلی بار راشدؔ کے ہاں محبت کے جسمانی پہلو کا تذکرہ ملتا ہے، اگرچہ اس نظم میں انھوں نے جسمانی ضروریات کو گناہ قرار دیا ہے۔


گناہ کے تند و تیز شعلوں سے روح میری پُھنک رہی تھی
ہوس کی سنسان وادیوں میں مری جوانی بھٹک رہی تھی
مری جوانی کے دن گزرتے تھے وحشت آلودہ عشرتوں میں


راشدؔنے موضوعاتی سطح پر جہاں اپنی انفرادیت قائم کی وہیں انہوں نے اپنے ہم عصروں میں لفظیات ،اسلوب،اور ہئیت کے معاملے میں بھی الگ راہ اختیار کی۔وہ اگر چہ میرا جیؔ کے ہم عصروں میں تھے اور میرا جی نے ؔ اپنے ہمعصروں پر گہری چھاپ چھوڑی تھی مگر راشد ؔ لفظیات کے معاملے میں میراجیؔ سے بہت مختلف تھے۔میراجیؔ کی شاعری میں جہاں ہندی الفاظ اور ہندو دیو مالا و اساطیری فضا ملتی ہے وہیں راشدؔ کے یہاں عربی و عجمی روایات کی پاسداری ہے۔نیز راشدؔ کی لفظیات اقبال ؔ کی لفظیات سے متاثر ہے۔اپنی نظموں کو انہوں نے الفاظ کے رکھ رکھاؤ ،نزاکت اور فنی تجربوں سے فنی شاہکار بنا دیا۔ وہ اسلوب، ہیئت اور فکری سطح پر مختلف نظر آتے ہیں۔
راشد اور میرا جی نے جو نظمیں لکھیں وہ ایک طرف تو ردیف و قافیہ کی جکڑبندیوں سے ماورا ہیں، تو دوسری جانب ان کے موضوعات بھی زیادہ تر داخلی، علامتی اور تجریدی نوعیت کے ہیں، اور ان کی نظمیں قارئین سے کئی سطحوں پر مخاطب ہوتی ہیں۔
ن م راشد کی زیادہ تر نظمیں ازل گیر و ابدتاب موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں، جو ان پرحتمی رائے قائم نہیں کرتیں بلکہ انسان کو ان مسائل کے بارے میں غور کرنے پر مائل کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی شاعری کے لیے زبردست مطالعہ اور اعلیٰ تخلیقی صلاحیتیں اورتیکھی ذہنی اپج درکار ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ راشد کے پسندیدہ موضوعات میں سے ایک اظہار کی نارسائی ہے، اپنی غالباً اعلیٰ ترین نظم ’’حسن کوزہ گر‘‘میں وہ ایک تخلیقی فن کار کا المیہ بیان کرتے ہیں جو کوزہ گری کی صلاحیت سے عاری ہو گیا ہے اور اپنے محبوب سے ایک نگاہِ التفات کا متمنی ہے جس سے اس کے خاکستر میں نئی چنگاریاں پھوٹ پڑیں۔ لیکن راشد کی بیشتر نظموں کی طرح ’’حسن کوزہ گر‘‘ بھی کئی سطحوں پر بیک وقت خطاب کرتی ہے اور اس کی تفہیم کے بارے میں ناقدین میں ابھی تک بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری ہے
انہوں نے جدید نظم کو انتہائی بلندی عطا کرتے ہوئے شعریات میں کئی دریافیں بھی کی ہیں۔ اور نئی نظم کو اظہار کے نئے زاوئیے سے روشناس کیا۔انہوں نے اردو نظم کو مغربی شاعری کے فنی وجمالیاتی اقدار سے متعارف کرایا اور جدید دور کے انسان کے مسائل اور نفسیاتی الجھنوں کو نظموں کا لبادہ عطا کیا۔علاوہ ازیں نظم کی ہئیت کو نئے موضوعات کی پیش کش کے لئے اپنایا اور اسے عروج عطا کیا۔وہ ہئیت کے متعلق اپنے مئوقف کا اظہار اپنے مضمون ’’ جدیدیت کیا ہے ‘‘ میں کرتے ہیں:
’’ جدید شاعری کے نزدیک جہاں ہئیت کی کوئی پابندی نہیں وہیں موضوعات کا میدان بے کنار ہے بلکہ ہئیت کی پابندی بھی اس لئے نہیں تاکہ وہ موضوعات کی مجبوری کا بہانہ نہ بن جائے۔‘‘
اس طرح راشدنظم کو ہیئتی پابندیوں سے اس لئے آزاد کرتے ہیں تاکہ اس میں انسان اور معاشرے سے متعلق کوئی بھی موضوع کسی بھی نقطہء نظر یا عقیدے کے تحت نظم کی جاسکے اور اس موضو ع کو نظم کرنے میں ہیئت آڑے نہ آئے۔راشد ؔ کے پہلے دو شعری مجموعوں ’’ ماورا ‘‘ اور ’’ ایران میں اجنبی ‘‘ میں پابند نظموں کا آہنگ ملتا ہے مگر بعد میں انہوں نے کھل کر آزاد نظوں کی ہئیت کا استعمال کیا اور اس میں اظہار کے نئے نئے طریقے تلاش کئے۔انہوں نے مصرعوں میں داخلی آہنگ اور موسیقیت پر زیادہ زور دیا اور الفاظ کی نشست و برخاست پر خصوصی توجہ دی۔ جن پر شعور کے رو کا بھی شائبہ ہوتا ہے۔ جس میں معاشرتی اکتاہٹ اور انسانی استحصال کی تصاویر اور عکس نمایاں ہیں۔
راشد کی شاعری میں خدا اور دیگر الہیاتی پہلوؤں کو بھی جگہ ملی، گو وہ خدا سے مطمئن نہیں اور اس سے شکوے شکایات کرتے ہیں۔ الہیات کی حرکیات سے جو فکری اور معاشرتی جمود پیدا ہوتا ہے اس طرف راشد نے بڑی بیباکی سے اشارہ کیا ہے۔ لہٰذا ان کے شعری اظہار میں ذرّہ برابر منافقت کا شائبہ نہیں ہوتا۔
راشد کومذہب سے دلچسپی نہیں ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ مشرق کا خدا زندگی میں ناموجود ہے اور مشرق کا انسان تشکیک کا شکار ہو رہا ہے۔ ایک اقتباس ان کی نظم دریچے کے قریب سے پیش خدمت ہے:
آ مری جان! مرے پاس دریچے کے قریب
دیکھ کس پیار سے انوار سحر چومتے ہیں مسجد شہر کے میناروں کو
جن کی رفعت سے مجھے اپنی برسوں کی تمنا کا خیال آتا ہے
اسی مینار کے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے
اپنے بیکار خڈا کی مانند اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں
ایک افلاس کا مارا ہوا ملائے حزیں
اپنی شاعری میں انہوں نے تصوف پر بھی طنزکیا ہے۔
ہم تصوف کے نہاں خانوں میں بسنے والے
اپنی پامالی کے افسانوں پہ ہنسنے والے
ہم سمجھتے ہیں نشانِ سرِمنزل پایا
ان کے نزدیک مسجد، ملا، لوگ اور خود متکلم سب علامتیں ہیں مذہب کی لا معنویت اور عوام کی زندگی کے رائیگاں سفر کی۔ راشد کی شاعری میں، دیوار، نئے عہد میں پرانی اقدار سے پیدا ہونے والی رکاوٹوں کی علامت ہے۔ تیرگی عصرِ حاضر کے فرد کے باطنی سفر کی لا حاصلی کی علامت ہے۔ راشد کی شاعری میں خودکشی کا عمل بھی ایک علامت بن کر ابھرا ہے جو کرشن چندر کے خیال میں ارض مشرق کی ‘خواہش موت’ کا اظہار ہے۔
ایسی بے شمار علامتیں راشد کے اجتماعی شعور کی عکاس ہیں۔ شاعر کو زندگی میں حسن اور دلکشی نظر نہیں آتی۔ زندگی سے بے زاری اور بے اطمینانی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ اس کے نزدیک زندگی ایک زہر بھرا جام ہے۔
راشد نے اپنی نظموں میں نہ صرف یہ کہ نظم آزاد کا کامیاب تجربہ کیا بلکہ مغرب کے شعرا بالخصوص انگلستان اور فرانس کے جدید شعرأ سے متاثر ہو کر نظم نگاری کے فن کو نئے طریقوں سے برتنے کی کوشش کی۔
یہ نظم سادہ اور بیانیہ شاعری سے خاصی مختلف تھی اور اس نظم میں افسانوی اور ڈرامائی انداز کے جدید اسالیب بدرجۂ اتم موجود تھے۔
ابتدا میں ن۔م راشد اور میرا جی‘ دونوں ہی شدید تنقید کا نشانہ بنے لیکن انہوں نے جو بیج بویا وہ بہت جلد تناور درخت کی شکل اختیار کرگیا۔
کئی اردو کے جدید شعرأ بھی راشد کے فلسفہ شعر اور اسلوب سے متاثر ہوئے۔ اور یوں اردو شاعری کے آنگن میں نئے پھول کھلے۔ وہ زندگی بھر دنیا کو چونکاتے رہے تھے اور موت کے بعد بھی اپنی یہ عادت ترک نہ کرسکےوہ تمام مخالفتوں کے باوجود بڑی دلیری سے ان نئے شعری مزاج کی وکالت کرتے رہے۔ راشدؔ نے اردو نظم کو موضوعاتی،ہیئتی اور اسلوبیاتی سطح پر باغیانہ روش سے مالا مال کیااور اردو ادب پر جو جمود طاری تھا اسکو توڑنے میں اہم رول ادا کیا۔راشدؔ جدید اردو نظم میں ایک ہم سنگ میل کی حیثیت سے یاد کئے جائیں گے۔
ن ۔ م راشد 9 اکتوبر 1975ء کو لندن میں فوت ہوئے ان کی آخری رسوم کے وقت صرف دو افراد موجود تھے، راشد کی اطالوی نژاد انگریز اہلیہ شیلا اور ساقی فاروقی جبکہ کچھ لوگ کہتے ہیں عبداللہ حسین وہاں موجود تھے۔ ساقی فاروقی لکھتے ہیں کہ "شیلا نے جلد بازی سے کام لیتے ہوئے راشد کے جسم کو نذرِ آتش کروا دیا اور اس سلسلے میں ان کے بیٹے شہریار سے بھی مشورہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، جو ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے بروقت آتش کدے تک پہنچ نہیں پائے۔ ان کی آخری رسوم کے متعلق یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ راشد چونکہ آخری عمر میں صومعہ و مسجد کی قیود سے دور نکل چکے تھے، اس باعث انہوں نے عرب سے درآمد شدہ رسوم کے بجائے اپنے لواحقین کو اپنی آبائی ریت پر، چتا جلانے کی وصیت خود کی تھی وہ زندگی بھر دنیا کو چونکاتے رہے تھے اور موت کے بعد بھی اپنی یہ عادت ترک نہ کرسکے۔۔ایسی دوسری شخصیت عصمت چغتائی تھیں جنہیں ان کی وصیّت کے مطابق بعد از مرگ نذر برق کیا گیا۔

(احمد سہیل)

Related posts

Leave a Comment