ارمان نجمی – شیکسپیئر کے تین ڈراموں کا رد تشکیلی مطالعہ

کئی دہائیوں کی بات ہے جب اپنے بچوں کو انگریزی پڑھانے کے دوران اُن کے نصاب میںشامل شیکسپیئر کے ڈراموں یا اُن پرمبنی قصوں کے قریبی مطالعہ سے کئی شہبات سر اُٹھانے لگے تھے۔لیکن میں اُن کو ذہن سے جھٹک دیتا تھا، یہ سوچ کر کہ شکسپئر ایسا عظیم منصنف تعصب یا تنگ نظری کا شکار کیسے ہو سکتا ہے اُس نے تو اپنے مختلف کرداروں کے ذریعہ اپنے وقت کے تعصبات اور ذہنی تحفظات کو زبان عطا کی ہے۔ لیکن مزید مطالعہ سے میرے اُن سوالات کو مزید تقویت بھی ملی اور اُن کے جزوی جوابات بھی ملے اور یہ تحریک بھی ملی کہ مزید تحقیق و جستجو کے ذریعہ اپنے خیالات کو مجتمع کروں ۔اس سلسلے میں پروفیسر سیو ّآشس بسواس جامعہ ایزول کی ایک تحریر نے رہنمائی کی ۔ میشل فوکو (۱)کا کہنا ہے
The reader is of course free to make .what he wil l of the book he has been kind enough to read. What right have I then to suggeast that it should be used in one way rather than another ?” (Archaelogy of Human Sciences, Vintage N.Y 1973)
ادب کے قاری کسی متن کی تعبیر و تفسیر اسلئے کرتے ہیں کہ وہ اسے اپنے طور پر سمجھنا چاہتے ہیں یا اسے معنیٰ دیکر اپنے تجربات کی تنظیم کرنا چاہتے ہیں۔ اسطرح معنی آفرینی یا باز آفرینی ہوتی رہتی ہے اور جستجو کا یہ عمل جاری رہتا ہے اسکے نتیجہ میں مصنف اور قاری کے درمیان سلسلہ جنبانی ہوتی ہے۔ مصنف اپنے وقت کے نظر یاتی دھاروں (Ideological Currents)میں مقیم ہوتا ہے اور اسکی تصنیف ایک ثقافتی تعبیر ہوتی ہے۔ ایڈورڈسعید کا کہنا ہے کہ’ ادب ہمیشہ تاریخی شعور میں جاگزیں ہوتا ہے۔‘ چار سو (۰۰۴)برسوں کے فاصلے سے شیکسپیرکے تاریخی متن کا مطالعہ بھی سلسلہ جنبانی کو جنم دیتا ہے۔ تاریخ صرف واقعات کا ایک مجموعہ نہیں ہوتا ہے بلکہ discursive Practices بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک مطلق بیانیہ کے بجائے چند اجزا کے مجموعے ہوتے ہیں جو متبادل تاریخ کی تشکیل کرتے ہیں یعنی نو آباد یاتی محکوموں، متبادل نظام، عورتوں ،مظلوموں اور پسماندہ لوگوں کی تاریخ بھی انہی اجزا سے مرتب ہوتی ہے اسطرح لامرکزیت یا مرکز گریزی کا ایک سلسلہ جاری رہتا ہے جو حاشیہ زدہ کو مرکز میں لاتا ہے’ عبارت کوذیلی رخ عطا( Subvert)کرتا ہے اور عبارت کی خاموشی کو معنی عطا کرتا ہے ۔
’اوتھیلو‘ بہت ساری خوبیوں اور اوصاف کا مالک ہونے کے باوجود حبشی یا سیاہ فام تھا۔ موقع بے موقع بار بار اسکی کالی رنگت کے حوالہ سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ’ ڈسڈی مونا ‘اسکی محبت میں مبتلا ہو کر کوئی غلط کام کررہی ہے اور یہ بات منشائے مصنف کے خلاف ہے۔ یا ’وینس کے سود اگر‘ میں شائیلوک نامی یہودی جو ساہوکاری یا سودخوری کا پیشہ کرتا تھا صرف اسی بنا پر قابل نفزین نہیں تھا بلکہ یہودی مذہب کا پیروکار ہونے کی بنا پر بھی ذلیل و خوار تھا۔ اور یہ تنگ نظری صرف نثری اصناف تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ جان ڈن جیسے شاعر کی نظم دی رایئزنگ سن (The Rising Sun)میں اسی طرح کے رویہ کی شان دہی کی جا سکتی ہے۔ ”جزایر ہند کے مصالحوں اور معدنیات کے خزانوں پر قبضہ ہمارا بنیادی حق ہے “ (She is all states and all Princes )یعنی وہی جنسی تعمیر اور استعماراتی جذبات کا ننگا اعتراف۔ خود برطانیہ کی کئی خواتین مصنفوں نے یوروپی مردوں اور استعمار پرستوں کے درمیان ایک بین رشتہ کا انکشاف کیا ہے۔ نو آبادیوں اور مشرق دونوں کے مال و دولت کامنبع ہونے کی بات ڈھکی چھپی ہوئی تو نہیں ہے:
"All the perfumes of Arabia Macbeth ”
سمندری طوفان (The tempest)کو پہلے ایک دیہی زندگی کے کھیل Pastoral Playکی طرح پڑھا جاتا تھا۔ اسے شیکسپئر کے سب سے پختہ طربیہ کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا جب سبکدوشی کے بعد وہ اسٹریٹس فورڈ میں سکونت پذیر تھا۔ لیکن ہم عصر روئے اس کھیل کو برطانیہ کے پدرانہ نظام اور استعمارانہ ذہنیت کی تعمیر کی طرح دیکھتے ہیں جب سیاسی توسیع پسندی اور نوآبادیاتی نمو پذیری کے ذریعہ مقامی آبادیوں کی محکومی عمل میں آرہی تھی جسے سفید فام آبادی کا حق سمجھ کر قبول کیا جاتا تھا یعنی مردانہ حاکمیت اور سفید فام اِستعماریت ساتھ ساتھ ترقی پذیر ہو رہی تھی۔
’رابن سن کروسو‘کی طرح ’پر اسپرو‘ جزیرہ میں وارد ہوتاہے اور اس پر اجارہ داری حاصل کر لیتا ہے ۔ (V, I P 20 )Was landed to be the lord یہ گورے کی نو آبادی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ وہ مقامی آبادی کے جملہ حقوق اور اختیار سلب کر لیتا ہے۔ وہ وحشی ، کالبان‘ کو استعمال کرتا ہے !جو اسے تازہ پانیوں کے جھرنے‘ نمکین پانیوں کے گڑھے بنجر اور زر خیز علاقوں سے روشناس کراتا ہے وہ کالبان کو محکوم ہی نہیں بنا لیتا ہے بلکہ اسے غلام کی سطح پرمغلوب کر کے رکھ دیتا ہے جو صرف سخت محنت، سڑی گالی اور شدید دھمکی کی زد پر رہنے کے لائق ہے۔ دوسروں کی محکومی بلکہ غلامی کا تصور نیا نہیں ہے۔ ارسطو کا خیال یہ ہے ۔
Men…who are much inferior to others as the body is to the soul…are slave by nature, and it is advantageus for them always to be under government (Politics 1254 a-b)
مندرجہ بالا اقتباس آدمی کو آدمی کا غلام بنانے کا جو از پیش کرتا ہے لیکن ابن آدم نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ صنف مخالف یا بنت حوا کو بھی محکومی کے دائرے میں مقید رکھا یا رکھنے کی کوشش کی ہے۔ جنسی نو آبادکاری (sexual colonialism)گرچہ ایک متنازعہ استعارہ ہے لیکن مردانہ حاکمیت کو نشان زد کر نے میں کامیاب ہے ۔عورت کو نوآباد یاتی موضوع سمجھنا درست نہیں کہ وہ ایک الگ علاقائی ©جغرافیائی مکان (Space)نہیں ہے بلکہ اسی دنیا کا ایک حصہ ہے جس میں مرد بھی آباد ہے۔ لیکن پدرانہ نظام اور نو آدیانی حاکمیت میں افتراقی قوت کا مشترک ہے ۔ عورت اسی طرح ایک ’ کمتر غیر ‘ ہے جیسے نوآباد کاروں کے لئے مقامی آبادی۔ دونوں میں یہ غیریت (otherness)ایک منفی تفریق ہے جو قبضہ اور حاکمیت کو جائز ٹھہراتی ہے دلچسپی کی بات کہ یہ غیریت خواہش کا معروض بھی ہے اور اس کاحدف بھی،یہ جتنا پر اسرار ہے اتنا معلوم بھی۔ نو آبادیاتی اور جنسی حاکمیت کی مطابقت کو ۶۱ویں اور ۷۱ویں صدی کے اُن شبیہی نمائندگی Iconographic representationکے ذریعہ سمجھا جا سکتا ہے جس میں مفتوحہ زمین (خواہ مرقع خواہ شاعری خواہ سفرنامہ)کو عریاں نسائی بدن کی صورت دکھایا گیا ہے جو تارا جگی اور قبضہ کی خاطردست رس میںموجود ہے۔ ایک بہت بڑی سچائی یہ بھی ہے کہ مردوں کی ذات بلا امتیاز رنگ و نسل طبقہ یا فرقہ، ہمیشہ عورتوں کے خلاف ایسے رویئے اپناتی رہی ہے جنکے ذریعے Ambivalent Stereotypesرویے پیدا ہوئے ہیں جن کی کارفرمائی زندگی ہی نہیں بلکہ ادب، اساطیر اور عقیدے تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہندوﺅں کی مذہبی کتابوں اور قدیم قانونی ضابطوں میں عورتوں کو آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں تک درجہ بند کیا گیا ہے۔ جو، اُن ضابطوں کی پابند ہوتی ہیں اُنہیں دیوی کا مقدس مقام ملتا ہے اور جو انحراف کرتی ہیں انہیں گری ہوئی سمجھاجاتا ہے۔ غرضکہ دونوں حالات میں ہندو عورتوں کو ایک نارمل انسان کا درجہ نہیں دیا جاتا ہے۔ اسطرح وہ ایک ایسی خدمت گذراری پر مجبور کی جاتی ہیں جو اسٹینلے والپرٹ کے لفظوں میں غلامی کی حد تک جا پہنچتی ہے۔ مثال کے طور پر بھگوت گیتا نچلی ذاتوں کی مانند عورتوں کوبھی زندگی کی پست ہیئت سے منسلک ہونے کااعلان کرتا ہے جس کو ارتفاع اور ابدیت کا کوئی حق نہیں۔
اور منو سمہتا تو انہیں مردوں کی جائیداد سے زیادہ حیثیت نہیں دیتا اور عورتوں کی جنسیت پر مردوں کی سخت پابندی کو اُن کی ہوسناک اور بے وفائی سے بھر ی ہوئی فطرت کی وجہ سے لازمی ضرورت قرار دیتا ہے ۔ منو ‘عورت کو شودر کے برابر سمجھ کر دونوں کے جائیداد کے مالکانہ حقوق سے انکار کرتا ہے۔ لیکن دوسری جانب ایسی عورت بھی پیش ہوئی ہے جو پوجے جانے کے لائق ہے۔ ہندو ا سا طیر میں اچھی عورت اول و آخر ماں ہے یعنی دیوی کی طرح ہے (Divine incarnation)رامائن کی سیتاکو ‘منزہ ‘بے غرض اور اپنے شوہر کی انتہائی خدمت گذرار بیوی کا درجہ عطا کیا جاتا ہے (گرچہ حقائق اور سیتا کی موت کا سانحہ اس تضاد بیانی کے عین مطابق نہیں)منو کے مطابق عورت گھر کی روشنی ہے کہ نہ صرف بچے پیدا کرتی ہے بلکہ اُن کو پالنے پوسنے کے علاوہ دیگر ضروری خدمات بھی انجام دیتی ہے۔ واضح طور پر اسکے گرد روشنی کا ایک ہالہ بن کر اسے گھر سے باہر کے معاملات کے متعلق اندھیرے میں رکھے جانے کی ایک تدبیر (Ploy)ہے۔ اگرچہ قدیم قوانین جدید معاشرتی اور آئینی ڈھانچوں سے بدلے جا چکے ہیں لیکن اُن قوانین کے پس پشت جذبات آج بھی قائم ہیں جن کے نتیجہ میںنئی جنسی سیاست کی نت نئی شکلیں سامنے آتی رہتی ہیں۔
اسلام مذہب تصور اتی سطح پر مردوں کی مطلق حاکمیت کے حق میں نہیں ہے متروکہ جائداد میں بیوی ،بیٹی، بہن کا حصہ بھی مقرر ہے اور بیوہ کی دوسری شادی کی اجازت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے عملی نمونے ہمارے اور آپ کے سامنے موجود ہیں ۔ نوزایئدہ بیٹی کو زندہ زمین میں گاڑ نے کی رسم کی بیخ کنی اسکے ابتدائی دور کا زبرد ست کا رنامہ ہے (آج بھی یہ رسم کسی نہ کسی شکل میں ہندوستان کے کچھ علاقوں میں چلی آرہی ہے‘لیکن مسلمان اس سے بہت حد تک مستثنیٰ ہیں)۔شادی کے لئے لڑکیوں کی مرضی بھی ضرورہی ہے لیکن عملی سطح پر ان کے ساتھ تفریق کی جاتی رہی ہے خاصکر جہاں قبایلی عائلی قوانین کا رواج ہے وہاںغیرت کے نام پر قتل Honour killingیا بالغ لڑکیوں کی شادی کم عمر بچوں کے ساتھ کرنے کا ناروا رواج قائم رہا ہے لیکن ایسا کرنا اسلام کی روح کے منافی ہے۔ لیکن نو آبادیاتی Colonialحقیقت سفید فاموں اور گوری چمڑی والے یورپی باشندوں کی کارستانیوں سے وابستہ ہے۔ انھوں نے جس طرح مقامی آبادی کو غیر بنا کر ظلم و ستم کے نشانہ پر رکھا اوراُن کے مال و دولت اور قدرتی وسائل پر قبضہ جما کر انہیں اپنے ہی وطن میں دوسرے درجہ کا شہری بنا کر یا شہریت کے دائرہ سے خارج کرنے کی جو پالیسی اپنائی وہ تاریخ کا ایک سیاہ و شرمناک باب ہے۔ اسطرح نوآبادیاتی اور نسلی تصورات ایک دوسرے میں شیرو شکر کی طرح ایک جان ہو جاتے ہیں۔ نسلی و جنسی تفریق بھی اسی گہرے ساختیہ سے ہی ماخوذ ہے۔ نو آبادیاتی تحریروں میں جن طریقوں سے عورتوں کا مقام متعین کیا جاتا رہا ہے اُن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ حاکمیت اور بربریت کے دونوں علاقے ایک دوسرے میںمدغم ہو رہے ہیں۔ ہیلن کار کے لفظوں میں
In the Language of Colonialism, non Europeans occupy the same symbolic space as women. Both are seen as part of nature, not calture and with the same ambivalence, either they are passive… needing leadership, described always in terens of lack… or … they are outside society, dangerous, treacherous, einotioual… sexually aberrant”
پس یہ ظاہر ہوا کہ نسل پرستوں اور نو آبادکاروں کے نظریاتی تانے بانے ایک دوسرے کی بافت اور ساخت میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ اور آخر میں ایک مختصر حوالہ
The subaltern is the Colonised, and woman as the Subaltesse cannot speak” spivak
”ذیلی متبادل ہی نو آبادیات زدہ ہے اور عورت کو ذیلی تبادل کی حیثیت کے بولنے کا حق نہیں ہے“ ۔
سب سے پہلے شیکسپیرکے شہکار المیہ’اوتھیلو‘کے متعلق مجھے یہ اہم بات کہنی ہے کہ اسکا پورا نام ہے اوتھیلو دی مور آف وینس ۔ مور ایک اسم نکرہ ہے جسکے معنیٰ ہیںمورہ علاقے کے بربر لیکن یہ نسلی یا قبائلی حوالے کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔خاص کر غیریت جتانے کے لئے یا اپنے آپ سے ممیز کرنے کے لئے ۔ لیکن اسکے انسلاکات یا مخفی معنی ہیں غیر مہذب یا کندہ¿ نا تراش ،ویسے یہ لفظ شمالی افریقہ کے بر بر نژاد اُن مسلمانوں کے لئے استعمال ہوتا رہا جو پرتغالیہ اور ہسپانیہ کے باشندے تھے۔ عیسائیوں نے کئی صدیوں تک مسلمانوںکو اُن کے نسلی امتیازات سے ہی موسوم کیا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ ’ڈسڈی مونا ‘سے’ اوتھیلو ‘کی محبت اور شادی منشائے مصنف کے خلاف ہونے کا عندیہ بین السطور سے ملتا ہے۔ اوتھیلوکی شخصیت بہت ساری خوبیوں کا مجموعہ ہے جن میں سخاوت،سادگی، عالی ہمتی، بغض و ریاسے پاک باطن اور وفاداری۔ بہت نمایاں ہے لیکن بار بار حبشی یا سیاہ فامی کا تذکرہ کر کے اسے غیر یا دوسرا یعنی اپنے آپ سے الگ کوئی مخلوق ہونے پر زور دیا جاتا ہے۔ لیکن خوبیوں کے اعتراف کے باوجود اس کے کردار کی خامیاں یا کمزوریاں اجاگر کر کے اسے شکی، حاسدقرار دے کر ڈسڈی مونا کی محبت کا نا اہل ثابت کیا جاتا ہے۔ ڈرامہ میں دوسرے کردار جو سب کے سب سفید فام ہیں۔’ایا گو‘ کے علاوہ خوبی اور نیکی کے پیکر ہیں۔ ڈرامہ کی ہیروئن’ ڈسڈی مونا‘ کو فرشتہ صفت ثابت کیا جاتا ہے جو معصوم بھی ہے اور رحمدل بھی کہ اوتھیلو کے دام محبت میں گرفتار ہو کر اپنا سب کچھ ہار جاتی ہے۔ (اس کی افسانہ طرازی اور دلچسپ باتوں سے شدت کی اثر پذیری ’ڈسڈی مونا ‘کے بھولپن کی علامت ہے)وہ اپنے جیسے گوری چمڑی والے عاشقوں اور طلبگاروں کو نظرانداز کر کے اپنے والد کی اجازت یا اطلاع کے بغیر سیاہ فام’ اوتھیلو‘ سے شادی رچالیتی ہے۔ متن کی خاموشی کے ذریعہ یہ کہا گیا ہے کہ ایسا کر کے اس نے بڑی غلطی کی ہے کہ’ اوتھیلو‘ اُس کے لائق نہیں ہے۔ اسی لئے ایک غلط فہمی کی بنا پر اپنی جان سے ہاتھ دھو کراسے اس فاش غلطی بلکہ گناہ کا خمیازہ بھگتا پڑتا ہے۔’ اوتھیلو ‘کے کردار میں سادہ لوحی اور صاف گوئی کے عناصر بغیر تلاش کئے مل جاتے ہیں لیکن ایاگو کے دام فریب میں آجانا اسکی زبرست خامی ہے۔ اپا گو نے جں طرح اپنے اعتماد میں لے کرخود اُسکے ہاتھوں اپنے ناپاک عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، یہ سفید فاموں کی کمینگی اور عیاری کو طشت از بام کرتا ہے اسکا خود یہ کہنا کہ I am not what I am(ص 1114)نسلی تعصب کا بیان کہیں کہیں پرواشگاف انداز اور کرخت لہجہ اختیار کرتا ہے جیسے ’اوتھیلو‘ کے لئے بلیک رَیم Black Ramاور’ ڈسڈی مونا ‘کے لئے وھایٹ ایوWhite ewe(ص 1114)یا’ برابینشیو‘ کا ’اوتھیلو‘ کو O thou foul thief کہہ کر مخاطب کرنا اور بعد میں O the sooty bosom of such a thing as thou(ص 1114)ویسے ڈیوک ایک جگہ بہادر اوتھیلو (Valiant Othello)جیسے الفاظ سے بھی اسکی عزت افزائی کرتا ہے لیکن ایسے مواقع دو ایک جگہ سے زیادہ نہیں آتے۔گرچہ یہاں جنسی تعصب کو ابھرنے کا موقع نہیں ملتا ہے لیکن’ برابینشیو‘ یعنی’ ڈسڈی مونا‘ کے والد کابہ بانگ دہل یہ اعلانFathers from hence trust not your danghters اور’ ایاگو‘ اور’ روڈ رگو ‘کے درمیان مکالمہ میں (ص 1115) minds اول الذکر کا’ ڈسڈی مونا ‘کے متعلق یہ نازیبا کلمہ کہنا کہ وہ بدل جائے گی ۔جب وہ اس کے (اوتھیلو)جسم سے آسودہ ہو جائیگی تب اسے اپنی پسند کی غلطی کا احساس ہو جائیگا۔ دیکھ لینا وہ ضرور بدل جائےگی (ص 1120)۔لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ اپنی وفاداری اور پاک دامنی کی خاطر خود کو قربان کر دیتی ہے۔
اس طرح ما بعد نوآبادیاتی تجزیہ سے’ وینس کا سوداگر‘ (مرچنٹ آف وینس)کا مطالعہ بھی بہت سارے مباحث کے باب و اکرتا ہے۔
یہا ں شروع ہی سے غیر یا دوسرا (other)’شائی لاک ‘کی شکل میں موجود ہے۔ صرف اسکا پیشہ سود خوری ہی نہیں بلکہ اسکا دین یہودیت بھی طنز وتشنیع کا ہدف بنتا رہتا ہے، ڈرامہ کے آغاز میں کرداروں کے تعارف میں ’شائی لاک ‘کے نام کے ساتھ یہودی کا لاحقہ موجود ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ عیسائی سوداگروں کو بہت اونچی شرح پر سود کی رقم مہیا کر کے وہ بہت زیادہ دولت کماچکا ہے۔ اور اسکی سنگدلی اور رقم کی وصولی میں اسکی شدت کی بنا پر تمام اچھے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔ اسکے بر خلاف’ انٹو ینو‘ (وینس کا سوداگر)کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ مہربان ترین شخص تھا جو روئے زمین پر زندہ ہے a kinder gentleman treads not the earth اور نیک روح اور بلند اخلاق کا حامل تھا اسی لئے تمام لوگ اس سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ لیکن بیانیہ کے تضاوت بھی قابل غور ہیں۔’ انٹوینو‘ کے کردار کا یہ رخ تو بعد میں سامنے آتا ہے کہ وہ’ شائی لاک ‘سے نفرت ہی نہیں کرتا ہے بلکہ اسے گالی بھی دیتا ہے۔ یہاں بھی Binary opposites کا استعمال غور طلب ہے۔ میں مصنف کے خلاف کچھ بھی لکھنا نہیں چاہتا کہ یہ چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی۔ لیکن اسکے نظریاتی مفروضات (Idealogical Presupposition)سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ثقافت کا سانچہ ہی آدمی کے ذہن کو ڈھا لتا ہے اور متن ہی با اَختیار اور جائز قرار دئے جانے کا وقوعہ بن گیا ہے اور یہ تو ظاہر ہی ہے کہ اختیار (authority)صرف صنف مذکر کے پاس ہے۔ ایک زمانے سے مغلوب و محکوم لوگ اپنے حق کے لئے جنگ کرتے آئے ہیں تو طاقت کی بنیاد کو ہی سوال بنا کر اس طاقت کو کم زور (subvert)کرنے کی کوشس کرتے ہیں۔ معنی کی تشکیل اسطرح کی جاتی ہے کہ ذو تضاد (Binary Opposite)اور جنس مخالف (Gender Opposite)کے مجموعے (Set)کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ مرد (آسمانی، مہذب، اور بعید)اور عورت (زمینی فطری اور قریب) نو آباد کار (فرشتہ گورا خالص و نیک )اور نو آبادیاتی محکوم (شیطان، کالا، بدکردار اور بدقماش) قرار دئے جاتے ہیںیہی نہیں بلکہ ایک رتبہ بلندی اور جرات مندی کوغیریاد و سرے کے خلاف روبرو کر کے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ سفید فام سیاہ فام سے بہتر ہے۔
غور فرمائے۔ ’ایزیولائیک اِٹ‘(As you like it)میں روزلنڈایہ کہتی ہے Such ethiopion words / Blacker in their effect (v,iii,)یعنی لفظوں کا رنگ اور اثر بھی سیاہ ہوتا ہے۔’ جان ڈن‘John Donneبھی سیاہی کو بدی سے منسوب کرتا ہے۔’ اوتھیلو‘ کے بارے میں پہلے ہی مذکورہ ہو چکا ہے کہ اسکی کمتری کا سبب خاص اس کی کالی رنگت ہے۔ سچائی کا فیصلہ طاقت والوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس طرح تفریق کو نمایاں کرنے میں منحرف (deviant)خراب (Bad)کمتر(Inferior)اور پاگل (mad)جیسے الفاظ discursive Practicesمیں استعمال ہوتے رہتے ہیں۔
عیسائیت کو ہمیشہ ایک ایسے مذہب کی طرح پیش کیا جاتا رہا ہے جسکی بنیاد forgivenessاورreconciliationیعنی عفو و درگذر ہے۔ لیکن اس ڈرامہ میں جس معاشرہ کی عکاسی کی گئی ہے وہ اُن اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ ’انٹو نیو‘ اور’ شائی لاک‘ کے درمیان تعلقات کا بیان تو اوپرآ چکا ہے اسکا سبب تو سود خوری کا پیشہ تھا۔ ’شائی لاک‘ سے نفرت بھی اسی سلسلہ کا مظہر ہے لیکن تمام یہودیوں کی تحقیر اور تذلیل کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔’ انٹوینو‘ کے بارے میں’ شائی لاک‘ کا یہ بیان قابل ذکر ہے “ میں اس سے نفرت کرتا ہوں کہ وہ بغیر منافع لوگوں کو قرض دیتا رہتا ہے۔ وہ ہماری مقدس قوم سے بھی نفرت کرتا ہے۔ ’انٹوینو‘ کا’ بیسینیو‘سے یہ کہنا mark you thus Bassinio the devil can also cite scriptures for his purpose .An evil soul producing holy witnesses. Is like a vilian with a smiling cheek -scene iii Act i P 207 یہ تحقیر و نفرین محدود نہیں ہے بلکہ اُن کے مشترکہ دوست’ سولینیو‘ کی زبان سے ایک جگہ The villian jewاور دوسری جگہ the dog jewکا استعمال بھی قابل غور ہے Scviii Ac ii P.213اس سے پہلے ’شائی لاک’‘ بیسینیو‘ کی دعوت طعام کو ٹھکراتے ہوئے یہ کہتا ہے۔ ” لحم خنزیر سونگھنے کے لئے (کیا میںتمہاری دعوت قبول کروں)۔ میں تمہارے ساتھ خریدو فروخت کر سکتا ہوں تم سے بات چیت کر سکتا ہوں تمہارے ساتھ چل سکتاہوں، لیکن تمہارے ساتھ نہ تو کھانا پینا ہو سکتا ہے نہ عبادت۔۔۔۔ Scene iii Act P206
تو کیا antisemitismکی اس سے زیادہ ہولناک مثال کسی اور ادب پارہ میں پیش کی جاسکتی ہے۔’ شائی لاک‘ کی موجودگی میں’ انٹونیو‘ اپنے دوست’ بیسینیو‘ سے کہتا ہے کہ تم کچھ بھی کر لو اسکا یہودی دل Jewish heartکبھی نرم نہیں ہو گا۔ یعنی دونوں قطبین کے فاصلے پر ہیں جن میں میل ملاپ ممکن نہیں ہے۔ اور جب عدالت میں ’نرسیا‘داخل ہوتی ہے اس وقت (’گراشیانو‘ اور ’شائی لاک‘ کے درمیان )کا مکالمہ تو بہت ہی کراہیت انگیز ہے ۔ صرف اس کا ابتدائی اور آخری حصہ مقتبس کیا جاتا ہے۔
O, be thou damned , inexorable dog ! …………..for thy desires/ Are wolfish, bloody, starved and ravenous (scene 1 Act iv P222)اور بعدمیں عدالت میں بحث کے دوران اسے Infidelکہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ پھر عدالت میں ہی ب’یسینیو‘ اپنے دوست اور’ وینس کے سوداگر،’ انٹونیو‘ کو مخاطب کر کے یہ کہتا ہے ۔ I would lose all ..any , sacrifice them all/ Here to this devil to deliver you P223’شائی لاک‘ اپنی بیٹی’ جیسیک‘سے عیسائیوں کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے لیکن وہ ایک عیسائی نوجوان’ لور نزو‘ کی محبت میں گرفتار ہے اور اسکا خون ہو کر بھی اس سے بے زار ہے اور’ لو رنزو‘ سے شادی کرنے کی خاطر عیسائیت اختیار کرنے پر بھی آمادہ ہے کہ اسے یہ یقین دلایا گیا ہے۔ There is no mercy for me in heaven, be ’cause I am a Jews duaghter ……. Scene v Act P220’شائی لاک‘ کو کن ذہنی عذابوں سے گزرنا پڑا ہے اوروہ کتنا غم زدہ اور زخم خوردہ ہے اسکا بیان اس کی زبانی سنئے ” اس نے مجھے رسوا کیا ہے پانچ لاکھ کے منافع سے روکا ہے۔ میرے خسارے پر قہقہہ لگا یا ہے۔ میرے منافع کا مذاق اُڑایا ہے۔ میرے مذہب اور میری قوم کی تحقیر کی ہے۔ میں ایک یہودی ہوں۔ ۔۔۔ کیا یہودی کو آنکھیں نہیں ہوتیں‘ ہاتھ نہیں ہوتے۔۔۔۔۔ اگر ایک یہودی کسی عیسائی کو زک پہنچاتا ہے تو اسکی گرفت ہوتی ہے ، انتقام ۔ اگر ایک عیسائی کسی یہودی کو زک پہنچائے تو اسکی سزا عیسائی آئین کے مطابق کیا ہوگی©؟ انتقام “ P215۔
اس پورے مکالمہ کے مطالعہ کے بعد کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ’ شائی لاک‘ کی یہ داد فریاد حقیقی ذلت و خواری کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ خیالی یا تصوراتی ہے۔ جیسا کہ باپ کی دولت اور زر و جواہر کےساتھ گھر سے بھاگنے اور’لورنزو‘ سے سگائی کرنے کے واقعے کو جس طرح قلمبند کیا گیا ہے، اس میں کہیں بھی ایسا کچھ نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہو سکے کہ یہ غلط ہے بلکہ ’شائی لاک ‘کی چیخ پکار سن کر دوسرے کرداروں کے ذریعہ اسکا تمسخر ہی اُڑایا گیا ہے۔ شاید یہ عین منشائے مصنف کے مطابق ہے۔
شائی لاک سے محبت کرنے والا تو کیا اسے پسند کرنے والا ہی کوئی نہیں ہے۔ ’وینس ‘کے شہریوں کا حال تو ظاہر ہو گیا اس کی دختر نیک اختر بھی اس رشتہ پر شرمندہ ہے۔…To be ashamed to be my father’s child ! /But though I am a daughter to his blood, / I am not to his manners O, lorenzo, Scene v Act ii P 210رہ گیا اسکا خادم وہ بھی اسے خراب ہی نہیں بلکہ خانہ خراب سمجھتا ہے۔
Certainly the Jew is the very devil incarnation Act ii sece ii P205لیکن یہ صرف عام کرداروں کے بیانات کا حصہ نہیں ہوتے ہیں بلکہ ڈیوک جو منصف بھی ہے عدالت میں ’انٹونیو‘ کے داخلے کے بعد اظہار افسو س کرتے ہوئے کہتا ہے I am sorry for thee. thou art come to answer A stony adversary an  inhumanwretch an                                                                                                                                        اور’ شائی لاک‘ کے داخلے کے بعد کہتا ہے ’شائی لاک‘ ! دنیا سوچتی ہے اور میں بھی سوچتا ہوں کہ تم اپنی اس کدورت maliceکو عمل کے آخری لمحہ تک لے جاﺅ گے ص 221۔
اور’ پورشیا‘ عدالت میں بحث کے دوران یہ کہتی ہے کہ عیسائی خون کا ایک قطرہ بھی اگر تم نے بہایا تو تمہاری زمین اور تمہارا مال بحق سرکار ضبط ہو جائیگا ص 223اور ڈیوک جب اُسکی زندگی کی معافی کا اعلان کرتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ ہماری روحوں کا فرق دیکھو، یہاں ہماری کا مطلب عیسائی ہے جسے یہودیت سے برتر گردانا گیاہے ۔ اور عدالت میں ہی جب’ انٹو نیو‘ اس کی دولت کی ضبطی کی منسوخی یا اُس کے مال و دولت کے و اگذاَر کئے جانے کی رضامندی دیتا ہے تو اسکی یہی ایک شرط ہوتی ہے کہ وہ یعنی ’شائی لاک‘ فوری طورپر عیسائی مذہب قبول کرلے اور اپنی بیٹی جسے وہ عیسائی مذہب قبول کرکے ایک عیسائی سے شادی کرنے کے جرم میں عاق کر چکا ہے، اسے اپنی وصیت میں وراثت کا حقدار قرار دے۔ کیا اس تبدیلی مذہب کو بہ رضا و رغبت تسلیم کیا جا سکتا ہے یا زور زبردستی کا شاخسانہ ؟ کیا عیسائی مذہب طاقت کی بدولت اپنے عمل کو جائز قرار دیتا ہے؟ حد تو یہ ہے کہ’ جیسیکا ‘کی تبدیلی مذہب بھی اپنی خوشی یا مرضی سے زیادہ خوفزدہ ہو نے کے باعث ہے کہ یہودی زاَدی ہونے کی وجہ سے اسے اللہ کے عتاب کا سامنا ہوگاجیسا اُسے یقین دلایا گیا تھا۔
تانیثی Feministنقطہ نگاہ سے دیکھئے تو ’پور شیا‘ کو بھی معاشرہ کی حدود کی پابندی کرنی ہے۔ کئی عاشقوں اور شادی کے طلبگاروں سے اسکی گفتگو اور پھر’نریسا‘ اور اُسکے درمیان مکالمہ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ شادی کے معاملہ میں وہ بالکل آزاد نہیں ہے۔ اپنی مرضی سے وہ اسے بھی انکار نہیں کر سکتی جسے وہ نا پسند کرتی ہے اور نہ اپنی خوشی سے کسی کا انتخاب کر سکتی ہے۔ ایک زندہ بیٹی کی خوشی ایک مردہ باپ کے وصیت نامے کے آگے کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ Is not hard nerissa that I cannot choose one nor refuse none Act i Scene ii P 205’پورشیا ‘کا کردار ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے گرچہ’ شائی لاک‘ اور اسکے مذہب کے خلاف اسکے تعصب کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن وہ معاشرہ کی قیود کو توڑ نا نہیں چاہتی جیسا شادی کے لئے نا خواستہ چاہنے والوں کی پذیرائی اور با اخلاق روئے سے ظاہر ہوتا ہے۔ اسکی شخصیت کا ایک اور پہلو ہے اسکی دور بینی اور تیز نگاہی، ’نر یسا‘ سے مکالمہ کے دوران اپنے متعدد عاشقوں کی شخصیت کی خامیوں بلکہ عیوب کی نشاندہی سے وہ اپنے فیصلہ کے اسباب فراہم کرتی ہے اور قاری کی ہمدردی حاصل کر لیتی ہے۔ وہ اپنے والد کی وصیت کو تسلیم کرتی ہے اور اُن نا اہل خواستگاروں کو قسمت آزمائی سے روک نہیں سکتی ہے۔
’سمندری طوفان‘ The Tempestکے’ مابعد نو آبادیاتی‘ تجزیہ سے کالیبان Calibanکی مرکزی حیثیت سامنے آتی ہے جبکہ اس کی ماں سایئکور یکس(sycorax)اس discursive Processپر اپنی غیر موجودگی کے باوجود حاوی ہے ۔ اسے نہ تو متن سے مٹایا جا سکتا ہے نہ ہی نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ نسائی متن ذیلی متن ہوتا ہے جبکہ حاوی متن مردانہ ہوتا ہے ۔ ذیلی متن جہاں سے ’سائیکوریکس ‘تقریباً مٹائی جا چکی ہے کو دوبارہ بحال کرنا ہے۔ کہ اس کی ذات متن کی سب سے توانا خاموشی ہے ۔ کہ اسکی موجودگی ’پر اسپرو ‘کے اعمال کو تابع فرمان کرتی ہے کہ وہ سائیکوریکس کے خلاف fixationمیں مبتلا ہے۔ گرچہ وہ مر چکی ہے لیکن جادوگر(witchکا مذکر)’پر اسپرو ‘ایک حریف جادوگرنی کے سائے سے مکہ بازی میں مصروف رہتا ہے۔ جہاں تک جنسی عصبیت کا تعلق ہے سیاہ فام بھی اس سے مبرا نہیں کہ کالے مرد تو دیکھے جا سکتے ہیں کالی عورتیں نظر نہیں آتی ہیں۔ یہاں بھی غیر ، یا دوسرا کالی رنگت کی شکل میں موجود ہے اور نسل و جنس کی بنا پر کمتر ٹھہرایا جاتا ہے۔’ سائیکو ریکس‘ اور ’کالیبان‘ دونوں ہی آدم زاد ہیں لیکن کالے اور مشرقی ہیں کہ’ سائیکوریکس ‘الجزائر میں پیدا ہوئی تھی۔ (Argier I, ii)لیکن’ پراسپرو‘ ان کو انسانیت کے دائرے سے ہی خارج کر کے’ سائیکوریکس‘ کو حرافہ (Immoral)قرار دیتا ہے۔
’سائیکوریکس‘، کو تاریخی فریم ورک میں ’پراسپرو‘کے recontex tualizationکے ذریعہ ایک کردار قرار دیا جا سکتا ہے۔ غور فرمائے ! ’پراسپرو‘کبھی اس سے نہیں ملا ہے لیکن وہ عورت اس کے اعصاب پر سوار ہے۔ وہ اس کے وجود اور اسکی طاقت کا حوالہ دیتا رہتا ہے ۔ جزیرہ کو خیر باد کہنے کے قبل بھی وہ اسکے حوالے دیتا رہتا ہے۔ وہ کئی جہت سے موجود ہے، یادوں یا تصور کے ذریعہ ، ’ایریل‘ کے حوالے سے اور’کالبان‘ کی ماں کی حیثیت سے۔ ’پراسپرو ‘اس پر زور ڈالتا ہے کہ وہ ’کالبان‘ کو ناجائز اور حرامی اولاد قرار دے، اسطرح اسے غیر بنا کر خود کو (یعنی جزیرہ پر اپنے قبضہ کو)جائز ٹھہرا ئے ۔ ’سائیکوریکس ‘’پر اسپرو ‘کی حریف جادوگرنی ہے۔ ’پر اسپرو‘ کے پاس ایک چھڑی ہے، ایک کتاب ہے اور ایک لبادہ ہے۔ جنسی سیاست میں جادوگرنی (witch)کا مطلب ہوتا ہے بد قماش(wicked)پدرانہ نظام پر مبنی متن میں عورتیں ذوتضاد Binary opposites کی تشکیل کرتی ہیں زنانہ Stereotypesمیں فرشتہ صفت (مرنڈا)یا شیطانہ (سائیکوریکس)اور دونوں مرد وزنانہ شخصیتیں قطبین کی نمایندگی کرتی ہیں۔ ’سائیکوریکس ‘(حرافہ)اورپراسپرو کی بیوی نیکی کا مجسمہ  (i ii)ہے جبکہ واحد زندہ نسائی کردار ’مرنڈا فرشتہ صفت ہے نسائی تحریک عورتوں کی essentialist Figureجیسے’ مرنڈا ‘کو، مردانہ تعمیر کی حیثیت سے نامنظور یا رد کرتی ہے۔
’پر اسپرو ‘کے پاس روحوں کی ایک فوج ہے جو غلاموں کی طرح خدمت میں لگی رہتی ہے۔ وہ روحیں اچھی ہیں اس لئے کہ وہ ’پراسپرو‘ کی خواہشات کی مطابقت کرتی ہیںلیکن جب’ ایرمل ‘آزادی طلب کرتا ہے تو’ پراسپرو ‘اسے اس سزا کی دھمکی دیتا ہے جس میں ’سائیکوریکس‘ نے اسے مبتلا کیا ہوا تھا۔ یعنی 12برسوں تک قید میں مسلسل ایذارسانی سے وہ کراہتا رہا تھا۔’ پر اسپرو ‘اسکی آزادی کو اس لئے موخر کرتا ہے کہ اس سے مزید خدمت لے سکے۔ سفید فام آدمی کے لئے سب کچھ صاف کھیل (Fair Play)ہے۔
عورت جادوگرنی اور مرد جادوگر کے درمیان جنسی تنگ نظری یہاںقابل تو جہ ہے۔ ناقدین اس بات کو اب تک نظر اندازکرتے ہیں کہ برطانیہ میں جادوگرینوں کی ایک بہت ہی مضبوط مقامی روایت تھی اور انہیں قدیم زمانے میں معاشرہ میں قبولیت کا درجہ حاصل تھا لیکن چونکہ تاریخ مردانہ قلمرو ہے اسلئے تاریخ دانوں نے ان جادوگرینوں کو پس منظر میں ڈال دینے کا کام کیا اور دیدہ و دانستہ کیا۔ ریناساں کے دوران( از ۰۴۵۱ءتا ۵۴۶۱ء)جب برطانیہ میں جادوگرینوں کے خلاف قانون کا نفاذہوا تقریباً دس لاکھ جی ہاں مکرر عرض ہے کہ تقریباً دس لاکھ جادو گرینوں کو زندہ جلا دیا گیا ۔ گویا ایک حقیقی ہولو کاسٹholocaust تھا۔ جادوگرینوں کو زندہ نذرآتش کرنے کے کاروبار میں قانون کے ساتھ clergy یعنی راہب طبقہ بھی شریک تھا۔
قارئین کرام کو یاد دلانا ضروری نہیں کہ جادوگرینوں کی روایت’ میکببتھ‘ اور ’دی ٹمپسٹ‘ میں نمایاں طور پر پیش ہو ئی ہے۔ یہ دونوں تماشے جیمس اول کے دوران حکومت( 1603-1625) لکھے گئے تھے جو ۳۰۶۱ءمیں تخت نشین ہوا۔ اسکے قبل وہ اسکاٹ لینڈ کا شہزادہ تھا۔جادوگرنیوں کا شکار وہاں بہت ہی ہر دلعزیز مشغلہ تھا۔شہزادہ نے جادوگری کے خلاف قانون نافذ کیا تھا جسکی روسے جادو گری wetchcraftکی سزا موت مقرر کی گئی تھی۔ اس سخت قانون کے نفاذ کی وجہ یہ تھی کہ جب وہ ڈنمارک کی شہزادی سے شادی رچانے کی خاطر وہاں کے لئے عازم سفر تھا کہ سمندر میں زبردست طوفان کی زد میں آکر وہ ڈوبتے ڈوبتے بچا۔ اپنی واپسی پر اسنے اس طوفان کے لئے جادوگرنیوں کو مورد الزام ٹھہرایا۔
بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے لیکن ضروری باتوں کا اندراج کئے بغیر چارہ بھی نہیں۔ شیکسپئر (1564-1616)کے سوانح نگار مصنف ھیلی ڈے (Halliday)نے ایک اہم معاشرتی سیاسی واقعہ رقم کیا ہے جسے ’گھیرنے کی تحریک‘ Enclosure Movementeکہا جاتا تھا۔ اس کے مطابق وہ لوگ جو مشترک زمین پر گزارا کرتے تھے یک بیک بیدخل کردئے گئے بلکہ بھک منگے بنادئے گئے۔ پرانی مشترک زندگی تا جرپسند معاشرہ میں تبدیل کردی گئی۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ سن رسیدہ مرد وزن کی نگہداشت معاشرہ اور مذہبی پیشواﺅں clergyکے ذمہ تھی۔ اب وہ زمین بادشاہ کے پسندیدہ لوگوں میں جاگیر کی صورت تقسیم کر دی گئی۔ خود شکسپیئر بھی اس سے مستفید ہوا تھا۔ اور ۵۱۶۱ءمیں اسکی زمینوں پر فتنہ و فساد برپا ہوا تھا۔ غریبی قانون Poor Lawکے اجرا سے خیرات دینا ممنوع ہو گیا۔نتیجتاً بندھوا مزدوروں کا ایک طبقہ پیدا ہوگیا جس کے بارے میں بہت بعد میں مشہورناول نگار ’چارلس ڈکنس ‘نے بہت کچھ لکھا۔ جادوگرنیاں وہ تھیں جو پرانے رواجوں پر کار بند تھیں۔ اور خیرات مانگتی تھیں۔ لیکن بہت ہی ہوشیار بلکہ عقل مند عورتیں ہوتی تھیں۔ جنہیں دوادا روکا بھی علم ہوتا تھا اور وہ پیش گوئی بھی کرسکتی تھیں۔ جیسا ’ میکبتھ ‘کے شروع میںدکھا یا گیا ہے ۔
1. Witch All hail, Macbeth ! hail to thee, Thane of Glamis. .2. Witch All hail, Macbeth!hail to thee, Thane of Cowder.
3. Witch All hail, Macbeth, that shall be king hereafter.
Act I Sc iii P 1046 Macbeth
خیرات مانگ کر یہ عورتیں مرد حاوی معاشرے میں معاشرتی اشتعال پیدا کرنے لگیں اسی لئے زیرعتاب آنے لگیں۔ جادوگرنیاں : یہ لفظ بھی جنسی تعمیر تھا‘ کہ تنہا گھومنے والی عورتیں خراب سمجھی جاتی تھیں۔ چنانچہ’ سائیکوریکس ‘بھی ایک ایسی ہی تعمیر ہے جیسے میکبتھ کی وہ تینوں بہنیں ‘جنہوں نے بکیو اور میکبتھ کے کہنے پر صرف مستقبل کی پیش بینی کی تھی خراب سمجھی جاتی ہیں۔’ سائکوریکس‘ تنہا اور عورت ہونے کے ناطے‘ فطرت کا ایک حصہ سمجھی جاتی ہے۔ آزاداور بے لگام، یہ موازنہ ’میرنڈا ‘جو فرشتہ صفت ہے اور جو اپنے والد کے زیر کفالت ہے اور جو پدرانہ نظام کی حدبندیوں کی پابندہے اور اسطرح جائز قراردی جاتی ہے۔ تو اس ڈرامہ’ دی ٹمپسٹ‘ کو پدرانہ نظام کی حاکمیت کے کلامیہ کے طور پر اور مزاحمت کی زبان کے طور پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
شیکسپیئر نے انگریزی جادوگرینوں کے فن کی تاریخی عوامی روایتوں کا اطلاق اپنے ہم عصر نو آبادیاتی جادوگرینوں کے فن پر کیا۔ زمینوںسے بے دخلی کی وجہ سے لوگ جنگلی علاقہ میں بودو باش اختیار کر کے جادوگری کے فن کو برﺅے کار لانے لگے تا کہ ایک حاشیہ زدہ و جود کو کسی طرح قائیم رکھ سکیں۔ زمینوں کی سرکاری تحویل میں لئے جانے اور نقد رقم حاصل کرنے والی فصلوں کی بدولت وہ آباد کاروں (Settlers)کے ہاتھوں منتقل ہو گئیں۔ اور اپنے اصلی مالکوں کے ہاتھوں سے نکل گئیں۔ پرانے مشرقی قبائیلی معاشروں میں عورتیںاکثر اہم اور مرکزی حیثیت کی حامل تھیں۔ قبائیلی سماج مادرانہ نظام پرکار بند رہا تھا۔ ’کالیبان‘ اپنے باپ کو نہیں جانتا ہے۔ یہ جزیرہ میرا ہے میری ماں ’سائیکوریکس ‘کی وراثت کے ذریعہ (i,ii)۔اجرت کی مزدوری کا قانون نافذ ہونے کے سبب مردانہ حاکمیت کا دائرہ کار وسیع ہوتا چلاگیا اور اب تک جن جادوگرینوں کو فائدہ مند سمجھا جاتا رہا تھا اُن کے متعلق زبردست نظریاتی تبدیلیاں رونما ہونے لگیں اور جو کام وہ صدیوں سے کرتی آئی تھیں اسے معیوب و مذموم سمجھ کر اُن جادوگرینوں کو یا تو مار دیا گیایا علاقہ بدر کردیا گیا۔ ’پراسپرو ‘کے الفاظ میں
This damn’d witch sycorax For mischief manifold and sorceries terrible To enter human hearing from Argier /Thou know’st was banished (Act I Sc ii P 4)یہ بات قابل غور ہے کہ جہاں جادوگرنیاں (Witches)ہمیشہ عورتوں کی ذات ہوتی تھی وہاں اُن کے پہچاننے والے ہمیشہ مرد ہوا کرتے تھے اور اُنکے پاس پراسرار (Occult)طاقت ہوتی تھی یعنی اسطرح ’پر اسپرو‘ کی جادوگری جائز مانی جاتی ہے۔ چونکہ وہ مردہے۔ طاقت کی سیاست میں طاقت ہمیشہ مرد کے ہاتھوں کا کھلونا ہوتی ہے۔
پس یہ ظاہر ہوتا ہے کہ’ دی ٹمپسٹ‘ جادو کا کوئی ہوائی فنطاسیہ نہیں ہے بلکہ اسطور سازی اور جنسی کشمکش میں طاقت کے لئے زور آزمائی ہے۔ ’پر اسپرو ‘کا ایک معاشی مقصد بھی سامنے آتا ہے: عورت یا اسکی نسل کو جائیداد سے محروم یا بے قبضہ کرنا۔ پہلے عورتوں کو جائیداد کے حقوق حاصل تھے مثلاً چاسر کی بیوی باتھ والی۔ از مُنہ قدیم میں بیوائیں حاشیہ زدہ نہیں تھیں لیکن بعد میں (جیسے ڈیوک آف ملفی میں)رویہ ہے کہ بیوہ دوبارہ شادی نہیں کر سکتی۔ اور مرد معاشرہ یہ حکم صادر کرنے کا مجاز ہے کہ ایک اکیلی عورت کو کیا کرنا اور کیا نہیں کرنا ہے۔ اس طرح نسائی آواز کو سلب کرنے کی کوشس سامنے آتی ہے۔ قبضہ اور بے دخلی کے Tropesاس ڈرامہ میں بھی ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہےں۔
یہ۹۰۶۱ءکا واقعہ ہے کہ انگریز آبادکاروں کا ایک جہاز ورجینیا‘جاتے ہوئے’ برمودا ‘کے جزیرے کے قریب طوفان کی زد میں آکر تہس نہس ہوگیا۔ اور اسطرح برتری حاصل کرنے کی حریفانہ کش مکش شروع ہوئی۔ یہ وہ حالات ہیں جن کے زیر اٹراس ڈرامہ کی بنیاد پڑی کیونکہ یہ بات مانی جا چکی ہے کہ شیکسپئر کو، اعلانات برمودامطبوعہ۰۱۶۱ ءتک رسائی حاصل ہو چکی تھی۔
نو آبادیا ت قبضہ کرنے اور حکمرانی کے لئے ہوتی ہیں۔ مردانہ حاکمیت کے اسکیم میں عورتیں بھی نو آبادیاتی رعیتوں کی سطح پر اُتار دی جاتی ہیں۔ اور اطاعت کی خاطر بزور شمشیرمجبور کی جاتی ہیں۔ لیکن جادوگرنیاں خود کار ہونے کے باعث مردانہ حاکمیت کے لئے خطرے کا سبب سمجھی جاتی تھیں۔ مشرقی قبائیلی معاشروں میں عورتیں معاشی اور جنسی آزادی سے فیض یاب تھیں ۔ (اپنے ساتھیشوہر چننے اور طلاق جدائی کے معاملوں میں)لیکن شیطان کے قبضہ قدرت میں آنے کے بہتان(ایک مردانہ تعمیر)سے جادوگرینوں کا قتل جائز قرار دیا گیا۔ ۳۰۶۱ءمیں جیمس اول نے ایک نئے قانون کے ذریعہ یہ اعلان کیا کہ جادوگرنی وہ ہے جس نے روحوں کے ساتھ رابطہ قائیم کر رکھا ہے۔ (traffic with spirits)وہ اسطرح شیطان سے ساز باز یا ہم نشینی کی مجرم ہوگئیں۔ یہاں’انکو بس‘ (Incubus)کے اسطور کا حوالہ دیا جا سکتا ہے جسکی روسے وہ شیطان کے بچوں کی ماں بنتی تھیں۔ اس لئے’ کالیبان‘ کو حرامی اور ناجائز قرار دیا جاتا ہے۔ عورت بھی ایک چیز یا نو آبادی ہے مرد کو جس پر قبضہ کرناضروری ہے اگر مرد اس کو قابو نہیں کرے گا تو شیطان اس پر قبضہ جما لیگا۔اس لئے ’کالیبان‘ کو ’سائکوریکس‘ اور شیطان کی مشترکہ اولاد ہونے کے ناطے انسانیت کے دائرے سے خارج کر دیا جاتا ہے شیطان قرار دیا جاتا اور جانور کے مساوی کردیا جاتا ہے۔ پراسپرو اس سے کہتا ہے کہ اے زہریلے غلام /شیطان کی اولاد اے بدقماش باہر آ۔ Act I scri II P 5
اور وہ نو آبادیاتی مخالف ‘ ذیلی متبادل نظام کا نمائندہ جواب دیتا ہے۔As wicked dew as e’er my mother brushed/with raveins’from unwholesome fen’/Drop on you both (Act I Sc ii P4-5)
All the charm’s of sycorax toads beetles, bats light.
On you(i.ii 5) اور پھریہ بھی : کہ تم نے زبان سکھائی©جس سے مجھے فائدہ ہوا کہ اب مجھے کو سنا آگیا ہےلال پلیگ تمہار صفایا کرے /©´مجھے تمہاری زبان سکھانے کے لئے (ایضاً )
تو اس تماشے میں بغاوت کو کچل دیا جاتا ہے جب ’کالیبان: اپنی ماں کی طاقت کو دعا کے سہارے بلاتا ہے۔(Invoking)اور’ پر اسپرو‘ بھی اسی پر عمل پیرا ہو کر جادوگرنی کے عمل کی کاٹ میں مصروف ہے۔
i will rack thee with old cramps fill thy bones with aches, make thee roar That beasts shall tremnble at their din (I,ii, P 6). بہ ظاہر نو آباد کا کنٹرول قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے تا کہ مقامی آبادی کو تہذیب سکھا سکے اور انصاف کو آگے بڑھاسکے۔اس طرح وہ اپنی موجودگی کو جائز قرار دینے کا جواز پیش کرتا ہے۔ خدااُس کی حمایت کر رہا ہے۔حکومت کرنا اور مقامی آبادی کو بے دخل کرنا اسکا حق ہے۔ غور فرمائے ،کس طریقہ سے’ کالیبان ‘کے پیدائشی حقوق کی بازیابی کی کوشس ناجائز قرار دی جاتی ہے۔ ’کالیبان‘ کا وہی حشر ہوتا ہے جوامیریکہ کے اصلی باشندے’ ریڈ انڈین ‘یا آسٹریلیا کے مقامی قبائیلی (aboriginals)کا جن کو مداخلت کار(Intruders)بنا کر حاشئے پر پھینک دیا گیا۔
نسل پرستی کا جو ننگا ناچ جنوبی افریقہ میں دو دہائیوں کے پہلے تک ہوتا رہا اسکے لئے تمام نام نہادمہذب دنیا بشمول برطانیہ فرانس امریکہ ذمہ دار ہے۔ اسکی تفصیل کا یہاں موقع نہیں لیکن ،مٹھی بھر سفید فاموں نے جس طرح مقامی آبادی کو صدیوں تک جوتیوں کی نوک پر رکھا، اُن کے مردوں سے کوڑوں کی زد پر بیگار لیتے رہے اور اُن کی عورتوں کو اپنے بستر گرم کرنے کے لئے استعمال کرتے رہے وہ بھی استعمار کے اس تصور کی زائیدہ تھی کہ سفید فام ساری دنیا کے استحصال کا حق رکھتے ہیں کہ مقامی آبادی اپنے معاملات طے کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتی اور امریکی نژاد حبشیوں کے ساتھ جو سلوک گذشتہ صدی کے وسط تک ہوتا رہا اور اب بھی اُن پر جو ظلم ہو رہا ہے وہ بھی الگ قصہ ہوتے ہوئے اسی نسلی برتری کا عکاس ہے۔
نسل پرستی، نو آبادیاتی نظام اور جنسی تفریق کے پس منظر کو سمجھنے کے بعد ہم پھر’ دی ٹمپسٹ‘ کی جانب رجوع کرتے ہیں۔ اس کے متن کی تفصیلات سے بہت کچھ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے لیکن حرف نا گفتہ یا متن کی خاموشی میںبھی کم از کم دومعافی دریافت کئے جا سکتے ہیں۔ اول غصب کر نے کا۔ (trope)اوردوئم جنسی تفریق کا (trope)ذوتضاد (Binary opposites) کے ذریعہ ہی متن کی تشکیل ہوتی ہے جسکی بنیاد ہے خوب بہ مقابلہ زشت ۔ زشت کی تعریف ہی شیطان اور ’غیر‘ بنانے کےلئے کافی ہے۔ انجام کار زشت کا بھوت بھگادیا جاتا ہے کہ اس کے جائز ہونے پر سوالیہ نشان کھڑا کر کے اس سے انکار کیا جاتا ہے۔نسائی خود مختاری جن کی نمائندہ پہلے کی عاقلہ عورتیں تھیں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا ہے اور ایک مردانہ تعمیر کے ذریعہ مسخر ‘مقبوضہ عورتوں کے ذریعہ نسائی خود مختاری کا سد باب کیا جاتا ہے۔ سگائی کا سلسلہ عورتوں کو گھر کی چہار دیواری کے اندر پالتو بنانے کے مترادف ہے کہ ریاست یا حاکم طاقتوں کے ذریعہ اسکے لئے بنے بنائے سانچے میں عورت کو ڈھالنا ضروری ہے۔ نسائی جنسیت کو پابند کر کے ایک ریاستی جائیداد کی طرح راہ پر لگانے کی مثال’ مرانڈا ‘کی شادی’ فرڈی نینڈ‘ کے ساتھ کر کے پیش کی جاتی ہے جبکہ اُنکی شادی کو ’مردانہ حاکمیت‘ کے مظاہرہ کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن ’سائکوریکس ‘بے لگام جنسیت کی نمائندگی کرتی ہے’ کالیبان‘ اپنے باپ کو جانتا تک نہیں ۔ ’سائکوریکس‘ غیاب کے باوجود وہ حریف ہے جو چیلنج کرتی ہے اسلئے اسکے علاقے غصب کر لئے جاتے ہیں اور اسکے بیٹے کو ناجائز قرار دیا جاتا ہے۔’ پر اسپرو‘اپنی بیٹی کو’ فرڈی نینڈ‘کے حوالے اسلئے کرتا ہے کہ وہ فرماں بردار ہے گویا بیٹی کو ایک انعام کی حیثیت حاصل ہے لیکن یہ تحفہ پیش کرتے ہوئے بھی وہ ’فرڈی نینڈپر یہ پابندی لگاتا ہے کہ جب تک تمام مقدس رسوم کی ادائیگی مکمل نہیں ہو جاتی اس کے (مرنڈا)کنوارپن کی گرہ کو نہیں توڑنا ہے اور اگر اس نے ایسا کیا تو اسکی سخت سزا کا حق دار ہوگا۔Then as my gift and thine own aquisition/worthily Purachased take my daughter: But/if thou dost break her virgin knot before/all sanctimonius ceremonies may/with full and holy rite be mininistery’d/………… Act iv Sc i, P,6
پس یہ ظاہر ہوا کہ عورت سوداگری کا حاصل شدہ مال )acquisition)نے۔ اسطرح ’پراسپرو ‘اور’ فرڈی نینڈ‘ آپس میں مال کا تبادلہ کرتے ہیں۔ ’کالیبان‘ کو غیر ضروری جبر یہ محنت کے خلاف بغاوت کی سزا ملتی ہے۔ ’مرانڈا ‘اور’ فرڈی نینڈ‘کی محبت اجازت یافتہ محبت ہے اور زیر اطاعت ہے۔ گویایہ زیرہدایت فنکاری ہے جبکہ’ کالبان‘ کا جنسی رویہ بے مہار اور افزایش نسل کی خاطر ہے۔ وہ ہنس کر کہتا ہےThou didst prevent me : I had peopled else . This isle with Calibans. Act I Sc ii P 5
مردانہ اجارہ داری کی ایک اور مثال: وہ اساطیری دیویاں جن کو بلایاجاتا ہے دعاﺅں کے ذریعہ ‘وہ بھی اُن کے اسکیم میں اسلئے داخل کی جاتی ہیں کہ اطاعت گزار ہیں۔ ’جونو ‘janoشادی شدہ عورتوں کی محافظہ ہے اور’ آئیرس‘ Iris زرخیز ہی اورفراوانی کی دیوی تصور کی جاتی ہے ۔ خاطر نشان رہے کہ یہاں ’وینس ‘Venusکو دیدہ و دانستہ باہر رکھا جاتا ہے کیونکہ وہ دیوی ہے محبت کی اور خودکار ہے۔ محبت یا نفسیاتی خواہش کی جسکی اجازت نہیں۔
آخر میں پراسپرو اپنا مقصد حاصل کر لیتا ہے اور اپنی طاقت کو اور مستحکم کر لیتا ہے۔ سب اسکے آگے سرنگوں ہو چکے ہیں۔ اس کا غاصب بھائی’ انٹوینو‘ حکومت سے ہاتھ دھو کر اپنے کئے کی سزا پا لیتا ہے۔’ کالبان‘ کی بغاوت کچلی جا چکی ہے۔’ فرڈی نینڈ‘نے فرماں برداری کی ہے اور’ مرانڈا ‘نے بھی اطاعت کو قبول کیا ہے اس لئے دونوں ازدواجی بندھن میں باندھے جا چکے ہیں۔ لیکن’ کالیبان‘ زمین زادہ ہوتے ہوئے اندھیرے کی چیز Thing of darknessہے اور اسکے اندر بے اطمینانی قائیم رہتی ہے۔ معاشرہ بہ ظاہر شرسے صاف کیا جا چکا ہے اور بہ ظاہر ہم آہنگی ہے لیکن اسکی تہہ میں دراڑیں موجود ہیں اور ارتفاعSublimationکا حصول ایک ظاہری بناوٹ facade ہے۔

Related posts

Leave a Comment