قمر جمیل نیرنگیٔ حواس کا شاعر ۔۔۔ خواجہ رضی حیدر

”تذکرہ نگار کہتا ہے کہ وہ صرف ان شاعروں کا ذکر کرے گا جو ابھی پیدا نہیں ہوئے۔ اُن کی تکنیک نئی ہوگی اور اُن کی شاعری شہری زندگی سے طلوع ہوگی مگر اُن کے گھروں کے سامنے ”شجرة الکون“ ہوگا یا گو تم کا درخت۔ اُن کے لفظ کبھی بہار کے پتوں کی طرح سبز اور کبھی خزاں کے پتوں کی طرح زرد ہوں گے“۔
یہ قمر جمیل کی نثری نظم ”تذکرہ گلشنِ جدید“ ایک اقتباس ہے۔ اِس نظم پر گفتگو کرنے سے قبل آئیے ذرا قمر جمیل کے ایک مضمون ”آزادی کا خوف اور معاشرہ“ میں ”استعارے“ کی ماہیت کے بارے میں اُن کی رائے کا بھی جائزہ لے لیں۔ قمر جمیل نے اس مضمون کے اختتام پر لکھا ہے کہ :
”میں استعارے سے نہیں ڈرتا۔ ہاں، اگر ڈرتا ہوں۔ خدا اور اس کے رسول ﷺ کے بعد کسی سے تو اپنے حشر سے ، جو آزادی اور جدیدیت ان دونوں مغربی انسان کے تصورات سے ہوسکتا ہے۔ یعنی اپنا فیصلہ مجھے ڈرا دیتاہے اور اسی لیے میں خداسے معاشرے اور فرد دونوں کے لیے صحیح فیصلہ کی توفیق چاہتا ہوں“۔
قمر جمیل کا یہی ڈر اور خوف دراصل اُن کی شاعری پر بھی محیط ہے اور اُن کی شاعری کا محرک بھی۔ یہ ڈر اور خوف دراصل لاحاصلی اور عدم شناخت سے پیدا ہوتا ہے۔ اس ڈر اور خوف کے بطن سے تشکیک نے جنم لیا ہے اور تشکیک کے بغیر جدیدیت کا تصور بے معنی ہے۔ قمر جمیل خود ہی سوال کرتے ہیں اور پھر سوال کا جواب ملنے سے قبل ہی ایک نئی حیرانی سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ وہ عصرِ حاضر کے ایک فہیم اور حساس انسان کی طرح پیچیدہ نفسیات کے حامل ہیں۔ یہ نفسیات اس وقت اور زیادہ پیچیدہ ہوجاتی ہے جب وہ اپنی تخلیقی جبلّت سے مغلوب ہوکر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کا ارادہ کرتے ہیں۔
قمر جمیل کی مندرجہ بالا نثری نظم کی روشنی میں اگر قمر جمیل کی تحلیل نفسی کی جائے تو یقیناً اس کے نتائج ایک غیر یقینی صورت ِ حال کے عنوان سے ظاہر ہوں گے۔ اس غیر یقینی صورت ِ حال نے قمر جمیل کو اپنے بارے میں کسی حتمی فیصلہ کی آرزو میں مقید کردیا ہے اور وہ اسی آرزو میں خدا سے معاشرے اور فرد دونوں کے بارے میں صحیح فیصلہ کی توفیق چاہتے ہیں۔ اسے ہم خدایانِ نقد و نظر کے ”جبرِ مصلحت“ کے خلاف قمر جمیل کی آوازِ احتجاج بھی کہہ سکتے ہیں۔ دراصل قمر جمیل کی یہ کیفیت اس بے قصور قیدی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے جس نے اپنی سزا کا حکم سننے کے بعد بارگاہِ رب العزت میں یہ دعا کی تھی کہ ”اے پروردگار، صاحبانِ اختیار کو توفیق دے کہ وہ میرے بعد آنے والے بے گناہوں کو انصاف فراہم کرسکیں۔ قمر جمیل کی یہ ”دعا“ ایک ایسے شخص کی دعا ہے جو مستقبل میں جھانکنے والی آنکھ رکھتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ نئی تکنیک کو شاعری کی اساس و بنیاد بناکر جو لوگ آئندہ آئیں گے ان کو بھی تذکرہ نگار نظر انداز کردے گا اور اُن سے بھی یہی کہے گا کہ ”وہ صرف ایسے شاعروں کا ذکر کرے گا جو ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں“۔ قمر جمیل تذکرہ نگاروں کی اس مصلحت آمیز جبریت سے خوب واقف ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ مصلحت کاری افراد کو ہمیشہ حق رسی سے روک دیتی ہے۔ اس لیے ہم عصروں کا واضح فیصلہ کبھی سچے فنکاروں کی تقدیر نہیں بن سکا۔ ذاتی کمزوریوں کے دباؤ میں دوسروں کی صحت سے انکار معاصرین کا ایک دائمی رویہ رہا ہے۔ اس رویہ کا شکار اُردو شاعری میں ایسے تمام افراد ہوئے ہیں جنہوں نے نئی تکنیک کو اپنایا اور روشِ عام سے ہٹ کر اپنی بات کہنے کی کوشش کی ہے۔ مزید یہ کہ جدید ٹیکنالوجی کے تناظر میں پیدا ہونے والے مابعد الطبیعاتی مسائل کے نتیجے میں جو جدید حسّی لہر نمودار ہوتی ہے، اُسے بھی کج فہم معاصر ، کبھی تحسین کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔ چنانچہ جدید حسیت کے اظہار پر اکثر لوگ چونک پڑتے ہیں اور اسے لایعنیت قرار دینے لگتے ہیں۔ اور ایک لمحہ کو بھی وہ یہ نہیں سوچتے کہ ادب میں نئے رجحانات یا تحریکوں کا آغاز سرکشی یا بغاوت سے ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ سرکشی یا بغاوت حکومت ِ وقت کے خلاف ہو۔ اس کا ہدف معاشرتی رویےّ فرسودہ اقدار اور شاعر کی خود اپنی ذات بھی ہوسکتی ہے۔ جدیدیت کا سرچشمہ دراصل قوت ِ نفی ہے۔ اس لیے جس تخلیق کار میں نفی کی قوت زیادہ ہوگی، وہی جدید حسیت کا نمائندہ قرار دیا جائے گا۔
قمر جمیل اپنی فکری تہذیب اور قوت ِ اظہار کے اعتبار سے بنیادی طور پر ایک اہم شاعر ہیں۔ اگرچہ اُنہوں نے نثری ادبی تنقید کی جانب بھی توجہ دی ہے لیکن شاعری اُن کی وحدت کا مرکزی نکتہ ہے۔ اسی مرکزی نکتہ کے گرد قمر جمیل کی وحدت ایک ”تکثیری عمل“ سے گزرتی ہے اور وہ مختلف خانوں میں تقسیم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مگر ان خانوں میں بٹ جانے کے باوجود نہ تو اُن کی شناخت تقسیم ہوتی ہے اور نہ ہی اُن کا شاعر ہونا مشکوک نظر آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس ”تکثیری عمل“ میں بسا اوقات از خود تشکیک کے گہرے پاتال میں اُترجاتے ہیں مگر اس کے باوصف وہ اپنی بازیافت میں مصروف دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اپنی بازیافت ایک جدید شاعر کا بنیادی وصف ہوتا ہے۔ قمر جمیل ”نیل کا سیلاب“ اور ”دجلہ کے خواب“ جیسی مرصّع پابند نظموں کے ساتھ ایوانِ اظہار میں داخل ہوئے اور بہت جلد غزل کے اسیر ہوگئے۔ پھر غزل کی حرارت جب ان کے احساس میں جذب ہوگئی تو اُنہوں نے ایک جھرجھری لے کر نثر کا دامن تھام لیا۔ نقد و نظر کے گلشن میں خوب چہچہے کیے اور پھر آزاد نظم کو اپنالیا، یہاں بہت ہجوم تھا۔ اس ہجوم میں قمر جمیل کو نہ صرف اپنا دَم گھٹتا ہوا محسوس ہوا بلکہ اُن کو اپنی شناخت بھی مجروح ہوتی دکھائی دی، چنانچہ اُنہوں نے اس ہجوم سے باہر نکلنے کے لےے ایک زقند بھری اور انسان کے ابتدائی ذریعہ اظہار یعنی خط کشی اور رنگ آمیزی کے آنگن میں پہنچ گئے، یہاں اُنہوں نے نیرنگی حواس کو کینوس پر منتقل کرنا شروع کردیا، مگر یہاں بھی اُن کو طمانیت کی وہ فراوانی میسر نہیں آئی جس کی جستجو میں اُنہوں نے خود کو ”تکثیری عمل“ کے آتش کدے میں جھونک دیا تھا۔
بالآخر قمر جمیل نے واپسی کا ارادہ کیا مگر اب اُنہیں خود کو انفرادیت سے دوچار کرنے کے لیے اپنی قوتِ متخیّلہ کے سہارے ایک سرنگ بنانی پڑی۔ یہ سرنگ نثری نظم تھی۔ اس مرتبہ وہ اہلِ روایت کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے اور اُن افراد نے اپنے تبراّئی اسلحہ خانے کا رخ اُن کی جانب موڑ دیا۔ ہرطرف سے ہاہاکار ہونے لگی۔ کسی نے کہا قمر جمیل اپنی شکستوں پر فتح پانے کے لیے یہ حربے استعمال کررہا ہے، کسی نے کہا کہ غزل کے مزاج اور آہنگ میں جو پرکشش تبدیلی آئی ہے اس سے خوف زدہ ہوکر وہ اسلوب کے تجربے کررہے ہیں، کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ایک راہ گم کردہ شہزادہ ہے جو اپنے ہمزاد کی تلاش میں کوہِ قاف کی جانب نکل گیا تھا اور اب چراغِ الہ دین لے کر شہر میں واپس آگیا ہے۔یہ اور اسی قسم کی دیگر آرا جن سے حسد، رشک اور عدم مسابقت کا خوف ظاہر ہوتا تھا ادبی حلقوں میں نہ صرف تیزی کے ساتھ گردش کرنے لگیں بلکہ قرطاس و قلم کے ذریعہ بھی بعض معاصرین نے مباہلہ کیا۔ مگر قمر جمیل جو اندر سے ایک منصوبہ بند آدمی تھے، اپنا کام کرتے رہے، اور آخر کار اُنہوں نے اپنی بعض تخلیقات کے حوالے سے یہ بات تسلیم کروالی کہ وہ جدید حسیت کے ایک اہم شاعر ہیں۔
قمر جمیل کی شاعری میں مادّی شانِ تکلم نہیں بلکہ ایک رُوحانی منکسرُ المزاجی ہے۔ یہ منکسر المزاجی اُن کی وسیع المشربی کی دین ہے۔ ایسی وسیع المشربی جس کا کسی ایک مخصوص نظریہ سے بظاہر کوئی علاقہ نہیں ہوتا لیکن بباطن یہ ایک وحدت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ اسی قسم کی وحدت کو ”تکثیری وحدت“ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہی تکثیری وحدت اپنے کسری زاویوں کے ساتھ اُن کے شعری مجموعے ”چہار خواب“ میں تحلیل ہوگئی ہے۔ یہ چہار خواب دراصل قمر جمیل کی شاعری کے چار اَدوار ہیں جو اُن پر خواب کی طرح وارد ہوئے ہیں۔
قمر جمیل کی شاعری میں پریاں، شہزادے، شہزادیاں، تخت و تاج، چترشاہی، محل، محراب و مینار، خدام، عود و عنبر، مبغچے، شہرزاد، امیرانِ قبیلہ، شیوخِ پختہ عمر، مقبرے، پرچم، نیلم پری، لیلیٰ مجنوں، قیسِ عامری، نخلستان، صحرا، سراب، سورج، سمندر، دریا، ملاح، قزاق، جہاز و لنگر، سرخ گھوڑے، شکاری، جنگل، طاوس اور طائرانِ خوش رنگ جیسی لفظیات بھی موجود ہیں۔ یہ لفظیات جہاں قمر جمیل کی نفسیاتی پیچیدگیوں کو ظاہر کرتی ہیں، وہاں اس بات کا بھی پتہ دیتی ہیں کہ جدید حسیت سے بہرہ ور ہونے کے باوجود قمر جمیل اپنے تہذیبی حسن اور روایتی کشش سے گریزاں نہیں بلکہ اس لفظیات کے سہارے وہ اپنے اس کرب پر غلبہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جو ”اسٹار وار“ کے معاشرے نے اُن پر مسلط کردیا ہے۔ اُن کی نظمیں ”ایک منظر“، ”شہزادے کی موت“، ”آخری سلام“ اور ”قیس کا مکان“ پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قمر جمیل ابھی تک اپنے بچپن میں سنی ہوئی کہانیوں کی گونج میں حیرت زدہ کھڑے ہوے ہیں اور ہر اس چیز کی حقیقت کو جاننے کے خواہش مند ہیں جو فی زمانہ ”ماورا“ کا درجہ رکھتی ہے۔ ایسی حیرت زدگی میں وہ زندگی کی بے ثباتی، گم شدہ معنویت ، نفسانی کیفیت، طبیعاتی جبریت اور اقتصادی استحصال پر دل گرفتہ نظر آتے ہیں۔

کیسی یہ قیامت ہے آسمان سے آگے
لامکان رہتا ہے ہر مکان سے آگے
مگر اپنی زندگی ہے وہی اک قبائے ماتم
جو عجیب لگ رہی ہو کسی عمرِ رائیگاں پر
یہ ستاروں میں بھٹکتی ہوئی رات
ہم اسے اپنی تھکن جانتے ہیں
ایک پتھر جو دست ِ یار میں ہے
پھول بننے کے انتظار میں ہے
یہ پیالہ ہے کہ دل ہے یہ شراب ہے کہ جان ہے
یہ درخت ہیں کہ سائے کسی دست ِ مہرباں کے
شہر میں سب کی غیبتیں مجلسوں میں نوا گری
پھر بھی مرے لہو میں ہے ایک عجب قلندری
میں بے بسی کی سمجھتا ہوں مصلحت ورنہ
کبھی کبھی دمِ خنجر خطاب کرتا ہوں
طلسمِ شوق سے جلتا ہے غم کدے کا چراغ
پرندہ بن کے چہکتا ہے ایک مردِ ضعیف
کیوں سن رہے ہیں لوگ بہاروں کی گفتگو
یہ میرے گھر کی شام سے آکر سوال کر
جیسے عدم سے آئے ہوں لوگ عجیب طرح کے
جن کا لہو سفید تھا جن کا کلیجہ شق نہ تھا
اُس سے کلام کرکے عجب روشنی ملی
ہم جیسے آدمی کے لیے غیب کیا ضرور
چاند جیسے نکلنے والا ہے
آپ کے ہاتھ کی لکیروں سے
دیکھو وہ آبِ جو میں پھر چاند کا ایک عکس ہے
میری ہی جستجو میں پھر چاند کا ایک عکس ہے
میں ہی نہیں اپنی فغاں کا سبب
تو بھی میرے سینہ سوزاں میں ہے
ہم یہاں تک ایک دریا سے اتر کر آئے تھے
اب لہو سے سرخ اپنا آسماں بھی کرچکے
میں سوچ رہا ہوں کہ تری یاد سے پوچھوں
یہ پھول یہ شاخوں پہ دیے کس نے جلائے
ہم اندھیروں میں رہنے والوں تک
یہ اُجالے کہاں سے آئے ہیں
جاگ رہے ہیں خواب میں بھی
نیند میں بھی ہے نیند حرام
میرے ہی لہو میں سرد ہوگا
ہر شام یہ آفتاب جیسے
ہمیں شاعر کہو صاحب کہ ہم جلسے میں یاروں کے
سناکر شعر کچھ اپنے ہوا کے ساتھ ناچیں گے

قمر جمیل کی شاعری چوں کہ نیرنگی حواس کی آئینہ دار ہے، اس لےے اُن کی شاعری میں بہت نازک احساسات اور بہت دقیق مسائل بیک وقت موجود ہیں۔ بقول کسے اشعار کیا ہیں بس اِک ”شرارِ معنوی“ گردش میں ہے۔ علائم و رموز کے بے ساختہ استعمال نے اس کے یہاں صوری اور معنوی حسن کی گنجائش پیدا کردی ہے۔ فراق صاحب نے لکھا تھا کہ ”جب سوز و گداز میں پختگی آجاتی ہے تو غم غم نہیں رہتا بلکہ ایک روحانی سنجیدگی میں بدل جاتا ہے“۔ قمر جمیل کے یہاں یہ روحانی سنجیدگی بعض اوقات تصوف کے دائرے میں بھی داخل ہوجاتی ہے۔ قمر جمیل کا یہ تصوف اکتسابی نہیں بلکہ الحاقی ہے۔ اُن کے شجرئہ نسب میں حضرت آسی غازی پوری اور سیدنا وکیل احمد سکندر پوری کے چہرے نمایاں ہیں۔ حضرت وکیل احمد سکندرپوری مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد کے ہندوستان میں ایک معروف و اہم عالم دین اور مصنف تھے۔ اُن کی کتابیں آج بھی اُن کے علمی تبحر پر گواہ ہیں۔ یہ قمر جمیل کے دادا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر وہ لہو کی اس آمیزش سے کنارہ کش ہونا بھی چاہیں تو اُن کی رُوح ایک محتسب کا رُوپ دھارلیتی ہے

ستارے ہاتھ میں لے کر خطاب کرتا ہوں
میں آسمان سے اکثر خطاب کرتا ہوں
رات دریا آئینے میں اس طرح آیا کہ میں
یہ سمجھ کر سوگیا دریا نہیں اک خواب ہے

وحدتُ الوجود قمر جمیل کا مسئلہ ہے اور اس مسئلہ کے اظہار کے لیے اُنہوں نے آئینہ کو بطور استعارہ لکھا ہے۔ وہ ہر وحدت کو تکثیری دیکھنا چاہتے ہیں کیوںکہ ُان کے خیال میں ”وحدت“ بالذات جامد اور استقراری ہے اور جب یہ وحدت تقسیم ہوتی ہے تو ظہور کی دلیل بن جاتی ہے۔ اکثر صوفیا نے فلسفہ وحدت الوجود کی تشریح میں آئینہ کو تلمیحاً لکھا ہے۔ مولانا جلال الدین رومیؒ فرماتے ہیں کہ

آئینہ اے کردم عیاں
رُویش دل و پشتش جہاں
یا پھر بقولِ غالب
جلوہ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

مرزا مظہر جانِ جاناں اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں کہ ”اہلِ کمال کی نسبت انعکاسی ہے جیسے آئینہ میں سورج کی روشنی۔ اس کے لیے خاصا وقت چاہیے کہ باطن کے انوار بھی آئینہ میں اپنی جلوہ نمائی کرسکیں اور یہ انعکاس یقین میں بدل جائے“۔
بعض متکلمین نے اس نسبت کو صانع اور مصنوع کے رشتے سے تعبیر کیا ہے۔ جیسے کوزے کا کمہار سے رشتہ ہوتا ہے۔ وحدت الوجود کے ماننے والے اس نسبت کی تعبیر کثرت میں وحدت کے ظہور سے کرتے ہےں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کثرت ہماری حقیقی وحدت میں کبھی مزاحم نہیں ہوتی اور ہمہ وقت امکان کی پستی سے وجوب کی بلندی کی جانب مسافت جاری رہتی ہے۔ قمر جمیل کا تکثیری عمل بھی دراصل اسی فلسفہ کا غماز ہے۔ اس لیے اُن کے وجدان نے اپنے اظہار کے لیے آئینہ کو استعارہ بنالیا ہے۔ اس کے نزدیک ”عالم ہمہ مراتِ جمالِ ازلی است“ ایک حقیقت ہے۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں

خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کا دکھانا مشکل ہے
آئینے میں پھول کھلا ہے ہاتھ لگانا مشکل ہے
کیسا طلسمی شہر تھا جس کے طفیل رات بھی
میرے لہو میں گرد تھی آئینہ شفق نہ تھا
آج گھر کے آئینہ میں صبح سے اک شخص ہے
اور کھڑکی میں ستارے شام سے پیچیدہ ہیں
جگمگائیں گے محبت کے یہ آئینے جمیل
تم ذرا سامنے اِک شمع جلاکر دیکھو
اپنی تصویر کھینچتا ہوں میں
اور آئینہ انتظار میں ہے
ہزار بار آئینے گرے ہیں میرے رُوبرو
یہ بجلیاں سی ہر طرف یہ روشنی سی چار سو
آئینہ رکھ لو کہ اِس میں نظر آؤں گا پھر
اور اپنی یہ دکانِ لعل و گوہر بیچ دو

اس باب میں قمر جمیل کا تجربہ انفرادی نہیں بلکہ وہ اپنی ذات کے حوالے سے ایک اجتماعی تجربہ کو موضوع بناتے ہیں اور یہ تجربہ اُن کے لیے کہیں کہیں ایک وجودی حقیقت بن گیا ہے۔ وجودی چوں کہ اوہام پرست ہوتا ہے اس لیے قمر جمیل کی شاعری میں بھی یہ اوہام پرستی چہرہ نمائی کرتی ہے اور بسا اوقات لایعنیت کے دائرے میں آجاتی ہے۔ ایک مغربی نقاد کا کہنا ہے کہ ”خالص شاعری ایک واہمہ ہے“ جو ابہام اور علامتوں سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے ایسی شاعری ایک عام قاری کو لایعنی دکھائی دیتی ہے۔ قمرجمیل کی ایک غزل نے وجود کی اس پوری حکایت کو بڑی چابک دستی سے اپنے اندر سمیٹ لیا ہے

اپنے سب چہرے چھپا رکھے ہیں آئینے میں
میں نے کچھ پھول کھلا رکھے ہیں آئینے میں
تم بھی دنیا کو سناتے ہو کہانی جھوٹی
میں نے بھی پردے گرا رکھے ہیں آئینے میں
پھر نکل آئے گی سورج کی سنہری زنجیر
ایسے موسم بھی اُٹھا رکھے ہیں آئینے میں
میں نے کچھ لوگوں کی تصویر اتاری ہے جمیل
اور کچھ لوگ چھپارکھے ہیں آئینے میں

نثری نظم بھی شاعر کی تخلیقی جبلت کی ایک پرقوت مظہر ہوتی ہے۔ گزشتہ دس پندرہ سال میں نئے تخلیق کاروں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ ہی ساتھ مروّجہ اصنافِ شعر کے کچھ ثقہ افراد نے بھی نثری نظم کو ذریعہ اظہار کے طور پر اپنا یا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جدید حسیّ رَو کے حوالے سے جہاں خیال و فکر میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، وہاں اسی حوالے سے ہیئت اور اسالیب میں بھی تبدیلی ممکنہ ہے۔ جہاں تک نئے تخلیق کاروں کا تعلق ہے، ان کی بیشتر نثری نظمیں ”خیال اور آہنگ“ کے کسی نمایاں تجربے کی کوئی اچھی مثال نہیں بلکہ بسا اوقات ان کو پڑھ کر اِن پر اچھی نثر کا گمان بھی نہیں گزرتا ہے۔ بعض افراد کا خیال یہ ہے کہ نثری نظم کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کا خالق روایتی معنی میں شاعر بھی ہو، لیکن ہمارا شعری وجدان ہر لمحہ یہ گواہی دیتا نظر آتا ہے کہ نثری نظم لکھنے کے لیے تخلیق کار کا بنیادی طور پر شاعر ہونا ضروری ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر نئے تخلیق کاروں کی نثری نظمیں پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ ان نظموں کا خالق کوئی افسانہ نگار ہے، شاعر نہیں کیوںکہ شاعر کی تخلیق کردہ نثری نظموں میں نہ صرف صوتی آہنگ ہوتا ہے بلکہ ایک تہہ دار معنویت بھی ہوتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک افسانہ نگار یا نثر لکھنے والے کی موضوع یا خیال پر گرفت زیادہ مستحکم ہو لیکن وہ اظہار کے اُس بین السطوری لحن سے محروم رہتا ہے جو نثر کو بھی شاعری بنادیتا ہے۔ اسی بنیاد پر نثری نظم کے وکلاءکا ایک طبقہ دیگر اصنافِ شعر کی مروّجہ پابندیوں سے انحراف کرنے کے باوجود یہ کہتا ہے کہ نثری نظم صرف شاعر ہی لکھ سکتا ہے، کیوںکہ اُس کے ہاں ساخت اور اسلوب سے ایک کھلی بغاوت کے باوجود ہماری شعری روایت سے ایک ربط ظاہر ہوتا رہتا ہے۔
نثری نظم کی ہیئت، اسلوب اور موضوع پر بحث سے قطع نظر نثری نظم کے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اسے ابھی تک برصغیر میں خلاقانہ سنجیدگی کے ساتھ اپنایا نہیں گیا۔ اسی لےے نثری نظم ایک معتبر
صنف ِ سخن کی حیثیت سے متعارف نہیں ہوسکی۔ ایسا اس لیے بھی ہوا کہ نثری نظم کی جانب ابتداً ان افراد نے توجہ دی جو یا تو تخلیقی سطح پر کوئی امتیازی جوہر نہیں رکھتے تھے یا شعر کے حوالے سے اپنی شناخت کے سفر میں بہت جلد تھک گئے تھے۔ اگر نثری نظم فراق و فیض جیسے قدآور شعرا کے حوالے سے متعارف ہوتی تو یقیناً اس کو ایک سنجیدہ صنف ِ سخن تصور کیا جاتا بلکہ قابلِ تقلید بھی قرار پاتی۔ عباس اطہر، انیس ناگی، زاہد ڈار، ندا فاضلی، احمد ہمیش، افتخار جالب اور امرتا پریتم کی نثری نظمیں پڑھ کر یہ احساس اور زیادہ شدید ہوجاتا ہے کہ یہ تمام افراد اپنے مشاہدہ اور اپنی نفسی پیچیدگیوں کو بے ربط علامتوں اور بے رُوح الفاظ کے سہارے پیش کررہے ہیں جس کی بنا پر نثری نظم اُردو کی شعری روایت کا معتبر حصہ بننے کے بجائے ادب میں فیشن کی علامت بن گئی ہے۔
اوزان کی پابندی کرنے والے شعرا کی ایک بڑی اکثریت نثری نظم کو بطور ”صنف ِ شعر“ تسلیم کرنے سے نہ صرف کتراتی ہے بلکہ نثری شاعری کرنے والوں کو ”درجہ سوئم کا مسافر“ تصور کرتی ہے۔ اس کے برخلاف کچھ شعرانے اپنی عمومی شاعرانہ مقبولیت کے باوجود تجرباتی طور پر نثری نظمیں لکھی ہیں اور وہ اپنی ان کوششوں میں بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ ان شعرامیں قمر جمیل، رئیس فروغ، رسا چغتائی، کشور ناہید، افضال سید، ثروت حسین، ثروت سلطانہ، عذرا عباس اور تنویر انجم وغیرہ شامل ہیں۔ خصوصاً قمر جمیل نے نثری نظم کو ایک طاقتور صنف ِ سخن کی حیثیت سے پیش کرنے میں اپنی پوری توانائی صرف کردی ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ نثری نظم کا آغاز بھی دراصل جدید حسی رَو کا مرہونِ منت ہے، برق رفتار سائنسی ترقی نے جہاں کاروبارِ جہاں کو سمیٹ دیا ہے ، وہاں انسان کو ایسے نت نئے مسائل میں اُلجھادیا ہے کہ اس کے پاس وقت تنگ ہوگیا ہے اور وہ خود کو تغیر کی اس تیز رَو سے ہم کنار کرنے کے لےے بڑی عجلت کا شکار ہے۔ اس عجلت نے اس کے اندر انتشار پیدا کردیا ہے اور یہ انتشار اس کی قوت ِ متخیّلہ کا جزو بن گیا ہے۔ چنانچہ فکری تسلسل اس کی نفسیات سے متصادم نظر آنے لگا ہے۔ جدید انسان کی ہمہ وقت یہ کوشش ہے کہ وہ تخیل کی متحارِب اور متضاد لہروں کو من و عن بیان کردے۔ نثری نظم دراصل جدید انسان کی ان ہی متضاد اور متحارب لہروں کی وحدت ِ مخفی کا ایک شاخسانہ ہے۔
قمر جمیل نے بھی اپنے سابقہ شعری امتیاز کے باوجود نہ صرف نثری نظم سنجیدگی کے ساتھ لکھی بلکہ نثری نظم کے دفاع میں ایک طویل استدلال بھی پیش کیا۔ میں نے ابتداً نشاندہی کی تھی کہ نثری نظم قمر جمیل کی سرنگ ہے۔ اس سرنگ کے ذریعے اُنہوں نے خود کو وہاں لاکھڑا کیا ہے جہاں انسان نہ صرف توجہ کا مرکز بلکہ موضوعِ بحث بن جاتا ہے۔ قمر جمیل کو اپنی ہی پیدا کردہ اس صورت ِ حال میں بیک وقت دو محاذوں پر خود کو منظم کرنا پڑا۔ ایک طرف اُنہوں نے نثری نظم کو ”اسلوب کا ایک حسین تجربہ“ ثابت کرنے کے لےے موثر نثری نظمیں لکھیں۔ اور دوسری طرف تخلیق کاروں کو آمادہ کیا کہ وہ بھی نثری نظمیں لکھیں۔ اس مقصد کے لیے اُنہوں نے ادبی حلقوں میں نثری نظم کی ہیئت ، موضوع اور تکنیک کی وضاحتیں پیش کیں۔ جس کی وجہ سے اُن کی تخلیقی توانائی تقسیم ہوگئی اور اُنہوں نے عددی اعتبار سے اس قدر نثری نظمیں نہیں لکھیں جس قدر اُن کے مقلدین نے لکھی ہیں۔ مگر اس عددی برتری سے قطع نظر قمر جمیل کی نثری نظموں میں ایک فلسفی شاعر مکالمہ کرتا ہوا نظر آتا ہے، ایسا مکالمہ جو تخلیق کی قوتوں اور جدید عصری مسائل کا آئینہ دار ہے۔ اُن کی ایک نظم ”میں ایک دئیے کی طرح بلندیوں پر جل رہا ہوں“ ایک وجودی کی نفسی پیچیدگیوں کی غماز ہے۔ وہ کہتے ہیں

میں اپنے گھر میں
دئےے کی طرح
جلنا چاہتا تھا
مگر اب
ایک فلیٹ میں
بلب کی طرح جل رہا ہوں
اگر کوئی مجھے
بجھانا چاہتا ہے
تو میرے بچے
پھر مجھے جلادیتے ہیں

قمر جمیل کی نثری نظموں میں ”سپر کیٹ“ بھی ایک وجودی کے احساسِ مرگ کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ ایک علامتی نظم ہے جس میں قمر جمیل نے ایک اندھی بلّی کو جو اُن کے دروازے پر ہر وقت بیٹھی رہتی ہے موت کا استعارہ بنایا ہے، اس طرح انہوں نے تخیّل کی متحارب و متضاد لہروں کو ایک وحدت ِ مخفی کا تابع کردیا ہے۔

میرے گھر کے دروازے پر
اِک اندھی بلّی رہتی ہے
جو مجھ سے کہتی ہے
میں آؤں۔ میں آؤں

”سپر کیٹ“ اپنے آغاز سے اختتام تک ایک عجیب سی پُراسراریت رکھتی ہے، مگر فکر کی بے ربطی میں تلازماتی ربط موجود ے۔ ”برگد کی چھاؤں لالچ کی دھوپ سے بہتر ہے، رات اتنی بھیانک ہے ، گھر کی دیواروں پر کانچ کے ٹکڑے اور سیاروں کی آوازیں پہرہ دیتی ہیں“۔ یہ اور اس طرح کی دوسری لائنیں یہ اطلاع دیتی ہیں کہ جدید انسان کو درپیش مسائل اس نظم میں ایک کلیہ کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔ پوری نظم پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ گھر کے دروازے پرموجود اندھی بلی ایک دن تمام اخلاقی ضابطے توڑ کر بغیر اجازت اندر آجائے گی اور تمام تر ترقی کے باوجود یہ واضح کردے گی کہ ان کائناتی گردشوں میں موت ہی واحد حقیقت ہے۔
قمر جمیل کی ایک اور نثری نظم ”ایک پینٹنگ“ بھی دراصل ”آنکھ کا عکس“ سے مکالمہ ہے۔ ہر منظر کے پس منظر میں کچھ ہوتا ہے جو بظاہر دکھائی نہیں دیتا، لیکن اسے دیکھنے کی تمنا آنکھ کو تجسس کا اسیر رکھتی ہے۔ غیر موجود کو موجود کے دائرے میں لانے کی یہی خواہش اس نظم کا مرکزی خیال ہے جس کو قمر جمیل نے حکایتی پیرائے میں لکھا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ جو غائب ہے وہ ماورا ہے اور ماورا کا وجود میں آنا عقل اور کتابوں کی رُو سے ناممکنات میں داخل ہے۔نظم ملاحظہ کریں

محرابی درخت، ننگی عورتیں اور اُن کے سینوں پر رکھے ہوئے
سرخ سیب!
میں اس پینٹنگ میں اپنے آپ کو تلاش کررہا ہوں
مصور نے مجھے درختوں کے پیچھے کہیں چھپادیا ہے
لیکن میں اِن درختوں سے
ایک دن نکلوں گااور ان عورتوں سے کہوں گا
میں ہی تو وہ شخص ہوں
جس کا تم انتظار کررہی ہو
لیکن منصور نے اپنی بیاگرافی میں لکھا ہے
کہ وہ مجھے درختوں سے
باہر نکلنے کی اجازت کبھی نہیں دے گا

قمر جمیل اپنے اظہار میں بے تکان اور بے ساختہ تھے۔ اظہار کی اس صورت ِ حال نے اُن کی شخصیت میں ایک اجنبی مانوسیت پیدا کردی تھی۔ نہ صرف نوواردوں کے گروہ اُس کے گرد حلقہ کرنا ایک ادبی روایت تصور کرتے تھے بلکہ کچھ پختہ کار بھی قمر جمیل کی صحبت کو ادب کے جدید رجحانات سے آگاہی حاصل کرنے کا ایک معتبر ذریعہ سمجھنے لگے تھے۔ مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ قمر جمیل کی صحبت اور قربت سے نہ تو تازہ وارد ہی مکمل فیضیاب ہوپاتے تھے اورنہ ہی پختہ کار۔ بعض اہل رائے کا کہنا ہے کہ یہ صورت ِ حال دراصل قمر جمیل کی ارتعاشی سطح تک اُن کے مقربین کی فکری رسائی نہ ہونے کی بنا پر پیدا ہوئی تھی۔ بہرحال گزشتہ تیس سال کے دوران نئے لکھنے والوں کی ایک بہت بڑی کھیپ ایسی تھی جس کی ابتدائی تربیت قمر جمیل نے کی تھی۔ اگرچہ بعد میں ان میں سے اکثر عملی طور پر قمر جمیل کے حلقہ ارادت سے باہر نکل گئے، تاہم قمر جمیل کی لفظیات اور لب و لہجہ ان کی تخلیقات میں آج بھی ظہور کرتا رہتا ہے۔ خود کو دوسرے کی سوچ کا حصہ بنادینا ہی قمر جمیل کی ایک ایسی صلاحیت تھی جس کا منفی یا مثبت اقرار دُور و نزدیک ہر شخص کرتا رہتا ہے۔ قمر جمیل کی شاعری دراصل اُن کی اُفتادِ طبع سے جلتی بجھتی رہتی تھی۔ وہ اپنی شاعری میں خود بولتے ہوئے نظر آتے تھے۔ اپنی آواز میں بولنا اور اپنی لہر میں رہنا ہی دراصل قمر جمیل کی شاعری اور شخصیت کا حسن تصور کیا جاتا رہا ہے۔

Related posts

Leave a Comment