ایک اچھا انسان،ایک اچھا شاعر ۔۔۔ حکیم سروسہارنپوری

ایک اچھا انسان،ایک اچھا شاعر

جب میں اپنی پاکستان میں گزری ہوئی اٹھاون سالہ زندگی پر نظر کرتا ہوں تو علمی،ادبی،سماجی اور سیاسی شخصیات کا ایک جمِ غفیر ہے جو میرے حافظے کے ایوان میں اپنے اپنے مقام پر سجا ہوا دکھائی دیتا ہے۔یہ وہ لوگ ہیں،جن سے میں ملا،جنہیں قریب سے دیکھا،جنہیں اپنے فکر و خیال سے پرکھا اور لوحِ ذہن پر ان کے نقوش محفوظ کر لیے۔ان کے حسن سلوک میں بے غرضی کے جلوے بھی ملے اور کہیں کہیں خود غرضی کے تاریک جزیرے بھی ڈھکے چھپے نظر آئے ظاہر ہے کہ کسی انسان کی ذات کی تکمیل بھی بلحاظِ کل ممکن نہیں۔ان شخصیات میں بعض ایسی بھی ہیں کہ جن پر اگر کبھی خواب میں بھی کچھ کہنے کا خیال آجائے تو ان کی شخصیت کے اتنے پہلو ہیں کہ قوتِ بیان گنگ ہوتی نظر آتی ہے اور اظہارِ خیال کے لیے الفاظ نہیں ملتے۔لہٰذا مجھے جب کبھی کچھ کہنے یا لکھنے کا خیال آیا تو بے شمار مقالے لکھنے کے باوجود اپنے اسی عجز وانکسار کے اعتراف میں خاموشی ہی کو غنیمت جانا اوردل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعائیں محبت کی نگاہوں میں ڈھل کران کے چہروں پر گڑ گئیں اور اس عالم محویت میں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے نظرواپسی کا سفر بھی بھول گئی ہو۔
ایسی ہی خیال افروز اور بصیرت نواز شخصیت شعر و ادب،حسن سلوک اور انسان دوستی کے حوالے سے اختر ہوشیار پوری کی بھی ہے۔میرا اور ان کا تعارف۱۹۴۹ء میں ہوا،اور یہ تعارف بڑا مہماتی تھا۔ان کے ساتھ تعارف،ان کی شخضیت اور ان کی شاعری پر گفتگو کرنے سے پہلے میں راولپنڈی شہر کی ادبی فضا اوراپنے ادبی و شعری ذوق کے بارے میں کچھ بات کرنا چاہوں گا۔
پاکستان بننے کے فوراً بعد انتقال آبادی کی صورت میں راولپنڈی شہر اس لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا کہ یہاں جی،ایچ،کیو تھا۔ ایم،اے،جی اورسی،ایم، اے اور سی،سی،ایم کے دفاتر تھے۔ لہٰذا پورے برصغیر سے تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک بڑے کھیپ راولپنڈی کے حصے میں آئی۔ خود راولپنڈی میں بھی مقامی شاعروں اور ادیبوں کا ایک نہایت معروف اور قابل ذکر گروہ پہلے سے موجود تھا۔عبدالعزیز فطرت،صادق نسیم، رشید نثار،عبدالحمید عدم،باقی صدیقی،سید مصطفیٰ شاہ،خالد گیلانی،غلام قادر غبار یہاں پہلے سے جلوہ افروز تھے۔مہاجرین کی آمد سے شعراو ادبا کا ایک بڑا گروہ بھی راولپنڈی آگیا۔اس گروہ میں علامہ اجل انبالوی،حافظ مظہر الدین،وصف وارثی،وصف ناروی،فطرت دہلوی،علامہ جدت میرٹھی،نیاز لکھنوی،تابش برنی،ابو محمد منتصر،کمال کاس گنجوی،نسیم میرٹھی،نواب یزدانی،گلزار نسیم،قمر رعینی،ساغر وارثی،یوسف بچھرایونی،اقبال سیفی،امین راحت چغتائی،احمد معصوم،شبنم صدیقی،صفیہ شمیم ملیح آبادی،رابعہ نہاں،ربیعہ فخری،نیراکبر آبادی،علی سجاد مہر،پروفیسر صفدر حسین،تجمل حسین اختر،محشرسیوہاروی،اختر علیگ،روشن نگینوی،قمرامروہی،نظم اکبرآبادی،شفیق کھتولوی شامل تھے۔جبکہ معروف ادیبوں میں نسیم حجازی،آغا رفیق جاوید،رحمن مذنب،عالی رضوی،مقبول انور دائودی،کرارنوری،عبدالکریم ثمر،پروفیسر خاکی صدیقی،پروفیسر صفی حیدر دانش،علامہ عرشی امرتسری، خاور لدھیانوی،صادق نیازی،عارف سیالکوٹی، عارف صدیقی،ماجد الباقری،عطا حسین کلیم،ضمیر جعفری۔غرض کہ فن شعر و ادب کی آبیاری کرنے والے بے شمار لوگ،جن سب کے نام بھی اب حافظے میں محفوظ نہیں،راولپنڈی کے آسمان ادب کا حصہ بن گئے اور شعرو ادب کی محفلیں شب و روز آباد رہنے لگیں۔
چھوٹے چھوٹے چائے خانے مختلف ادبی گروہوں کے اڈے بن گئے۔استادوں نے حسب دستور اپنے اپنے ادبی اکھاڑے جما لیے۔جن میں نئے لکھنے والوں کی بھرتی بھی ہونے لگی اور محض نام آوری کے لیے شاعر بننے والو ں کو حسب صلاحیت اور حسب توفیق تیار بھی کیا جانے لگا۔بڑی ادبی انجمنوں نے طرحی مشاعروں کا اہتمام کیا جو پہلے سے اردو شعر کی روایت تھا۔ان انجمنوں میں راولپنڈی کے قدیم،قیام پاکستان سے پہلے کی تنظیم’’روح الادب‘‘تھی۔نئی بننے والی انجمنوں کے باعث وہ کچھ اور فعال ہو گئی۔اس کے مقابلے پر نئے آنے والے اساتذہ نے’’بزم شام اودھ‘‘ اور’’بزم وارثیہ‘‘ بنا ڈالی۔تنقیدی محفلوں کا آغاز بھی ہو گیا۔حلقۂ ارباب ذوق ترقی پسندوں کا مضبوط میدان جنگ تھا۔اس کے مقابلے پر’’بزم اصلاحِ ادب‘‘آگئی۔’’حلقۂ ادبِ اسلامی‘‘ نے جنم لیا۔’’بزم فکر و فن‘‘ سجی۔’’حلقۂ احباب‘‘آباد ہوا۔’’معراجِ ادب‘‘ کی بنیاد ڈالی گئی۔’’طرزنوافگن‘‘ کے نام سے کچھ سر پھروںکا ایک الگ میدان تنقید بھی سج گیا۔اس طرح راولپنڈی کی ادبی شامیں کسی نہ کسی بزم کی طرف سے روز ہی سجنے لگیں۔یہ و ہ زمانہ ہے کہ جب میرے ذوقِ شعر نے ذرا ذرا پرپُرزے نکالے تھے۔میرے اپنے گھر کا ماحول میرے خاندان کی روایات اور خود میرا اپنا ذوق مطالعہ،یہ ساری اہم خصوصیات مجھے ابتدا ہی سے نصیب تھیں۔پھر جو علمی سرپرست اللہ نے مجھے بخشے،انھوں نے میری صلاحیتوں کے مس خام کو کندن بنا دیا۔عربی،فارسی کی تعلیم،حفظ قرآن کے بعد ہی مجھے ابتدا میں نصیب ہوئی اور گویا آغوش مادر میں،میں نے جو لوریاں سنیں وہ بھی مولانا جامیؒ کی نعتیں،رومیؒ کی مثنوی اور مولانا عبداللہ احرار کی شاعری تھی۔ابتدا میں’’گلستاں‘‘اور’’بوستاں‘‘ نے ذوق ادب کو چمکایا اور تحریک پاکستان کے زمانے کے ملی ترانوں، آغاحشر کی دعا،مولانا حالیؒ کی’’مسدس‘‘ اور علامہ اقبالؒ کا’’شکوہ اور جواب شکوہ‘‘ مجھے عمر کے اس حصے میں ازبر ہو گیا تھا۔جس میں بچوں کو گفتگو کی تمیز بھی میسر نہیں آتی اور شاید یہ بات آج حیران کن سمجھی جائے اور بعض لوگ اسے مبالغہ قراردیں مگر میں ان تمام باتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کا اظہار ضرور کروں گا کہ آج اردو کے ادب عالیہ میں جن قدیم داستانوں کے خلاصے پڑھائے جاتے ہیں،میں آٹھ سال کی عمر میں ان میں سے بیشتر داستانیں اپنی تمام ضخیم جلدوں کے ساتھ داستان گوئوں سے زبانی بھی سنی تھیں اور مکمل پڑھ بھی لی تھیں۔ان داستانوں میں’’داستان امیر حمزہ‘‘ اور’’طلسم ہوشربا‘‘ کے دفاتر خصوصیت کے حامل ہیں۔یہ میرا وہ سرمایۂ علم و فن تھا جس نے مجھے بچپن سے زبان و بیان کی خوبیوں سے آشنا کیا مگر میری یہی خوبیاں میرے راستے کی رکاوٹ بھی بن گئیں۔مجھے یہ کہنا پڑتا ہے کہ:
؎ اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی
یہاں سے ہم پھراپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں یعنی وہ مرحلہ جو اختر ہوشیارپوری صاحب سے میری ملاقات کا محرک اور موجب ہوا۔اس کا پس منظر بھی شاید کچھ طویل محسوس ہوا لیکن بہرحال،یہ ضروری ہے۔شعر کا ذوق مجھے ابتدا ہی سے ودیعت ہوا تھا،اشعار اچھے لگتے تھے،بے شمارشعر یاد بھی تھے،پڑھنے کا ذوق بھی تھا۔میں نے باقاعدہ شاعری کا آغاز۴۷،۴۸ میں کیا۔لیکن میری بڑی سے بڑی تگ و تاز سن ۴۶،۴۷ کے تحریک پاکستان کے جلسوں میں نظمیں پڑھنے یا تلاوت کرنے تک محدود تھی۔پاکستان بننے کے بعد جب راولپنڈی میں قیام ہوا تو اس عہد کے ایک بڑے استاد ہماری گلی میں بھی قیام فرما تھے۔جن کے ذریعے مجھے شہر میں ہونے والے طرحی مشاعروں کا علم ہوا اور میں نے پہلی طرحی غزل راولپنڈی کی بزم وارثیہ کے طرحی مشاعرے کے لیے کہی۔مصرعہ طرح تھا:
ع غیروں کا اعتبار ہے میری زباں زباں نہیں
اس غزل کے دو شعر اب بھی میرے حافظے میں محفوظ ہیں:
دل میں جلاکے شمعِ غم، دَیر سے لے کے تا حرم

میں نے سکونِ زندگی ڈھونڈا کہاں کہاں نہیں
بارِ جہاں سے مضمحل ہو کے یہ کہہ رہا ہے دل

کارگہِ حیات میں کیف کا کچھ نشاں نہیں
غزل کہنے کے بعد مشاعرے کے انتظار میں گھڑیاں گنی جانے لگیں۔تاریخ مقررہ پر مجھے میرا ذوق شعر کشاں کشاں مشاعرے کی طرف لے کے روانہ ہوا۔نہ مشاعروں کا کوئی تجربہ تھا اور نہ شاعرانہ رقابتوں،پارٹی بازیوں اور گروپ نوازیوں کا کوئی اندازہ۔مجھے تو اس کا بھی پتہ نہیں تھا کہ راولپنڈی میں جو استادانِ فن شاگردوں کی فوج ظفر موج ساتھ ساتھ لے کے مشاعروں میں جاتے ہیں۔ان کے درِ دولت پر حاضری دیے بغیر اور کسی ایک کی پناہ میں آئے بغیر مشاعروں کی صراط ہفت خواں طے ہی نہیں ہوسکتی۔بہر حال میں نو عمر و تن تنہا،شاعری کی رزم گاہ اور بے سہارا شاعروں کی اس معنوی قتل گاہ کی طرف بڑے ذوق و شوق سے روانہ ہوا اور راستے میں سب سے پہلے اپنے محلے کے انھی استاد اور ان کے شاگردوں کے لشکر سے سامنا ہو گیا۔علیک سلیک کے بعد استاد نے پوچھا۔’’میاںکہاں جارہے ہو؟‘‘ ’’مشاعرے میں‘‘ میں نے جواب دیا۔’’بزم ِوارثیہ کے مشاعرے میں جانے کا ارادہ ہے۔’’مصرع طرح پر غزل کہی ہے؟‘‘ فوراًاگلا سوال ہوا۔میں نے عرض کیا۔’’ جی ہاں غزل کہی ہے۔‘‘استاد اپنے ہمراہیوں کے پورے ٹولے کے ساتھ بڑی شفقت کے ساتھ مجھے لے کے قریب کے ایک چائے خانے میں بیٹھ گئے اور ارشاد فرمایا:’’بھئی ہم تو مشاعرے میں جانھیں رہے،چلیں آپ اپنی غزل ہمیں یہیں سنا دیں۔‘‘میں مشاعروں کے آداب سے ناآشنا اور استادانہ دائو بیچ سے بے خبر عمر کے اس حصے میں تھا جہاں تجربہ شوق کا رہنما نہیں ہوتا لہٰذا جیب سے پرچہ نکالا اوروہیں چائے خانے ہی میں ہمارا یک غزلی مشاعرہ منعقد ہو گیا۔استاد اور ان کے شاگردوں نے توقع سے زیادہ داد دی۔ایک ایک شعر کئی کئی بار سنا گیا۔میں داد کی لذت میں مست و سرشار رہا۔بہرحال اس محفل سے مجھے یہ کہہ کر رخصت کر دیا گیا کہ ’’آپ مشاعرے میں جائیں،ہمارا اراد ہ نہیں ہے۔‘‘میں وہاں سے بزم وارثیہ کی مشاعرہ گاہ کی طرف روانہ ہوا۔ محفل میں پہنچا تو مشاعرہ شروع ہو چکا تھا اور اظہر لکھنوی صاحب اپنا کلام سنا رہے تھے۔صدارت مرحوم عبدالعزیز فطرت کر رہے تھے۔میں ابھی مشاعرے میں اطمینان سے بیٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ اسٹیج سیکرٹری نے اظہر لکھنوی صاحب کے بعد اگلے شاعر کا نام پکاردیا جو میرے لیے ایک اجنبی سا نام تھا لیکن اس نام پر جو صاحب غزل پڑھنے کے لیے اٹھے،وہ اجنبی نہیں تھے۔وہ تھے محترم کمال کاس گنجوی صاحب۔انھوں نے غزل سنانے سے پہلے فرمایا کہ:’’یہ جن صاحب کی غزل ہے،تشریف نہیں لا سکے اور میں ان کی طرحی غزل پیش کر رہا ہوں۔‘‘جب انھوں نے پہلا مصرعہ پڑھا تو میں چونکا کیوںکہ وہ مصرعہ میری طرحی غزل کا تھا۔پہلے تو خیال ہوا شاید توارد ہو گیا ہے لیکن دوسرے مصرعے نے حقیقت حال کھول دی کہ پورا شعر ہی میری غزل کا تھا۔اس طرح یکے بعد دیگرے میرے سارے شعر اور پوری طرحی غزل سنا دی گئی۔استاد اور ان کے شاگرد مجھ سے غزل سننے کے بہانے میرے ساتھ ہاتھ کر گئے تھے۔کمال صاحب کے غزل پڑھنے کے معاً بعد مجھے دعوت سخن دی گئی۔عام مشاعرہ ہوتا تو میں اپنی باری پر شاید کوئی دوسری غزل سنا دیتا لیکن مشاعرہ طرحی تھا اور ان اشعار کے سوا طرحی مصرع پر میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ اب نہ جائے رفتن تھی اور نہ پائے ماندن۔فیصلے کے لیے میرے پاس چند سیکنڈ تھے۔اس نازک موقع پر میں نے اعتماد کے ساتھ ایک فیصلہ کیا جو عزیمت کا فیصلہ تھا،فرار یا رخصت کا نہیں۔میں اٹھا،اسٹیج پر آکر شاعر کے پڑھنے کی مخصوص نشست پر بیٹھ کے اپنی اس غزل کا آغازکیا جو چند لمحے پہلے ایک نا معلوم شاعر کے نام سے کمال کاس گنجوی پڑھ کے جا چکے تھے۔شعر پر کوئی خاص ردعمل سامنے نہ آیا۔جب میں نے دوسرا شعر پڑھا تو خود صاحب صدر عبدالعزیز فطرت نے کہا:’’میاں صاحبزادے!یہ اشعار تو ابھی پڑھے جا چکے ہیں۔‘‘میں نے بڑے ادب مگر پورے اعتماد کے ساتھ کہا’’فطرت صاحب! آپ کا فرمانا بجا ہے مگر میں اپنی یہ پوری غزل پڑھوں گا اور یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ غزل میری ہے یا مجھ سے پہلے پڑھے جانے والے اجنبی شاعر کی۔‘‘یوں طرحی مشاعرے کا یہ پہلا معرکہ سر ہوا۔شعراء مختلف تبصرے کرتے ہوئے کچھ سنجیدہ سنجیدہ اور کچھ خندۂ استہزأ کے ساتھ فقرے بازیوں کی پھلجھڑیاں چھوڑتے ہوئے رخصت ہو گئے اور میں سوچتا رہا کہ جومیدان میںنے اپنے لیے منتخب کیا ہے اس میں ادب کے نام پر بے ادبیوں کا مقابلہ تنہا کیسے کر سکوں گا؟‘‘
بات آئی گئی ہو گئی۔میں کمر ہمت باندھ کے اپنے ذوق مطالعہ اور فکر شعرو سخن میں مشغول ہو گیا۔میں اردو کے قدیم شعراء کو میرؔ سے حسرتؔ تک بار بار پڑھ چکا تھا۔اب بعض ہم عمر و ہم عصر ساتھیوں کے اصرار پر جن میں خاص طور پر احمد معصوم،شبنم صدیقی اور قمر نور تھے،میں نے جدید اور ترقی پسند شعراء کی طرف بھی توجہ دی اور جوشؔ سے فیضؔ تک اور میرا جیؔ سے ن م راشد تک جس تک بھی رسائی ہوئی،اسے پڑھنے میں کوتاہی نہیں کی۔یہی وہ دور ہے جب ایک خاص واقعہ کے ذریعے محترم اختر ہوشیار پوری صاحب سے نیاز مندی کا سلسلہ قائم ہوا۔’’بزم احباب‘‘ کا طرحی مشاعرہ تھا اور اس بزم کے بانی مبانی اور کرتا دھرتا وہی مذکورہ میدان شعر و سخن کے استاد تھے۔مشاعرے کا مصرع طرح یہ تھا:
ع سکوت شب میں ہمارے نالے جب اہتمام سحر کریں گے
میں نے اس مصرع پر غزل کہی۔جس کا یہ شعر میری اپنی نظر میں حاصل غزل تھا:
تمام راہوں کی ظلمتوں کو کرے گا روشن جمال تیرا
تلاش منزل کو جب اٹھیں گے تجھے شریک سفر کریں گے
غزل کہنے کے بعد سب سے پہلی فکر یہ ہوئی کہ مشاعرے میں جانے سے پہلے کوئی ایسا معتبر گواہ مل جائے جو اس بات کا شاہدہو کہ غزل میری اپنی ہی ہے۔کسی شاعر کو مشاعرے سے پہلے غزل سنانے میں پہلے طرحی مشاعرے کا حادثہ اور تجربہ بھی دل دھڑکائے دیتا تھا کہ اگر پھر کسی نے ہمارے ساتھ پہلے جیسی استادانہ کرتب بازی کر دی تو پھر میدان مشاعرہ اور شاعری دونوں میں قدم جمانا مشکل ہو جائے گا۔اسی غور و فکر کے نتیجے میں اچانک لوح خیال پر ایک تختی ابھری’’اختر ہوشیار پوری ایڈووکیٹ‘‘یہ تختی ہمارے محلے ہی کے ایک مکان پر لگی ہوئی تھی۔آتے جاتے میں نے کئی بار یہ تختی پڑھی تھی۔میں نے اختر ہوشیار پوری صاحب کو دیکھا بھی بار ہا تھا۔مشاعروں میں سنا بھی تھا،علیک سلیک کی سعادت بھی حاصل تھی، اگرچہ فیض قربت نصیب نہ تھا۔لیکن مطالعہ’ جس میں ادب کے ساتھ،تاریخ اور مذہب کا بھی بڑا معقول حصہ تھا‘کے سلسلے میں اختر ہوشیار پوری صاحب کے والد محترم کے پاس میرا اکثر آنا جانا رہتا تھا۔وہ ڈاکٹر تھے اور ان کا مطب میرے محلے کے بازار ہی میں تھا۔وہ ڈاکٹری کے ساتھ ساتھ مذہبی موضوعات سے بھی خصوصی دلچسپی رکھتے تھے۔ان کے پاس مذہبی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ تھا،اس ذخیرے کی متعدد کتابوں پر خود ان کے اپنے حواشی میری نگاہ میں بڑی اہمیت کے حامل تھے۔
جب اپنی غزل کی صداقت ملکیت کا مسئلہ میرے لیے ایک مشکل بنا ہوا تھا تو اچانک لوح خیال پر اختر صاحب کا شفیق اور قابل اعتبار چہرہ ابھرا اور ساتھ ہی یہ خیال بھی آیا کہ اختر صاحب ایک اچھے شاعر بھی ہیں،ایک نیک باپ کے بیٹے بھی ہیں،یہ میرے ساتھ استادانِ فن والا ہاتھ نہیں کریں گے۔دل کی اس گواہی پر میں اختر صاحب کے درِ دولت پر امید و بیم کی کیفیت میں دھڑکتے دل کے ساتھ حاضر ہو گیا۔ان کے دفتر کے دروازے پر دستک دی۔کچھ دیر بعد دروازہ کھلا۔وہی نرماہٹ لیے ہوئے،سنجیدہ سا چہرہ،جس کو دیکھ کے پتہ نہیں کیوں مجھے ہمیشہ کی طرح آج بھی ایک طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔جس میں ایک تمکنت بھی ہے،انفرادیت بھی اور شفقت کی ایک ہلکی سی جھلک بھی۔اختر صاحب کالہجہ اگرچہ رسیلا نہیں ہے مگر ایک سچے اور کھرے آدمی کا کھنکتا ہوا انداز ان کی آواز کا وصف ہے۔لہٰذا اس پہلی قریبی ملاقات میں انھوں نے مجھے شفیقانہ پذیرائی بھی دی۔بٹھایا اور پوچھا’’کیسے آئے ہو؟‘‘ میں نے جھجکتے ہوئے اظہار مدعا کیا’’اختر صاحب میں نے طرحی مشاعرے کے لیے غزل کہی ہے، سوچا بغرض اصلاح آپ کو دکھا دوں،یہی آمد کا مدعا ہے اور اس زحمت دہی کے لیے معذرت خواہ بھی ہوں۔‘‘ان کی طرف سے ایک واضح اور دو ٹوک جواب تھا۔’’بھئی میں کسی کو شاگرد نہیں بناتا نہ یہ میرا مسلک ہے نہ طریقہ کار۔‘‘انھوں نے اپنی طرف سے ایک طرح سے اس عہد کی مروجہ حشر ساماں اور قیامت آسا استادی شاگردی کا دروازہ اپنے دو لفظوں سے بند کر دیا اور مجھے ان کایہ اظہارِ صداقت بڑا بھایا کہ اس میں شاعرانہ ادعا نہ ہونے کے برابر تھا اور ان کا اندازِ قانون دانی پورے جاہ و جلال کے ساتھ کارفرما تھا۔میں نے پھر عرض مدعا کیا۔’’اختر صاحب میرا مدعاشاگرد بننا نہیں تھا بلکہ صرف ایک نظر اپنی غزل آپ کو دکھانی تھی تا کہ آپ مجھے اس سلسلے میں کوئی بہتر مشورہ دے سکتے۔‘‘میں سمجھتا ہوں کہ میری اس دوسری دستک نے شاگردی نہ سہی مگر اختر صاحب سے وقتاً فوقتاً ملاقات اور تعلق کا راستہ ضرور ہموار کر دیا۔انھوں نے فرمایا:’’ ٹھیک ہے آپ غزل سنا دیجئے۔‘‘ میرا مدعا پورا ہو گیا کیوںکہ مجھے فی الحال،مشاعرے میں جانے سے پہلے اپنی طرحی غزل پر اپنے حقِ شاعرانہ کی ایک مستند گواہی مطلوب تھی اور وہ اختر ہوشیار پوری صاحب کی صورت میں مجھے میسر آگئی تھی۔میں نے غزل سنائی۔ایک دو مقام پر انھوں نے مجھے مشورہ دیا اور لفظ بدلنے کے لیے کہا مگر تبدیلی کے لیے خود کوئی لفظ تجویز نہ کیا۔اسی سے مجھے اس بات کا اندازہ ہوا اور آج اپنی پختگی کی اس عمر میں آنے کے بعد یہ احساس زیادہ بامعنی نظر آتا ہے کہ اختر صاحب ایک بہت اچھے شاعر تو ہیں ہی،ایک بہت اچھے تربیت کار اور ادبی رہنما بھی ہیں۔وہ چاہتے تو لفظ خود بدل دیتے مگر یہ وہی مروجہ استادی ہوتی جس سے انھیں انکار تھا۔جب استاد کمزور جملے کو خود بدل دیتا ہے تو اپنے زیر تربیت فرد کے ذہنی ارتقا میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔اچھا رہنما وہی ہے جو انگلی پکڑ کر چلاتا نہیں ہے بلکہ صرف راستے کی درست رہنمائی فراہم کرکے راہی کی ذاتی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے ارتقائی عمل میں لگا دیتا ہے۔وہ شعر مجھے اب بھی یاد ہے جس میں انھوں نے مشورہ دیا تھا اور میں مشورے کے بعد اور مشورے سے پہلے کی دونوں صورتیں پیش کر دیتا ہوں۔لذتِ رہنمائی سے حسبِ ظرف فیض یاب ہونا آپ کا کام ہے۔اختر صاحب کے مشورے سے پہلے میرا ناتراشیدہ شعر یہ تھا ؎
تمام راہوں کی ظلمتوں کو کرے گا روشن جمال تیرا
تلاشِ منزل کو جب اٹھیں گے تجھے شریک سفر کریں گے
شعر سن کر اختر صاحب نے کہا:’’سرو صاحب یہ لفظ’’راہوں‘‘ بدل دیجئے کہ چلنے والا صرف ایک راستے پر چلتا ہے۔بہت سے راستوں پر نہیں۔‘‘میں نے کہا۔’’اختر صاحب آپ لفظ بتا دیجئے یا مصرع تبدیل کر دیجئے۔‘‘ان کا جواب وہی تھا کہ’’سرو صاحب یہ کام میں نہیںکرتا۔آپ اس کو تبدیل بھی خود کیجیے اور تلاشِ لفظ بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔‘‘گویا اس طرح انھوں نے پھر مجھے یہ بات یا د دلا دی کہ یہاں استادی شاگردی نہیں ہو رہی بلکہ شعری فہم اور انتخاب الفاظ کے سلسلے کی صرف رہنمائی مقصود ہے۔لہٰذا میں نے ذرا سے توقف اور فکر کے بعد مصرع تبدیل کیا۔لفظ بدلا اور پھر سنایا۔انھوں نے کہا:
’’اب ٹھیک ہے اب اس مصرعے میں سے وہ سقم دور ہو گیا ہے جو راہوں اور مسافت کے درمیان ایک ان مل رابطہ تھا۔‘‘
تبدیل شدہ شعر بھی عرض کیے دیتا ہوں۔
ہمارے رستے کی تیرگی کو کرے گا روشن جمال تیرا
تلاشِ منزل کو جب اٹھیں گے تجھے شریک سفر کریں گے
اس طرح میرا وہ پہلا مقصد جو ایک معتبر گواہ کی تلاش کا تھا،وہ پورا ہو ہی گیا مگر خدا نے اس پُرآشوب زمانے میں،جس کی کچھ تفصیلات ان شاء اللہ آگے بیان کروں گا،میری رہنمائی کے لیے ایک بہت مخلص،صاحب بصیرت اور انسان دوست مربی مجھے عطا کر دیا جس نے شعر و ادب کی ان پُرپیچ وادیوں میں جو اس وقت کی سیاست عالیہ سے متصادم بھی تھیں اور حکمرانوں کی ستم رسیدہ بھی،بھٹکنے سے مجھے بچا لیا۔یہ میری اختر صاحب سے پہلی ملاقات تھی جو تقریباً آدھا گھنٹہ جاری رہی۔اس کے بعد میں ان کا شکریہ ادا کرکے بڑی طمانیت قلب کے ساتھ واپس آگیا۔طرحی مشاعرے میں شرکت کی اور غزل پڑھی۔یوں طرحی غزلوں کے اس سلسلے میں،جو اس عہد کا مروجہ طریقہ کار تھا، میری شرکت بھی ایک معمول بن گئی۔مشاعروں کے حوالے سے اختر صاحب کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
ادب و شعر میں پہلے سے جاری قدیم و جدید نظریات کا تصادم تقسیم برصغیر کے بعد زور پکڑ گیا۔ترقی پسند گروپ اپنی تنظیم اور اس زمانے کے ذرائع ابلاغ پر اپنے غلبے کی وجہ سے ایک مقام پیداکر چکا تھا اور کیمونزم کے جدید نظریات،اس کے اصولوں کی سطحی چمک دمک اور سستی نعرے بازی کی شاعری کا ایک رجحان پوری نوجوان نسل کو تیزی سے اپنے ساتھ وابستہ کرتا جا رہا تھا۔قدیم انداز کی شاعری خاص طور سے روایتی غزل گوئی،معاملہ بینی اور زبان کے چٹخاروں کی بات آہستہ آہستہ قصۂ پارینہ بنتی گئی۔قدیم شعروادب کے بیشتر نمائندے اپنی انانیت اور مستقبل بینی سے غفلت کی بنیاد پراس میدان میں بہت جلدی پسپا ہو گئے۔کچھ ایسے لوگوں نے جو جدید علوم سے آراستہ اور فہم و فراست سے کام لینے والے تھے،اپنے لیے ادب میں نئی راہیں نکالیں۔حالات کے بدلتے ہوئے انداز شاعری پر بھی اثر انداز ہوئے اور غزل،زلف دراز،چاہ زقن،عارض و رخسار،لب و دنداں اور ہجر و وصال کے فرسودہ اور فرضی ماحول سے نکل کے حالات کے تقاضوں کو بھی اپنے اندر سمونے لگی۔اصطلاحیں یہی رہیں مگر معنی بدل گئے۔اب غزل صرف محبوب کے تذکرے تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے اپنا دامن عالمی مسائل تک پھیلا دیا۔اس عہد میں نوجوان شعراء کا ایک گروہ بڑی حد تک روسی استعمار سے متاثر تھا۔وہی مزدور دوستی اور سرمایہ داردشمنی نعروں کی شکل میں اس گروہ کے شاعروں کی نظموں اور غزلوں کا محور بنی ہوئی تھی۔وہ لوگ انجمن ستائشِ باہمی کی طرز پر کام کرتے تھے۔ان کی پشت پر جو غیر محسوس قوتیں تھیں وہ ان کے لیے اخبارات و جرائد اور بڑے بڑے پبلک مشاعروں میں شمولیت کے مواقع مہیا کرتی تھیں۔کچھ عرصے تک میں بھی اس گروہ کی ہم نوائی کرتا رہا اور شاید ہم نوائی آگے بھی بڑھتی لیکن یہاں بھی اختر ہوشیار پوری صاحب کی رہنمائی مجھے اس دام غولِ بیابانی سے نکالنے اور شاعری کی درست شاہراہ پر گامزن کرنے کے سلسلے میں بہت ممد و معاون ہوئی۔اب میرے ساتھ اختر صاحب کا تعلق ایک بڑے بھائی،مشفق سرپرست اور صاحب بصیرت مربی کا سا تھا۔انھوں نے مجھے اس عہد کے نشیب و فراز سے بھی باتوں ہی باتوں میں آشنا کیا اور ترقی پسندی کے خوبصورت نام میں لپٹی ہوئی بھیانک روسی سامراجیت کی اس غیر محسوس لپیٹ میں آنے سے پوری طرح بچا لیا۔کئی وجوہ کی بنا پر بالعموم اس دور کا ہر ابھرتا ہوا شاعر اور ادیب روسی سامراجیت کا شکار ہو ہی جاتا تھا۔
اس مرحلے پر اختر صاحب کے ذہن،سیرت و کردار اور ان کی مذہب سے وابستگی اور دینی روایات سے ہم آہنگی کا ایک نیا پہلو میرے سامنے آیا۔وہ اگرچہ ایک کامیاب وکیل،ایک نام ور غزل گو تھے اور بظاہر ایک روایتی سے مسلمان نظر آتے تھے لیکن اسلام،حُبِ رسولؐ اور قرآن سے ان کے تعلق اور پاکستان سے ان کی محبت سے مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے اندر واقعتاً اقبال کے مردِ مومن کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔
جو باتیںمَیں کر رہا ہوں،یہ نہ کہیں لکھی ہوئی ہیں نہ میرے سوا ان کا کوئی اور شاہد ہے۔یہ میرے مشاہدات،تجربات اور ان کے اجتماع سے مرتب ہونے والا اختر صاحب کی شخصیت کا وہ تجزیہ ہے جسے میں اپنے ماضی کا سرمایہ،اپنے حال کی روشنی اور اپنے مستقبل کا نصب العین تصور کرتا ہوں۔
اختر ہوشیار پوری ۱۹۱۸ء میں پیدا ہوئے۔۱۹۳۳ء ء میں انھوں نے شاعری کے میدان میں قدم رکھا۔۱۹۳۶ء میں ان کے سامنے برصغیر میں ترقی پسند تحریک کی بنیاد رکھی گئی۔یہ تحریک’’ترقی پسند مصنفین‘‘ کے نام سے پورے برصغیر کے ادیبوں اور شاعروں کو ایک سیلاب کی طرح بہا کے لے گئی۔نام نہاد ترقی پسندی کی یہ تحریک اردو شعر و ادب کے روایتی ڈھانچے کو توڑنے،مسلمانوں کے سیاسی کلچر کو ختم کرنے اور پورے معاشرے میں خدا سے بغاوت،مذہب سے بیزاری اور اپنے ماضی سے انقطاع کا پیغام لے کے اٹھی تھی۔اس ماحول میں اختر صاحب نے آنکھیں کھولیں اور نہایت اعلیٰ درجے کی شاعری کی۔یہاں سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ اس عہد کا کوئی ادیب و شاعر نیاز فتح پوری سے ساحر لدھیانوی تک اس جذبے کے اظہار سے محفوظ نہ رہا،لیکن شاعروں کے اس بھرے مجمع میں اختر ہوشیار پوری صاحب اپنے اندازِ زندگی سے لے کر آدابِ شاعری تک اور اپنی سوچ سے لے کر اظہارِ خیال تک،ہر مقام پر اپنے ماحول کے ان سب لوگوں اور اپنے سارے ہم عصروں سے بالکل منفرد اور جدا نظرآتے ہیں۔انھوں نے جدیدیت کی ہر خوبی کو اپنایا مگر اپنے اسلاف کے روشن روایتی سرمائے کو ضائع کیے بغیر۔اپنے ماحول کو ایک سوچ دی مگر خدا اور رسولؐ سے بغاوت کے انداز میں نہیں بلکہ اطاعت کے رنگ اور اتباع کی روشنی کے ساتھ۔حلقۂ اربابِ ذوق کا بانی رکن اور ترقی پسندوں کے جھرمٹ میں زندگی گزارنے والا شاعر ایمان کے رشتے میں کس قدر مضبوطی سے بندھا ہوا ہے،اس کا اندازہ شاید میرے سوا کوئی نہ کر سکے۔اس لیے کہ بیشتر لوگ صرف غزل کے اختر ہوشیار پوری کو جانتے ہیں یا پھر اس بات سے آشنا ہیں کہ اس نے عمر کے آخری حصے میں نعت گوئی کو مرکزفکر بنایا اور نعت کے روشن اور تابناک چار مجموعے اردو ادب کو عطا کر دئیے ہیں،مگر میں اس وقت کی بات کر رہاہوں جب وہ صرف غزل کے شاعر تھے اور مذہبی رنگ کا کوئی غلبہ بظاہر ان کے معمولات میں نظر نہیں آتا،سوائے اس کے کہ وہ بھی دوسرے شعراکی طرح کبھی کبھی نعت کہہ لیتے ہیں یا منقبت و سلام کی محفلوں میں شرکت کے لیے شاعری کی ان اصناف کو موضوع سخن بنا لیتے ہیں۔میرا ربط و ضبط چوںکہ اس دور میں اختر صاحب سے اتنا بڑھ چکا تھا کہ ضرورت کے تحت ہونے والی پہلی ملاقات کے بعد اب ان کے دفتر میں اکثر حاضری میرے معمولات میں شامل تھی اور اب میں اس اعتبار سے بھی ان کی نگاہ میں قابل توجہ ٹھہرا تھا کہ اگر میری غیر حاضری طویل ہو جاتی تو وہ اکثر دریافتِ احوال کے لیے میرے غریب خانے پر بھی تشریف لاتے اور نہ آنے کا سب ضرور پوچھتے۔اس عہد میں میرے لیے یہ ایک بڑا اعزاز تھا اور ان کے اس اظہار خلوص کو میں آج بھی اپنے لیے اعزاز ہی سمجھتا ہوں۔اب میں جس بات کی نشاندہی کرنے جا رہا ہوں،وہ اختر صاحب کی جس سوچ کا عکاسی کرے گی،و ہ میری نگاہ میں بڑی اہم ہے اور یقیناً اردو ادب کی تاریخ بھی اسے اہمیت دے گی۔
میں اپنے لڑکپن ہی سے تحریک پاکستان سے وابستہ رہا ہوں اور اس کے لیے عملاً سن ۱۹۴۶ء کے اس انتخاب میں جو دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہوا،میں نے اپنی بساط بھر حصہ لیا۔جلسوں میں تلاوت کی،نظمیں پڑھیں،جلوسوں میں نعرے لگائے اور وہ قافلۂ حریت جو اسی انتخابی مہم کے سلسلے میں مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی قیادت میں میرٹھ سے پشاورتک گیا۔مجھے اس میں شرکت کی سعادت حاصل ہے۔مگر پاکستان بننے کے بعد اور قائداعظم کی وفات نے مسلم لیگ کو عہدوں اور اقتدار کی کرسیوں کی جس بندر بانٹ میں مبتلا کیا،اس کے بعد میرا کوئی بڑا سلسلہ مسلم لیگ کے ساتھ نہ چل سکا۔یہی وہ زمانہ ہے جب میری شاعری نے جنم لیا اور مجھے اختر ہوشیار پوری صاحب کی رہنمائی نصیب ہوئی۔اللہ کی توفیق کے ساتھ اس رہنمائی نے جہاں مجھے ایک طرف شاعری میں نعرہ بازی،ملحدانہ خیالات اور مروجہ ترقی پسندانہ مذہب بیزار رجحانات سے بچایا وہیں دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ اسی عہد میں میرا ربط مولانا مودودیؒ کے لڑیچر سے ہوا اور ان کی تحریروں کا سحر میری رگ و پے میں اتر گیا۔یہ بات اختر صاحب کے علم میں تھی مگر اس موقع پر بھی وہ میرے راستے کی دیوار نہیں بنے بلکہ میری پست ہمتی کو سہارا دینے والے اور اس راستے کے نشیب و فراز سے پوری طرح باخبر کرنے والے میرے پیشوا بن گئے۔اس زمانے میں قدم قدم پر انھوں نے میرے دینی رجحانات کی حوصلہ افزائی کی اور اسی بنا پر مجھے ان کے اندر موجود سچامسلمان اور مضبوط پاکستانی بڑے روشن اور تابناک انداز میں نمایاں نظر آیا۔اگرچہ اختر صاحب ہمیشہ سیاسی معاملات یا کسی بھی قسم کی سیاسی و اجتماعی عملی زندگی سے کنارہ کش رہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے اندر کی فکری دنیا بھی اس معاملے میں بے عمل یا گوشہ گیر تھی۔ان کی سوچ ایک صحیح مسلمان کی سوچ،ان کی فکر ایک مخلص اور محبِ وطن پاکستانی کی فکر تھی۔وہ ہر حال میں باطل نظریات کے خلاف سچائی اور صداقت کی توانا آواز بنے رہے۔یہ سچائی میں نے ان کی نجی گفتگو میں بھی بار بار محسوس کی۔مجھے تو یہ سچائی ان کے اشعار کے متن اور تحت المتن میں بھی نظرآئی۔مثلاً ان کا یہ شعراس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ پاکستان میں قائداعظمؒ کے بعد قیادتوں کی نا اہلیوں پر وہ کس ذہنی کیفیت سے دوچار تھے۔
تجھ کو تو اپنے آپ کی بھی کچھ خبر نہیں
کس نے تجھے قبیلے کا سردار کر دیا
حالات کے تناظر میں انھوں نے قیام پاکستان کے بعد جس صورت حال کا ادراک کیا،اس کو اگر دیکھنا ہو تو آئیے ان کے یہ دو شعر دیکھتے ہیں:
عالم میں جب کہیں بھی کرن کا گزر نہ تھا

میں خود تھا روشنی کہ چراغِ سحر نہ تھا
وہ دن بھی ہم نے کاٹ دیے ہیں حیات کے

جب دشت و در میں کوئی شریکِ سفر نہ تھا
غرض کہ میں نے اختر صاحب کو جوں جوں قریب سے دیکھا،مجھ پر ان کے جوہر کھلتے گئے۔۱۹۶۵ء کی جنگ میں سترہ دن کی زندگی کا لمحہ لمحہ مجھے آج بھی یاد ہے اور ان کا وہ اضطراب کہ پاکستان کا کیا بنے گا اور اکثرراتوں کو اٹھ کر اسی اضطراب میں کبھی کبھی ان کا مجھے اپنی معیت کاشرف بخشنے اور حالات حاضرہ پر گفتگو کا ان کا انداز آج بھی میرے سامنے ہے۔یہ اشعار ان کے اسی کرب کا کچھ اظہار کر رہے ہیں:
یہ عرصۂ زیست کربلا ہے

تا حَدِّ نظر فقط خدا ہے
شاید میں وجود پر گراں ہوں

روزن سے زمانہ جھانکتا ہے
میں نے اختر صاحب کو کتاب کی طرح پڑھا تو وہ مجھے ایک مثلث کی شکل میں نظر آئے۔ایسی مثلث جس کا ہر ضلع اپنی جگہ ایک مستحکم حیثیت رکھتا ہے۔عام آدمی کی نگاہ میں ان کی شخصیت انھی تین ضلعوں میں سمٹی ہوئی ہے۔وہ ایک محافظِ قانون وکیل ہیں اور ان کے اوقات کار کا لمحہ لمحہ حفاظتِ قانون کے لیے وقف ہے۔گھڑی کی طرح وقت کے پابند،اپنے موکل کے مفاد کے محافظ اور قانون کے دائرے میں اس کی بھرپور حمایت اور وکالت کرنے والے۔ان کی شخصیت کی مثلث کا دوسرا ضلع ان کے افکار و اشعار کی دنیا پر مشتمل ہے۔ان کی شاعری کا منصب،ان کے پاکیزہ خیالات،ان کی سوچی سمجھی رائے،اس کے اظہار کے لیے موزوں الفاظ کا استعمال،مترنم بحروں کا انتخاب،بڑا تیکھا لہجہ،شعر کے ساتھ ا ن کی ایسی دلچسپی جیسے شاعری ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہو۔یہ سب اختر صاحب کی شخصیت کی مثلث کے دوسرے ضلع ہی کے پہلو ہیں۔تیسرا ضلع ان کے گھر کی دنیا ہے جس میں ان کی بیوی اور دو بچیاں ہیں۔وہ بچیوں سے پیار کرنے والے باپ اور ہر رشتے کا’’وفاداری بشرطِ استواری اصلِ ایماں ہے‘‘کی حد تک خیال کرنے والے مضبوط کردار کے آدمی ہیں۔
یہاں اختر صاحب کی بیٹی عائشہ کے حوالے سے مجھے ایک بات یاد آتی ہے۔عائشہ کو میں ان کے سو بیٹوں کے برابر تصور کرتا ہوں اور یہ سو بیٹوں کے برابر تصور کرنا مبالغہ آرائی نہیں ہے بلکہ ان کی بیٹی عائشہ کا مضبوط کردار اختر صاحب کے ساتھ اس کی بے پناہ محبت،لگن کے ساتھ ان کی خدمت اور ان کے سارے ادبی اثاثے کو تلاش کرنے،سنبھالنے،ترتیب دینے اور مجتمع کرکے منظر عام پر لانے کے کام کو اس خوش اسلوبی سے سر انجام دیا کہ اس کے لیے میرے دل سے بے ساختہ دعائیں نکلتی ہیں۔عائشہ کے اسی جذبے کی وجہ سے میں اسے اختر صاحب کے سو بیٹوں کے برابر سمجھتا ہوں اور اس کے لیے جزائے خیر اور صحت و عافیت کے ساتھ درازیِ عمر کی دعا کرتا ہوں۔یہاں یہ مماثلت بیان کرنا بھی بے جا نہ ہوگا کہ جس طرح غالب کی ادبی حیثیت کو قوم تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دینے کے لیے اللہ نے غالبؔ کو بیٹے کی محرومی کا نعم البدل حالیؔکی صورت میں عطا فرمایا اور اس نے غالبؔ کی ادبی شخصیت کو اردو ادب میں زندۂ جاوید کردیا۔جس طرح اللہ نے ذوقؔ کو محمد حسین آزادؔ جیسا بہترین شاگرد دیا جس نے شعر و ادب میں ان کا مقام منوا دیا۔اسی طرح اللہ نے اختر صاحب کو عائشہ جیسی بیٹی عطا کی۔مومن خاں مومنؔ اپنی ادبی حیثیت میں غالبؔ سے کم ہیں نہ ذوقؔ سے فروتر لیکن ان کی ساری عظمت فن کے باوجود ان کے جانشینوں میں سے نہ کوئی حالیؔ ہے نہ محمد حسین آزادؔ۔یہی وجہ ہے کہ مومنؔ اپنی ساری عظمتِ فن کے باوجود محض آج تحقیق کی ایک شے ہے جو ہر ناقد اور اردو ادب سے ہر دلچسپی رکھنے والے صاحبِ علم وقلم سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا میرا ردو ادب اور اس کے شائقین پر کوئی حق نہیں؟
یہاں اختر صاحب کی سنائی ہوئی سن۱۹۶۴ء کی ایک نظم کا مرکزی مضمون میرے ذہن میں آرہا ہے،جس میں انھوں نے کہا تھا:
میرے آنگن میں
دو کلیاں ہیں
کوئی پھول نہیں
یہاںکلیوں سے ان کی مراد بیٹیاں تھیں جو اللہ نے انھیں دیں او رپھول سے مراد بیٹا جس سے اللہ نے اپنی مشیت کے تحت انھیں محروم رکھا مگر میرے نزدیک ان کی بیٹی عائشہ بیٹے کا نعم البدل ہے۔پچھلے دنوں جب اختر صاحب نصیب دشمناں بہت بیمار ہو گئے تو عائشہ کی تیمار داری اور اختر صاحب کی صحت یابی دیکھ کر مجھے ان کا یہ شعر بہت یا د آیا:
میں اپنی ایڑیوں پر گھوم کر لہرا گیا ہوں
ابھی کچھ سانس باقی تھے جوواپس آگیا ہوں
اختر صاحب کی اظہار خیال کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ الفاظ میں منظر کی تصویر کھینچ دیتے ہیں۔ان کا یہ شعر ایسا ہی ہے:
کسی خاکے میں یہ منظر کوئی محفوظ کر لے مری بیٹی مری انگلی پکڑ کر چل رہی ہے
یہ شعر بھی اسی قبیل سے ہے:
دیکھا ہے یہ پرچھائیں کی دنیا میں کہ اکثر
اپنے قدو قامت سے بھی کچھ لوگ بڑے ہیں
وہ جس طرح لفظوں میں تصویر کھینچتے ہیں اسی طرح آرزوئوں کو بھی متشکل کر دیتے ہیں:
کسی بچے کی صورت شہر کی گلیوں میں کھو جائوں
کوئی پھر ڈھونڈنے آئے یہی حسرت ہے صدیوں سے
بعض سیاسی اشارے جو لوگوں کے ہاں شاعری میں بھی نعرے بازی کی نذر ہو جاتے ہیں،اختر صاحب ان اشاروں کو غزل کا روپ دے کر لوگوں کے دلوں میں سجا دیتے ہیں:
لوگوں نے لبوں کو سی لیا ہے ۭ آیا ہے یہ وقت بھی سخن پر
یہ شعر بھی دیکھیے:
کبھی چراغ کی لو قتل ہو نہیں سکتی
کبھی کسی نے اجالے کو مرتے دیکھا ہے؟
اختر صاحب کی پاکستانیت بھی،ان کے ایمان کے طرح ان کے شعروں میں سما گئی ہے اور بعض بعض مقامات پر ان کے اشعار تاریخ کا سرنامہ نظر آتے ہیں،مثلاً
مرا تو خون کا رشتہ ہے ان گلابوں سے
یہ کاغذی ہی سہی پھر بھی پھول میرے ہیں
یا اسی طرح یہ شعر:
اپنی مٹی، اپنی آواز، اپنا سایہ
اس دولت سے میں صاحب جاگیر بھی ہوں
پاکستان کے بحرانوں کو دیکھنا ہو تو اختر صاحب کا یہ ایک شعر کافی ہے:
یہ الگ بات خراشیں ہی خراشیں ہیں تمام
ورنہ اس خاک کا چہرہ مجھے ماں ایسا ہے
ان کا یہ شعر بھی میرے حافظے کے انتخاب میں ہے اور اس شعر میں بھی وہی تصویر کشی کی کیفیت ہے:
میں اپنے زخمِ تمنا سجا کے چہرے پر
ہر اک سے پوچھتا پھرتا ہوں کیسا لگتا ہوں
اردو غزل کی قدیم روایات میںایک چیز کو سہل ممتنع کہتے ہیں،مجھے اختر صاحب کا سارا کلام ہی سہل ممتنع لگتا ہے۔ذرا یہ شعر دیکھیے:
بات آہستہ …… ذرا آہستہ
کہ ابھی ہے پسِ دیوار کوئی
اور یہ شعر بھی اسی انداز کا ہے:
چڑھتے سورج کے پجاری تھے، پجاری نکلے
میرے احباب بھی عیسیٰؑ کے حواری نکلے
پاکستانیت کے حوالے سے موجودہ عہد کا نقشہ انھوں نے ایک شعر میں ایسی سادگی سے کھینچ دیا ہے کہ اگر اسے اظہار خیال کا اعجاز کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔شعر یہ ہے:
پہلے زمین دے کے زمیندار کر دیا
پھر اس نے مجھ کو جینے سے بیزار کر دیا
ان کی غزل میں ان کی ایمانیات کا اثر بھی بولتا ہے یہ شعر دیکھیے:
بدن سے پھوٹتی ہیں کرنیں اب تک
عجب جلوہ ہے قندیلِ حرم کا
کنائے کا پیرایۂ اظہار اپنے کمالِ حسن کے ساتھ اختر صاحب کی غزل کا جوہر ہے۔ایک شعر میں کہتے ہیں:
آئنہ اتنا بھی سچا کبھی ہو سکتا نہیں
اپنا چہرہ ترا چہرہ نظر آتا ہے مجھے
یہ شعر بھی سرمایۂ غزل کا نمائندہ شعر کہا جا سکتا ہے کہ جس میں جدیدیت کے انداز کے علاوہ روایتی غزل کا حسن بھی نمایاں ہے:
اب جیت اس کی ہار سے کچھ کم نہیں کہ وہ
آئینہ رکھ کے بیٹھ گیا درمیان میں
بعض اشعار اختر صاحب کے ہاں مضمون کی تہ در تہ معنویت کے آئینہ دار ہیں ہر فکر کے نتیجے میں ان سے ایک نیا مضمون برآمد ہوتا ہے۔یہ شعر ایسا ہی معنی خیز ہے:
مرے نقشِ پا میں مرا نشانِ وجود ہے
مری زندگی کے یہ خواب ہیں، تجھے کیا خبر
اختر صاحب نے درویشانہ زندگی گزاری ہے۔سب کچھ ہونے کے باوجود ان کا اظہار عجز و انکسار اور ہر ایک کے ساتھ ان کا اخلاص اور حسن سلوک ان کی زندگی کا حصہ رہا ہے۔غزل کا یہ شعر ان کی سیرت کا آئینہ دار بھی ہے اور ان کے نظریۂ زندگی کا اظہار بھی:
ناحق یہ بدگمانیاں دنیا کو مجھ سے ہیں
میں تو بدن کی خاک تلک چھوڑ جائوں گا
میں نے اختر صاحب کی زندگی کا بھی جائزہ لیا اور بقد رِعلم و فہم ان کی غزلوں کو بھی کھنگالا۔اب آئیے کچھ باتیں ان کی نعتیہ شاعری کے بارے میں ہو جائیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ غزل کہنا تو زیادہ سے زیادہ ذوق سلیم،حسِ لطیف اور قدرت الفاظ کا کھیل ہے لیکن نعتیہ شاعری تلوار کی دھار پر چلنے کا نام ہے۔گزشتہ ربع صدی سے اردو نعت کو بہت عروج نصیب ہوا لیکن معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ اس مقبولیت عامہ کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ
ع ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
جدیدیت کے جو علم بردار اور ترقی پسندی کے جو دعویدار کل تک نعت کو صنف سخن تک شمار کرنے کو تیار نہیں تھے،آج نعتیہ انعامات اور ایوارڈز کی طلب میں سال میں نعت کے کئی کئی مجموعے طبع کراکے عشاق نعت کے گروہ مخلصاں کی سربراہی کا علم ا ٹھائے ہوئے صفِ عشاق میں کھڑے نظر آتے ہیں۔جبکہ نعت نہ غزل کے فرضی محبوب کا سراپا بیان کرنے کا نام ہے نہ محبوب رب العالمین کے حضور اپنے خود ساختہ خیالات کو نعت کا عنوان دے دینے سے پذیرائی اور شرف قبولیت نصیب ہو سکتا ہے۔اس راہ کو طے کرنے کے لیے تو جہاں حُبِ رسولؐ درکار ہے وہاںمطالعہ قرآن و سیرت بھی لوازم نعت میں ایک بنیادی شرط ہے۔اختر صاحب کی نعتیں پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی داخلی کیفیت کے اظہار کا مرحلہ آتا ہے تو وہ نعت کی مشکل وادی سے پورے ادب و احترام سے گزرتے ہیں اور جب سیرت کے انوار کا ذکر ہوتا ہے تو قرآن کی آیات ان کی رہنما نظر آتی ہیں۔میں نے بہت گہری نظر سے ان کی نعتوں کا مطالعہ کیا اور مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ حضرت عائشہؓ کا یہ قول کہ’’کان خلقہ القرآن‘‘ یعنی جب ان سے پوچھا گیا کہ حضورؐ کے اخلاق کیسے تھے تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا:’’جو کچھ قرآن میں ہے وہی ان کے اخلاق ہیں۔‘‘
آب آئیے! اس حوالے سے ذرا ان کے نعتیہ اشعار پر نظر ڈالتے ہیں۔قرآن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو روزِ بعثت سے قیامت تک کے لیے رسول قرار دیا۔عقیدۂ ختم نبوت اسی تصور کا ایک جزو ہے۔سورۃ الاعراف،سورۃ الاحزاب،سورۃ الجمعہ،سورۃ آل عمران سمیت قرآن کے مختلف مقامات پر آپؐ کی عالمگیر نبوت کا تذکرہ ہے۔سورۃ الاعراف کی آیت نمبر۱۵۷ میں ارشاد ہے(ترجمہ)’’آپؐ فرما دیجئے کہ اے انسانو! میں تم سب کی طرف اس خدا کا رسول ہوں جو آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے۔‘‘اب اختر صاحب کی ایک نعت کے یہ منتخب اشعار دیکھیے:
پیغمبرِ سحر ہیں بہارِ جمال ہیں

وہ بزمِ ہست و بود میں اپنی مثال ہیں
وہ رحمتِ تمام ہیں وہ شفقتِ تمام

ہر زخمِ جاں کا تا بہ ابد اندمال ہیں
ان کے لبوں کی جنبشیں فردا کی سر گزشت

ماضی کا آئنہ ہیں، وہ تصویرِ حال ہیں
وہ ہر زمانے کے رہنما ہیں اور جو کتاب وہ لے کے آئے،وہ حشر تک رہنما بھی ہے اور محد سے لحد تک ہر حال و احوال کا نقشۂ کار بھی۔ اسے اختر نے نظم کیا اور اختصار کے ساتھ سارا فلسفۂ اسلام بیان کر دیا۔یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
یہ آخری کتاب جو انساں پہ آئی ہے

وجہِ نجاتِ عالمِ امکاں ہے حشر تک
اپنی حیات کا بھی یہ عنوانِ تابناک

ثمرہ ہے اس کا ارضِ تمنا سے قبر تک
قرآن سورۃ الجمعہ میں اور سورۃ آل عمران میں حضوؐر کی بعثت سے پہلے انسان کے کردار کے بارے میں کہتا ہے۔(ترجمہ)’’لوگ حضوؐر اکرم کی بعثت سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔‘‘اختر کہتے ہیں:
اس رحمتِ جہاں نے بڑا حوصلہ دیا دشوار راستوں سے گزرنا سکھا دیا
ان کا یہ شعر بھی اسی مضمون کا حامل ہے:
ان کی نگہ کے اٹھتے ہی ضو بار ہو گئے
آلودہ تھے جو لوگ زمانے کی دھول سے
قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم الشان وصف’’النبی الامی‘‘قراردیتا ہے۔یہ بات سورۃ الجمعہ کی آیت نمبر۲ میں بھی ہے اور سورۃ الاعراف کی آیت نمبر۱۵۷-۱۵۸ میں بھی ہے۔پھر آپؐ پر جو سب سے پہلے وحی اتری اسی میں اللہ کے نام سے پڑھنے کا حکم اور قلم کے ذریعے توسیع علم کا تذکرہ بطور خاص کیا گیا۔اختر صاحب کی نعت کا یہ شعر ان دونوں خصوصیات کے اظہار کی ایک خوبصورت کوشش ہے:
اے اُمیِ طیبہ تری اک جنبشِ لب سے کیا کچھ نہ فزوں رتبہ ہوا لوح و قلم کا
اسلام کی نگاہ میں زندگی ایک اکائی ہے۔چاہے عبادات ہوں یا زندگی کے دوسرے معاملات،قرآن پوری زندگی کے لیے پیغامِ رحمت بھی ہے اور پیغامِ شفا بھی۔سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر۸۲ میں اس بات کو’’ونُنَزِّلُ مِنَ الْقُرآنِ مَا ھُوْشَفَائُ و رَحْمَۃ’‘ للمؤمِنِین‘‘کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی’’ ہم قرآن میں جو کچھ نازل کر رہے ہیں وہ ماننے والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔‘‘اختر صاحب کی نعت کا یہ شعر دیکھیے:
جوانی کی دنیا، گناہوں کا طوفاں
مگر حرفِ قرآں ہے حق کا سفینہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر امتی کی یہ ذمہ داری لگائی ہے کہ حضوؐر سے جو بات اس تک پہنچے وہ اسے دوسروں تک پہنچائے۔بلّغوااعنی لو بایۃ قرآن نے بھی حکم دیا(ترجمہ) ’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔‘‘اختر صاحب نے بہت خوبصورتی کے ساتھ توسیع دعوت دین کے لیے ان احکام کو شعر کا لباس پہنایا ہے:
کچھ اور اگر نہ ہو سکا،میں پھر بھی کم سے کم
نورِ عمل کے بیج ہی بُو جائوں گا یہاں
توسیع دعوت کے لیے اختر صاحب کا یہ شعر بھی اسی جذبے کا اظہار کر رہا ہے:
خدا کرے کہ زمانہ بھی نیند سے جاگے
سحر کے وقت میں جب ان کا نام لے کے اٹھوں
سچائی، امانت اور عدل و احسان سیرت طیبہ کے نمایاں پہلو ہیں۔اختر صاحب کا یہ شعر انھی پہلوئوں کا بیان ہے:
تری سیرتِِ مقدس ترے صدق کی گواہی تو چراغِ عدل و احساں تو کمالِ خیر خواہی
منصب رسالت بَلَغْ مَا اُنْزِلَ عَلَیْکَ یعنی حضوؐر کی یہ ذمہ داری ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کہ ان پر جو نازل کیا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچائیں۔اختر صاحب کی نعت کا یہ شعر اسی مضمون کا آئینہ دار ہے:
ایک لہجہ چاہتوں کا، ایک آوازِ سروش
دُور جاتا کارواں نزدیک لانے کے لیے
اسی نعت میں اختر صاحب نے ختم نبوت کا اظہار ایک نئی جہت سے کیا ہے:
ایک جھونکا زندگانی کی نسیمِ صبح کا
اک کرن خورشید کی سب کو جگانے کے لیے
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم خصوصیت صاحب جوامع الکلم ہونا ہے۔اخترصاحب کے مندرجہ ذیل اشعار میں اس کا اظہار بہت خوبصورت ہوا ہے:
حرمتِ حرف اُمی لقب سے ملی

منزلِ حق بھی ان کے سبب سے ملی
ان کی شفقت کا انعام و اکرام ہے

ہم کو جو بھی متاع اپنے رب سے ملی
صراط مستقیم قرآن کا راستہ ہے اور اللہ کی محبت حضوؐر کی پیروی کرنے والوں کو نصیب ہوتی ہے۔(ترجمہ)’’تم میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔‘‘(سورۃ آل عمران)
یہ مضمون اختر صاحب کی نعت کے اس شعر میں دیکھیے:
جو راہ کہ جاتی ہے سوئے وادیٔ طیبہ
فردوس کی جانب بھی وہی راہ گزر ہے
قرآن نے آدابِ گفتگو کے دو سلیقے بتائے۔لوگوں سے بھلی بات کہنا(سورۃبقرہ)آہستہ آواز میں گفتگو کیجیے(سورۃ لقمان)اب اختر کی نعت کا یہ شعر دیکھیے:
گونگے لفظوں نے پیرہن بدلا
لہجے شیریں کلام تک پہنچے
حُبِ رسولؐ ایمان کا تقاضا ہے۔نعت میں اس جذبے کا اظہار بھی نعت کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔یہ جذبہ بھی اختر صاحب کے ہا ں بہت نمایاں ہے۔کہتے ہیں:
حُبِ نبی ہے دولتِ ایمان و آگہی
یک گونہ منزلیں ہیں مدینے کی راہ میں
محبت کے اظہار میں نفیِ ذات اور انکسار،آداب کا قرینہ ہے اور اختر صاحب کا یہ شعر اس قرینے کا بھر پور اظہار ہے۔وہ تحیر کے عالم میں کہتے ہیں کہ مجھ جیسا گنہگار،میرے جیسا بے حقیقت اور مدینہ میں۔۔۔۔؟
خاک کا ذرہ اور مدینے میں
مجھ کو رکھ دو کسی خزینے میں
اختر صاحب کی نعت کا ایک اور انداز:
حرفِ اقرأ کی کوئی معجز بیانی دیکھ لے
اس نے جو کنکر اٹھایا اس کو گویا کر دیا
انسانی تاریخ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے ایک حقیقی انقلابی روح بیدار ہوئی اور انسان کی زندگی کا ہر گوشہ بنیادوں تک تبدیل ہو گیا۔اختر صاحب اس مضمون کو نعت کا موضوع بناتے ہیں تو کہتے ہیں:
تاریخِ آدمی میں نیا باب لکھ گئی
ساعت جو تھی رسولِؐ خدا کے ظہور کی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اظہار کا جو طریقہ ہائے کار اللہ تعالیٰ نے تعلیم فرمائے،ان میں سے ایک درود شریف کا ورد بھی ہے۔ اس بات کو اختر صاحب اس طرح کہتے ہیں:
درودوں کی صدائوں کے تصدق
میں اپنے قد سے اونچا ہو گیا ہوں
حضوؐر کا اندازِ رہبری محبت سے معمور ہے۔اس لیے کہ اللہ نے انھیں سارے عالموں کے لیے رحمت بنا کے بھیجا ہے۔آپؐ نے اسلام کے نظام کو پھیلانے کے لیے نہ جبر کا استعمال کیا نہ طاقت کا بلکہ یہ تو دلوں کے دروازے پر محبت کی دستک ہے جس نے لوگوں کی سوچ کے زاویے بدل دیے اور خون کے پیاسے آپؐ کی محبت کا دم بھرنے لگے۔یہ مضمون اختر صاحب کی نعتوں میں کئی زاویوں سے آیا ہے مثلاً:
دنیا کو نیا رنگ ملا راہبری کا اعجاز ہے یہ میرے رسولِؐ عربی کا
حضوؐر کا ذکر بھی حضوؐر سے محبت کا ایک اظہار ہے اور محبت کی توسیع کا طریقہ کار بھی۔یہ طریقہ جو حضور اکرمؐ نے تعلیم فرمایا،اس پر اختر صاحب کی نعت کا یہ شعر دیکھیے:
لوگوں نے گفتگوکے قرینے بدل لیے
یہ معجزہ ہے ذکرِ رسالت مآب کا
ایک اور شعر ملاحظہ ہو:
کفر و باطل کی انھی سے ہمیں پہچان ملی
کہ اجالوں کا ہے سرچشمہ صداقت ان کی
حضوؐر کی بارگاہ میں آہستہ کلامی ادب کا قرینہ ہے اور اس کا حکم اللہ نے خود سورۃ الحجرات میں دیا ہے۔اختر صاحب کی نعت میں یہ مضمون بڑے منفرد انداز سے آیا ہے:
دبے پائوں وہاں آتا ہے سورج
کہ فطرت کو بھی گستاخی کا ڈر ہے
نعت گوئی نہ تو صرف تاریخ سیرت بیان کرنے کا نام ہے،نہ یہ قرآن کی تفسیر کا موضوع ہے،نہ تنہا داخلی جذبات کے اظہار کا ذریعہ ہے بلکہ یہ تو نام ہے انھی ارکان ثلاثہ کے ایسے شاعرانہ اتحاد کا کہ جس میں بات دل سے نکلے اور دل میں اتر جائے۔الحمدللہ،اخترصاحب کی نعتیہ شاعری میں بھی نعت کے یہ تینوں اہم اجزا بڑے سلیقے اور توازن کے ساتھ اپنائے گئے ہیں۔اس بات کا شعوری احساس خود اخترصاحب کی شاعری میں بھی ملتا ہے۔یہ دونوں شعر ہمارے اس دعوے کی دلیل کے لیے کافی ہیں:
رسولِ صدق آئے تو بہارِ صدق بھی آئی

اور اس کے ساتھ بزمِ انس و جاں میں زندگی آئی
حدیثِ مصطفیٰؐ ہی دل کا روشن استعارہ ہے

کہ لفظوں میں اسی سے خوبیِ آہنگ بھی آئی
اختر صاحب خود بھی اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ’’فن‘‘ اپنا کوئی مخصوص نظریہ نہیں رکھتا بلکہ پیرایۂ اظہار ہی فن کا دوسرا نام ہے اور شاعری کے بارے میں یہی سب سے سچی اور معتدل بات ہے جو ایک مقام پر خود اختر صاحب ہی نے کہی ہے اور ہم اسی پر اپنے اس اظہارِ عقیدت کو سمیٹ لیتے ہیں کہ جس شخص نے ادب کے بحرانی دور اور الحادی فضائوں میں آنکھ کھولی،اللہ نے اسے مدحتِ رسولؐ کے منصبِ رفیع سے سرفرا ز کر دیا:
ع یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے

Related posts

Leave a Comment