جناح سے قائد اعظمؒ ۔۔۔ پروفیسر محمد یعقوب شاہق

جناح سے قائد اعظمؒ

محمد علی جناح نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز ۱۹۰۶ ء میں ’’ انڈین نیشنل کانفرنس‘‘ میں شمولیت سے کیا۔ ۱۹۱۳ء میں انھوں نے ’’آل انڈیا مسلم لیگ ‘‘ میں بھی شمولیت کی۔ ۱۹۱۶ء کے ’’ میثاق لکھنو‘‘ میں ان کاکلیدی کردار تھا جس میں پہلی مرتبہ’’ مسلم لیگ ‘‘ اور مسلمانوں کے وجود کو کانگریس اور اس کے نیتائوں نے تسلیم کیا لیکن انھیں ’’ قائدِ اعظم‘، بننے کے لیے ایک طویل سیاسی سفر طے کرنا پڑا۔ وہ دور ہندوستان کی تاریخ میں سیاسی مدد جذر کا دور تھا اور ہندوستان کے مسلمان اپنی منفرد تہذیبی اقدار‘ اپنی شناخت اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے تھے۔
جنگ عظیم اول کے بعد جب اتحادی افواج نے ترکی کے دورالحکومت قسطنطنیہ پر قبضہ کر لیا تو ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات آتش فشاں بن گئے اور تحریک خلافت وجود میں آئی اور حصول آزادی کے لیے بے پناہ سیاسی شعور پیدا ہوا لیکن ۳ مارچ۱۹۲۴ ء کو ترکی کے مصطفی کمال پاشا نے خود وہی ’’ خلافت ‘‘ کا بوجھ اتار پھینکا۔ خلیفہ کو ملک بد ر کر دیا ۔ اس طرح ملت اسلامیہ ‘‘ اتحاد‘ ، کے مرکز سے محروم ہوگئی ۔ علامہ اقبال نے اس واقعہ کا عمل اس شعر میں بیان کیا۔؎
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوورں کی عیاری بھی دیکھ
خلافت کا ادارہ بکھر جانے کے بعد ہندوستانی مسلمان بھی پراگندہ فکر ی اور مایوسی کا شکارہوگئے۔ ہنندو لیڈر مسٹر گانڈھی نے تحریک کے دوران میں مصلحت کے تحت مسلمانوں سے جس ہم آہنگی کامظاہرہ کیاتھا وہ تحریک کے عین شباب میں علیحدہ ہوگئے تھے اور جملہ ہندو لیڈر اس بات پر متفق ہوگئے تھے کہ مسلمانوں کی قوت کو طاقت کے بل بوتے پر کچل دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہندو لیڈروں نے کئی جارحانہ اقدارمات کیے۔ پہلے قدم کے طور پر ’’ مہا سبھا‘‘ کے نام سے ایک ہندو تنظیم کا قیام عمل میں لایا گیا جس نے ’’ آل انڈیا کانگریس‘‘ کے اندر نفوذ کیا اور علی الاعلان کہنے لگے کہ اگر مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنا تو ہندو بن کر رہنا ہوگا۔ ہندئوں نے دوسرا جارحانہ قدم’’ شدھی‘‘ کی تحریک کی صور ت میں اٹھایا جسے آریہ سماجی لیڈر’’ شردہانند‘‘ نے منظم کیا تھا اور جس کا مقصد مسلماوں کو دوبارہ ہندو بنانا تھا ۔ تیسرا جارحانہ اقدام ’’ سنگٹھن‘‘ کی صورت میں اُٹھایا گیا جس کا مقصد مسلمانوں کے مقابلہ میں ہندوئوں کو منظم کرنا تھا اور چوتھا جارہانہ اقدام راشٹر یہ سیوک سنگھ(آر ایس ایس) کا قیام تھا جس کا مقصد ہندوئوں کو عسکری اعتبار سے مسلح کر کے مسلمانوں کا قتل عام کرنا تھا ۔ ان پے در پے اقدامات کے علاوہ آل انڈیا کانگریس سیاسی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کے منافقانہ نعرہ کو بلند آہنگی سے دہرارہی تھی۔ منصوبہ یہ تھا کہ سادہ لوح مسلمانوں کو اس جال میں جکڑ کر اپنی عددی اکثریت کی بنا پر مسلمانوں کو غلام بنا لیا جائے۔ان درد انگیز حالات میں۱۹۳۰ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا الہٰ آباد میں اجلاس ہوا جس میں علامہ اقبال نے صدارتی خطبہ میں اسلام اور ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش چیلنجز کا عالمانہ تجزیہ کرتے ہوئے ایک خود مختار اسلامی ریاست کے قیام کا تصور پیش کیا۔ ان کے خطاب کا ایک جملہ یہ تھا کہ’ ’ اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام ایک تمدنی قوت کے طور پر زندہ رہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقہ میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔‘‘
۱۹۳۰ء سے ۱۹۴۰ء کا زمانہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے بڑی ابتلاء آزمائش کازمانہ تھا۔ ہندوئوںمیں مسٹر گاندھی کے علاوہ جواہر لعل نہرو ‘ سبھاش چند ر بوس‘ اچاریہ کر پلانی، راجندر پرشاد‘ ولبھ بھائی پٹیل‘ گوپال کرشن گو کھلے اور مرار جی ڈیسائی جیسے لیڈ رموجود تھے ۔ لیکن مسلمانوں میں سوائے محمد علی جناح کے کوئی سیاسی لیڈر موجود نہ تھا جس کی فہم و فراست ‘ دیانت و امانت‘ اصول پرستی اور سیاسی دانش پر اعتماد کیا جاسکتا ۔ ان حالات میں علامہ محمد اقبال نے محمد علی جناح سے خطوط کے ذریعے مسلسل رابطہ رکھا اور انھیں اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ اس نازک دور میں مسلمانوں کی سیاسی قیادت کریں اقبال کے یہ خطوط۱۹۴۳ء میں کتابی صور ت میں شائع ہوئے جس کا پیش لفظ خود قائد اعظم نے لکھا۔ اس پیش لفظ کے اختتامی الفاظ یہ تھے ۔
’’ میرے نزدیک یہ خطوط زبردست تاریخی اہمیت کے حامل ہیں ‘ بالخصوص وہ خطوط جن میں مسلم ہندوستان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں غیر مبہم خیالات کا اظہار کیاگیا ہے ۔ ان کے خیالات بہت حد تک میرے خیالات سے ہم آہنگ تھے اور ہندوستان کے دستوری مسائل کے مطالعہ اور تجزیہ کے بعد بالآخر میں بھی ان ہی نتائج پر پہنچا اور کچھ عرصہ بعد یہی خیالات مسلم ہندوستان کے اس متحدہ ادارہ کی صورت میں سامنے آئے جس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کی قرار دادلاہور میں ہوا ۔‘‘
۱۹۳۸ء کے اوائل میں محمد علی جناح کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں پہلی مرتبہ ایک قرار داد منظور کی گئی جس میں مسلمانان ہند کو کامل آزادی اور مسلم ریاستوں کے وفاق تشکیل کرنے کو ہدف قرار دیا گیا اور مسلم لیگ کو عوامی جماعت بنانے میں دن رات ایک کر دیے۔ حتیٰ کہ ۲۳ مارچ۱۹۴۰ء کو لاہور کے مقام پر اسلامیان ہند کو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد کر لیا اور ایک قرار داد متفقہ طور پر منظور ہوگئی جسے’’ قرار داد پاکستان ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اس دور میں قوم نے انھیں قائد اعظم کا خطاب دیا۔
ہندوستان کی تقسیم کے تصور سے ہندو لیڈروں زبانیں زہر اگلنے لگیں لیکن قائد اعظم نے سات برسوں کا یہ سفر مستقل مجازی نہایت دانش مندی اور حکمت سے طے کیاقائد اعظم نے سخت نا مساعد حالات نے غربت اور پسماندگی سے کچلی ہوئی قوم کو اپنی بصیرت اور اعلیٰ کردار سے ایک عظیم الشان نصب العین دے کر زندگی کی نئی امنگوںسے سر شار کیا اور میدانِ کشمکش میں اتار دیا۔۱۹۴۰ء سے ۱۹۴۷ء تک کا زمانہ بہت سے نشیب و فراز سے بھرا ہوا ہے اس دور میں انگریزوں اور ہندوئوں نے متحدہ پالیسی سے ترغیب و تحریص اور دبائوکا حربہ استعمال کیا لیکن قائدِ اعظم اپنے موقف پر چٹان کی طرح ثابت قدم رہے اور کسی مرحلے میں بھی ان کے پائے ثبات میں لغزش نا آسکی۔ ہندو لیڈروں کے متحدہ قومیت کے تصورات کا جواب دیتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا۔ ہم اس بات کے قائل ہیں اور ہمارا دعویٰ ہے کہ مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں جو قومیت کے ہر معیار اور ہر تعریف پر پورا ترتی ہیں ۔ ہم دس کروڑ انسانوں کی ایک قوم ہیں جو مخصوص تہذیب و تمدن زبان و ادب آرٹ اور فن تعمیر‘ احساسات و اقدار‘ قانونی احکام‘ اخلاقی ضوابط‘ رسوم‘ و رواج تقویم( کلینڈر) تاریخی روایات‘ رجحانات اور عزائم کی مالک ہے ۔ خلاصہ بحث یہ ہے کہ زندگی اور اس کے متعلقات کے بارے میں ہمارا زاویہ نگاہ جدا ہے اور بین الاقوامی قانون کی ہر دفعہ کے لحاظ سے ہم ایک قوم ہیں۔‘‘
قائد اعظم سیدھی سادی اور دو ٹوک بات کہنے کے عادی تھے۔ ۲۰ فروری۱۹۴۰ ء کو مسلم لیگ کے اجلاس منعقد ہ دہلی میں انھوں نے صاف اور دو ٹوک الفاظ میں فرمایا۔
’’ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہمارامطمحِ نظر کیا ہے ؟ بات بالکل صاف ہے ۔ برطانیہ ہندوستان پر حکومت قائم کرنا چاہتا ہے ۔ مسٹر گاندھی اور کانگریس مسلمانوں پر حکومت کے خواہاںہیں ۔ ہم برملا کہتے ہیں کہ ہم نہ برطانیہ کو مسلمانوں پر حکومت کرنے دیں گے اور نہ مسٹر گاندھی اور کانگریس کو اپنے سر پر سوار کریں گے بلکہ دونوں کے اثر سے آزاد ہونا چاہتے ہیں ۔‘‘
پاکستان کے دستوری مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ۱۳جنوری۱۹۴۸ء میں اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’ ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کو آزما سکیں۔‘‘
فروری۱۹۴۸ء کو ایک تقریر میں فرمایا:
’’ پاکستان کی مجلس آئین ساز کو ابھی پاکستان کا آئین مرتب کرنا ہے ۔ میں نہیں جانتا کہ اس کی حتمی شکل کیا ہوگی لیکن مجھے یقین ہے کہ یہ اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی جمہوری آئین ہوگا‘ ہماری زندگی میں آج بھی وہ اصول اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے ۔ اسلام اور اس کے بنیادی تصورات نے ہمیں جمہوریت کی تعلیم دی ہے ۔ اس نے ہمیں مساوات ‘ انصاف اور ہر شخص کے ساتھ سچائی کا رویہ اختیار کرنا سکھایا ہے ۔ ہم ان عظیم روایات کے وارث ہیں اور اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے پوری طرح آگاہ ہیں۔‘‘
مختصر یہ کہ قائد اعظم نے کم بیش۴۳ سال سیاسی میدان میں گزارے جن میں آخری پندرہ سالوں میں نہایت فعال اور متحرک زندگی گزاری اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک ایسی مہیا کر دی جسے جدیداسلامی فلاحی مملکت کا ماڈل بننا تھا۔ بانیان پاکستان نے پستی میں گری ہوئی قوم کو ایک عظیم نصب العین کی حرارت دے کر آسمانوں کی بلندیوں تک پہنچا دیا لیکن ان عقابوں کے نشیمن پر بیٹھنے والے زاغوں نے قوم کو بلندیوں سے اتار کر تحت الثریٰ تک پہنچا دیاہے۔ نظریہ پاکستان سے انحراف کے نتیجہ میں پچیس سال بعد وطن کو دو لخت کر دیا اور باقی ماندہ پاکستان آج تک سیاسی نظام سے محروم ہے ۔ہم قائد اعظم کے نظریات کے مطابق ایک اسلامی ‘ فلاحی‘ جمہوری ریاست بنانے میں ناکام رہے اور آج ہم اپنے ازلی دشمن کے ہر جائز و ناجائز مطالبہ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے جارہے ہیں۔ ہماری سالمیت ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئی ہے اور قومی خودی صلیب پر لٹک رہی ہے ۔

Related posts

Leave a Comment