محمد حسین آزاد کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ : بہ حوالہ ”  نیرنگِ خیال” ۔۔۔۔ زاہد ہمایوں

A style is an aspect or dimension of thoughts and emotional manifestation which owes its existence to the individuality of an author. The despair in “Meer”, mysticism in “Dard” and loftiness of thoughts in “Ghalib” are all styles.

         Similarly, the gravity in “Hali”, the religious encroachments of Nazir Ahmed and imaginary personification in “Azad’s writings are all styles. According to a research conducted by “Dr. Muhammad Sadiq”, the essay of “Nairang-e-Khayal” are the translated versions of English pieces of writings of “Johnson”, “Edison”, and “Steele” etc. For the Sake of logical argument, “Azad” has furnished numerous references of paralled excerpts in his writings.

         “Azad” was unaware of English language himself but according to Ram Babu Saksena, Dr. Layer persuaded Azad to learn English. To Dr. Abu Saeed Noor-Ud-Din, Col. Halright also motivated Azad for English.

         Azad’s grandeur lies is not only confined to his very fact that he introduced Urdu Laureate class to the western Prose literature but also made these translated writings, through his visionary powers of thoughts, a living legend for all and sundry. His dramatic style and sophisticated narrative way maintains his discrete individuality.

 

گیسوئے اُردو کو سنوارنے نکھارنے اور شانے سے بے نیاز کرنے میں ؛ جن عظیم ہستیوں نے نمایاں خدمات انجام دیں اُن میں “مولانا محمد حسین آزاد” کا نام سرِ فہرست ہے،

محمد حسین آزاد  ۱۰ جولائی ۱۸۳۰ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد باقر تھا ۔ جنھوں نے ۱۸۳۶ء میں “دہلی اُردو اخبار” جاری کر کے شمالی ہندوستان میں اُردو صحافت کی بُنیاد ڈالی۔ محمد حسین آزاد اُستاد ذوق کے شاگرد رہے اور غدر کے دنوں بھاگ کر پنج آب آگئے:

خاندانی رواج کے مُطابق مولانا محمد باقر نے اپنے فرزند محمد حسین کو پہلے اپنی نگرانی میں علومِ دینیہ کے منازل طے کرائے۔ پھر مسٹر ٹیلر کے کہنے سُننے سے انھیں دہلی کالج میں داخل کرایا تاکہ معقولات میں بھی دست گاہ پیدا کر لیں۔

         محمد حُسین شروع سے ہی بڑے ہونہار تھے۔ مسٹر ٹیلر کی سر پرستی بھی انھیں حاصل تھی جو مولانا محمد باقر کے بہت گہرے دوست تھے۔”  ۱؎

“آبِ حیات”  “سخن دانِ فارس”  “نگارستان , ــ”قصصِ ہند”  ،  “نظم آزاد”  ،  “دربارِ اکبری” ، ” نیرنگِ خیال” وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ آزاد کی تحریروں کا مطالعہ پانچ حیثیات سے کیا جا سکتا ہے۔

ا۔بہ حیثیت  انشا  پرداز۔

ب۔بہ حیثیت نقاد۔

ج۔بہ حیثیت مورخ۔

د۔بہ حیثیت مضمون نگار۔

ہ۔ بہ حیثیت شاعر۔

         اس وقت ہمارا موضوع “نیرنگ خیال” کے حوالے سے “مولانا محمد حسین آزاد “کے اسلوب کا تجزیاتی مطالعہ ہے۔ جس کی وجہ ان کا نام اُردو ادب کے گلشن میں سدا بہار پودے کی طرح ہرا بھرا ہے۔

         اسلوب کیا ہے؟ اس سلسلہ میں “کشاف تنقیدی اصطلاحات” میں ابو الاعجاز حفیظ صدّیقی رقم طراز ہیں کہ:

اسلوب(Style)ـ سے مُراد کسی ادیب یا شاعر کا وہ طریقہ ادائے مطلب یا خیالات و جذبات کے اظہار و بیان کا وہ ڈھنگ ہے ۔جو اس خاص صنف کی ادبی روایت میں مُصنف کی اپنی انفرادیت (انفرادی خصوصیات ) کے شمول سے وجود میں آتا ہے۔ چونکہ مُصّنف کی انفرادیت کی تشکیل میں اس کا علم ،کردار،تجربہ،مُشاہدہ، افتاد طبع، فلسفہ حیات اور طرزِ فکر و احساس جیسے عوامل مل کر حصہ لیتے ہیں ۔

         اس لیے اسلوب کو مُصّنف کی شخصیت کا پرتو اور اس کی ذات کی کلّید سمجھا جاتا ہے۔ـ”  ۲؎

         انفرادیت اسلوب کی روح ہے ۔ نثر میں انفرادیت بہت مُشکل سے ہوتی ہے۔ اُسلوب کے بغیر ادب کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ میر کے ہاں جو سادگی ہے ، سہل متنع ہے۔ جذبوں کی گرمی دُکھوں کی آہٹ ہے ، سودا کے ہاں شان و شوکت ہے ؛درد کے پاس تصوف ہے ، غالب کے ہاں جو بلند تخیل ، لطافت اور نزاکت ہے ؛ مومن کے ہاں جو عشقیہ انداز ہے ؛ یہ سب اسلوب ہے۔

         اسی طرح خطوطِ غالب کی شگفتگی و بذلہ سنجی ، نذیر احمد کی مذہبی موشگافیاں ، حالی کی متانت و سنجیدگی اور مولانا محمد آزاد کی مرقع نگاری سب اسلوب ہے۔

کسی بھی فن پارے کا مُصّنف اپنے اسلوب سے ہی مُنفرد ممتاز ٹھہرتا ہے۔

         مولانا محمد حسین آزاد ایک صاحب ِ طرز انشاء پرداز ہیں۔ وہ اپنے اسلوب کی بُو قلمونیوں اور رنگینیوں سے مُنفرد پہچان رکھتے ہے۔

         “نیرنگِ خیال” تیرہ تمثیلی مضامین پر مُشتمل ہے۔پہلے پہل اسے دو حصوں میں شائع کیا گیا تھا۔حصّہ اول پہلے سات مضامیں اور دوسرا حصّہ آخری پانچ مضامیں پر مُشتمل تھا ۔ پہلا حصّہ ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا، اگرچہ اس کے مضامیں اس سے کُچھ عرصہ پہلے لکھے جا چُکے تھے۔دوسرا حصہ آزاد کی وفات کے تیرہ سال بعد۱۹۲۳ء میں شائع ہوا۔

         یہ کتاب تصنیف ہوئی تو سوال اُٹھا کہ ان مضامیں کا مواد کہاں سے لیا گیا؟ کیا یہ مضامین طبع زاد ہیںیا انگریزی مظامین کے ترجمہ شدہ ہیں ۔ اُس وقت یہی خیال عام تھا کہ آزاد انگریزی نہیں جانتے یہ مُعمّا ڈاکٹر محمد صادق کی تحقیق نے آسان کر دیا ۔ وہ “نیرنگِ خیال” کے مُقدمے میں لکھتے ہیں کہ جب وہ ۱۹۳۷ء میں آزاد کا مضمون “سیرِ زندگی” پڑھ رہے تھے تو ایسا لگا کہ وہ پہلے انگریزی میں اس قسم کا مضمون پڑھ چُکے ہیں ، چناں چہ تھوڑی سی جستجو کرنے سے وہ مضمون مل گیااور موازنہ کرنے پر اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ مضمون تو ترجمہ شدہ ہے۔ پھر”نیرنگِ خیال” خیال کے باقی مضامین کی کھوج لگائی تو جانسن ، ایڈیسن، سٹیل وغیرہ کے مُطالعے سے یہ ثابت ہوا کہ اس کتاب کے دیگر مظامین بھی انگریزی سے ماخوز ہیں ۔

“ذیل میں ان مضامین کی فہرست دی جاتی ہے۔ جن سے “نیرنگِ خیال ـ ” کے مضامین ماخوذ ہیں:

“An Allegorial History of Rest and Labour

  ____Johnson .

“آغازِ آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھااور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا

“Truth falsehood and Fiction an allegory”____ Jophnson.

سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ

“The garden of Hope, a Dream” ____ Johnson.

گُلشنِ امید کی بہار

“The Endeavour of mankind to get rid of their Burdens, a dream”_____ Johnson.

انسان کسی حال میںخوش نہیں رہتا

“The conduct of patronage”  Johnson.

علوم کی بد نصیبی

“An Allegory of wit and learning”  Johnson.

علمیت اور ذکاو ت ر کے مُقابلے

Paradise of fools” ____ parnell the spectator , No 35.

جنّت الاحقما

The spectator , No. 460.

خوش طبعی

An Allegory of criticism ____ Johnson

نکتہ چینی

Addison , The Spectator , No. 63.

مُرقّع خُوش بیانی

Addison. The Spectator, No. 501.

سیرِ عدم

Vision of the tables of fame; The Tatler, No. 81.

شہرت ِ عام اور بقائے دوام کا کاروبار”   ۳؎

ڈاکٹر محمد صادق کا کہنا ہے کہ آزاد کے تمام مضامین کو ترجمہ کہنا ہی دُرست ہو گا۔ کہیں کہیں تصرفات اور اضافے بھی ملتے ہیں ۔ لیکن ان کی نوعیت محض تشریحی یا توضیحی ہے۔

 

         ڈاکٹر محمد صادق نے دلیل کے طور پر بے شمار اقتباسات کا حوالہ دیا ہے تاکہ قاری خود فیصلہ کرے کہ آزاد نے کس حد تک استفادہ کیا ہے۔ان میں سے چند متوازی اقتباسات بہ طور مُشتِ نمونہ از          خروارے ملاخطہ فرمائیں:

“It is reported of the persians by an ancient writer that the sum of their education consisted in teaching

     youth to ride, to shoot with the bow, and to speak truth.

  The bow and the Horse were easily mastered , but it would have been happy if we had been informed by what arts veracity was cultivated, and by what preservations a persian mind was secured against the temptations to falsehood.

              There are indeed , in the present corruption of mankind, many incitements of forsake truth, the need of palliating our own faults, and the convinence of imposing on the ignorance or credulity of others, so frequently occur  ; so many immediate  evils are to be avoided , and so many present gratifications obtained, by crafts and delusion, that  very few of those who are much entangled in life. have spirit and constancy sufficient to support them in the steady practice of open veracity.”

سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ:

                  عہدِ قدیم کے مورخ لکھتے ہیں کہ اگلے زمانے میں فارسی کے شرفا اپنے بچوں کے لیے تین باتوں کی تعلیم میں بڑی کوشش کرتے تھے؛  شہسواری، تیر اندازی اور راست بازی۔   شہسواری، تیر اندازی تو بے شک سہل آجاتی ہو گی، مگر کیا اچھی بات ہوتی اگر ہمیں معلوم ہو جاتا کہ راست بازی کن کن طریقوں سے سکھاتے تھے، اور وہ کون سی سپر تھی کہ جب دروغ دیو زاد آ کر دلوں پر شیشئہ جادو مارتا تھاتو یہ اس چوٹ سے اس کی اوٹ سے بچ جاتے تھے۔

         اس میں شک نہیں کہ دُنیا بُری جگہ ہے۔ چند روزہ عُمر میں بُہت سی باتیں پیش آتی ہیں جو اس مُشتِ خاک کو اس دیوِ آتش زاد کی اطاعت کے لیے مجبور کرتی ہیں۔

         انسان سے اکثر ایسا جُرم ہوتا ہے کہ اگرقبولے کومرنا پڑتا ہے ، ناچار مُکرنا پڑتا ہے۔ کبھی آبلہ فریبی کر کے جاہلوں کو پھنساتا ہے، جب لُقمہ رز ق کا پاتا ہے ۔ اس کے علاوہ بہت مزے دُنیا کے ہیں مکرو دغا ان کی چاٹ لگاتی ہے۔ اور جزوی جزوی خطائیں ہو جاتی ہیں۔

         جن سے مُکرتے ہی بن آتی ہے ۔غرض بہت ہی کم انسان ہوں گے جن میں یہ حوصلہ و استقلال ہو کہ راستی کے رستے میں ہر دم ثابت قدم ہی رہیں۔  ۴؎

 

“I was musing on the strange inclination which every man feels to deceive himself, and considring the advantage and dangers proceeding from this gay prospect of futurity, when falling asleep, on a sudden I found myself placed in a garden of which my sight could descry no limits. Every scene about me was gay and gladsome , light with sunshine , and fragrant with perfumes.

  The ground was painted with all the variety of spring , and all the chair of nature was singing in the groves.”………..

گُلشنِ اُمید کی بہار:

                  میں ایک رات انھی خیالات میں حیران تھا، اور سوچ رہا تھا کہ انسان کے دل میں یہ  شو ق سے پیدا ہو جا تاہے۔ جس سے اپنے تئیں آپ دھوکہ ہوتا ہے، اور زمانہ ء آئندہ پر رنگ آمیزیاں چڑھا کر خود اپنے لیے اُمید و بیم اور نفع و نقصان کے سامان تیار کر لیتا ہے۔یکا یک آنکھ لگ گئی ، دیکھتا ہوں کہ میں ایک باغِ نو بہار میں ہوں جس کی وُسعت کی انتہا نہیں ہے ، اُمید کے پھیلائو کا کیا ٹھکانہ ہے؟ آس پاس سے لے کر جہاں تک نظر کام کرتی ہے، تمام عالم رنگین و شاداب ہے۔

         ہر چمن رنگ و روپ کی دھوپ سے چمکتا ، خوش بو سے مہکتا نظر آتا ہے ۔ ” زمیں فضلِ بہار کی طرح گُل ہائے گو نا گوں سے بو قلموں ہو رہی ہے اور رنگا رنگ کے جانور درختوں پر چہچہے بھر رہے ہیں۔ ـ”  ۵؎ ۔۔۔۔۔

“It is a celebrated thought of socrates, that if all the misfortunes of mankind were cost into a public stock, in order to be equally distributed among the whole species, those who now thick themselves the most unhappy, would prefer the share they have already possesed of before that which would fall to them by such a division.

      Horace has carried this thought a great deal further in the motto of my paper which implies, that the hardships or misfortunes we lie under are more easy to us than those of any other person would be , in case we could change condition with him……….”

انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا:

         سقراط حکیم نے کیا خوب لطیفہ کہا ہے کہ اگر تمام اہل دُنیا کی مُصیبتیں ایک جگہ ڈھیر کر دیں اور پھر سب کو برابر بانٹ دیں ، تو جو لوگ اپنے تئیں بد نصیب سمجھ رہے ہیں وہ اس توتقسیم کو مُصیبت اور پہلی مُصیبت کو غنیمت سمجھیں گے۔

         ایک اور حکیم اس لطیفہ کے مضمون کو اور بھی بالا تر لے گیا۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ہم اپنی اپنی مُصیبتوں کو آپس میں بدل بھی سکتے تو پھر ہر شخص اپنی پہلی ہی مُصیبت کو غنیمت سمجھتا۔  ”  ۶؎   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پتا چلتا ہے کہ آزاد کے زیادہ تر مضامین براہ راست ترجمہ ہیں ۔ بڑی خوب صورتی کے ساتھ سطر بہ سطر ترجمہ ملتا ہے ۔ مزید یہ بھی انکشاف ہوتا ہے کہ آزاد اصل متن سے تجاوز نہیں کرتے اور یہ کہ با محاورہ ترجمہ بھی بڑی نزاکت سے کرتے ہیں ، ضرورت پڑنے پر زیبِ داستان کے لیے بر محل تفاصیل کا اضافہ بھی کرتے ہیں۔

         آزاد تو انگریزی زبان نہیںجانتے تھے تو پھر کمال کہاں سے سیکھا؟

         رام بابو سکینہ کا کہنا ہے کہ :

“آزاد نے  اپنے قصوں کی بُنیاد یونانی قصوں پر رکھی ہے اور اس سے ان کی یونانی علم الا صنام کی واقفّیت کا بہت کچھ پتا چلتا ہے ۔ ڈاکٹر لئیر نے ان کو اس کتاب کے لکھنے کی ترغیب دی تھی ۔ اور اس کا خاکہ تیار کر دیا تھا ۔

         مگر یہ بڑی قابلِ تعریف بات ہے کہ مولانہ آزاد باوجود انگریزی کم جاننے کے اس اتّباع میں

کامیاب ہوئے ۔ یہ کتاب ان کے خاص طرزِ تحریر میں لکھی گئی ہے ۔ مگر نفسِ مضمون سے زیادہ طرزِ بیان بہت

 دلچسپ ہے ۔” ۷؎

ڈاکٹر ابو سعید نور الدین اسی حوالے سے رقم طراز ہیں کہ :

نیرنگِ خیال کے عنوان سے اس رمزیہ اور تمثیلی مضامین کے لکھنے کے لیے کرنل ہالرائڈ نے جو اس زمانے میں ڈائریکٹر تعلیمات تھے، آزاد کو آمادہ کیا تھا ۔ انگریزی میں اس قسم کی کتابیں سوئفٹ اور جان بنین وغیرہ نے لکھی تھیں ۔

         کرنل ہالرائڈ نے آزاد کو وہ سب نمونے دکھا کر کچھ اشارے بتا دِیے تھے ۔ آزاد باوجود انگریزی نہ جاننے کے ان اشاروں کی مدد سے انگریزی کتابوں سے استفادہ کیا ۔ اور اردو ادب میں ایک نیا طرز رائج کیا۔  ۸؎

رام بابو سکسینہ کے مُطابق ڈاکٹر لئیر نے ترغیب دی کہ ڈاکٹر ابو سعید نور الدین کے بقول کرنل ہالرائڈ نے آزاد کو آمادہ کیا ۔ بات کچھ بھی ہو۔مگر ایسے ترجمے کوئی عام شخص ، جو انگریزی سے بالکل

 نا واقف ہو ، نہیں کر سکتا۔ ایسے ترجموں کے لیے انگریزی زبان سے اچھی خاصی واقفیت چائیے۔

اس حوالے سے خود ڈاکٹر محمد صادق تحریر کرتے ہیں کہ:

ــ”پوچھا جائے گا کہ مولانا آزاد انگریزی نہیں جانتے تھے تو انھوں نے ان مضامین سے کیسے استفادہ کیا ؟ یہاںصرف یہ بتادینا کافی ہو گا کہ آزاد نے بہ ذاتِ خود انگریزی میں اچھی خاصی استعداد حاصل کر لی تھی ، اور یہ تراجم بہ حیثیت مجموعی ان کی اپنی ہی کاوش کا نتیجہ ہیں “

         لیکن اس کے ساتھ یہ بھی معلو م ہوتا ہے کہ انھیں کسی مُستند انگریزی دان کی اعانت بھی حاصل تھی جو مُشکل مفاہیم و مطالب سمجھنے میں ان کی مدد کرتا تھا ۔ مثال کے طور پر علوم کی بد نصیبی “میں انھوں نے Astreaـ ـ” کا ترجمہ”کوکب جمال” کیا ہے۔جس سے مُصنف کے حسنِ ذوق اور جدت کا پتا چلتا ہے ۔ لیکن یہ کی اس کے لغوی اور ضمیاتی معنی تک ان کی رسائی محض ذاتی علم کی مدد سے ہوئی تھی، قرین ِ قیاس نہیں معلوم ہوتا۔” ۹؎

یہ بات تو طے ہو گئی کہ “نیرنگِ خیال ” کے بیش تر مضامین ترجمے ہیں۔ مگر بقول رام بابو سکسینہ “نفسِ مضمون سے زیادہ طرزِ بیان ” بہت دلچسپ ہے” ۔

         “نیرنگِ خیال”  کے اسلوب میں جو روانی ، بر جستگی اور شگفتگی ہے ، کہیں بھی ترجمے کا گُمان نہیں ہوتا۔ تخیل و رومان میں ڈوبی سطریں آزاد کی طبع زاد معلوم ہوتی ہیں۔

         دراصل اٹھارویں صدی میں انگلستان میں نثر کا دور دورہ تھا اور نثر سوفٹ، ڈرائیڈن، ایڈیسن اور سٹیل کے ہاتھوں اپنے نقطہء عروج پر پہنچ چُکی تھی۔ اور دوسری طرف علی گڑھ تحریک کی ٹھوس عقلّیت اور جامد اجتماعیت نے زندگی اور ادب کو نئے موڑ سے آشنا کیا تھا ۔

         تاہم اس ذہنی انقلاب سے گُزرنے کے باوجود برِ صغیر نے اپنی ماضی کی روایت سے رشتہ یکسر نہیں توڑا تھا۔ مشرق کا روحانی مزاج مغرب کی مادیت کو پوری طرح قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوا تھا ۔ علی گڑھ تحریک فلسفہ اور سائنس کے استفادہ سے حقیقت پسندی مدعا نگاری کو فروغ دیا ۔ مگر جذبہ و تخیل کی وہ رُو جسے علی گڑھ تحریک نے روکنے کی کوشش کی تھی ، سطح پر اُبھرے بغیر نہ رہ سکی۔

          چنانچہ جزباتی سطح پر اس ردِ عمل کو مُثبت صورت میں محمد حسین آزاد ، میر ناصر علی دہلوی اور عبدالحلیم شرر نے اُبھارا اور ایسے اسالیبِ نثر کو فروغ دینے کی کوشش کی ، جس میں ادب کا تخیل جزبے کی جوئے تیز رو کے ساتھ بہتا ہے ۔ اور قلم کے وجدان سے راہ نمائی حاصل کرتا ہے۔

آزاد کی خیال آفرینی کی سرچشمہ انگریزی انشاء پردازی سے پھوٹتا نظر آتا ہے۔ تاہم آزاد کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے متخیلہ کو پابند ِ سلاسل کرنے کی بجائے آزادیِ پرواز عطا کی اور    “نیرنگِِ خیال” میں ایسی رنگین پناہ گاہیں تخلیق کیں ،جنھیں صرف وجدان کی داخلی نگاہ سے ہی دیکھا جا سکتا ہے ۔ آزاد کی رومانیت کی ردِ عمل کی پیدا وار نہیں ہے  بل کہ یہ ان کی اپنی افتاد طبعِ کی نقیب معلوم ہوتی ہے۔

         آزاد مُجّرد خیالات کو محسوسات میں تبدیل کرتے ہیں ۔ جہاں سے وہ انسانی روپ دھار لیتے ہیں:

کہتے ہیں کہ اقلیم خیال میں ایک وسیع ولایت تھی ، جس کا نام مُلک فصاحت اور وہاں کے بادشاہ کا لقب ملک الکلام تھا۔ بادشاہ مذکور کے محلوں میں دو بیبیاں تھیں ۔ایک کا نام فرحت بانو اور دوسری کا نام دانش خاتون تھا ۔ دانش خاتون کا ایک بیٹا تھا ؛

         یہ سیدھا سادا شخص حسنِ متانت میں باپ کا خلف الرشید ارو تمکنت اور سنجیدگی میں ماں کی تصویر تھا ۔ اسے علم کہتے تھے۔” ۱۰؎

آج کل تمثیل کا رواج بہت کم ہے، آج کل براہِ راست اظہارِ خیالات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مگر تمثیل کی وجہ سے قاری کے حاسہ ء تجسس کو تحریک ہوتی ہے ۔ اور اس کی مدد سے فکری کوائف کی بے کیف روداد کو ایک افسانوی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔

         کُچھ ناقدین اعتراض کرتے ہیں ، جن میں ڈاکٹر صادق بھی شامل ہے۔ان کا کہنا ہے کی ادبی لحاظ سے “نیرنگِِ خیال”کو وہ مقام حاصل نہیںجو ” آبِ حیات ” ، “سخن دانِ فارس” اور “قصصِ ہند” کو حاصل ہے۔مگر ان سب اعتراضات کے باوجود ہم آزاد کے اسلوب کی روانی ، بے ساختگی اور بر جستگی کو نظر انداز نہیں کر سکتے:

کہتے ہیں کہ اقلیم خیال میں ایک وسیع ولایت تھی ، جس کا نام مُلک فصاحت اور وہاں کے بادشاہ کا لقب ملک الکلام تھا۔ بادشاہ مذکور کے محلوں میں دو بیبیاں تھیں ۔ایک کا نام فرحت بانو اور دوسری کا نام دانش خاتون تھا ۔ دانش خاتون کا ایک بیٹا تھا ؛

         یہ سیدھا سادا شخص حسنِ متانت میں باپ کا خلف الرشید ارو تمکنت اور سنجیدگی میں ماں کی تصویر تھا ۔ اسے علم کہتے تھے۔”

ڈاکٹر بشیر احمد رقم طراز ہیں کہ:

“نیرنگِ مضامین کا مطالعہ کیجئے تو صریحاً یہ معلو م ہو گا کہ آزاد کے خیالات میں رنگینی عمق اور وسعت ہے۔انھوں نے اپنے خیالات کو ادا کرتے وقت ندرتِ بیان، جدّت ، روانی اور جاذبیت کا خیال رکھا ۔ زبان و بیان کی ان ہی خصوصیات کے حسنِ سنگم نے آزاد کے مضامین کو انشائیوں سے بہت قریب کر دیا ہے۔ اور یہیں سے اُردو انشائیہ نگاری کی روایت کا آغاز ہوتاہے ”  ۱۱؎

“نیرنگِ خیال ” مغرب کے نثری ادب سے اُردو دان طبقے کو روشناس کروانے کی پہلی باقاعدہ کوشش تھی۔ ان میں اُن کا شوق بھی جھلکتا ہے اور اُن کا تخیل بھی بھر پور آشکار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ترجمہ ترجمہ نہیں رہتا بل کہ طبع زاد معلوم ہوتا ہے۔

          بہ قول ڈاکٹر سیّد عبداللہ:

         “اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ”نیرنگِِ خیال ” کے بیش تر مضامین میں انگریزی ادب سے خوشہ چینی کی گئی ہے ، پھر بھی آزاد نے ان غیر مُلکی بدیسی پھولوں کو اپنی رنگین انشاء پردازی کی خوش بُو سے کُچھ اس طرح مُنّور و معطر کیا ہے کی غیر مُلکی ساخت کے باوجود خالص مُلکی چیز معلوم ہوتی ہے۔

         اور اگر تاریخی تحقیق کی تجسس آمیز مُداخلت خوشہ چینی کے راز کو ظاہر نہ کر دے تو شاید کسی کو یہ سوجھ بھی نہ سکے کہ ان گُل دستوں کے پھول کسی دُوسرے مُلک کے خیابانوں سے حاصل کیے گیے ہیں۔  ۱۲؎

حواشی

         ۱۔محمد اکرم چغتائی، ”  محمد حُسین آزاد اور خانوادئہ آزادـ”   پاکستان رائٹر کواپریٹو سوسائٹی، لاہور، ۲۰۱۰، ص نمبر ۴۱۔

         ۲۔ابو الاعجاز حفیظ صدیقی،”کشاف تنقیدی اصطلاحات” مقتدرہ قومی زبان،  اسلام آباد،۱۹۷۵ء  ص نمبر ۱۳۔

         ۳۔محمد صادق ڈاکٹر،مرتبہ “نیرنگِ خیال”  از محمد حُسین آزاد،  مجلسِ ترقیِ ادب،لاہور، مئی ۱۹۹۸ء  ص نمبر ۹۔۱۰۔

         ۴۔۔۔۔۔ ایضاً۔۔۔۔        ص نمبر  ۱۴، ۱۵

         ۵۔۔۔۔۔ ایضاً۔۔۔۔        ص نمبر  ۱۵، ۱۶

         ۶۔۔۔۔۔ ایضاً۔۔۔۔        ص نمبر ۱۹،۲۰

         ۷۔رام بابو سکسینہ،تاریخ ِ ادب اُردو، کراچی ، غضنفر اکیڈمی پاکستان، ۲۰۰۳ء ص نمبر۴۵۱۔

         ۸۔ابو سعید نورالدین،”تاریخِ ادبیاتِ اُردو” (حصہ اوّل)  مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی،لاہور، ۱۹۹۷ء ص نمبر ۱۷۱۔

         ۹۔محمد صادق ڈاکٹر،مرتبہ “نیرنگِ خیال” ص نمبر ۳۸۔

         ۱۰۔محمد صادق ڈاکٹر:مرتبہ “نیرنگِ خیال” ص نمبر ۱۲۸۔

         ۱۱۔بشیر سیفی ڈاکٹر،”اُردو میں انشائیہ نگاری” نذیر سنز پبلیشرز،لاہور، ۲۰۱۰ ء  ص نمبر ۱۰۴۔

         ۱۲۔سید عبداللہ ڈاکٹر،”میرا من سے عبدالحق تک”   مجلسِ ترقیِ ادب کلب روڈ، طبع دوم، لاہور،جون ۲۰۰۵ء ص نمبر ۲۳۱۔

کتابیات

         ۱۔ابو الاعجاز حفیظ صدیقی،”کشاف تنقیدی اصطلاحات”  مقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد، ۱۹۷۵ء ۔

         ۲۔ابو سعید نورالدین:”تاریخِ ادبیاتِ اُردو” (حصہ اوّل)  مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی،لاہور، ۱۹۹۷ء ۔

         ۳۔بشیر سیفی، ڈاکٹر،”اُردو میں انشائیہ نگاری”  نذیر سنز پبلیشرز، لاہور، ۲۰۱۰ ء  ۔

         ۴۔رام بابو سکسینہ،تاریخ ِ ادب اُردو، غضنفر اکیڈمی پاکستان، کراچی ،۲۰۰۳ء ۔

         ۵۔محمد صادق، ڈاکٹر،مرتبہ “نیرنگِ خیال”  از محمد حُسین آزاد مجلسِ ترقیِ ادب،، لاہور، مئی ۱۹۹۸ء  ۔

         ۶۔محمد اکرم چغتائی، ”  محمد حُسین آزاد اور خانوادئہ آزادـ”   پاکستان رائٹرز کواپریٹو سوسائٹی، لاہور، ۲۰۱۰۔

         ۷۔عبداللہ ،سید، ڈاکٹر،”میرا من سے عبدالحق تک” مجلسِ ترقیِ ادب کلب روڈ، طبع دوم،لاہور،  جون ۲۰۰۵ء ۔

Related posts

Leave a Comment