گوپی چند نارنگ ۔۔۔ نئی غزل کا جوانامرگ شاعر: بانی

نئی غزل کا جوانامرگ شاعر: بانی

کسے معلوم تھا کہ نئی غزل کا طرح دار اور تازہ گو شاعر بانی اتنی جلدی موت کی آغوش میں چلا جائے گا۔ اکتوبر ۱۹۸۱ ء کی شب میں دہلی کے ہولی فیملی ہسپتال میں بانی نے سفرِ آخرت اختیار کیا۔ اب جب کہ بانی اس دنیا میں نہیں ہے، چند سوانحی شخصی حقائق کو محفوظ کر دنیا ضروری معلوم ہوتا ہے، بانی کاپورا نام، راجیندر منچندا تھا۔ وہ نومبر ۱۹۳۲ء میں ملتان میں پیدا ہوئے اور ان لوگوں میں سے تھے جنھیں تقسیم کی موج بہا کر دہلی لے آئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دہلی کی ادبی، ثقافتی، زندگی کے طوفان اور تہلکوں اور ولولہ خیزیوں میں بانی خوب خوب شریک رہے۔ چوڑا ناک نقشہ، کھلتا ہوا رنگ، گھٹا ہوا کسرتی بدن، آج سے چند برس پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایسا با صحت تنو مند نوجوان دیکھتے ہی دیکھتے گھل گھل کر اپنی اصل کا نقشِ موہوم بھی نہیں رہ جائے گا،اور عین اس وقت جب اس کی غزل کی تازگی اور طرحداری شباب پر ہوگی، موت کی پرچھائیں اس کو گھیر لے گی۔ بانی نے ایم۔ اے۔ معاشیات میں کیا تھا اور جب تک صحت نے ساتھ دیا، وہ ڈیرہ اسمٰعیل خاں برداری کے ایک معمولی اسکول میں درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے۔ کئی برس سے گھٹیا اور گردوں کی شدید تکلیف کی وجہ سے وہ رخصت پر تھے اور انتقال کے وقت ان کی عمر انچاس برس سے زیادہ ہوگی۔ اگر چہ مرض انتہائی تکلیف دہ اوراذیت ناک تھا اور کیسا کیسا دکھ بانی نے نہ اُٹھایا ہوگا، موت کا لرزتا ہوا، بھیانک سایہ، دوستوں کی بے التفاتی، اپنوں اور بیگانوں کی بے توجہی، چھوٹے چھوٹے بچے، سہارے معدوم، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، سونا جاگنا سب خواب و خیال کون سادکھ ہے جس کا سامنا بانی نہ کیا ہوگا، لیکن حرفِ شکایت کبھی زبان پر نہ آیا۔ عجیب اتفاق ہے کہ نئی غزل کی کیسی کیسی ممتاز شخصیتیں کم عمری میں جدا ہوگئیں، ناصر کاظمی، ابن انشا، خلیل الرحمن اعظمی، شکیب جلال اور اب بانی، ان سب نے اپنے اپنے طور پر کشتِ شعر کو سر سبز و شاداب رکھا، اورنئی فصلوں کا پہتہ دے گئے۔ بانی کا پہلا مجموعہ’’ حرفِ معتبر‘ ۱۹۷۲ء میں اور دوسرا’’ حسابِ رنگ‘‘۱۹۷۶ء میں منظرِ عام پر آیا تھا، اور تیسرا’’ شفق شجر‘‘ ۸۳ء میں پس ازمرگ شائع ہوا۔
بانی کے لہجے کی تازگی اور توانائی اور خود اعتمادی کے وفور نے جس کا اظہاری رشتہ متکلم پر اصرار سے جڑا ہوا تھا۔ بہت جلدسب کو متوجہ کر لیا تھا۔ وہ ایسے غزل گو کی حیثیت کے سامنے آئے تھے جس اپنے ذہن و شعور اور زبان وذات پر پورا بھروسہ تھا، ہجوم سے الگ رہ کر قدم بڑھانے کا حوصلہ ان میں شروع سے تھا۔ ان کی فکری جولانی، اور جودت طبع بہت جلد انھیں تعقل کی ان کھلی فضائوں میں لے آئی، جہاں ذہن و احساس حیات و کائنات کے ازلی سروں کے زیر و بم ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ بانی کی شاعری محبت کی جسمانیت یا اس کے جذباتی رومانی پہلو کے بڑی حد تک پہلو تہی کرتی ہے۔ نئی غزل ے شعر میں شاید ہی کوئی دوسرا شاعر ہو، جس نے جسم جمال کے تذکرے اور حوس کی تھر تھراہٹوں سے اس حد تک صرفِ نظر کیا ہو اور اس کے باوجود اپنی غزل کو نگاہوں کا مرکز بنا لیا ہو، بانی صحیح معنوں میں نئی غزل کے نو کلاسیکی شاعری ہیں۔ ان کے بیشتر معاصرین نے اس امر پر حیرت کا اظہار کا ہے کہ ان کے یہاں’’ جذبہ و احساس و فکر و فن کاایسا فطری استحلال پایا جاتا ہے کہ ذہن اس کی پیچیدگی پر عش عش تو کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے اجزا کوپوری طرح تحلیل ممکن نہیں، او کسی بھی تخلیق کے تمام مضمرات تک پہنچا شاید کسی کے بھی بس کی بات نہیں۔ تاہم اس ے امتیازی عناصر تک رسائی حاصل کرنا ممکن ہے اور اس سے کسی شاعر کی انفرادیت یا شعری مزاج کی پہچان کا مسئلہ وابستہ ہے، اس سلسلے میں بانی کی بعض غزلوں کو سامنے رکھنا ضروری ہے:

ہم ہیں، منظر سیہ آسمانوں کا ہے

اک عتاب آتے جاتے زمانوں کا ہے

ایک زہرابِ غم، سینہ سینہ سفر

ایک کردار سب داستانوں کا ہے

کس مسلسل افق کے مقابل ہیں ہم

کیا عجب سلسلہ امتحانوں کا ہے

پھر ہوئی ہے ہمیں مٹیوں کی تلاش

ہم ہیں، اڑتا سفر اب ڈھلانوں کا ہے

کون سے معرکے ہم نے سر کر لیے

یہ نشہ سا ہمیں کن تکانوں کا ہے

سب چلے دور کے پانیوں کی طرف

کیا نظارہ کھلے باد بانوں کا ہے

ان اشعار میں آسمانوں اور زمانوں کا ذکر، سینہ سینہ سفر، مسلسل افق، امتحانوں کا سلسلہ، نئی مٹیوں کی تلاش، اُڑتا سفر، اندھی اڑانوں کا شوق، معرکے سر کرنے کی آرزو، دور کے پانیوں اور کھلے بادنوں کے معنوی انسلاکات توجہ طلب ہیں۔ ان میں نئے امکانوں کی جستجوں کی ایک شدید فکری خلش ہے، لیکن ممکن ہے کہ یہ کیفیت صرف اسی غزل سے مخصوص ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ بانی کے کلام کے بعض اور حصوں کو بھی دیکھا جائے۔

سیرِ شبِ لامکاں اور میں

ایک ہوئے رفتگاں اور میں

سانس خلائوں نے لی، سینہ بھر

پھیل گیا آسماں اور میں

سر میں سُلگتی ہوا، تشنہ تر

دم سے اُلجھتا دھواں اور میں

دونوں طرف جنگلوں کا سکوت

شور بہت درمیاں اور میں

خاک دخلابے چراغ اور شب

نقش و نوا بے نشاں اور میں

یکلخت محسوس ہوتا ہے کہ ہم کھلی فضا میں آگئے ہیں اور زمین و آسمان کی لامحدود وسعتوں سے گلے مل رہے ہیں۔ سیرِ شبِ لامکاں، خلائوں کا سانس لینا، آسمان کا پھیل جانا، جنگوں کے سکوت کا شور، خاک و خلا کاشب میں بے چراغ ہونا، نقش و نوا کا بے نشان ہوجانا اور بے کرانی کے اس تناظر میں سر سلگتی ہوا اور دم سے الجھتے دھوئیں میں تنگ و تاز کا عمل اور ’’ اسمِ ابد کی ’’ تلاش طویل‘‘ کا سلسلہ واہونا کیا ان اشعار کی تخلیقیت میںزمین و آسماں کی وسعتوں سے ہم کلامی کی کوشش فراواں کی وہی کیفیت نہیں ملتی جو پہلی غزل میں سامنے آئی تھی۔ غزل کے اشعار میں کسی کیفیت کا مسلسل ملنا اس کی خامی نہیں، خوبی ہے۔ پہلی غزل ان کے مجموعے، حسابِ رنگ‘‘ کے شروع سے لی گئی تھی دوسری غزل نسبتاً وسط سے تھی۔ اب ایک غزل آخر سے بھی دیکھ لی جائے:

ہمیں، لپکتی ہوا پر سوار لے آئی

کوئی تو موج تھی دریا کے پار لے آئی

وہ لوگ جو کبھی باہر نہ گھر سے جھانکتے تھے

یہ شب انھیں بھی سرِ رہ گزار لے آئی

افق سے تابہ افق پھیلتی بکھرتی گھٹا

گئی رتوں کا چمکتا غبار لے آئی

میں دیکھتا تھا شفق کی طرف مگر تتلی

پروںپہ رکھ کے عجب رنگ زار لے آئی

زمین و آسماں کا جو ربط و تعلق پہلے کی دوغزلوں میں تھا، وہ یہاں مطلع میں موج و دریا اور ہوا میں ہے اس کے علاوہ اس غزل کی معنویت میں موسم اور صبح و شام کے رنگین پیکرو ں کو بھی خاصا دخل ہے افق تا بہ افق پھیلنا، بکھرتی، رتوں کا چمکتا غبار، اداس شام کی یادوں بھری سلگتی ہوا، شفق، تتلی، رنگ زار، یہ موسمی رنگت زمین اور آسمان دونوں کی بنیادی رشتے سے پوری طرح مربوط ہے۔ بانی کے کلام سے کئی غزلیں ایسی پیش کی جاسکتی ہیں جن کی بنیاد کیفیت یہی ہے۔ اس سلسلے میںذیل کے اشعار پر بھی نظر ڈال لی جائے جن میں بانی کی تخلیقیت کو بھر پور اظہار کے مواقع میسر آئے ہیں:

خاک و خوں کی وسعتوں سے با خبر کرتی ہوئی

اک نظر امکاں ہزار امکاں سفر کرتی ہوئی

پائوں تلے آنچ سی تشنہ زمینوں کی تھی

سر پہ نظارہ عجب اُڑتے سحابوں کا تھا

کچھ نہ کچھ میرا یہاں چاروں طرف بکھرتا پڑا ہے

پھول سے مہتاب تک سب سلسلہ محفوظ کر لے

خود چاک باطن خبر ایک لمحہ

عالم بہ عالم سفر ایک لمحہ
لرزاں ہے کب سے لہو کے افق پر

زہراب میں تر بہ تر ایک لمحہ

پھیلے خلائو میں دیکھا کیے ہم

ڈھونڈا کیے ہم دگر ایک لمحہ

کیا ان اشعار کی روح میں جھانکنے سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کوئی تڑپ ہے جو کسی گھٹن سے نکل کر کھلی فضا میں بے پناہ ہوجانا چاہتی ہے یا تخیل کی کوئی موجِ بے تاب ہے جو سیرِ شب لا مکاں کے لیے نکل کھڑی ہوئی ہے۔ سفر کے لفظی اور معنوی انسلاکات میں اندھا سفر، اُڑتا، سفر، سینہ سینہ سفر، راستہ خیمہ گرد، نیز اُڑان کے ساھت آز داڑانوں، اونچی اُڑانوں، کھلے آسمانوں اور خلائوں کے سینہ بھر سانس لیتے کا کر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ نئے پانیوں امکاں کی موجوں، کراں تاکر ان پھیلی ہوئی فضائو ں ریتوں اور رنگوں اور جسموں کی من مانی کی تمثالیں ذہن کو آسمانوں کے نیچے کھلی فضائوں میں لے جاتی ہیں، لیکن آزادۂ رو تجسس اور تحرک کی اس بنیادی کیفیت کو رد کرتی ہوئی ایک اور کیفیت بھی بانی کے یہاں ملتی ہے۔ یہ اتنی زیادہ نمایاں تو نہیں، لیکن اتنی کم نمایاں بھی نہیں کہ اسے نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ دوسری کیفیت کا وش و خلش کے بنیادی جذبے سے بری طرح ٹکراتی ہے۔

کیا کہوں کیا تھی اُڑان خود میں خبر میں نہ تھا

گم شدگی کے سوا کچھ بھی سفر میں نہ تھا

آج دکھائی دیا جانے یہ کیا فاصلہ

تجھ کو خبر اس کی ہو، میری نظر میں نہ تھا

ادھ کھلی کھڑکی ہے ہم وسعتیں دیکھا کیے

گھر سے نکلتے نہ تھے چین بھی گھر میں نہ تھا

سارے مکاں، لامکاں خالی و بے نقش تھے

برق، خلا میں نہ تھی سانپ کھنڈر میں نہ تھا

ریت بنی خود سراب رنگ بنا خود گلاب

کوئی بھی منظر کہ خواب، میرے اثر میں نہ تھا

اُڑان، سفر، فاصلہ وسعتیں، مکان، لامکاں، خلا، یہ سارے تلازمات تو اسی بنیادی کیفیت کی تصدیق و توثیق کرتے ہیں جو اس سے پہلے کے اشعار میں سامنے آچکی ہے، یعنی سفر زمینی رشتوں اور اڑان آسمانی رشتوں کی خبر دیتی ہے لیکن اس غزل میں چند اور معنیاتی نشان نما (SEMANTIC POINTERS)بھی ہیں جن سے ایک متضاد کیفیت ابھرتی ہے مثلاً گم شدگی، مکان لامکاں کا خالی و بے نقش ہونا، برق کا خلا میں سانپ کا کھنڈر میں نہ ہونا اور ان سب سے بڑھ کر ریت، سراب اور منظر و خواب کا اثر میں نہ ہونا، یہ تمام استوارے اور پیکر منفیت سے مملوہیں:

آج اِک لہر بھی پانی میں نہ تھی

کوئی تصویر روانی میں نہ تھی

ولولہ مصرعہ اوّل میں نہ تھا

کوئی آہنگ نہ الفاظ میں تھا

کیفیت کوئی معانی میں نہ تھی

خوش یقینی میں نہ تھا اب کوئی نور

ضو کوئی خندہ گمانی میں نہ تھی

ایک اور غزل کا مطلع ہے:

عکس؟ کوئی کسی منظر میں نہ تھا
کوئی بھی چہرہ کسی در میں نہ تھا

بانی کے یہاں دھند، دھواں، غبار، دود کی استعاراتی تکرار بھی اس معنوی حوالگی کے ساتھ ہے، ان غزلوں کو مزید دیکھے:

میں ایک بے برگ و بار منظر کمر برہنہ میں سنسنا ہٹ تمام نیح پوش اپنی آواز کا کفن ہوں

محاذ سے لوٹتا ہوا نصف تن سپاہی میں اپنا ٹوٹاہوا عقیدہ اب آپ اپنے لیے وطن ہوں۔

دریدہ منظر کے سلسلے گئے ہیں دور گے

پلٹ چلو نظارہ زوال کر نہ پائو گے

خاک میں خوشبو نہ تھی گلیوں جگنو نہ تھے

خالی و تنہا تھے ہم، شہر عذابوں کا تھا

اک دھواں ہلکا ہلکا سا پھیلا ہوا ہے افق تا اُفق

ہر گھڑی اک سماں ڈوبتی شام کا ہے افق تا اُفق

سینکڑوں وحشتیں چیختی پھر رہی ہیں کراں تاکراں

آسماں نیلی چادر سی تانے پڑا ہے افق تا اُفق

بانی نے صاف صاف بھی کہہ دیا ہے:۔

اندر اندر یک بیک اُٹھے گا طوفان نفی
سب نشاطِ نفع، سب رنجِ ضرر لے جائے گا

’’ حرفِ معتبر‘‘ کے بیشترنقادوں نے ’’ نظارۂ لاسمتیت‘‘ م کی بانی کا ‘‘ مقدر ‘‘ کہا تھا اور ان کے اشعار کی مدد سے زندگی کی لاطاملیت کے ادراک و احساس کو فخریہ پیش کیا تھا۔ ہمارے نزدیک بانی کے بارے میں اس سے زیادہ غلط با ت کہی نہیں جاسکتی۔ بلا شبہ ان اشعار کی حاوی کیفیت منفیت کی ہے لیکن ان کو بانی کے تمام کلام سے الگ کر کے دیکھنا غلطی ہوگی۔ اگر انھیں بانی کی پوری شاعری سے مربوط کر کے دیکھا جائے تو اس سوا ل کا جواب آسانی سے دیاجاسکتا ہے کہ اس طوفانِ نفی کی اصل نوعیت کے ہے اور جس سلسلہ فکر کا یہ ایک مقام ہے اس کی اس سے پہلی اور اس سے اگلی کڑی کیا ہے۔ مثال کے طور پر اسی پہلے مطلع کو لیجیے میں ایک بے بر و بار منظر… کفن ہوں وطن ہوں،اور اس تقابل اسی غزل کے مقطع سے کیجیے:
عدم زوال ایک تیرگی ہے کسی افق سے سحر نہ ہرگز طلوع ہوگی کہاں تلک منتظر رہو گے، کہ میرے سینے میں لاکھوں شمعوں سا لائو مجھی سے یہ روشنی نکالوں کو اک یہاں میں ہی شب شکن ہوں۔
نیزان ہم غزل اشعار کا معنوی تقابل بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا:

نہ منزلیں تھیں، نہ کچھ دل میں تھا، نہ سر میں تھا

عجب نظارۂ لا سمعیت نظر میں تھا

ہماری آنکھ میں آکر بنا اک اشک، وہ رنگ

جو برگِ سبز کے اندر، نہ شاخِ تر میں تھا

دن کو دفتر میں اکیلا، شب بھرے گھر میں اکیلا

میں کہ عکس منتشر، ایک ایک منظر میں اکیلا

بولتی تصویر میں اک نقش لیکن کچھ ہٹا سا

ایک حرفِ معتبر، لفظوں کے لشکر میں اکیلا

سر بسر ایک ٹپکتی ہوئی تلوار تھا میں

موجِ دریا سے مگر برسرِ پیکار تھا میں

میں کسی لمحۂ بے وقت کا اک سایہ تھا

یا کسی حرفِ تہی اسم کا اظہار تھا میں

محراب نہ قندیل، نہ اسرار تمثیل

کہہ اے ورقِ تیرہ، کہاں ہے تری تفصیل

آساں ہوئے سب مرحلے اک موجۂ پا سے

برسوں کی فضا ایک صدا سے ہوئی تبدیل

اس طرح نار سائی بھی کب تھی، یہ کیا امتحاں ہے

گاہ بنجر صدا، گاہ پامال چپ درمیاں ہے

دیکھ اک بوند خوں کے بکھرنے کا نایاب منظر

رت بدلتی ہے گلنار ہوتا، ہوا آسماں ہے

نفی اور اثبات کی اس کشمکش کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے ان اشعار کو مزید ملاحظہ کر لیا جائے:

مرے بدن میں پگھلتا ہو سا کچھ تو ہے

اک اور ذات میں ڈھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

مری صدا نہ سہی، ہاں مرا لہو نہ سہی

میں موج موج اُچھلتا ہوا سا کچھ تو ہے

اک گلِ تر بھی شرر سے نکلا

بسکہ ہر کام ہنر سے نکلا

میں ترے بعد پھر اے گم شدگی

خیمۂ گرد سفر سے نکلا

اے صفِ ابرِ رواں تیرے بعد

اک گھنا سایہ شجر سے نکلا

پتہ پتہ بھرتے شجر پر ابر برستا دیکھو تم

منظر کی خوشی تعمیری کو لمحہ لمحہ دیکھو تم

سیاہ خانۂ امیدِ رایگاں سے نکل

کھلی فضا میں ذرا آغبارِ جاں سے نکل

آسماں کا سرد سناٹا پگھلتا جائے گا

آنکھ کھلتی جائے گی منظر بدلتا جائے گا

پھیلتی جائے گی چاروں سمت اک خوش رونقی

ایک موسم میرے اندر سے نکلتا جائے گا

لرزاں ہے کب سے لہو کے افق پر

زہراب میں تر بہ تر ایک لمحہ

دیکھیے کیا کیا ستم موسم کی من بانی کے ہیں

کیسے کیسے خشک خطے منتظر پانی کے ہیں

اس تند سیاہی کے پگھلنے کی خبر دے

دے پہلی اذاں رات کو ڈھلنے کی خبر دے

اے ساعتِ اول کے ضیا ساز فرشتے

رنگوں کی سواری کے نکلنے کی خبر دے

طائر کو دے آزاد اُڑانوں کی فضائیں

کہسار کو دریا کے اچھلنے کی خبر دے

سب کو سفر و سمت پسندی کا دے مژدہ

اب گھاٹ کی کشتیاں چلنے کی خبر دے

’’ نظارہ لاسمتیت‘‘ سے‘‘ سفرو سمت پسندی کا مژدہ‘‘ تک شاعر کے تخلیقی سفر کے انتہائی امکانات کے نظر میں آجانے کے بعد اب یہ کہنا مشکل نہیں کہ یہ نفی اثبات کی کاوش ہی کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔ کیا اس منزل پر یہ محسوس نہیں ہوتا کہ شاعر شعور حقیقت کے موجود منظر نامے سے شدید طورپرنا آسودہ ہے۔ علوم عقلیہ نے انسان کو جس آشوب آگہی میں مبتلا کیا ہے، کیا شاعر اس سے مایوس وغیر مطمئن نظر نہیں آتا اور سمیاتی علوم کی تند سیاہی پر تخلیقی ذہن کی فتح کو کیا وہ رنگوں کی سواری کے نکلنے اور گھاٹ کی سب کشتیوں کے چلنے سے تعبیر نہیں کرتا۔ شاعر جب اپنی شخصیت کی خود فریبی کے طلسم کو بے دردی سے شکست کرنے پر قادر ہے تو وہ آگہی کی رسمیات سے باغیانہ سلوک کیوں کر نہ روا رکھے گا۔ اُونچی اڑان، کھلی فضائوں، پھیلتے خلائوں، سفر اُولاڑتے سف کی مرکزیت سے پہلے بحث کی چاچکی ہے۔ یہاں مزید یہ بات غور طلب ہے کہ بانی کی شاعری میں آشوب زدہ آگہی کے منظر نامے سے گریز و انحراف کی سب سے متحرک علامت ’’ طائر یا پرندے ‘‘ کی صورت میں اُبھرتی ہے :

اُڑ چلا وہ اک جدا خاکہ لیے سر میں اکیلا

صببح  کا پہلا پرندہ آسماں بھر میں اکیلا

ڈھانپ دیا سارا آکاش پرندے نے

کیا دِلکش منظر تھا پر پھیلانے کا

نہ جانے کل ہوں کہاں ساتھ اب ہوا کے ہیں

کہ ہم پرندے مقامات گم شدہ کے ہیں

مست اُڑتے پرندوں کو آواز مت دو کہ ڈر جائیں گے

آن کی آن میں سارے اوراقِ منظر جائیں گے

طائر کو دے آزاد اُرانوں کی فضائیں

کہسار کو دریا کے اُچھلنے کی خبر دے

پرندے کی علامت بانی کی شاعری میں زمین اور آسمان کے ربط و تعلق کو بھی ظاہر کرتی ہے کیونکہ پرواز کسی مقام سے شروع ہوتی ہے، فضا یہ کتنی ہی بلند ہوا اختتام پذیر پھر کسی مقام پر ہوتی ہے۔ اب یہ بات واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ بانی شاعری موجود سے لا موجود کی طرف مکان سے لامکاں کی طرف اور واقعے سے امکان کی طرف مسلسل آمدورفت کی شاعری ہے یہاں آمدو رفت دونوں کی معنویت پر زور ہے۔ یہ گریز محض یا پروازِ محض کی شاعری نہیں جو ذات یا حیبیت سے روگردانی کے مترادت ہے۔ نیز آسمانوں کی وسعت و بیکرانی کی طرف راجع ہونے سے مراد خود کا زوال بھی نہیں، ورنہ یہ ماروائی شاعری کی طرح استعجاب اور گم شدگی سے عبارت ہوتی ہے اور اس سپردگی اور ربودگی کو راہ دیتی جو صوفیانہ شاعری کی پہچان ہے۔ اسی لیے میرے نزدیک بانی کی غزل کو ماورائی احساس کی غزل کہنا مناسب نہیں۔ نہ میں اسے رسمی معنوں میں تجریدی کہنے کے لیے تیار ہوں۔ بانی کے تخلیقی عمل میں مرکز(NUCLEUS) اور محیط(CIRCUMFERENCE) دونوں کی اہمیت ہے۔ ان کے فکرو احساس کی جان طبیعی( PHYSICAL) نظام اور مابعد الطبیعی…(METAPHYSICAL) نظام کا وہ بنیادی رشتہ جو مرکزاور محیط میں بھی ہے، یعنی محیط کو بغیر مرکز کے اور مرکز کو بغیر محیط کے نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ بانی موجود معدوم اور مکان و لامکاں کی دونوں انتہائوں کے درمیان( اگر کوئی انتہاانتہا ہے تو ) مصروفِ سفر رہتا ہے اور یہ سفر عبارت ہے آسمانی رشتوں کے اعتبا ر سے تجسس سے اور زمینی رشتوں کے اعتبار سے تحر اور تموج سے، بانی کی غیر شخصی شاعری میں جو نئے معنی افق سامنے آئے ہیں یا جو نئی تخلیقی جہت سامنے آئی ہے، وہ فکرو احساس کی اسی سفر کے مربوط ہے۔ یہ شاعری ذات کو آفاق کے اور آفاق کو ذات کے وسیلے سے دریافت کرتی ہے، اور زمین اور آسمانی عناصر کی متصادم اور متقابل قوتوں کے اس بنیادی رشتے سے ہم آہنگی اور ہمکلامی کی خواہاں ہے جو تخلیق کائنات کا اور اس ہنگامہ ہستی کا سب سے بڑا راز ہے۔
(۲)
اس مضمون کے شروع میں محبت کی جسمانیت سے صرفِ نظر کرنے کا کر آیا تھا، فقط اتنا ہی نہیں بل کہ انسانی تعلقات کی دھوپ چھائوں بھی بانی کا موضوع نہیں۔ ان کے یہاں انسانی تعلقات کا جو بھی تذکرہ ملتا ہے وہ قطع تعلق کے بعد کی کیفیتوں کا ہے۔ ایسا لگتا ہ کہ بانی کا ذہن اتنا بیدار، ان کیانا اتنی بے قرار اور ان کی نظر اتنی بیتاب ہے کہ وہ انسانی رشتوں کو اپنی حد بنانے کے لیے تیار نہیں۔ اکثر و بیشتر و تجربات کو اپنی حدود سے ماورا ہو کر پیش کرتے ہیں اور ان کی جذبات میں ضبط و تحمل اور ٹھہرائو کی کیفیت ہے۔ ذیل کی قبیل کے اشعار ان کے دونوں مجموعوں میں بہت کم ہیں۔ اسی سے اندازہ ہوگا وہ دلی واردات کو کس طرح یکسر محوکر سکتے ہیں اور اس وادی سے کیسے مرتب و منضبط ذہن کے ساتھ گزرتے ہیں:

وہ ٹوٹتے ہوئے رشتوں کا حسن آخر تھا

کہ چپ سی لگ گئی دونوں کو بات کرنے ہوئے

آج کے لوٹتے لمحات میسر آئے

یاد تم اپنی عنایات سے بڑھ کر آئے

میں چپ کھڑا تھا تعلق میں اختصار جو تھا

اسی نے بات بنائی وہ ہوشیار جو تھا

کہیں نہ آخری جھونکا ہو مٹنے رشتوں کا

یہ درمیاں سے نکلتا ہوا سا کچھ تو ہے

اے دوست میں خاموش کسی ڈر سے نہیں تھا

قائل ہی تری بات کا اندر سے نہیں تھا

متاعِ و عدہ سنبھالے رہو کہ آج بھی شام

وہاں سے ایک نیا انتظار لے آئی

اندازِ گفتگو تو بڑے پر تپاک تھے

اندر سے قربِ سرد سے دونوں ہلاک تھے

کب سے بٹھکتے ہیں باہم الگ

لمحۂ کم مہرباں اور میں!

اگرچہ ذیل کا شعرجواب نہیں رکھتا:

دمک رہا تھا بہت یوں تو پیرہن اس کا
زرا سے لمس نے روشن کیا بدن اس کا

لیکن جسمانیت کا حسیاتی پہلو بانی کے یہاں تقریباً مفقود ہے البتہ’’ حسابِ رنگ‘‘ کی وہ تشبیہی غزلیں اس ضمن میںقابلِ غور ہیں:

لباس اس کا علامت کی طرح تھا

بدن، روشن عبارت کی طرح تھا

فضا صیقل سماعت کی طرح تھی

سکوت اس کا امانت کی طرح تھا

ادا موجِ تجسس کی طرح تھی

نفس، خوشبو کی شہرت کی طرح تھا

بساطِ رنگ تھی مٹھی میں اس کی

قدم اس کا بشارت کی طرح تھا

تصور پر حنا بکھری ہوئی تھی

سماں آغوشِ خلوت کی طرح تھا

صدائے دل، عبارت کی طرح تھی

نظر شمع شکایت کی طرح تھی

بہت کچھ کہنے والا چپ کھڑا تھا

فضا اجلی سی حیرت کی طرح تھی

کہا دل نے کہ بڑھ کے اس کو چھولوں

ادا خود ہی اجازت کی طرح تھی

لباس کو علامت، بدن ی عبارت، یا ادا کو موجِ تجسس اور نفس و خوشبو کی شہرت کہنے سے ذہن معاغ موجود اور موہوم یا مکان اور لامکان کے اسی رشتے کی طرف جاتا ہے جس کی وضاحت بانی کے تخلیقی عمل کے سلسلے میں پہلے کی جاچکی ہے فضا اور سماعت یا سکوت اور امانت یا قد اور بشارت یا سماں اور آغوش خلوت یا نظر اورشمعِ شکایت میں مجرد وغیرہ دیا جاندا کا وہی ربط و تضاد ہے جو زمین اور آسمان مے یا نفی اور اقرار میں ہے۔ عالمی عناصر کے باہمی رشتوں کی باطنی وحدت کا احساس بانی کے تخلیقی عمل کا یسا پہلو ہے کہ مجردات کو غیر مجرد تناظر میں اور غیر مجرد اشیا کو مجردات کے آئینے میں دکھانا اس کے معمولات میں سے ہے۔ ذیل کے دو عمدہ اشعار کی لطافت اور تہہ داری بھی اسی تخلیقی تشکیل پسندی کی بدولت ہے:

میں خلائوں میں اڑتا ورق تیرے اقرار کا ہوں

نقش جس پر تیرے بوسہ اولیں کا نشاں ہے

ہوا میں زور سے چلتی تھیں ہنگامہ بلا کا تھا

میں سناتے کا پیکر منتظر تیری صدا کا تھا

(۳)

شاعری میں احساس و نظر کی تازگی زبان و اظہار کی ندرت کے بغیر کوئی معنی نہیں رکھتی معنی آفرینی کو لفظوں کے تخلیقی استعمال کے عمل سے الگ کر کے دیکھا ہی نہیں جاسکتا۔ اتنی بات واضح ہے کہ زبان و بیان پر بانی کی گرفت مضبوط ہے اور انھوں نے اپنی تخلیقی قوت سے جو مستحکم پیرائیہ اظہار واضح کیا ہے وہ غزل کی خارجی اور داخلی ہیت میں مطابقت کا ضامن ہے۔ لہجے کی تازگی اورمعنی اور نادر ہ کاری دراصل لاکھوں بار کے برتے ہوئے لفظوں کو نئے سیاق و سباق میں نئے نئے انسلاکات کے ساتھ لانے میں ہے۔ اس کی متعدد مثالیہں اوپر کے اشعار میں سامنے آچکی ہیں۔ یہاں لہجے کی انفرادیت کے بعد دوسرے پہلوئوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے، مثلاً بانی کے فن کا ایک خاص پہلو ان کی خوشی ترکیبی ہے۔ ان کا شعری وجدان نئے معنی اور نئے مفاہیم کا ساتھ دینے کے لیے نئی ترکیبوں اور نئے مرکبات کو برابر تراشتا رہتا ہے، مثلاً:
صد حسابِ آرزو، محراب ہوا، مفہومِ فرواں، بابِ تصور، بوسہ بے ساختہ، رمز آشنائے تجسس، شمع شکایت، لمحہ کم مہرباں، لمحۂ خندہ حواس لمحۂ لرزاں، لمحۂ بے وقت، لمحۂ خالی، لمحۂ رائگاں، نشاطِ نفع، موجِ امکانی،بے گانہ نفع و ضرر طلسم کاری آغازِ داستان طلسم خانہ رنگ، منظرِ بے چہرگی، قرب سرد، حرفِ نہی اسم، عکسِ منتشر ہلاک ہوا، خیمۂ گردِ سفر، سیاہ خانہ، امیدِ رائیگاں، خسِ جسم و جان۔
رنگ زار، عدم تاثیر لہجہ، خوش تعاون، سمت پسندی، وفا قائم،کپاسی برف شب شکن، زودقائل، برابر قدم دوست، خوش تعمیری۔
بات صرف مرکبات ہی کی نہیں بانی الفاظ کی تکرار سے بھی کام لینا جانتے ہیں۔ وہ بعض معمولی معمولی لفظوں کی تکرار سے بھی فضا کی بے کارئی کو یا معنی کے بسط کو یا کیفیت کی گیرائی کے احساس کو بڑھا دیتے ہیں۔ خاص خاص الفاط کی تکرا ر مثلاً پارہ پارہ ہنا کھڑے کھڑے اکتا جانا یا ٹکڑے ٹکڑے ہو نازبان کے معمولات سے ہے، لیکن بانی بعض ایسے الفظوں کو بھی مکرر لاتے ہیں جو پہلے اس طرح استعمال نہیں ہوئے نتیجتاً وہ ایک نئے معنیاتی عمق اور کشادگی کو راہ دیتے ہیں جو پیرائیہ اظہار کی لطافت میں اضافے کا باعث بنتی ہے:

بانی شِکن شِکن سا تمھارا ادروں بھی ہے

کچھ پارہ پارہ سا ہے تمھارا لباس بھی

یہ رات گزرے تو دیکھوں طرف طرف کیا ہے

ابھی تو سب کچھ میرے لیے آسمان میں ہے

فصیل شب سے عجب جھانکتے ہوئے چہرے

کرن کرن کے پیاسے ہوا ہوا کے ہیں

وہ خاک اُڑانے پہ آئے تو سارے دشت اس کے

چلے گداز قدم تو چمن چمن اس کا

وہ روز شام سے شمعیں دھواں دھواں اس کی

وہ روز صبح اُجالا کرن کرن اس کا

اک بوند میرے خوں کی اُڑی تھی طرف طرف

اب سارے خاکداں میں چمک بھی ہے باس بھی

طرب طرب ساری لذتوں میں

میں زہر کی دھار ہوں سزا دے

اب ہے بانی فضا فضا محروم

گونجتا ہے مکاں مکاں خالی

کراں کراں نہ سزا کوئی سیر کرنے کی

سفر سفر نہ کوئی حادثہ گزرنے کا

بانی کے پیرائیہ اظہار میں فارسی تراکیب تراشی کے ساتھ پر اکرتی فعل سازی کی طرف بھی توجہ پائی جاتی ہے۔ مرکبا ت اپنی نوعیت کے اعتبار سے اسمیہ احساس سے مملوہوتے ہیں اور افعال اگر سامی پیکروں سے مرتب ہوئے ہیں یعنی اسم جمع فعل( اور یہ اسم ایک یا ایک سے زائد ہوسکتے ہیں تو ایسے افعال فعلیہ احساس سے مشکل ہوتے ہیں۔ شعر ی وجدان اپنی تازہ کاری کے لیے جب جب عمل کے کسی سلسلے یا اس کے کسی پارے کا سہارا لیتا ہے تو فعلیہ اظہار میں ڈھل جاتا ہے یہاں فعلیہ احساس کے تصور کی تفصیل کی گنجائش نہیں، لیکن اتنا طے ہے کہ بانی زمینی اور آسمانی رشتوں کی بے پا یابی کے اعتبار سے اور مجرد وغیرہ مجرد پیکروں کے اعتبار سے اسمیہ احساس کے شاعر ہیں، اسی لیے ان کے یہاں شے نماتر کیب سازی کی اہمیت زیادہ ہے،لیکن فعلیہ احساس نے بھی کہیں کہیں ایسے شعر کہلوائے ہیں جن میں ذہن ایک تازہ اور نئے اسلوب سے متعارف ہوتا ہے :۔

فضا کہ پھر آسمان بھر تھی

خوشی سفر کی اُڑان بھر تھی

افق کہ پھر ہوگیا منور!

لکیر سی اک کہ دھیان بھر تھی

وہ اک فسا نہ زبان بھر تھا

یہ اک سماعت کہ چاند بھر تھا

ہوا کہ شب بادبان بھر تھی

نہ لوٹ پایا، وہ جانتا تھا

کہ واپسی درمیان بھر تھی

فضا کو آسمان بھر کہنا یاسفر کی خوشی کو اُڑان بھر کہنایا سماعت کو کان بھر،سمندر کو چاند بھر ہوا کہ بادبان بھر کہنا فعلیہ احساس کا کرشمہ ہے جس نے شعری عمل میں تازگیِ احساس اور لہجے کے نئے پن ی راہ کھول دی ہے۔ ایسی اشعار اسلوب و احساس کی ندرت کا عجوبہ بن کا کر سامنے آتے ہیں۔ ذیل کے اشعار کا معنیاتی فشار فعلیہ احساس ہی کی بدولت ہے۔ شعر کا پورا معنیاتی ڈھانچہ اسی پر ٹکا ہوا ہے۔ خط کشیدہ الفاظ اس کے مظہر ہیں:

تو کوئی غم ہے تو دل میں جگہ بنا اپنی

تو اک صدا ہے تو احساس کی کماں سے نکل

قدم زمیں پہ نہ تھے راہ ہم بدلتے کیا

ہوا بندھی تھی یہاں پیٹھ پر سنبھلتے کیا

کوئی بھولی ہوئی شے طاق ہر نظر پہ رکھی تھی

ستارے چھت پہ رکھے تھے شِکن بسترپہ رکھی تھی

لرز جاتا تھا باہر جھانکنے سے اس کا تن سارا

سیاہی جانے کن راتوں کی اس کے در پہ رکھی تھی

کہاں کی سیر ہفت افلاک اوپر دیکھ لیتے تھے

حسیں اجلی کپاسی برف بال و پر پہ رکھی تھی

یہ اسلوبیاتی تازہ کاری معنیاتی تازہ کاری سے الگ وجود نہیں رکھتی۔ بانی کی غزل دونوں سطحوں پر جو اصلاً باہم دگر مربوط و مخلوط ہیں، اپنی انفرادیت کا حق تسلیم کر الیتی ہے۔اس کی صامن ان کی معنیاتی اور لسانی نظر ہے جو زندگی اور زبان کو اپنے طور پر برتنے اور اس کے گوناگوں اسالیب و مظاہر کو اپنے طور پر سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ بانی نہ شخصیت کی خود فریبی کا شکار ہیں نہ طلسم خانۂ ذات کے اسیر،وہ زمینی اور آسمانی دونوں رشتوں سے بک وقت وابستگی کے شاعر ہیں۔ اگر وہ صرف زمینی رشتوں کے شاعر ہوتے تو جسمانیت کی رنگینیوں کی داستانیں سناتے اور اگر صرف آسمانی رشتوں کے شاعر ہوتے تو ماورائی بلندیوں میںکھو جاتے۔ وہ شعورِ حقیقت کے موجود منظر نانے سے انحراف ضرور کرتے ہیں لیکن صرف اس لیے کہ آگہی کی نئی وسعتوں سے ہم کلام ہوسکیں۔ ان کے یہاں نفی کا تاثراسی لیے پیدا ہوتا ہے کہا س کے بغیر اثبات کی کوئی وقعت نہیں۔ اس شاعری کو زمینی رشتوں یا آسمانی رشتوں کے الگ الگ خانوں میں رکھ کر دیکھنا مناسب نہیں۔ بانی کے یہاں زمین زمین کے لیے یا آسمان آسمان ک لیے یا اشرار باتہ یا انکار بذاتہ اہم ہیں بل کہ اہم فن کا وہ باہمی رشتہ ہے جس کی وجہ سے ایک کو دوسرے کے بغیر سمجھا ہی نہیں جاسکتا یا ایک کا وجود دوسرے کے بغیر بے مصرف وبے معنی ہے۔ بانی کی شاعری متقابل عالمی قوتوں کے ہمہ گیر ربط و تعلق کے احساس و ادراک کی شاعری ہے جو اپنے تخلیقی تجسس، تحرک اور تموج کے پر واز سے بے کراں ہوجانا چاہتی ہے اس شاعری میں ذات کو آفاق سے اور آفاق کو ذات سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا بل کہ دونوں کو ایک دوسرے کے وسیلے سے پرکھنے اور پہچاننے کی راہیں کھلتی ہیں، اور یہی وہ نئی شعری جہت ہے جس کے ذریعے سے بانی نے نئی غزل کو نئی بشارت دی۔

(ادبی تنقید اور اسلوبیات،دہلی،۱۹۸۳ء)

Related posts

Leave a Comment