غلام حسین ساجد … آدمِ ثانی/غلام حسین غازی

ناول: آدمِ ثانی
…………..
ناول نگار: غلام حسین غازی 
………………………………

علیگڑھ پبلشرز کا نہ معلوم کب اور کہاں سے شائع ہونے والا یہ ناول (ISBN 000-000-000-0) مجھے دو برس پہلے ملا تھا اور میں نے اس کتھا کے زمانۂ وقوع سے ایک سو سال پہلے پڑھا۔
سادہ لفظوں میں یہ ایک سائنس فکشن ہے۔زمین پر قیامت برپا ہو چکی۔یہ 2120 یعنی 01 بعد قیامت کا زمانہ ہے۔چاندوی اور مریخی بستیوں کے باسی کل گیارہ ہزار نفوس دوسری کہکشاؤں میں کسی نئی”زمین”کی تلاش میں ہیں۔وہ موت اور بدن کے زوال پر قابو پا چکے۔ڈارک میٹر کو بطورِ توانائی استعمال کرنے کی منزل پار کر چکے۔روشنی کی رفتار سے دُگنی رفتار پر چلنے والے خلائی جہاز بنا چکے۔کائنات کی ثقلی اور مقناطیسی کشش کو توڑنے اور زائل یا اپنے حق میں برتنے پر قادر ہو چکے۔اپنے ہم زاد کو کام پر لگا کر اور روبوٹس کو ذمہ داری تفویض کر کے نوری سالوں کا فاصلہ نیند اور بیداری ہر دو حالتوں میں طے کرنے میں آزاد ہو چکے مگر مٹّی کی مہک،اثمار،انعام اور آسائش سے نہیں۔اس لیے کسی اور نظام ِشمسی میں ایسی ہی کسی سرزمیں کی تلاش انہیں چاند اور مریخ سے اپنا ناتہ توڑنے پر مجبور کرتی ہے اور وہ اذلان 001 کی تربیت کر کے اسے اس زمین کی تلاش کے سفر پر روانہ کرتے ہیں۔یہ ایک طویل تھکا دینے والا تکنیکی سفر ہے جو نوری سالوں پر محیط اور سائنسی فارمولوں اور تجربات سے بھرا ہے۔میں کوئی خلائی سائنس دان ہوں نہ طبیعیات دان۔اس لیے نہیں جانتا کہ اس ناول کے سائنسی کُلیوں اور مفروضوں میں کتنی صداقت ہے مگر کارل سیگان کی cosmos اور سٹیفن ہاکنگ کی the brief history of time جیسی کتابیں پڑھنے کی وجہ سے ان مفروضوں کی اساس بے سروپا محسوس نہیں ہوتی۔اس پر صدر سائنس دان اور اس وقت کی موجود نسل ِآدم کا برین نیٹ کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک ہونا،روبوٹس میں سے ایک کا مصنوعی ذہانت کو حقیقی ذہانت میں بدلنے پر قادر ہونا،یاداشت کا محفوظ کر لینا اور ڈی این اے کے ذریعے انسان کی تخلیق ِنو قرین ِقیاس لگتی ہے اور ناول کی افادیت کو بڑھاتی ہے۔
"آدم ِثانی” دو سطحوں پر آگے بڑھتا ہے۔کائنات میں سفر جو سائنسی تشریحات سے بھرا ہوا اور اپنی طوالت اور کیفیت میں تھکا دینے والا ہے اور نوع ِانساں کی تاریخ میں سفر جو نوال ہراری کی sapiens کی یاد دلاتا ہے۔اسے غلام حسین غازی نے فلم کے ذریعے رول بند کیا ہے اور ناول کے آغاز سے اختتام تک زمین کے وجود میں آنے سے قیامت برپا ہونے تک کی کہانی قسط وار بیان کی گئی ہے۔اس کہانی کو تنقیدی نقطۂ نظر سے بیان کیا گیا ہے۔قوموں کا عروج و زوال،عالمی سازشیں،سرمایے کی آویزش،تہذیبوں کا تصادم،نسلی تفاخر اور اس سے جڑی کمینگی کی تفصیل،جہالت کے ابعاد اور ان کا اثر،صارفیت کے رنگ اور کمپنیوں کی حکومت۔۔۔ناول کیا ہے،معاشی،تہذیبی،مذہبی،اخلاقی عروج و زوال پر ایک گہرا تجزیاتی مطالعہ ہے۔جس کا مطمعٔ نظر خرد افروزی ہے اور کیوں نہ ہو،اس ناول کا انتساب ہی مصنف کی فکر کی راہ متعین کر دیتا ہے کہ یہ مذہب،تعصبات اور عقیدے سے بالاتر ہو کر نسل ِآدم کے تہذیبی سفر اور کوتاہیوں کو پرکھنے کی ایک سعی ہے۔
میں خود علی عباس جلالپوری کا براہِ راست شاگرد ہوں۔سبطِ ِحسن اور حامد علی ہاشمی سے بھی رسم و راہ رہی ہے۔اس لیے میں غلام حسین غازی کے فکری رویے اور اس ناول کی تخلیق میں شامل ان کے درد کو سمجھ سکتا ہوں۔
اس ناول کا پیغام اسلحے کی دوڑ کو روکنا،سرمایے کی جنگ کو موقوف کرنا،نفرت کی ہر صورت کا ادراک کرنا،زمین کی آلودگی کا تدارک کرنا اور فطری ماحول کو واپس لانا ہے ورنہ نسل ِآدم اسی صورت ِحال سے دوچار ہونے والی ہے جو اس ناول میں پیش کی گئی ہے اور یہ صورت ہرگز ہرگز خوش کُن نہیں۔
ناول میں ہر نوع کے علمی ذخیرے کو بہت خوبی سے برتا گیا ہے۔سفر کے دوران ایک مرحلے پر اذلان001 ایک سیارے پر اترتا ہے جہاں آکسیجن ٹینٹٹ صرف تین فٹ بلند ہے تو اسے توانائی کشید کرنے کے لیے لیٹنا پڑتا ہے۔ظاہر ہے وہاں نباتات اور حیوانات اس بلندی سے اوپر نہیں نکل سکتے۔اس سے مجھے احساس ہوا کہ زمین کا مرکزہ کتنی بڑی نعمت ہے اور ہم کتنے بڑے آکسیجن ٹینٹٹ میں رم کرنے کے لیے آزاد ہیں۔
اردو میں سائنس فکشن بہت کم لکھا گیا ہے بل کہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ لکھا ہی نہیں گیا۔اس لیے غلام حسین غازی کے اس ناول کو کھلے دل سے خوش آمدید کہنا چاہیے۔ناول کے سرورق پر”عصرِ ِحاضر کا ایک منفرد اور فکر انگیز ناول”کا لکھا جانا یقیناً توجہ طلب ہے۔اس کے باوجود کہ سائنسی اصطلاحات اور فارمولوں کی بھرمار نے اس کی لذت ِمطالعہ کو متاثر کیا ہے اور کہیں کہیں اسے پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے ہم کوئی خواب آور سائنسی کتاب پڑھ رہے ہوں۔
ناول دیباچے کی خرابی سے پاک ہے۔پس سرورق پر ڈاکٹر افتخار حسین بخاری کی مختصر تحریر بطور فلیپ درج ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ میں نے اسے آخر ہی میں پڑھا مگر ان کی رائے سے اتفاق کیا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ گیٹ اپ،کمپوزنگ اور جِلد بندی کے حوالے سے یہ ناول بڑی حد تک بے زار کُن ہے اور اسے نہایت سلیقے اور خوش ذوقی سے دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت ہے۔

Related posts

Leave a Comment