پروفیسرحفیظ الرحمٰن خان ۔۔۔ مولانا الطاف حسین حالی کی ’’شواہدالالہام‘‘کا تحقیقی مطالعہ

مولانا الطاف حسین حالی کی’’شواہدالالہام‘‘کا تحقیقی مطالعہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

خواجہ الطاف حسین حالی ،دنیاےاردو شعروادب میں روشنی کا مینار،افق علم وفن کا رخشندہ ستارہ جس کی تابندگی میں انداز کہن بھی نو بھی ہے۔بہ حیثیت انسان عاجزی وانکسار ،تہذیب و شائستگی اور پختہ کاری کا مرقع۔عام طور پر مولانا کو سرسید کی علی گڑھ تحریک کا رکن رکین اور ارکان خمسہ کا فرداول قرار دیا جاتا ہے۔لیکن سچی بات یہ ہے کہ شعروادب اور فکری ونظری مسائل میں ان کا منفرد انداز نظربھی ہے۔تخلیق شعر میں کسی کے خوشہ چیں نہیں۔نثری تصانیف میں کسی روش خاص پر نہیں چلتے بل کہ ’’شہر میں حالی نے کھولی ہے دکاں سب سے الگ‘‘ کی کیفیت ملتی ہے ،البتہ سب کا احترام،سب کی تقدیم۔
مولانا حالی جدید اور قومی شاعری کا مطلعِ اول،غزل کی قدیم وجدید روایت کا امانت دار ،ساتھ ہی غزل کے موضوعات میں جدت،وسعت اور افادی اندازنظر کاپیش رو۔ غرض ان کی شاعرانہ عظمت مسلم ہے۔فی الوقت ہمیں مولانا حالی کے نثری کمالات کے بارے میں اظہارِ خیال مقصود ہے۔نثر میں مولانا کی علمی وادبی خدمات کا دائرہ اس قدر وسیع اور متنوع ہے کہ اکثر یہ سوال ذہن میں آتاہے کہ مولانا حالی بڑے شاعر ہیں یا نثر نگار؟کیوں کہ وہ دونوں حیثیتوں میں بلندیوں پر فائزہیں۔ادب وفن،مذہبی تصورات کے گوناں گوں موضوعات پران کی گرفت قابل رشک ہے۔ نثری اصناف میں تنقید اور سوانح نگاری میں حالی اولیت کا درجہ رکھتے ہیں ۔اردومیں تنقید کی خشت ِاول مولانا حالی نے رکھی۔کلیم الدین احمد جیسا سخت گیر نقاد بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ مقدمہ (اگرچہ) بہتر تنقید نہیں،سوانح نگاری کا فن تلوار کی دھار پر چلنے کا عمل ہے۔مولانا اس پر سنبھل سنبھل کرچلے۔مغربی فکرونظر کا دریچہ پہلے پہل سرسید نے واکیا لیکن مولانا حالی کے فیضان کا سرچشمہ کسی اور مقام سے پھوٹتاہے۔یہ سرچشمہ کتابِ ہدایت اور دینی تصورات ہیں،جو انسان کو قدم قدم پر مشاہدہ کائنات سے تفکر وتدبر کا درس دیتی ہے۔ان کے بہت سے مقالات کی اساس دینی تصورات ہیں۔اسی دور میں سرسید اور ان کے بعض رفقا علامہ شبلی ،مولوی چراغ علی اور سید امیر علی قرآن کریم اور سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے عقیلت پرستی کی رو میں بہ کرالحاد وانکار کی حدود میں داخل ہوگئے۔سرسید ’’خطبات احمدیہ‘‘میں سرولیم میور کے اعتراضات کے جواب میں لکھتے ہوئے خود استعماری مستشرق کے ہم نوا بن گئے اور قرآن کریم کی آیات کی عقلی تاویلات کرنے لگے۔کم وبیش یہی اندازِ نظر مولانا شبلی نعمانی نے اختیار کیا۔سیرت النبی ﷺ ان کا بے مثال کارنامہ تصورکیا جاتا ہے۔یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ یہ جید عالم جرمن مستشرق ڈاکٹراشپنگلراور فولڈیکی کی فکری روشنی میں سیرت النبی ﷺ کے حساس اور مستند واقعات وروایات کی نفی کرتے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ علماے دیوبندنے مولانا شبلی کی تاویلات پر سخت گرفت کی۔بات مولانا حالی کے شعری اور نثری کمالات سے شروع ہوئی اوراستعماری مستشرقین کی فکری چیرہ دستیوں تک جاپہنچی جس نے شبلی جیسے عالم کو بھی صیدِزبوں بنالیا۔
مولانا حالی کی کتب میں ’’شواہدالالہام‘‘کا ذکربھی ملتا ہے۔یہ مختصر رسالہ ان کی زندگی میں شائع نہ ہوسکا۔اس کا غیرمطبوعہ نسخہ مولانا اسماعیل پانی پتی دہلوی کو میسرآیا۔وہ مولانا حالی کی لائبریری کے انچارج تھے۔بعدازاں اس کی دست نویس نقل ساہیوال (تب منٹگمری)میں مولانا حالی کے نوادرات کے ذخیرے سے دستیاب ہوئی۔جسے اس وقت کے علم دوست ڈپٹی کمشنر مصطفی زیدی اور ان کے رفیق کار اشرف قدسی نے ایک مقامی رسالے’’فردا‘‘میں مولانا اسماعیل پانی پتی کے تعارف کے ساتھ شائع کروادیا۔اس تحریر کی بازیافت حالی شناسی کے حوالے سےظاہر ہے ایکِ قابل قدر کارنامہ تھی۔شواہدالالہام کو اب نوجوان شاعر اور محقق ڈاکٹرمحمدافتخارشفیع نے مبسوط تبصرہ وتعارف اور حواشی کے ساتھ ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور کے زیراہتمام شائع کیا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ افتخارشفیع کی یہ محققانہ کاوش مولانا حالی کے علمی درجہ ومقام شناسی میں گراں قدر اضافے کا حامل ہے بل کہ خود منکسرمزاج نوجوان شاعر کی ادب دوستی اور مذاق تحقیق کا آئینہ دار ہے۔سچی بات ہے مجھے افتخارشفیع میں مولانا حالی کے شخصی خصائص کی جھلک نظرآتی ہے۔
موضوع کے اعتبار سے ’’شواہدالالہام‘‘دو حصوں پر مشتمل ہے۔
۱۔الہام اور وحی کی ضرورت پرعقلی دلائل
۲۔نبی کی ضرورت پرایک وجدانی شہادت
مولانا حالی نے آغاز میں خالص دینی نقطۂ نظر سے الہام اور وحی کی اہمیت کو واضح کیا کہ اللہ تعالیٰ کو وحی والہام کے ذریعے سے نوعِ انسانی کی ابدی رہ نمائی مقصود تھی ۔اس کے بعد انھوں نے عقلی دلائل وشواہد کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کا سہارا لیا ہے۔وحی والہام کی عقلی ومنظقی توجیہات کے بیان میں وہ قرآن اور دیگر الہامی کتب کے حوالوں کے ساتھ ساتھ بعض مغربی فلسفیوں اور مورخوں یعنی چارلس رولن،فیثا غورث ،افلاطون،سولن،لوشین اور کنفیوشش وغیرہ کے حوالے بھی دیے ہیں۔اس زمانے میں سرسید کے زیرِاثر عقل پرستی اور دانشِ فرنگ کا عمل دخل ایک تحریک بن چکا تھا۔مولانا حالی اپنے دلائل وشواہد کے بیان میں محض عقل کو امام نہیں بناتے بل کہ ان کے نزدیک انسان کے نفسی اور حسی تقاضوں کی تکمیل اور درست استعمال کے لیے نادیدہ غیبی قوت کا ہونا ضروری ہے ۔اسی غیبی قوت کانام وحی والہام ہے۔وہ اپنے نقطۂ نظر کی تائید میں استعماری مستشرقین کی روش پر نہیں چلتے بل کہ بعض مغربی فلاسفہ اور مورخین کی آرا کو بہ طور مثال پیش کرتے ہیں۔
مولانا اپنے نقطۂ نظرکی وضاحت کرتے ہوئے جدید سائنسی علوم کے ساتھ مربوط کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ،افتخارشفیع کے نزدیک ’’اس مرحلے پر مغربی افکار سے حالی کی مرعوبیت واضح ہوجاتی ہے‘‘یہ بات کسی حد تک درست ہے۔دراصل مولانا کائنات کی پیدایش وارتقا اور زمین کی ساخت کے تذکرے میں سائنسی علوم (طبعیات،کیمیا،نباتات اور جیالوجی )میں سے مثالیں دے کر مذہبی تصورات کی تائیدکرتے ہیں۔غرض عقلی ونقلی اور سائنسی دلائل اور مثالیں مولانا حالی کا مقصود بالذات نہیں بل کہ وحی والہام کی اہمیت و ضرورت کوواضح کرنا مطلوب ہے۔کتاب کے دوسرے حصے میں مولانا حالی نبی کی ضرورت کو ایک وجدانی شہادت کے ذریعے واضح کرتے ہیں۔اس ضمن میں مولانا حالی نے اولین نکتہ یہ بیان کیا ہے کہ مبدا اور معاد کا علم نبی کے سوا کسی اور ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتا۔انسان کو بہت ساری چیزوں کا علم غوروفکر سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے۔دیگر مخلوقات کو کچھ امور کا علم جبلی طورپرودیعت کیا گیا ہے ،جس پر پیدایش کے ساتھ ہی قدرتی طور پر وہ بروے کا ر لاتے ہیں اور ساری زندگی اس پر چلتے ہیں۔انسان کا معاملہ مختلف ہے کہ وہ انھیں رفتہ رفتہ عقل اور مشاہدے سے سیکھتا ہے۔انسان کی فطرت میں کچھ اور علوم بھی القاکیے گئے جن کے ذریعے وہ فائدے یا نقصان یا غلط اور صحیح کافرق وامتیازکرسکتا ہے۔اس کے تخصص کی صورتیں مختلف قوموں میں الگ الگ ہوتی ہیں۔اس بحث کا نتیجہ مولانا حالی یہ نکالتے ہیں کہ مبدا اور معاد کا علم انسان کو قدرت نے تعلیم کیا ہے۔یہ قدرتی ہے، اکتسابی نہیں۔اسے سمجھنے اور جاننے کے لیے عقل اور سوجھ بوجھ کی صلاحیت حقیقت اصلی کا سراغ نہیں دے سکتی۔مثال کے طور پر مصری اپنی تمام تر عقلی ترقیات ،افادی ایجادات اور ہنرمندی کے باوجود خوف اورتوہمات کا شکاررہتے تھے۔سورج،چانداور ستاروں کی پرستش کرنا ان کا معمول تھا،اسی طرح ان میں بت پرستی نے ظہورپایا۔مصریوں کی طرح اہلِ یونان کا بھی یہی حال تھا،اس حوالے سے مولانا حالی نے مغربی آرا کا تنقیدی جائزہ لیاہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر ہمارا کوئی صانع ہے اور مرنے کے بعد اپنی برائی یا بھلائی کا ثمرہ ملنے والا ہے تو ہمیں ان دونوں باتوں کا تفصیلی علم حاصل کرنے کے لیے اپنی عقلِ ناقص کے سوا کوئی اور ذریعہ ڈھونڈنا پڑے گا اور وہ ذریعہ صرف اور صرف صاحب ِالہام کا وجود ہے۔مولانا حالی نے عقلی دلائل وشواہد اور وجدانی شہادت کی روشنی میں نبی کی ضرورت کو ثابت کیا ہے۔’’شواہدالالہام‘‘مولاناحالی کی نادر تصنیف ہے۔اس کے بہ غور مطالعے سے کہیں ایک فقرہ ایسا نہیں ملتا جس میں سرسید اور ان کے بعض رفقا کی عقل پرستی اور نیچری خیالات کا ایک شمّہ بھی موجود ہو۔اس اعتبار سے مولانا حالی کو سرسید مکتب فکر کا طفیلی سیارہ قرار دینا قرین انصاف نہیں۔کتاب میں وہ کہیں بھی یورپی مستشرقین کی عقلِ عیار کے صید ِزبوں نظر نہیں آتے۔ان کی فکرونظر کا سرچشمہ کلامِ مجید اور رسول مقبول ﷺ کی محبت ہے۔
افتخارشفیع نے اس کتاب کو مبسوط تعارفی نوٹ کے ساتھ منظرعام پر لاکرایک بڑا علمی اورتحقیقی کارنامہ انجام دیا ہے۔اس کی اشاعت کے ردِّ عمل میں آنے والی آوازیں مختلف نوعیت کی ہیں۔اس سلسلے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی انڈیا کے شعبۂ اردو کے استاد،ڈاکٹر معید رشیدی کی رائے نہایت اہم ہے۔وہ لکھتے ہیں:خواجہ الطاف حسین حالی کی شخصیت ہماری فکری روایات کو مذہب، سیاست،قومیت، معاشرت،تعلیم وتربیت، تہذیب وتاریخ اور ادب کے وسیلے سے وسیع ترعلمی امکانات کا حامل بناتی ہے۔نظری سطح پر اشیا کی ماہیت ، روح اور مادے، اور جہانِ آب و گل کے مسائل ان کے احاطۂ فکر میں آکر ایسا نظامِ کلام قائم کرتے ہیں جس سے مباحث کے نئے در وا ہوجاتے ہیں۔ سرسید اور ان کے رفقا نے اگر تنقید و تنقیص کی پروا کی ہوتی تو انیسویں صدی کی دانش وری کا اصل چہرہ پردۂ خفا میں ہوتا۔وہ قوم کے محسن تھے ، مورخ اور انقلابات کے چشم دید بھی۔حالی کی خدمات پر ہمارے یہاں متعدد لوگوں نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق کام کیا ہے۔حالی کی نظم و نثر کی اب تک جو فہرست مرتب کی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے کام میں کیسا تنوع ہے؟ شخصیت کی سادگی میں جو فکری تہ داری ہے اس نے تمام اہلِ فکرونظر کو اپنی جانب مائل کیا ہے۔ تقریباً ان کی تمام چھوٹی بڑی تصانیف اب مطبوعہ سمجھی جاتی ہیں لیکن بابِ تحقیق چوں کہ تاقیامت کھلا ہے اس لیے امکان کی گنجایش ہمیشہ رہتی ہے۔ حالی کے ایک رسالے ’شواہدا لالہام‘پر محققین کی نظر خال خال ہی پڑی تھی۔ اس کا ضمنی طور پر کہیں تذکرہ کیا گیاتھا یا اس کے محض تھوڑے سے حصے تک رسائی ہوسکی تھی۔ پورا رسالہ اب تک منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ حالی ان بزرگوں میں ہیں جن کی ہر تحریر ہمارے بنیادی علمی تشخص کا مسئلہ بنتی ہے۔ڈاکٹر محمد افتخار شفیع ہمارے شکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے مکمل صورت میں اس رسالے کی نہ صرف دریافت کی بلکہ اس پر امکان بھر روشنی بھی ڈالی۔ فی زمانہ تحقیق و تدوین کی طرف لوگوں کی توجہ کم ہے۔ ایسے میں گم گشتہ حوالوں کی طرف دیکھنے والے باعث تحسین ہیں۔ یہ رسالہ وحی اور الہام کی عقلی اور وجدانی شہادتوں سے محوِکلام ہے۔ ڈاکٹر محمد افتخار شفیع کو ’شواہدالالہام‘ کی ترتیب و تہذیب اور اشاعت پر دل کی گہرائیوں سے مبارکبادپیش کرتا ہوں۔

Related posts

Leave a Comment