علی ارمان ۔۔۔ کیا ہوا دور جو دریاؤں سے جل ہے میرا

کیا ہوا دور جو دریاؤں سے جل ہے میرا
جھیل کی طرح میں خوش ہوں کہ کنول ہے میرا

کچھ بھی کہتی رہے یہ رات مرے بارے میں
جگمگاتا ہوا دل ردعمل ہے میرا

زندگی کھیل تو ہے اور کسی کا لیکن
اس کہانی میں بہت ردوبدل ہے میرا

ادھر آیا ہوں میں سیاحتِ ہستی کے لیے
شہر ِناپید کا ہوں ملک اجل ہے میرا

وسعتِ وقت کے لہراتے ہوئے دھوکے میں
یہی وعدہ یہی ٹوٹا ہوا پل ہے میرا

اب تڑپتا ہے مرے ایک اشارے کے لیے
وُہ سمجھتا تھا کہ آئینہ بدل ہے میرا

منزلِ وصل پہ ہو کر بھی مضافات میں ہوں
ہاتھ اک لمس کے اطراف میں شل ہے میرا

بند گلیاں بھی ہیں ارمان کھلی سڑکیں بھی
شہر پر پیچ سا اسلوبِ غزل ہے میرا

Related posts

Leave a Comment