ایک دن ۔۔۔ بانو قدسیہ

ایک دن
۔۔۔۔۔۔۔۔
بانو قدسیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ٹرین حیدر آباد کے سٹیشن پر کھڑی تھی۔

اس کے ڈبے میں سے وہ رنگین اور نازک صراحیاں صاف نظر آ رہی تھیں۔ جن کی مٹی کا رنگ نارنجی اور بیل بوٹوں کا نمونہ خالص سندھی تھا۔ دو امریکن میمیں ہاتھوں میں دو دو صراحیاں تھامے دوکاندار سے سودا کر رہی تھیں۔ اُن کے لکیردار فراک گھٹنوں سے نیچے تنگ اور بغلوں تلے بہت زیادہ کھلے تھے۔ آستینیں غائب تھیں اور گرمی سے جھُلسی گردنوں اور سینوں کا کھلا حصہ بہت سرخ نظر آ رہا تھا۔

معظم نے ان کے ہاتھوں میں تھامی ہوئی صراحیوں کو بڑی للچاہٹ سے دیکھا اور اس کا جی چاہنے لگا کہ کاش وہ بھی ایک نازک صراحی زرقا کے لیئے خرید لے۔ زرقا خود بھی تو ایک ایسی صراحی تھی ممولے سی گردن، پھیلے ہوئے کولہے اور نازک نازک بازو اور پتلے سے ہاتھ – اس کا دہن اتنا لطیف اور ننھا تھا کہ اس پر ذرا سی مسکراہٹ بھی دباؤ ڈال دیتی۔

اس وقت ان ہی ہونٹوں سے نکلی ہوئی اک چھوٹی سی ’ہاں‘ اُسے میلوں کا سفر کرنے پر مجبور کر رہی تھی لیکن صراحی خریدنے کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ٹکٹ خریدنے کے بعد اس کے پاس بمشکل اتنے پیسے بچے تھے جن کے سہارے وہ زرقا کے ہاں بس ٹیکسی میں پہنچ سکتا تھا – زرقا کے ہاں ٹیکسی میں پہنچنا بھی تو بہت ضروری تھا۔ کیونکہ رانی اور ککو ہمیشہ نیچے کھیلا کرتی تھیں۔ جب وہ اوپر جا کر سب کو بتائیں گی کہ معظم بھائی یہ لمبی ٹیکسی سے اترے ہیں تو زرقا ایک بار گردن اٹھا کر فخر سے سب کی طرف دیکھے گی اور دل ہی دل میں کہے گی ٹیکسی مت کہو ہوائی قالین کہو – شہزادے ہمیشہ باد پا قالینوں پر سفر کیا کرتے ہیں! پھر اس کے نازک ہونٹوں پر مسکراہٹ کا بوجھ پڑ جائے گا اور وہ سر جھکا کر بندر روڈ کی رونق کو کھڑکی میں سے دیکھنے لگے گی۔

معظم کا کتنا جی چاہتا تھا کہ ایک بار ان نازک ہونٹوں پر اتنا دباؤ ڈالے اتنا دباؤ ڈالے کہ زرقا دوبارہ گھوم کر بندر روڈ کی دور تک پھیلی ہوئی رونق نہ دیکھ سکے۔ اور اس کی آنکھوں کی ساری سرد مہری، بیگانگی اور اجنبیت معظم معظم پکار اُٹھے – لیکن زرقا ہمیشہ اس کے قریب رہ کر بھی دور دور رہتی تھی – بالکل اسی طرح ناشتے کے ٹرے لئے سفید شملے والے بیرے ہوٹلوں سے گزرتے تھے اور دور رہتے تھے۔ بدقسمتی سے وہ چار انڈے جو وہ لیکر سفر پر روانہ ہوا تھا کچے نکلے۔ ان کے ساتھ اُسے ناشتہ کرنا تھا لیکن جب انڈے لائین کے قریب منڈلانے والے ایک کتے نے چاٹ لیئے تو اس نے انتقام کے طور پر چائے سے بھی پرہیز کیا۔

سماسٹہ سٹیشن پر گاڑی کافی دیر تک رکی رہی اور عین اس کے ڈبے کے سامنے مٹھائی والا تالیاں بجا بجا کر پوریاں بیلتا رہا۔ لیکن اس کی جیب میں جتنے پیسے تھے انہیں وہ کراچی کے لیئے محفوظ رکھنا چاہتا تھا۔ ان پیسوں کے ساتھ اسے زرقا کے ہاں ٹیکسی پر پہنچنا تھا اسی لیئے وہ ہر سٹیشن پر اس بے اعتنائی سے کھڑکی کی طرف پیٹھ کر لیتا جیسے ابھی کل کا کھانا بھی ہضم نہ ہوا ہو !

امریکن عورتوں نے نازک صراحیاں خریدیں سفر کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیئے دو ایک رسالے لیئے اور پھر کینوس کے جوتے لچکاتیں اپنے ڈبے کی طرف چلی گئیں۔ معظم کے ساتھ والی سیٹ پر ایک عورت تیسری بار ناشتہ کر رہی تھی۔ اس کا دو سالہ بچہ کیک کو توڑ کر فرش پر بکھیر رہا تھا اور اس کا شوہر اخبار پڑھتے ہوئے کوئی بارھویں مرتبہ کہہ رہا تھا۔

"دیکھو بھوکی نہ رہنا – کہو تو کچھ اور منگوا دوں! "

وہ عورت مسلسل کچھ نہ کچھ کھا رہی تھی لیکن شوہر کے اس سوال پر وہ ہر بار کہتی – "توبہ! گھر جیسا آرام سفر میں کہاں۔ زندگی عذاب ہو گئی ہے نہ کچھ ڈھنگ کا کھانے کو ملا ہے نہ کام کی چائے نصیب ہوئی ہے – کوئی کھائے تو کیا؟

ڈیزل انجن نے لمبی سی ہوک بھری پھر گارڈ کی سیٹی سنائی دی۔ اور گاڑی آہستہ آہستہ رفتار پکڑنے لگی۔ وہ دروازے والی کھڑکی کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ سامنے لائنوں کا جال بچھا تھا۔ گاڑی ان بھول بھلیوں میں اپنی لائن تلاش کرتی ڈگا ڈگ ڈگا ڈگ بھاگ رہی تھی۔ پھر یک لخت اس کی پشت کی جانب کسی دوسری ٹرین کے گزرنے کا ہنگامہ خیز شور اُٹھا۔ پرانی وضع کا انجن دھواں اڑاتا اپنی شافٹ فٹافٹ ہلاتا آناً فاناً نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ ڈبوں میں بیٹھے ہوئے مرد عورتیں بچے اس کی پہچان سے بہت پہلے رخصت ہو گئے اس نے گردن موڑی اور سامنے پھیلی ہوئی جھاڑیوں، لائین پر پھیلے ہوئے پتھروں اور اکا دکا درختوں کہ دیکھنے لگا۔

وہ سوچ رہا تھا کہ اب کی بار اُسے زرقا کے ساتھ کوئی فیصلہ کن بات کر کے ہی لوٹنا ہو گا۔

بادلوں میں بسنے والی اس لڑکی کے ساتھ ملکوتی محبت کے کئی سال گزر چکے تھے۔ وہ روحانی خط لکھ لکھ کر تھک چکا تھا۔ زرقا کی پرستش کرتے ہوئے اُسے اتنی مدت بیت چکی تھی کہ اب اُس کا دل چاہتا تھا کہ کسی طرح اس بُت کو انسانی سطح پر لا کر پیار کرے۔ اس کے وجود کو محسوس کرے گرم چائے کی طرح – سگریٹ کے دھوئیں کی مانند – اپنے ملگجے تکیئے کی طرح۔

گاڑی کھٹا کھٹ کراچی کی سمت بھاگی جا رہی تھی !

اور معظم سوچ رہا تھا کہ اس دفعہ اُس کا رویہ پچھلے سالوں کے مقابلے میں بہت مختلف ہو گا۔ اس بار آنکھیں جھپکا جھپکا کر ممی ممی کہنے والی گڑیا کو عورت بن کر اُس کے قریب آنا ہو گا یا پھر اس کے دل کے سنگھاسن سے اتر کر گم شدگی کے اندھیروں میں ڈوب جانا ہو گا۔

× × × × × × × ×

"وہ آئی پیلی ٹیکسی – – – – – "ککو چلائی۔

"اونہہ – مجو بھائی کوئی پیلی ٹیکسی میں آئیں گے وہ تو بڑی ٹیکسی میں آئیں گے آٹھ آنے میل والی میں۔”

رانی بولی۔

"اچھا؟ "

"اور کیا؟ "

"کچھ شرط لگاتی ہو – ؟ "ککو نے پوچھا۔

"ہاں – لگا لو – "

"اگر مجو بھائی پیلی ٹیکسی میں آئے نا تو تم مجھے اپنی پیلے پھولوں والی فراک دے دینا – "

"کون سی ؟ – وہ نایئلون والی؟ "رانی نے سوال کیا۔

"ہاں – "

"واہ – وہ تو ابھی پرسوں زکی آپا بوری بازار سے لائی ہیں – "

"پھر کیا ہے ؟ شرط تو اچھی چیز کی لگاتے ہیں نا ؟ "ککو نے سر ہلا کر کہا۔

"لیکن زکی آپا نے تو فراک اس لیئے لے کے دی تھی کہ جب مجو بھائی کے ساتھ سمندر کی سیر کو جائیں تو پہنیں گے۔”

رانی نے بڑے فخر سے کہا۔

"وہ تو میں بھی پہن سکتی ہوں – لیکن خیر ہمیں کیا مجو بھائی تو بیچارے آئیں گے پیلی ٹیکسی میں – "

رانی جل کر بولی – "اچھا تو پیلی ٹیکسی میں آنے سے کیا ہوتا ہے۔ حبیب بھائی تو ہمیشہ سائیکل رکشا پر آتے ہیں – "

ککو سڑک کے قریب آہنی جنگلے کے ساتھ کھڑی تھی یہ سن کر جھٹ وہ قریب آ کر کہنے لگی۔

"حبیب بھائی مجو بھائی سے اچھے ہیں اچھے ہیں اچھے ہیں "

رانی فلیٹ میں چڑھنے والی بڑی سیڑھیوں پر بیٹھی اپنا پھولوں والا ربن ٹھیک کر رہی تھی اس نے غصے میں آ کر بالوں میں سے ربن کھسوٹ لیا اور چلا کر بولی – "خاک اچھے ہیں۔ موٹے سے بھدے سے موٹا آلو پلپلا پیسہ لے کر گر پڑا۔”

"کبھی خالی ہاتھ نہیں آتے۔ ہمیشہ ہمارے لیئے کچھ نہ کچھ لاتے ہیں – ضرور – "ککو نے کہا۔

"تم ہو ہی لالچی بلی – "

"بلی ہو گی تُو – "

"تُو بڈھی شتر مرغ – "رانی نے چڑ کر کہا۔

"بس تمہارے تو ذہن پر ہمیشہ شتر مرغ سوار رہتا ہے اور کچھ دیکھا جو نہیں – "

"کیوں دیکھا کیوں نہیں۔ ابھی تو پچھلے ہفتے میں چڑیا گھر گئی تھی – "

ککو فخر سے بولی – "اور ہمیں حبیب بھائی جب ہم چاہیں لے جاتے ہیں – "

"یہاں کے چڑیا گھر میں رکھا ہی کیا ہے ؛ – تم نے لاہور کا چڑیا گھر دیکھا ہوتا تو کبھی یہاں کے گاندھی گارڈن کا نام بھی نہ لیتیں – "

"بھلا وہاں اژدہا ہے کیا؟ "ککو نے جل کر پوچھا۔

"اژدہا نہیں ہے لیکن پیلی چتّیوں والا چیتا تو ہے۔ یہ بڑی بڑی نارنجی آنکھیں ہیں اُس کی تم دیکھو تو مارے ڈر کے مر جاؤ – جب میں پچھلی دفعہ اماں کے ساتھ لاہور گئی تھی تو مجو بھائی نے مجھے خود دکھایا تھا "- رانی بولی۔

"وہاں زیبرا بھی نہیں ہے نہیں ہے نا؟ – "

رانی بحث میں ہار رہی تھی اس لیئے اٹھتے ہوئے بولی – "زیبرا کون سا ایسا تحفہ ہے۔ یہاں نہ تو اُودبلاؤ ہے نہ سفید مور نہ بندر – یہ بھی کوئی چڑیا گھر ہے۔ ذرا بھی دیکھنے کو ئی نہیں چاہتا – "

ککو کو غصہ آ گیا وہ چمک کر کہنے لگی – "اس دن تو مان گئی تھیں کہ یہاں کا چڑیا گھر زیادہ اچھا ہے – "

"اس دن تو تُو اپنی مونگ پھلیاں نہیں دیتی تھی اس لیئے میں نے کہہ دیا تھا۔”

ککو جھلا کر بولی "تم ہو ہی مطلبی اپنا مطلب ہوتا ہے تو سب کچھ مان جاتی ہو۔”

پیلی چھت والی ایک ٹیکسی بڑی شاہراہ کو چھوڑ کر فلیٹ والی سڑک کی طرف مڑی۔ اُن سے پرے والے بلاک کے پاس لمحہ بھر کے لیئے رُکی اور پھر ان کی طرف بڑھ آئی۔

ککو تالیاں پیٹتی ہوئی چلائی "دیکھا – – – – – دیکھا – – – – – دیکھا – – – – – مجو بھائی ٹیکسی میں آئے ہیں پیلی ٹیکسی میں – – – – – ہاں – – – – – ہاں – – – – – ہاں -"

رانی کو مایوسی تو ہوئی۔ لیکن معظم کے آنے کی اُسے اتنی خوشی ہوئی کہ اُسے اپنی شکست کا احساس بھی نہ رہا۔ معظم نے کار کا پٹ کھولا اپنا اٹیچی اور کمبل اٹھایا اور باہر نکل آیا۔

"ہیلو رانی – – – ککو – "

دونوں بچیاں سلام کر کے آگے بڑھیں رانی تو معظم سے چمٹ گئی لیکن ککو ٹیکسی کا میٹر پڑھنے لگی۔

"دو روپے چار آنے – "

پھر اس نے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے کہا – "مجو بھائی اس بار تو آپ پورے چھ مہینے بعد آئے ہیں – ہے نا "

"ہاں کچھ دیر سے ہی آیا ہوں – "

"صبح آپ کا تار ملا تھا- میں تو تب سے باہر بیٹھی ہوں – "

ککو کرائے کی تفتیش کر کے لوٹی تو آتے ہی بولی۔ "آج ہمیں چھٹی تھی مجو بھائی لاسٹ سیٹرڈے -"

"اور دوسرے لوگ کہاں ہیں؟ "معظم نے بظاہر بے پروائی سے پوچھا۔

"وہ دیکھئے دیکھ رہی ہیں نیچے "

معظم نے چہرہ اٹھا کر اوپر دیکھا۔

تیز گلناری رنگ کے پردے ایک طرف کو کیئے زرقا، لیلی اور شیریں کھڑی تھیں۔ لیلی اور شیریں کی دو دو چوٹیاں سامنے سینے پر لٹک رہی تھیں اور زرقا کی لمبی بوجھل چوٹی اس کے پہلو سے نکل آئی تھی۔ معظم خوب جانتا تھا طویل بالوں کا یہ سلسلہ جسم کے کس حصے پر جا کر ختم ہوتا ہے۔

فلیٹ کے سامنے پیلی ٹیکسی کے پہنچنے سے تھوڑی دیر پہلے وہ تینوں بہنیں اپنے اپنے کپڑے درست کرنے میں مشغول تھیں۔ دُبلی پتلی لیلی نے اپنی زرد کاٹن کی قمیص دیوان پر پھینکتے ہوئے کہا – "توبہ رواج بھی کیا چیز ہے جب تک دل نہ اُوب جائے کوئی پیچھا ہی نہیں چھوڑتا – ان قمیصوں کا تھی کیا فیشن چلا ہے – "

شیریں قالین پر بیٹھی تھی وہ لیلی کی طرف چہرہ اٹھائے بغیر کہنے لگی۔ "اب تو ہر سڑک پر ہر لڑکی یہی پیلے کرتے پہنے نظر آتی ہے مجھے تو یوں لگتا ہے جیسے سارے کراچی میں ایک ہی سیندھوری لڑکی گھوم رہی ہے۔”

لیلی ہنس کر بولی – "ابھی یہاں کیا دیکھا ہے تم نے لاہور میں تو یہ عالم ہے کہ کسی پر ریشمی کپڑا نظر تک نہیں آتا۔ ہمارے کالج کی تمام لڑکیاں ان ہی رنگین کاٹنوں میں نظر آتی ہیں۔ کسی نے سیاہ کالر لگا لیا ہے تو کسی نے سیاہ بٹن – "

"لیکن گلا تو بوٹ شیپ ہی اچھا لگتا ہے "شیریں نے استری کا بٹن بند کرتے ہوئے کہا۔ لیلی نے اپنی زرد قمیص کے پاس بیٹھ کر وثوق سے کہا۔ "اور آستینیں بھی چھوٹی ہی بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ "

ان دونوں سے ذرا پرے دیوان پر زرقا خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے سامنے اس کے سارے کپڑے گڈمڈ دھرے تھے۔ کھلی کھڑکی میں سے سمندری ہوا کے تیز جھونکے آ رہے تھے اور کھڑکی میں لٹکے ہوئے گلناری رنگ کے لمبے لمبے پردے اِدھر اُدھر لہرا رہے تھے۔ زرقا کی لمبی گاوُ دم چوٹی نیچے تکیے پر بل کھا کر لیٹی ہوئی تھی اور ماتھے کے ارد گرد باریک بال ہوا سے لرز رہے تھے۔ اس کے گٹنے تلے معظم کا تار دبا تھا جس میں اس کے آنے کی اطلاع درج تھی۔ وہ اس تار کہ بڑی ترکیب سے اماں کے کمرے میں سے کھسکا کر لائی تھی اور اب گھٹنے تلے پڑے ہوئے اس تار کا اسے یوں احساس ہر رہا تھا جیسے کسی کا دھڑکتا ہوا دل اس کی ران تلے آ گیا ہو۔

دوسری منزل کے اس فلیٹ میں تین کمرے تھے۔ جگہ چھوٹی تھی لیکن موزیک کے پکے فرش اور ڈسٹمپر کی ہوئی دیواروں نے اس ننھے سے فلیٹ کو بڑی صاف ستھرگی عطا کر رکھی تھی۔ بلاک کی سیڑھیاں عین ان کے دروازے کے سامنے اوپر کی طرف مڑتی تھیں۔ سیڑھیوں کا دروازہ کھلتا تو ڈرائنگ روم نظر آتا۔ اسی میں ایک جانب کھانے کی بڑی میز اور نازک ٹانگوں والی چھ کرسیاں پڑی تھیں۔ ایک طرف چمکتی پالش والا تین تختوں والا سائیڈ بورڈ تھا۔ جس پر برتنوں کی جگہ اماں جان کا پاندان ان کی سلائی کی ٹوکری اور گھریلو حساب کی کاپی دھری رہتی تھی۔

کمرے کے ڈرایئنگ روم والے حصے میں ایک صوفہ دھرا تھا جس پر بوسیدہ سبز رنگ کا پھولوں والا کپڑا منڈھا تھا۔ سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی پر نارنجی اور اندر کی طرف جانے والے دروازے پر گہرے نیلے رنگ کے پردے لٹکے ہوئے تھے۔ گلدانوں میں پلاسٹک اور کاغذ کے مصنوعی پھول آراستہ تھے۔ کھڑکی کے سامنے بڑا سا دیوان تھا جس پر گہرے سبز رنگ کا غلاف چڑھا تھا اور اوپر کے چھوٹے بڑے تکیئے بے ترتیبی سے دھرے تھے۔ سارا گھر لڑکیوں سمیت ٹیکنی کلر تھا۔

اس ڈرایئنگ روم میں اندر کی طرف دروازے کھلتے تھے۔ جس کمرے میں لیلی شیریں اور زرقا رہتی تھیں اس کی کھڑکی سڑک کی جانب کھلتی تھی۔ ساتھ والے کمرے میں اماں، ککو اور گڈی رہتی تھیں۔ یہ کمرہ قدرے بڑا تھا لیکن اس میں کوئی کھڑکی نہ تھی جو سڑک کی جانب کھلتی ہو، اسی لیئے رانی اور ککو کو ہمیشہ فلیٹ سے اتر کر سڑک پر کھیلنا پڑتا۔

اماں جی کے کمرے کے سامنے چھوٹا سا برآمدہ اور پھر صحن تھا جس کے سامنے دائیں جانب باورچی خانہ اور بائیں طرف سٹور اور غسلخانہ تھا۔ باورچی خانے کے ساتھ دوسرے فلیٹ سے علیحدہ کرنے والی کھپچیوں کی پارٹیشن تھی۔ اس دیوار کے دو تین تختے بالکل ڈھیلے تھے اور ذرا سا دھکا لگنے پر اکھڑ جایا کرتے تھے۔ لیلی اکثر ڈھونڈ کر ہتھوڑی لاتی ڈیڑھ انچ کے کیل منگوائے جاتے اور اکھڑے ہوئے تختوں کو جوڑا جاتا۔ عین سامنے اونچی دیوار تھی جس کے ساتھ ساتھ متوازی وہ بار بندھی تھی جس پر دن بھر سمندری ہوائیں گیلے کپڑے اڑاتی رہتی۔

سٹور کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ اس میں جب کبھی ضرورت پڑتی ایک آدھ چارپائی بھی ڈال دی جاتی۔ اور یہ ضرورت عام طور پر زرقا کو ہی پیش آتی۔ اس کی دونوں بہنیں جب اتنی باتیں کرتیں کہ اس کے سر میں درد ہونے لگتا تو وہ چپکے سے اپنا چھوٹا اٹیچی اٹھاتی اور خاموشی سے اسٹور کی راہ لیتی۔ اٹیچی اٹھانا اس لیئے ضروری تھا کہ اس میں معظم کے خطوط تھے۔ گو لیلی اور شیریں ان خطوط سے واقف تھیں۔ لیکن پھر بھی وہ انہیں ان کی دستبرد سے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ سٹور میں دیواروں کے ساتھ لنٹل کی دو دو سلیں لگی ہوئی تھیں اور ان پر گھر بھر کے صندوق رکھے تھے۔ لکڑی کے صندوق، چمڑے کے یخدان، فائبر کے سوٹ کیس اور بید کے مستطیل بکس۔ ان کے درمیان اتنی کھلی جگہ تھی جہاں زرقا اپنی چھوٹی سی چارپائی بچھا کر لیٹ سکتی تھی۔

یہاں چارپائی پر لیٹ کر بیس واٹ کے مدھم بلب میں معظم کے خط پڑھ کر اسے عجیب طرح کا سکون ملتا۔ اسے لگتا جیسے مجو دنیا کے تمام مردوں سے مختلف ہے۔ وہ گوشت پوست کا بنا ہوا مرد نہیں، ہجر کا ایک شعر خیام کی ایک رباعی ہے۔ اک حسین پھول ہے جو لمس سے ہمیشہ مرجھا جایا کرتا ہے۔

معظم کے خط مقطر اور ہلکے پھلکے جذبات سے اس قدر پُر ہوتے گویا وہ زرقا کے قرب کا ذرا بھی تمنائی نہیں اور اگر اسے اس چیز کی تمنا ہے بھی تو اس تمنا میں ہوس کا شائبہ تک نہیں۔

زرقا کو اسی چیز کی مدتوں سے تلاش تھی۔ وہ مرد کی نظر میں عقیدت اور پرستش دیکھنا چاہتی تھی۔ اسے ان نظروں میں جسم کی والہانہ طلب سے نفرت تھی۔

اس وقت بھی کھڑکی کے ساتھ بچھے ہوئے دیوان پر بیٹھی زرقا یہ سوچ رہی تھی کہ معظم ہفتے بھر کے لیئے کراچی آئے گا۔ یہ ہفتہ کتنی مسرت میں کٹے گا – لیکن اس سے بڑی مسرت اس وقت حاصل ہو گی جب میں سٹور میں چارپائی بچھا کر پہروں اس ہفتے کو ذہن میں دہرایا کروں گی۔ ہولے ہولے اس ہفتے کا ہر ایک لمحہ میرے دل کی لوح پر ہمیشہ کے لیئے ثبت ہو جائے گا اور پھر اس کو کوئی بھی میرے دل سے کھرچ نہ سکے گا۔

لیلی نے شیریں کو آنکھ مار کر کہا – "آپا پھر گم ہیں – "

شیریں نے کپڑوں کی تہہ لگاتے ہوئے آہستہ سے کہا – "گم نہ ہوں تو اور کیا ہوں – "

لیلی اس کے قریب آ کر نیچی تپائی پر بیٹھ گئی اور بولی – "جانتی ہو کیا سوچ رہی ہیں – "

"تو آؤ پھر اپنی باتیں کریں – "شیریں نے بات کی۔

"اور یہ جو سن رہی ہیں "دفنگ دفے کی مدد سے لیلی بولی۔

زرقا کو یہ دفنگ دفے کی زبان نہ آتی تھی۔ ویسے بھی جب کبھی لیلی اور شیریں یہ زبان استعمال کرتیں تو زرقا چِڑ کر کمرے سے نکل جاتی۔ لیکن آج وہ اس کھڑکی کے پاس سے ہلنا نہ چاہتی تھی۔ اس نے چہرہ سڑک کی جانب پھیر لیا اور سوچ میں ڈوب گئی۔

"بھلا آپا کا بیاہ کس سے ہو گا "لیلی نے ف کی بولی میں پوچھا۔

"تمہیں کیوں فکر ہے بڑی بی ؟ – "شیریں نے اسی زبان میں جواب دیا۔

لیلی بڑی بی کا لفظ سنتے ہی بھڑکی اور کہنے لگی – "اب ہم کالج میں داخل ہو گئے ہیں۔

اب ہماری عزت کیا کرو – "

"ہو تو فسٹ ایئر فول ہی نا – "شیریں شوخی سے بولی۔

"شیریں! – "لیلی غرائی۔

شیریں نے مسکین صورت بنا کر ہاتھ باندھ کر کہا – "اگر جان کی امان پاؤں تو ایک بات عرض کروں "

"کہو – لیکن ایسی کوئی بات نہ ہو جس سے ہماری بے عزتی کا پہلو نکلتا ہو "شیریں نے مسکرا کر کہا۔ "ہمیں یہ کہنا تھا لیلی بیگم کہ بس سال بھر کے وقفے پر اتنا ناز کرتی ہو۔ ہم بھی سال بھر میں کالج میں ہوں گے۔ ایسی کون سی بڑی بات ہے۔ – "

زرقا نے منہ پھیر کر ان لڑتی جھگڑتی میناؤں کی طرف دیکھا تو شیریں خاموشی سے قمیص استری کرنے لگی اور لیلی نے سوئی میں دھاگہ پرونا شروع کر دیا۔

"آپا معظم بھائی آتے ہی ہوں گے اب تو – "لیلی نے بھیگی بلی بن کر پوچھا۔

آہستہ سے زرقا نے ہاں کہہ کر پھر منہ کھڑکی کی طرف پھیر لیا۔

لیلی نے شیریں کو آنکھ ماری اور اپنی بولی میں لینے لگی – "بڑا زبردست انتظار ہو رہا ہے۔”

"مجو بھائی بھی تو چھ ماہ سے تشریف نہیں لائے۔ انتظار تو خود ہونا ہی ہوا – "شیریں نے ہولے سے کہا۔

"اگر مجو بھائی جیت گئے تو حبیب بھائی کا کیا بنے گا؟ "لیلی نے پوچھا۔

شیریں نے مسکرا کر کہا "وہی جو ہیرو کی موجودگی میں بیچارے ولن کا بنا کرتا ہے "

دونوں چوٹیوں کو سینے پر ٹھیک سے لٹکا کر لیلی نے بڑی آہستگی سے شیریں سے کہا – "اگر خدانخواستہ کوئی جنگ ونگ ہو گئی تو – "

"نہیں بڑی بی تم بے فکر رہو۔ "

"پھر وہی بڑی بی – بڑی بی ہو گی تُو – – – – تُو – – – – – – "

سڑک پر آنے والی پیلی ٹیکسی جب موڑ کاٹ کر پہلے بلاک پر رُکی تو زرقا جلدی سے دیوان پر سے اٹھی اور کھڑکی کے سامنے کھڑی ہو گئی اور معظم کا تار دیوان پر ننگ دھڑنگ بچے کی طرح سوتا رہ گیا۔

اسے یوں اٹھتے دیکھ کر لیلی اور شیریں اس کے پہلو میں کھڑی ہو گئیں۔ ان کی دو دو چوٹیاں سامنے سینوں پر آ ٹکیں اور زرقا کی لمبی بوجھل چوٹی اس کے پہلو سے نکل آئی۔ معظم اٹیچی اور کمبل نکال کر باہر نکلا تو لیلی اور شیریں نے بڑے تپاک سے ہاتھ ہلائے اور لیلی شیریں سے بولی – "ایک ابا جی ہیں سولہ سولہ خط ڈالو تو بھی کبھی نہیں آتے ایک مجو بھائی ہیں کہ ادھر رقعہ ملتے ہی گاڑی پکڑ لیں – "شیریں بولی "کوئی ایسا سات سمندر پار بھی تو نہیں – "

لیلی اور شیریں اپنی باتیں کیئے جا رہی تھیں۔

اور زرقا غور سے معظم کو دیکھ رہی تھی۔ رانی اس کے بازو کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی۔ ککو ڈرائیور سے باتیں کر رہی تھی۔ معظم کا چہرہ اس کی طرف اٹھا ہوا تھا۔ جیسے سورج مکھی کا پھول سورج کی طرف تکے جا رہا ہو۔

یہ تصویر اس کے دل کی لوح پر ہمیشہ کے لیئے ثبت ہو گئی۔

لالو نے جلتی سگریٹ عین سڑک کے بیچ میں پھینک دی اور جھلا کر بولا – "ماں کہہ تو رہا ہوں نوکری نہیں ملتی نہیں ملتی "

ماں نے سر پر دوپٹہ ٹھیک کیا اور تڑپ کر بولی – "اتنا بڑا کرانچی شہر ہے اور تو کہتا ہے نوکری نہیں ملتی – "

"کراچی شہر کو کیا کروں ماں یہاں سب کہتے ہیں پہلے جہاں کام کرتے تھے اس صاحب کی چٹھی دکھاؤ پھر نوکری دیں گے۔”

لالو اور اس کی ماں ماڑی پور کی اس بستی کے قریب بیٹھے تھے جہاں قطار در قطار ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے کچے کوٹھے اور فٹ پاتھ کے مسکن تھے۔ لالو کی جیب میں ادھ جلے سگرٹوں کے کچھ ٹوٹے تھے۔ جب ماں کوئی کڑی بات کہتی تو وہ اپنی سبز دھاری دار قمیص کی جیب ٹٹولتا ایک ٹوٹا سلگا لیتا اور جب یہ ٹکڑا اس کی انگلیوں کی پوریں جلانے لگتا تو وہ اس جلتے ٹکڑے کو سڑک کے بیچ میں پھینک دیتا۔

لالو کی ماں لیمپ پوسٹ کے ساتھ پشت لگائے فٹ پاتھ پر بیٹھی تھی۔ اس کی چادر پر جابجا پیوند تھے اور چہرے پر بھوک، افلاس اور در در کی خاک کی چھاپ تھی۔

"میں تو پہلے ہی کہتا تھا ماں کہ لاہور ٹھیک ہے ، وہاں اپنی بولی سمجھنے والے بہت تھے پر تجھے تو کراچی کی پڑی تھی۔ تیری تیزیوں نے مار ڈالا ماں ! – "

ماں نے زمین کو پیر کے انگوٹھے سے کرید کر کہا – "اچھی بھلی وہ کویت والوں کی جگہ تھی تُو نے خواہ مخواہ کام چھوڑ دیا – "

"کیا بھلی تھی؟ اتنا تو کام تھا – "

"کھانے کو تو مل جاتا تھا لالو – "ماں نے ہاتھ پھیلاتے ہوئے کہا۔

"ہاں تجھے تو ریشمی کپڑے بھی مل جاتے تھے بیبیوں کے پر مجھے کیا ملتا تھا۔ صبح سے رات تک برتن مانجھتا ہر کام کرتا – اور تنخواہ کی باری ماں جی کا منہ پھُلا کر کہنا بس خان صاحب کویت سے آنے والے ہیں سب حساب چکا دوں گی۔ -"

ماں جھلائی بیٹھی تھی بپھر کر بولی – "تو کیا برا کرتی تھیں۔ تجھے پیسے ملتے تو تو منڈوہ دیکھ کر برباد کر دیتا ان کے پاس رقم اکٹھی ہو رہی تھی۔ ہونے دیتا – "

لالو کو بھی غصہ آ رہا تھا وہ اٹھتے ہوئے بولا – "ماں! کمائی میں کرتا ہوں کہ تُو – "

"تُو ہی کرتا ہے بیٹا تُو ہی۔ اگر میں اس ٹانگ سے معذور نہ ہوتی تو تجھے کبھی میں تکلیف نہ دیتی۔ جب تک انہوں نے ساتھ دیا میں نے تیری خدمت کی بیٹا ! – "

"تو بول اب تُو کیا چاہتی ہے ماں – "

لالو کی ماں بولی – "تُو بیگم صاحبہ سے معافی کیوں نہیں مانگ لیتا۔ لالو – "

بستی کی طرف جاتے ہوئے لالو کہنے لگا – "ماں تم مجھے دس لاکھ روپیہ دو تو بھی معافی نہ مانگوں "ماں نے بڑبڑاتے ہوئے اپنے آپ سے کہا – "ہاں تُو بھلا کیوں معافی مانگنے لگا۔ تجھے تو بالوں میں ڈالنے کو خوشبودار تیل مل جاتا ہے۔ بس میں بیٹھ کر سیر کرنے کو پیسہ مل جاتا ہے۔ ہوٹلوں میں کھانے کو روٹی مل جاتی ہے – بھلا تُو کیوں معافی مانگنے لگا؟ "

لالو واپس آ کر ماں کے قریب کھڑا ہو گیا اور قہر بھری نظروں سے اسے دیکھ کر بولا – "ماں ! تُو میری ہر بات کو کیوں ٹوکتی ہے۔ یہ کیا کم ہے کہ میں تجھے گلے کا تعویذ بنائے ہر طرف لیئے پھرتا ہوں۔ تجھے تو لڑنے جھگڑنے سے کبھی فرصت ہی نہیں ملتی۔ جی تو چاہتا ہے تجھے سمندر میں دھکا دے کر ہمیشہ کے لیئے آزاد ہو جاؤں – "

ماں رونے لگی اور گھٹنے پر سر رکھ کر بولی – "تو دھکا دے کیوں نہیں دیتا۔ میں کون سی سکھ کی سیج پر پڑی ہوں۔ دن پورے کر رہی ہوں۔ تُو مجھے بیگم صاحبہ کے گھر ہی رہنے دیتا تو یہ زندگی کے چار دن تو آرام سے کٹ جاتے "

"اب چلی جا اُن کے پاس تجھے منع کس نے کیا ہے "لالو غرایا۔

"تُو چلے تو میں بھی چلوں لالو – "

"میری کیا شرط ہے – وہ تیری ایسی سگی ہیں تجھے کیوں دھکے دیں گی؟ "

"کیا منہ لیکر جاؤں؟ – ہر بار جب جاتی ہوں دس بیس کی مدد کر دیتی ہیں، کوئی حد ہوتی ہے خیرات مانگنے کی – "

لالو کا اوپر والا ہونٹ اور اوپر کی طرف اٹھا اور اس نے آہستہ سے کہا –

"ایک بات بتاؤں ماں !”

پُر امید آنکھوں سے ماں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا – "ہاں بتاؤ ؟ "

"ماں ! کلفٹن کے کنارے گھونکھے اور سپیوں والوں کے تختے لگے ہیں تُو بھی وہاں بیٹھ جا – بڑا مسافر اترتا ہے وہاں "

"تو میں وہاں بیٹھ کر کیا کروں رے ؟ "

"انہیں دعائیں دیا کرنا وہ تیری جھولی بھرا کریں گے – "لالو بولا۔

ماں نے منہ پرے کر کے تھوکا اور گالیاں بکتی ہوئی بولی – "جا بے حرامزادے – اپنی روند پر جا – تیری منزل کھوٹی ہوتی ہے کیوں مجھ دکھیاری کے ساتھ مسخری کر رہا ہے۔ ان آنکھوں نے اچھے دن دیکھے ہیں۔ تیری طرح بے غیرتی نہیں کی۔ اگر آج تیرا باپ زندہ ہوتا لالو – – – – – – – تو – – – – – – – تو – – – – – – "

اُس نے گھٹنے پر سر رکھ دیا اور پھر اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی لکیروں میں آنسوؤں کی چھوٹی چھوٹی ندیاں رواں ہت گئیں۔

ماڑی پور سے آنے والی بس رُکی تو لالو بھاگ کر پچھلے دروازے سے اس پر سوار ہو گیا۔ پچھلی لمبی سیٹ کے آخری کونے پر اس کا دوست پھتو بیٹھا تھا۔ لالو کو سوار ہوتے دیکھ کر اس نے بائیں آنکھ ماری اور زور سے کہا – "کیوں شاہ جی ہماری ٹکٹ بھی آپ ہی لیں گے نا ؟ "

لالو نے اندر والی جیب میں سے سُرخ ریشمی رومال نکالا اور نقدی پر نظر ڈالتے ہوئے نعرہ لگایا۔

"ہم ہی لیں گے پیارے تُو فکر کیوں کرتا ہے آج ہفتہ ہے کل خدا نے چاہا تو سنڈے لگے گا – بے فکر رہ! "

حبیب صاحب پھر سائیکل رکشا پر تشریف لائے تھے۔

جب رکشا فلیٹ کے سامنے کھڑی ہوئی تو ککو اور رانی سڑک کے کنارے کھڑی اپنی ایک سہیلی سے باتیں کر رہیں تھیں۔ انہیں دیکھتے ہی ککو بھاگ کر ان کے پاس آ کھڑی ہوئی اور جلدی سے بولی – "بھائی جان آج آپ بہت دیر سے آئے ہیں – پتہ ہے دس بج گئے ہیں "

"آج ہم نے اتوار منایا تھا ککو – – – – خوب سوتے رہے "

ککو نے حریص بن کر کہا – "آپ نے تو کل وعدہ کیا تھا کہ آج کلفٹن لے چلیں گے – "

"ہاں لے چلیں گے لیکن ایک شرط پر – "حبیب نے ککو کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔

"شرط ؟ – – – کیسی شرط – "

"اگر تمہاری آپا بھی ساتھ چلیں تو – "حبیب نے آہستہ سے کہا۔

"وہ تو چلیں ہی گی – "

یہ کہہ کر ککو سوچ میں پڑ گئی۔ ابھی کل ہی تو معظم بھائی آئے تھے اور اُس کے آنے کے بعد سے زرقا آپا ایک لمحے کے لیئے بھی باورچی خانے سے نہ نکلی تھی۔ لیلی اور شیریں کے تو مزے ہو گئے تھے۔ آرام سے صحن کے پرانے تخت پر بیٹھی مجو بھائی کے ساتھ ٹکے ٹکے کی باتیں کر رہی تھیں۔ لالو کے جانے کے بعد سارا کام ان دونوں کو ہی کرنا پڑتا تھا۔ زرقا آپا تو بس جھاڑ پونچھ کر دیا کرتی تھیں اور وہ بھی ہر جھاڑ پونچھ کے بعد دس دس منٹ صابن سے ہاتھ دھوتی تھیں۔ لیکن مجو بھائی کے آنے کے بعد وہ تھیں اور تیل کا چولہا – وہ تھیں اور پیاز لہسن !

کبھی چائے بن رہی ہے – کبھی کافی کبھی کوکو !

شاید زرقی آپا نہ جائیں۔ شاید چلی بھی جائیں۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کل کا پورا دن اس امید میں گزر گیا تھا کہ آج اتوار ہو گا اور کلفٹن چلیں گے۔ لیکن اگر زرقی آپا نہ گئیں تو حبیب بھائی نہ جائیں گے اور اگر حبیب بھائی نہ گئے تو بھلا ہمیں کون سمندر کنارے لے جائے گا – یہ سوچتی ہوئی ککو دو دو سیڑھیاں ایک ساتھ الانگتی حبیب صاحب کے ساتھ فلیٹ ہیں داخل ہو گئی۔

باورچی خانے سے برتنوں کے بجنے کی آواز آ رہی تھی۔ جب کبھی زرقا نعمت خانے میں سے کچھ لینے کے لیئے دروازے تک آتی، تو مجو کی گفتگو کا تانتا ٹوٹ جاتا۔ سیاہ قمیص سفید شلوار چُنا ہوا دوپٹہ پہنے زرقی کا جسم اس کی تمام توجہ بٹور لیتا۔ گالوں تک لٹکی ہوئی آوارہ سی لٹ اور کولہوں تک بل کھاتے بالوں کی لمبی سی ایک چوٹی کچھ ایسی نظروں میں سماتی کہ لیلی اور شیریں کی باتیں ذہن سے نہ ٹکراتیں اور وہ سگریٹ کے دھوئیں سے چھلے بنانے میں مشغول ہو جاتا اور سوچتا چوبیس گھنٹوں میں کائنات کا رنگ کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ ابھی کل انجن کا شور تھا ٹرین کی گڑگڑاہٹ تھی اور بے معنی سے سٹیشن تھے اور اب زندگی کی ہر حرکت معنی خیز ہو گئی ہے۔

ایک چیتے جیسی لڑکی کا روپ بھی کیا شے ہے کہ پہاڑ کی آغوش میں کہیں گریز پا ہے شور تو ہے لیکن دکھائی نہیں دیتا۔ لیلی نے اس کی بے توجہی سے چڑ کر کہا – "توبہ اللہ ! کوئی بیسویں دفعہ پوچھ چکی ہوں کہ لاہور میں آج کل کونسی اچھی فلم لگی ہے لیکن آپ تو شاید بہرے ہو گئے ہیں مجو بھائی "

جب مجو بھائی نے اس پر بھی توجہ نہ دی تو وہ دونوں دفنگ دفنگ کی بولی میں مجو بھائی اور زرقا آپا پر تبصرہ کرنے لگیں۔

زرقا دہی کا کٹورا نعمت خانے میں سے نکال کر جا چکی تھی جب اس کا سایہ بھی اوجھل ہو گیا تو مجو بھائی نے دھویں کا چھلا ہوا میں چھوڑ کر آہستہ سے لیلی کی گردن پر ہاتھ رکھا اور پھر جلدی سے اپنی گرفت سخت کر کے بولا – "بول لڑکی یہ کیا دفنگ دفنگ باتیں کر رہی تھی "

"ہائے اللہ گردن چھوڑیئے مجو بھائی – "لیلی بلبلائی۔

شیریں کھکھلا کر ہنس دی اور تالی بجا کر بولی – "گردن اس وقت چھوڑیئے گا مجو بھائی جب زبان لٹک جائے -"

لیلی کا سر سینے پر لٹکا ہوا تھا دونوں چوٹیاں گھٹنوں سے چھو رہی تھیں اور منہ سرخ ہو گیا تھا پھر بھی وہ تڑپ کر گویا ہوئی – "ابھی تیری باری آ جائے گی شیریں – ہائے بتاتی ہوں مجو بھائی ہائے بتاتی ہوں خدایا – توبہ میری – "

مجو نے گردن چھوڑ دی تو لیلی چھلانگ لگا کر دو قدم دور ہو گئی اور شیریں سے کہنے لگی "کہو بڑی بی بتا دوں تمہاری بات مجو بھائی کو؟ "

شیریں بولی – "بتا دو – لیکن میں بھی زرقی آپا کو وہ بات بتا دوں گی۔”

مجو اپنی جگہ سے اٹھا تو لیلی ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی۔ اور جلدی جلدی بولی۔ "ہائے مجو بھائی خدا کے لیئے گردن میں درد ہو رہا ہے۔ بخدا ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ یہ تو بدتمیز ہے پکی بدتمیز – "

شیریں نے منہ چڑا کر کہا – "اور مجو بھائی یہ تمیزدار ہے – مراۃ العروس کی اصغری – جی "

باہر ہنگامے کی آواز سن کر زرقا ہاتھ میں کچے چاولوں کا طشت لیئے دہلیز پر آ کھڑی ہوئی اس کا چہرہ گرمی کے باعث تمتمایا ہوا تھا۔ کنپٹیوں کے قریب پسینے کے ننھے ننھے قطرے ابھر آئے تھے اور آج وہ سیاہ قمیص میں اور بھی دبلی اور کہیں زیادہ سفید نظر آ رہی تھی۔ ٹھٹھکی ہوئی زرقا کو دیکھ کر مجو نے لیلی سے کہا "تمہاری آپا کو تو ہمارے آنے کی رتی بھر خوشی نہیں ہوئی – "

شیریں جھٹ اپنی زبان میں بولی "لو جی اب ہمیں درمیان میں رکھ کر باتیں ہوں گی ہم بھی کوئی رانی ککو ہیں کیا؟”

زرقا نے ملکہ کی طرح بڑی کڑی نظر سے شیریں اور لیلی کی طرف دیکھا۔ تو لیلی جھٹ سے بولی – "مجو بھائی شیریں کہتی ہے آپا کو خوشی نہ ہوتی تو وہ بھلا کل سے باورچی خانے میں ہوتیں؟ "

زرقا کی ناک کی پھننگ گلابی ہو گئی اور وہ نظریں جما کر چاول چننے لگی۔

"بھلا ہم کیونکر جانیں! کل کے آئے بیٹھے ہیں اور ایک بھی سیر کا پروگرام نہیں بنا۔ کوئی لاہور والوں کو سیر کرائے یہاں کی تو مانیں – "

زیر لب زرقا بولی – "لاکھوں بار تو دیکھ چکے ہیں لوگ یہاں کی چیزیں – "

"بھول بھی تو جاتے ہیں – کیوں لیلی ؟ "مجو نے کہا۔

"بالکل ! – "شیریں نے قدرے شوخی سے جواب دیا۔

لیلی نے لمحہ بھر کے لیئے سوچا اور پھر کہنے لگی – "آپا تو کبھی باہر نہیں جاتیں مجو بھائی "

"کیوں "

"ہمیشہ کہتی ہیں کہ مجھے تو ہر جگہ سے مچھلی کی بو آتی ہے – "

زرقا نے سر جھکا کر آہستہ سے کہا – "تو اور کیا جھوٹ ہے۔ سمندر کنارے جاؤ تو کچی مچھلیوں کی مہک کسی ریستوران میں جاؤ تو تلی ہوئی مچھلیوں کی باس ہاں ! – "

"تو اس کے معنی ہوئے اس بار کلفٹن کا پروگرام کینسل ؟ – "

سب چلیں گے تو چلی جاؤں گی میں بھی – "

زرقا نے آہستہ سے کہا اور چاولوں کی تھالی لیئے اندر سٹور کی طرف چلی گئی۔

شیریں نے معنی خیز نظروں سے لیلی کو دیکھا اور اپنی ہفے ہفا کی زبان میں بولی "اب کس آسانی سے مان گئیں اور بیچارے حبیب بھائی مہینے سے منتیں کر رہے ہیں تو ملکہ صاحبہ آج مانتی تھیں نہ کل – "

اس بار مجو جلدی سے شیریں کی طرف بڑھا وہ ستون کے پیچھے ہو گئی اور مجو کے بازو ستون کے گرد حاہل ہو گئے۔ لیلی اور شیریں کے زور کا قہقہہ لگاتے وقت جب شیریں غافل ہوئی تو اس کی چوٹی مجو کے ہاتھ آ گئی۔ چوٹی کو جھٹکا دے کر مجو بولا – "یہ حبیب مرزا کی کیا بات ہے شیریں ابھی بتاؤ ورنہ – – – – ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا – "

اسی لمحے لیلی چلائی – "ہائے بڑی لمبی عمر ہے حبیب بھائی کی۔ کتنے بھلے وقت تشریف لائے ہیں – "

مجو نے شیریں کی چوٹی چھوڑ دی تو وہ منمنائی – "میرے لیئے تو فرشتہ رحمت بن کر نازل ہوئے ہیں – "

حبیب مرزا کے ہاتھ میں دو لفافے تھے۔ اور اُن کی آمد سے چھوٹے سے صحن میں مٹھائی کی ہلکی ہلکی خوشبو آنے لگی تھی۔ انہیں دیکھ کر مجو نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور جلدی سے کہا – "السلام علیکم مرزا "

"مزاج شریف؟ "میرزا نے ذرا تکلف اور سرد مہری سے پوچھا۔

"عین نوازش ہے۔ اپنی سنائیے ؟”

"شکر ہے اس پروردگار کا ! کب آئے آپ؟”

زرقا حبیب مرزا کو دیکھ کر ایک بار پھر چولہے کی طرف لوٹ گئی۔ حبیب میرزا نے مٹھائی کے دونوں لفافے تخت پوش پر رکھ دیئے۔ اور ایک بار باورچی خانے کی طرف نظر دوڑا کر دوبارہ پوچھا۔

"کب تشریف لائے قبلہ ؟”

"بس جی کل ہی آیا ہوں – یعنی – کل بعد دوپہر”

"خوب تو ابھی تکان اتر رہی ہے گویا – "

لیلی جھٹ بولی – "سفر بھی تو شیطان کی آنت ہے اور گرد ہوتی ہے کوئی راہ میں توبہ توبہ”

مجو نے باورچی کانے کا رُخ کرتے ہوئے کہا – "گرد سے مجھے یاد آیا۔۔۔۔۔ ذرا میرے وہ کپڑے دھلوا دیجیئے گا مہربانی سے – آپ سے کہہ رہا ہوں شیریں بیگم” یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لیئے باورچی خانے میں وارد ہو گیا۔ زرقا دیگچی میں کفگیر پھیرنے لگی تھی لیکن رُک گئی۔ اس نے لمبی لمبی پلکیں اٹھائیں اور ہولے سے مسکرائی۔ اس مسکراہٹ میں اس کی روح تک شامل تھی۔

مجو نے ایک چوکی کو اٹھاتے ہوئے پوچھا۔ "یہ چوکی لے جاؤں؟”

زرقا کی مسکراہٹ اور بھی واضح ہو گئی اور سیپ جیسے سفید دانت جگمگانے لگے۔ اس نے بڑے مبہم انداز میں سر کے اشارے سے اثبات میں جواب دیا اور اس کی طرف تکتی رہی۔

"وہ آپ کے حبیب میرزا تخت پوش پر آ بیٹھے ہیں "مجو نے اس کے قریب جھکتے ہوئے کہا پھر اُس نے چوکی اٹھانے سے پہلے زرقا کا دوپٹہ فرش سے اٹھا کر اس کی گود میں ڈال دیا۔ زرقا ایک دم سمٹ کر دیگچی میں کفگیر چلانے لگی اور معظم چوکی پکڑ کر باہر آ گیا۔ آج زرقا کو تنہا یوں باورچی خانے میں دیکھ کر اچانک اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔ اسے معاً مرزا صاحباں کے معروف کے بول یاد آ گئے تھے۔ اور وچ مرزا یار پھرے کے یاد آتے ہی وہ مسکرا دیا اور اپنے جی ہی جی میں بولا – "اب خدایا اس میرزا سے میری مراد حبیب میرزا نہیں ہے – "

چوکی لا کر وہ باورچی خانے کی طرف رخ کر کے بیٹھ گیا۔ حبیب مرزا خاموش تھا اور اس کی آنکھوں میں سوچ تھی۔

شیریں نے لیلی سے – اپنی مخصوص بولی میں کہا۔ "چپ چپ بیٹھے ہیں ضرور کوئی بات ہے – "

لیلی نے اس کی بات پر پردہ ڈالنے کی خاطر جلدی سے بات کی "آپ کو ہی چوکی لانی تھی۔ مجو بھائی آپ مجھے کہہ دیتے – "پھر اپنی زبان میں شیریں کو جھڑک کر بولی – "بیوقوف ! تجھے پہلے بھی سمجھایا ہے مٹھائی والے کے سامنے اس زبان میں باتیں نہ کیا کر میرا خیال ہے یہ خوب سمجھتا ہے – "

شیریں ڈھٹائی سے کہنے لگی – "تو کونسی بُری بات کہی ہے میں نے بڑی بی ؟ – "

ان دونوں کی بکواس بند کرنے کی خاطر مجو نے حبیب میرزا سے کہا – "یہاں تو ابھی خاصی گرمی ہے لاہور میں موسم خوشگوار ہو چکا ہے۔”

"کراچی میں بس دس پندرہ دن گرمی پڑتی ہے۔ اور آپ اتفاق سے اس وقفے میں آئے ہیں۔ کل سے ہوا بند ہے – "

ککو حبیب میرزا کے پاس مٹھائی کے لفافوں کے پاس بیٹھی سوچ رہی تھی کہ اب کلفٹن جانے کا پروگرام بنے تو کیونکر بنے۔ پھر جب چند منٹ بعد اس نے دیکھا کہ اس پروگرام کے متعلق حبیب میرزا بھی خاموش ہو گئے ہیں تو وہ اٹھی اور لیلی اور شیریں کے پاس جا کھڑی ہوئی۔ وہ دونوں مسلسل اپنی باتیں کیئے جا رہی تھیں۔

"شیریں باجی – شیریں باجی ؟ – "

"کیا ہے "شیریں نے چڑ کر پوچھا اور پھر لیلی سے بولی۔ "مزہ رہے گا اگر ابا جی اب کویت سے آ پہنچیں اور پھر سین بندھے فلموں والا – "

"شیریں باجی – "ککو پھر منمنائی۔

لیلی نے جھڑک کر کہا – "تم سے کتنی بار کہا ہے جب بڑے بات کر رہے ہوں تو خاموش رہا کرو – "پھر وہ شیریں سے بولی – "توبہ کرو سین، کیا بندھے وہ چپ چاپ حبیب میرزا کے حق میں ووٹ دے دیں – "

"عقلمندی بھی یہی ہے – "

"شیریں باجی – "ککو نے اس کا دوپٹہ کھینچ کر اپنی طرف متوجہ کیا۔

"کیا بات ہے۔ کہو – دوپٹہ کیوں کھینچ رہی ہو – "

ککو حریص بچے کی طرح شرمساری کے ساتھ بولی – "حبیب بھائی کہہ رہے ہیں کہ کلفٹن چلیں گے —– "

"واقعی؟” شیریں نے پوچھا۔

"ہاں —— "

"تو پھر تو خوب مزہ رہے گا۔ اتوار کو بور ہونے سے بچ جائیں گے —– "

شیریں نے خوش ہو کر کہا،

"لیکن ——— لیکن حبیب بھائی کہتے ہیں اگر زرقا آپا جائیں تو۔۔۔۔ "

لیلی نے یکدم اپنی زبان میں چڑ کر کہا ——— "ان کی ایسی ذلیل باتوں پر تو مجھے غصہ آتا ہے۔ اور یہ ککو کے ذریعے عرض کرنے کی کیا ضرورت تھی ——– "

شیریں بولی۔ "بھئی محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے —— "

"نہیں جی بالکل نہیں ——– معاف کیجیئے حبیب بھائی آپ بات کر رہے ہیں قطع کلام معاف یہ ککو آپ کا پیام دے رہی ہے مجھے ——- "

حبیب میرزا نروس ہو گئے اور کروٹ بدل کر بولے —— "ہیں صاحب کونسا پیام ؟ "

"یہی کہ اگر زکی آپا ساتھ چلیں گی تو کلفٹن چلیں گے —— "

حبیب میرزا کا چہرہ گلابی ہو گیا اور وہ جلدی سے کہنے لگا —— "لو اس میں پیام کی کونسی بات ہے۔ میں تو کہتا ہوں اگر سب چلیں تو لطف آتا ہے۔ اگر تم نہ جاؤ تب بھی بات نہ بنے گی۔ "

آہستہ سے لیلی بولی —— "خیر ! —— "

"یعنی ٹھیک تو کہہ رہا ہوں۔ وہ کسی پکنک میں شامل نہیں ہوتیں۔”

شیریں نے ہولے سے لیلی سے کہا —— "اور مزہ پھر کیا خاک آتا ہے تم اچھی بھلی جانتی بھی ہو کیا بات چھیڑ دی "

لیلی نے بلند بانگ کہا —— "آپا ! زکی آپا۔ سنیے ذرا —— "

زکی آپا سیاہ دھاریوں والی چست قمیص میں بوسکی کے تھان سا سڈول جسم لیئے باورچی خانے کے دروازے میں برآمد ہوئیں۔

"ہوں ؟ —— "

"حبیب بھائی کہہ رہے ہیں کلفٹن کے لیئے —— "شیریں نے شہد میں گھُلی ہوئی آواز میں کہا۔

"تو پھر چلی جاؤ —— "

"آپ نہ جائیں گی کیا؟ "لیلی نے پوچھا۔

"میرے سر میں درد ہے —— "

"ہائے آپا چلی چلو جی —— ہائے آپا —— "ککو منت بھرے لہجے میں بولی۔

"تم سب چلے جاؤ نا —— "زکی نے تکلف سے کہا۔

معظم کو احساس ہوا جیسے زکی اُس سے تنہائی میں ملنے کی راہ نکال رہی ہے۔

اس لیئے اس نے جلدی سے کہا —— "میں تو جا نہیں سکتا مجھے تو ابھی ابھی انور سے ملنا ہے وہ خواہ مخواہ گلہ کرے گا۔ آپ سب میری وجہ سے نہ ٹھریئے گا "

ککو کو جی ہی جی میں خوب علم تھا کہ اگر مجو بھائی نہ گئے تو آپا نہ جائیں گی اور اگر آپا نہ گئیں تو۔۔۔۔۔۔۔ تو کوئی نہ جا سکے گا !

اس نے بڑے اصرار سے کہا —— "مجو بھائی تو آپ جلدی سے مل آئیے نا انور بھائی سے ہم شام کو چلے جائیں گے کھانے کے بعد—— "

حبیب بھی محسوس کر رہا تھا کہ مجو کے بغیر زکی نہ جائے گی۔ ویسے بھی زکی کو گھر پر چھوڑ کر جانے کے لیئے وہ تیار نہ تھا۔ کوئی بھی انور کے پاس اتنی دیر بیٹھا نہیں رہ سکتا خاص کر جب اچھی طرح علم ہو کہ زکی گھر اکیلی بیٹھی ہے اور سب سیر پر گئے ہیں !

اس نے جلدی سے کہا۔ "دوپہر کو وہاں ویسے بھی لطف نہیں آتا۔ میں مٹھائی لے آیا ہوں وہاں چل کر چائے پیئیں گے —— "

"پہلے اماں سے تو مشورہ کر لیں۔ خواہ مخواہ کے خیالی پلاؤ پک رہے ہیں —— "

لیلی نے غسلخانے کا رُخ کرتے ہوئے کہا۔

"واقعی ! —— "حبیب میرزا بولے۔

غسلخانے میں ڈبے کے ساتھ جسم پر پانی ڈالنے کی آواز بند ہو چکی تھی۔ لیلی نے پٹ کے ساتھ چہرہ لگا کر اونچے سے کہا —- "اماں —– "

"ہاں —— "اندر سے بھاری آواز آئی۔

"اماں حبیب بھائی آئے ہیں "

"تو بٹھاؤ انہیں، مجو کو بتا دو وہ ان سے باتیں کرے گا۔”

"اماں باہر جانے کا پروگرام بن رہا ہے آپ جلدی نکلیں ہاں —— "

"اچھا اچھا آ رہی ہوں دو منٹ آرام سے نہا تو لینے دیا کرو —— "

تھوڑی دیر بعد اماں نہا کر نکلیں تو ان کی گلابی اور سفید جلد سے انگریزی صابن کی خوشبو بھباکے بن کے پھوٹ رہی تھی۔ ماتھے کے ارد گرد کھچڑی پکے بالوں کی جھالر بھیگی ہوئی تھی۔ موٹی گردن پر چھوٹا سا جوڑا ڈھیلا ہو کر لٹک رہا تھا۔ انہوں نے سفید ململ کی قمیص پہن رکھی تھی اور موٹا سا سفید پیٹ اس کے پیچھے پیلا سا نظر آتا تھا۔

کھڑاویں بجاتی وہ آ کر تخت پوش پر بیٹھ گئیں۔ "ارے شیریں ! وہ میرا پاندان تو لانا —— "

"اماں ! اماں جی حبیب بھائی کہہ رہے ہیں کہ سب کلفٹن چلیں —— "

اماں نے اس کی طرف تیکھی نظروں سے دیکھ کر کہا —— "اچھا تو سوچتے ہیں اس بارے میں —— لیکن کیا پہلے کبھی نہیں گئی وہاں —— ندیدی !”

حبیب میرزا نے مٹھائی کے لفافے اماں کی طرف سرکاتے ہوئے کہا —— "جی میرا ارادہ تھا کہ وہاں چل کر کچھ اتوار منایا جائے چائے وائے کا شغل ہو —— "

اسی اثنا میں رانی بھاگتی بھاگتی اندر آئی اور آتے ہی بولی —— "مجو بھائی ! مجو بھائی ! "

"کیوں —— کیوں —— کیوں ؟” مجو نے پوچھا۔

"آپ کا فون ہے مجو بھائی —— "

"آپ نے فون کب لگوایا اماں —— "

"اماں نے فون کب لگوایا اماں —— "رانی نے نقل کے انداز میں کہا۔

اماں نے افسردگی سے کہا —— "ارے ہمارے ہاں فون کہاں یہ پاس والوں کے گھر فون آیا ہو گا۔”

"چلو بھئی رہبری کرو گی ؟ "مجو نے رانی سے پوچھا۔

"یہاں سے جانے کی ضرورت نہیں، ابھی وہاں وارد ہو جاتے ہیں۔”

"ارے یہاں سے نہ جا کم بخت دو سیڑھیاں اترے گا مجو تو تھک نہیں جائے گا۔”

اماں چلائیں۔

لیکن رانی نے سٹور سے دیوار تک جانے والی پارٹیشن کا تختہ اس اثنا میں ادھیڑ لیا اور دوسری طرف جانے کی راہ بن گئی۔

دوسرے لمحے دھاری دار نائٹ سوٹ پہنے مجو چیتے کی طرح ساتھ والے فلیٹ میں داخل ہو گیا۔

ٹرام میں بیٹھ کر مجو سوچ رہا تھا کہ انور بھی کیا چیز ہے ؟ خوب جانتا تھا کہ میں آیا ہوا ہوں۔ یہ بھی جانتا تھا کہ میں اُسے کس سلسلے میں فوراً ملنا چاہتا ہوں لیکن پھر بھی وکٹوریہ روڈ کے اس ریستوران میں انتظار کرنے کے بجائے وہ منوڑا چلا گیا۔ اور اگر اُسے انتظار نہ کرنا تھا تو بھلا فون کرنے کی کیا ضرورت تھی ——

"ابھی منوڑا پہنچو —— میں تمہاری راہ دیکھوں گا —— "انور نے فون پر کہا تھا۔

"بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہارا منوڑا —— میں اتنی دور سے آیا ہوں اور تم نے مجھے ملنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی۔”

یہ سُن کر انور نے فون بند کر دیا تھا۔

پہلے تو مجو کے جی میں آئی کہ وہ انور کے تعاقب میں نہ جائے۔ لیکن پھر اُسے یاد آیا کہ اس کی جیب میں کل دس روپے باقی ہیں۔ اور گھر پر کلفٹن جانے کا پروگرام بن رہا تھا۔ اس معاملے میں وہ حبیب میرزا کا کفیل نہ ہونا چاہتا تھا۔ انور کمبخت کو بھی ہمیشہ اپنی ہی سوجتی ہے۔ لمحہ بھر کے لیئے کسی اور کے آرام کا خیال ہی نہیں آتا !

کمبخت انور ! اور انور کا چہرہ معظم کے ذہن میں چکر لگانے لگا۔

درمیانے قد کا آدمی —— رنگ نہ سانولا نہ صاف، عجب مٹی، چونے ، اور بجری کے مرکب سے بنی ہوئی رنگت تھی۔ چہرے پر موٹے موٹے شیشوں کی عینک تھی جس کے پار آنکھیں نظر ہی نہ آتی تھیں۔ دائیں طرف سے مانگ نکالتا تھا لیکن بال اس قدر کم اور ماتھا اس قدر چوڑا تھا کہ مانگ بے نکلی سی لگتی تھی۔ کراچی میں ایک بدیسی فرم کا نوکر تھا اور اچھی خاصی تنخواہ پاتا تھا۔ لیکن قمیص ہمیشہ بغیر استری کے پہنتا تھا۔ اس جیسے کئی آدمی اس کراچی میں آباد تھے۔ لیکن معظم کے لیئے انور انور ہی تھا۔

اور آج —— آج کلفٹن جانے کا پروگرام بن رہا تھا اور اس کے پاس صرف دس روپے تھے۔

گڑگڑاتی شور مچاتی ٹرام بندر روڈ پر ہٹکورے لیتی جاتی تھی۔ اس سے پہلے وہ کراچی دو بار آیا تھا لیکن ٹرام میں چڑھنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔ اس بار بھی وہ خالہ کے فلیٹ سے چل کر بہت دور تک بندر روڈ پر پیدل ہی چلتا آیا تھا۔ اُسے یوں لگتا تھا، فلیٹ کی ایک کھڑکی میں سے گلناری پردے کے پیچھے سے دو لمبی لمبی آنکھیں اُسے دیکھ رہی تھیں۔ ان آنکھوں کی دور مار روشنیوں میں وہ کسی سائیکل رکشا، بس یا ٹرام میں سوار نہ ہونا چاہتا تھا۔

ٹرام میں گھس کر اس نے اِدھر اُدھر نظر دوڑا کر ہمسفروں کا جاہزہ لیا وہاں کوئی بھی لاہور کا باشندہ نہ تھا۔ کراچی کے متوسط اور غریب طبقے کے لوگ سوار تھے۔ ایک سے ایک لمبی کار فراٹے بھرتی قریب سے گزر رہی تھی اور زیادہ تر ان میں بدیسی ملکوں کے سرخ و سپید چہرے بے نیازی سے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ ٹیکسیاں وکٹوریائیں اونٹ گاڑیاں، گدھا گاڑیاں، سائیکل رکشائیں اور موٹر سائیکل رکشائیں سبھی اس کراچی شہر میں بغیر شرمائے ایک دوسرے کے ساتھ رواں دواں تھیں۔

جس ٹرام میں وہ سوار ہوا تھا وہ بولٹن مارکیٹ کے قریب جا کر رُک گئی اور اسے اتر کر بس لینا پڑی۔ ساڑھے دس کا وقت ہو چلا تھا۔ اور اسے رہ رہ کر انور پر غصہ آ رہا تھا۔ جو خوامخواہ انفرادیت دکھانے کی خاطر منوڑا جا بیٹھا تھا۔ اگر اس کی جیب میں دس سے زائد روپے ہوتے تو وہ پیر کے روز انور سے ملتا اور وہ بھی اس کے دفتر میں۔ لیکن اب تو اس کی عزت کا سوال تھا۔

بس کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ معظم پچھلی لمبی سیٹ پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا اگر انور نے مجھے پیسے نہ دیئے تو کراچی کے قیام کا کیا بنے گا۔ اس کے مستقبل کا کیا بنے گا اور شام کو کلفٹن کے پروگرام کا کیا بنے گا۔

فضا میں چمڑے اور باسی پانی کی خوشبو تھی۔ دور سے ہی سمندر میں ٹھہرے ہوئے دو لمبے چوڑے جہاز نظر آ رہے تھے ، ان کے گرانڈیل وجود پر سورج کی تیکھی کرنیں اور بھی اجاگر ہو رہی تھیں۔ اور معظم کو احساس ہو رہا تھا جیسے یہ ماحول لاہور سے قطعی مختلف ہو۔ بس سے اتر کر وہ سیدھا اس طرف بڑھا جہاں سے موٹر لانچ اور عام بیڑے منوڑے جاتے تھے۔ ابھی وہ جنگلے تک پہنچا ہی تھا کہ اس کے سامنے لوگوں سے لدا پھندا ایک بیڑا رخصت ہو گیا۔ وہ دونوں کہنیاں پکے جنگلے پر ٹکا کر دوسرے بیڑے کا انتظار کرنے لگا۔

موٹر لانچ والے امیر مسافروں کو ورغلا رہے تھے۔ عام بیڑے والا زنانی اور مردانی سواریاں بانٹ بانٹ کر بٹھانے میں مشغول تھا۔ ٹھہرے پانی پر جھاگ کے بلبلے ، کاغذوں کے ٹکڑے اور گلے سڑے پتے ڈولتے پھر رہے تھے۔

بیڑے والے کا دبلا پتلا سیاہ جسم دھوپ میں چمک رہا تھا۔ اس کی نیلی آنکھیں سمندر کی لہروں کا عادی چہرہ اور ہوا میں اڑتے ہوئے بالوں نے اُسے بحری قزاق کی شکل دے رکھی تھی۔ معظم سے کچھ دور ہٹ کر ایک امریکی جوڑا سالم لاؤنچ لینے کے بعد اس میں اتر رہے تھے۔ میاں بیوی نے ایک سے کپڑے پہن رکھے تھے۔ آدھی آستینوں کی گہری پیلی قمیصیں اور چھوٹی چھوٹی نیلی نکریں۔ قمیصیں کولہے تک بھی نہ پہنچتیں تھیں۔ عورت کے بال بالکل چھوٹے چھوٹے تراشے ہوے تھے اور اس نے بھی شوہر کی طرح گلے میں کیمرہ اور تھرموس لٹکا رکھی تھی۔

جب چھک چھک پھک پھک کرتی پانی کے چھنٹیے اڑاتی لاؤنچ کچھ دور چلی گئی تو وہ دونوں امریکی میاں بیوی دو توام بھائی نظر آنے لگے اور آہستہ آہستہ یہ پیلا سا دھبہ اور موٹر لاؤنچ کا سبز جھنڈا موڑ کاٹ کر سمندر کی نیلی سطح پر دور ہوتا چلا گیا۔

جب بیڑے والے نے آخری نعرہ لگایا "اب لاؤنچ چلے گی —— "تو معظم سیڑھیاں اتر کر بیڑے میں بیٹھ گیا۔

بیڑے والے کے ساتھی نے موٹی سی رسی جنگلے سے کھولی اور بیڑے کو آہستہ سے دھکا دیا۔ معظم نے سگریٹ سلگایا اور خاموشی سے بندرگاہ میں رُکے ہوئے خوبصورت جہازوں کو دیکھنے لگا۔ اس کی پشت کی جانب ایک کراچی والی اپنی نووارد سہیلی سے کہہ رہی تھی؟ "وہ دیکھا تم نے جہاز؟ کتنا بڑا ہے۔ یہ سفید والا تو نیوی کا جہاز ہے۔ "

"نیوی؟ وہ کیا ہوتی ہے آپا ؟ ——- "

"ارے نیوی نہیں جانتیں؟ ہماری بحری فوج۔ منوڑا تو دراصل ان نیوی والوں نے بسا رکھا ہے —— ارے وہ دیکھو —— وہ نیوی والوں کی کشتی —— یہ کسی جہاز کو لینے چلے ہیں —— "

"کہاں؟ —— کہاں؟ "

"وہ دیکھو —— سفید لاؤنچ "

معظم نے بھی کنکھیوں سے اس لاؤنچ کی طرف دیکھا۔ لوہے کے بڑے سے بوائے کے قریب نیوی کی لاؤنچ چھینٹے اڑاتی گزر گئی۔ اس لاؤنچ میں ایک آدمی تو بالکل ایسا سوار تھا جیسے دیکھ کر نیوی کٹ سگریٹ پر بنے ہوئے کپتان کی شکل یاد آتی تھی۔

"آپا —— آپا یہ لوہے کے بڑے سے ٹماٹر کیا تیرتے پھر رہے ہیں؟ "

معظم نے چہرہ موڑ کر سوال پوچھنے والی کی طرف دیکھا اور وہ اپنی کم علمی پر شرما کر دوسری طرف دیکھنے لگی۔ آپا نے بڑے فخر سے کہا —— "ارے یہ بوائے ہیں۔ جہازوں کو راستہ دکھانے کے لیئے "

"تو لہروں میں بہہ نہیں جاتے کیا؟”

"بہہ کیسے جائیں — نیچے اتنے موٹے موٹے زنجیروں سے بندھے لنگر جو ہوتے ہیں —— "

معظم ایک نیلے رنگ کے بڑے سے جہاز کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے بھی مڑ کر بوائے پر نظر ڈالی۔ حد نظر تک بندرگاہ سے کچھ فاصلہ پر بوائز کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ لوہے کے بڑے بڑے کنڈے تھے اور نیچے سے یہ لوہے کی بھاری بھر کم زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔ نیوی والی لاؤنچ سمندر کی طرف بہت دور جا نکلی تھی اور اب یوں لگتا تھا جیسے پانی کی سطح پر ایک رومال کا ٹکڑا ڈوبنے سے پہلے تیر رہا ہے۔ سمندر میں بہت آگے بادبانی کشتیاں غوطے کھاتی نظر آتی تھیں۔ انہیں دیکھ کر معظم کا جی چاہا کہ کاش کسی چاندنی رات میں وہ اور زرقا ایک ایسی ہی کشتی میں بیٹھ کر سمندر میں بڑھتے چلے جائیں۔ گہرے پانی کی سیاہ سطح پر چاندنی جیسی لہریں ابھریں اور پارے کے چھینٹے کشتی کے کناروں سے ہو کر ان کی گود میں آ گریں۔ زرقا خوف اور وفورِ جذبات سے گھبرائی ہوئی اس سے چمٹی بیٹھی ہو اور دور دور تک ماہی گیر کے نغمے کے سوا اور کوئی شور نہ ہو —— صرف پانی کا مدھم ساز اور ماہی گیر کی بھری بھری آواز ——"

"وہ نیوی والا لاؤنچ کہاں گیا آپا؟ —— "اسی پنجابی لڑکی نے دوبارہ پوچھا۔

"سمندر میں جہاز لینے گیا ہے شاید؟ "

"کیوں جہاز کیوں لینے گیا ہے ، جہاز خود نہیں آ سکتا کیا؟ "

"آ تو سکتا ہے لیکن دستور یہی ہے کہ غیر ملکی جہازوں کو بندرگاہ کی نیوی کے پائیلٹ لائیں۔”

جہازوں کو بندرگاہ سے نکالنے والا ایک دقیانوسی پرانا جہاز تھوڑی دور آہستہ آہستہ جا رہا تھا۔ اُس کے ماتھے پر دھکا لگانے کی بڑی سی گدی بندھی تھی۔

مسافروں کا لاؤنچ آباد جزیرے پر جا پہنچا۔ بیڑے والے نے جلدی سے نکل کر بیڑے کی رسی جنگلے سے باندھی اور مسافر اترنے لگے۔ سیڑھیاں چڑھ کر معظم نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی لیکن انور کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ البتہ پُل کے پاس لوگ جھکے ہوئے سمندر کے دو تیراکوں کو دیکھ رہے تھے۔ انور کی تلاش میں معظم بھی ان لوگوں کی طرف بڑھا۔ دو تین نوجوان لڑکے سمندر میں تیر رہے تھے۔ تماشائی پُل پر سے اکنی دونی پھینکتے اور وہ ڈبکی لگا کر اسے ڈھونڈ لاتے اور یہی اکنیاں دونیاں ان کی مشقت کا محنتانہ بن جاتیں۔

معظم نے غور سے سارے تماشائیوں کو دیکھا۔ انور کی نوعیت کا ایک بھی شخص اسے نظر نہ آیا۔ اس نے دوسرا سگریٹ سلگایا اور آہستہ آہستہ منوڑا کی اُس سڑک پر چلنے لگا جو سمندر کی طرف سے اوپر جاتی تھی۔

منوڑا کے بازار سے پہلے جہاں بقول کراچی والوں کے بہت سے بوائے پڑے ہوئے تھے ، معظم تھوڑی دیر کے لیئے رکا۔ اسے خیال آیا کہ حبیب میرزا کو گھر چھوڑ کر آنا عجیب حماقت تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ زرقا کی محبت مجھے ایک ایسے سمندر میں تنہا چھوڑ گئی ہے جہاں ایک بھی تو بوائے نہیں، ایک بھی تو لائٹ ہاوس نہیں جو راہ دکھائے۔ اس سمندر میں ٹامک ٹوہیاں مارتا میرا جہاز کہاں سے کہاں نکل آیا ہے اور ابھی تک زرقا کسی لاؤنچ پر چڑھ کر مجھے بچانے ہی نہیں آئی۔ وہ تو ساحل کا وہ پکا جنگلہ بن گئی ہے جس سے کشتیوں کے رسے بندھتے ہیں، جس کے سہارے ایک عالم اترتا چڑھتا ہے لیکن جو جہاز کے خیر مقدم کو اپنی جگہ چھوڑ کر آگے نہیں بڑھتا —— زرقا کی اس ادا پر اسے غصہ آ گیا اور اس غصے کو انور پر اتارنے کے لیئے وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا جلدی جلدی سمندر کی طرف بڑھنے لگا۔

تھوڑی سی چڑھائی چڑھ کر جب سمندر کی ریت نے اس کے پیروں کو چھوا تو اسے انور کی شکل نظر آئی۔ وہ سمندر کنارے بنے ہوئے معمولی سے ریستوران کی طرف جا رہا تھا۔ معظم نے منہ پر ہاتھ رکھ کر بڑے زور سے آواز دی ——

"انور —— ! انور —— ! !”

لیکن سطح سمندر پر ٹوٹتی لہروں کے شور میں یہ آوار دب گئی۔

روغن اتری کرسیاں ایک طرف کرتا انور ریستوران کے اندر داخل ہو گیا۔ اور معظم اس کے تعاقب میں لپکا۔

سمندری ہوائیں یہاں کی ہر چیز اُڑائے لیئے جا رہی تھیں۔ صرف کاونٹر کے نیچے شیشے کی بند الماری میں پڑے ہوئے کیک، رسک اور نمکین بسکٹ محفوظ تھے۔ ورنہ ریستوران کے بوسیدہ پردے ، لوگوں کے کپڑے اور ساحل کے قریب پھیلی ہوئی ریت کے ذرے سب تیزی سے اڑے جا رہے تھے۔ انور کیبن کی کھڑکی کے سامنے بیٹھنے ہی والا تھا کہ معظم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔

"یہ کیا تُک ہے حرامی، سیدھی طرح کسی ریستوران میں نہیں مل سکتے تھے کیا ——؟”

"مزاج شریف ؟” انور نے ہاتھ مصافحے کے لیئے بڑھا کر کہا۔

"یہ اپنی حرمزدگیاں رہنے دے اور سیدھی طرح میری بات کا جواب دے "

"بیٹھئے تو سہی جنابِ من —— یہاں کھڑکی کے سامنے گو لوہے کی سلاخوں کا جنگلہ ہے لیکن آپ کو قید کا احساس نہ ہو گا۔ سامنے سمندر کی تیز ہواؤں کا لطف اور اُمڈتی لہروں کا منظر صاف نظر آتا ہے —— "

"تجھے ہو کیا گیا ہے ؟” معظم نے پوچھا۔

"مجھے !” —— "انور نے سلاخوں والی کھڑکی کے سامنے بیٹھتے ہوئے کہا —— "مجھے ؟ "

"ہاں تجھے —— "

"کسی دانشور نے کہا ہے دنیا میں دو طرح کے بیوقوف ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو کبھی محبت نہیں کرتے اور ایک وہ جو ایک بار محبت کرنے کے بعد دوسری بار بھی اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، میرا شمار اس دوسری قسم میں ہوتا ہے —— "

معظم نے رومال سے لوہے کی کرسی جھاڑی اور اس پر بیٹھتے ہوئے پوچھا —- "لیکن یہ بے وقوفی آخر کس شوق میں کی ہے —— "

انور نے بڑے آرام سے سگریٹ سلگایا، دو ایک کش لیئے اور پھر بولا —– "اس کاروباری شہر میں جہاں زندگی لین دین، حساب کتاب اور جمع کھاتا بن گئی ہے وہاں ایسی بیوقوفی ضروری ہوتی ہے —— "

اسی اثنا میں ریستوران کا مالک آ گیا اور انور نے کہا —— "قبلہ چائے بھجیئے سٹرونگ سی —— دیکھئے یہ پنجاب سے آیا ہے اسے کوئی شکایت نہ ہونے پائے —— "

"بے فکر رہیے "—— مالک جانے لگا۔

"دیکھیئے سٹرونگ چائے ہو —— زبان جلانے والی —— لب سوز”

"فکر نہ کیجیئے صاحب —— "مالک چلا گیا۔

سلاخوں والی کھڑکی میں سے سمندر صاف نظر آ رہا تھا۔ دن کی کڑکتی دھوپ میں دور سمندر کی سطح پر بھاپ اڑاتا ایک چھوٹا سا جہاز نقطہ بن کر کھڑا تھا۔ اور اسے دیکھ کر معظم کو احساس ہوتا تھا جیسے وہ نقشے کی کاپی پر بنایا ہوا جہاز ہے۔ ایسا جہاز جسے دیکھ کر ماسٹر جی کہا کرتے تھے دیکھو جب تم سمندر کنارے ہوتے ہو تو پہلے جہاز کیے مستول نظر آتے ہیں، پھر چمنی۔۔۔۔۔ پھر اس کا جنگلہ اور دھڑ نظر آتا ہے۔ اگر دنیا گول نہ ہوتی تو سارا جہاز ایک ہی بار نظر آ جاتا !

"اور آپ کیا سوچ رہے ہیں حضرت ؟” انور نے اسے کھڑکی سے دور افق کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔

’میں سوچ رہا ہوں کہ تم ٹھیک کہتے ہو لیکن تمہاری بات میں ذرا سی ترمیم مطلوب ہے۔ بیوقوف دراصل تین قسم کے ہوتے ہیں۔ دو قسمیں تو تم نے بیان کیں اور تیسری قسم اُن عاشقوں کی ہے جو بغیر کچھ حاصل کیئے چاہتے چلے جاتے ہیں۔”

"محبت میں کچھ حاصل کرنے سے تمہارا کیا مطلب ہے ؟ "انور نے چمک کر پوچھا۔

معظم نے سگریٹ کے ٹکڑے کو پیروں تلے مسلا اور پھر دونوں بازو اپنے اور انور کے درمیان دھری ہوئی میز پر رکھ کر بولا —— "تم ابھی نوگرفتار ہو۔ محبت کی اس سٹیج پر خالی محبت کا نشہ ہی بہت ہوتا ہے۔ ہولے ہولے جب نظر کی منزلیں طے ہو جائیں گی، مسکراہٹوں کے خزانے ختم ہو جائیں گے ، میٹھی میٹھی باتوں کا خمار اتر جائے گا تو محبت ہِل من مزید کا نعرہ لگائے گی۔ محبت کی آگ ایسی ہے جس میں کچھ نہ کچھ جھونکتے ہی رہنا پڑتا ہے —— "

"بالکل ! —— انسان اپنا خونِ جگر جلاتا ہے ، اپنے آنسوؤں کی شمع روشن کرتا ہے "

انور نے جوش میں آ کر کہا۔

"ابھی تم محبت کی پگڈنڈیوں پر نکلے ہو، شاہراہ پر پہنچو گے تو تمہیں علم ہو گا۔ مجھے تو اس شاہراہ پر چلتے پانچ سال ہو چکے ہیں۔ اور اب۔۔۔۔۔۔ اب خط لکھتے لکھتے طبیعت تھک گئی ہے۔ پرانی یادوں کے سہارے جینا مشکل ہو گیا ہے۔۔۔۔۔ بہت مشکل۔۔۔۔۔۔”

"عجیب احمق آدمی ہو تم بھی یار —— زرقا تمہیں چاہتی ہے تم زرقا کو چاہتے ہو، رشتہ دار ہو، ملنے ملانے میں کوئی چیز حائل نہیں —— "

"میں میل ملاقات کو اپنے لیئے دارورسن کی آزمائش سمجھتا ہوں۔” معظم نے کرب سے بھرے لہجے میں کہا۔ اتنی ساحل کنارے لہریں نہ تھیں جتنی سلوٹیں اس کے ماتھے پر پڑ گئیں۔

ہوٹل کا مالک ایک گندی سی ٹرے میں ہاف سیٹ چائے اور کیک کے چند ٹکڑے لے آیا۔ گجراتی ٹی سیٹ کی پیالیوں میں بال آ چکے تھے اور ان کی اندرونی سطح پر چیچک کے داغ اُبھر آئے تھے۔ چائے کا ذائقہ جوشاندے کی مانند تھا اور لگتا تھا جیسے سمندر کے ساحل پر پانی اُبلنے میں ہی نہیں آتا۔

"عجب چیز نکلی یہ چائے ؟” معظم نے کہا۔

"سمندر کنارے کی چائے ہے صاحب۔ ذرا سوچو اس منوڑے پر ایک بھی گھر آباد نہ ہو۔ تم اور میں ایک کشتی پر تھکے ہارے یہاں آئیں اور یہاں پہنچ کر یہ پیالہ چائے کا ہمیں ملے —— ہم دونوں ہی اس پر جھپٹ پڑیں —— بولو اب ذائقہ کیسا ہے !”

"نہایت اچھا روح پرور اور سکون بخش ! —— "

انور نے کیک اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا —— "لو کیک کھاؤ۔ نہایت نفیس ہوتا ہے ، یہاں کے لوگ اس میں گھی مکھن نہیں ڈالتے ان کا کوئی اپنا ہی فارمولا ہے۔ لیکن ہے بیحد اعلی —— "

"نہیں شکریہ —— "معظم نے ماچس جلائی لیکن سمندری ہوا میں ماچس کا شعلہ ٹھہر نہ سکا اور اس نے میز تلے جھک کر سگریٹ سلگایا اور بولا —— "میری محبت کے سامنے میرا وجود بھی اس شعلے کی طرح ہے۔”

انور نے ہنس کر کہا —— "جیسے یہ کوئی نئی بات ہے۔ ہر انسان اپنے آپ کو جھکڑ اور آندھی سے مقابلہ کرتے محسوس کرتا ہے۔ لیکن بعد میں حقیقت کی آنکھ کھلنے پر اُسے دکھ ہوتا ہے کہ وہاں جھکڑ تھا نہ آندھی۔”

معظم نے میز پر رکھے ہوئے ہاتھ کو بھینچ کر ہولے سے مکا مارا اور بڑے جوش سے بولا —— "میں اس رومان سے تھک گیا ہوں، اب میرا بند بند دکھنے لگا ہے۔ —— انور! میرا جی چاہتا ہے۔۔۔۔۔ میرا جی چاہتا ہے کہ زرقا کو سینے سے لگا کر اپنے اتنے قریب کر لوں کہ۔۔۔۔۔۔ کہ میرا جسم اُس کے وجود میں تحلیل ہو جائے —— "

"میں اتنے قرب کا قائل نہیں —— "

"میں نے بھی خطوں میں کبھی اس تمنا کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن۔۔۔۔۔ لیکن —— "

"تم نے اس کا ذکر کبھی زرقا سے نہیں کیا؟” انور نے پوچھا۔

"وہ ہمیشہ اپنی بہنوں میں گھری رہتی ہے۔”

"تو کسی خط میں ہی لکھ دیتے۔”

"سنسر ہو جانے کا خدشہ رہتا ہے —– "

"تو سیدھی طرح اماں جی سے بات کیوں نہیں کرتے ؟ کہ اب تابِ انتظار نہیں۔”

"میری امی نے خط لکھا تھا ——"

"پھر ؟ —— "انور نے پوچھا۔

"دراصل زرقا کی ماں یعنی میری خالہ کچھ جانچ تول رہی ہیں۔ وہ ابھی کسی فیصلے پر پہنچ نہیں پائیں۔ ایک طرف حبیب میرزا ہے —– اور۔۔۔۔۔ "

انور نے جلدی سے کہا۔ "یار یہ حبیب میرزا کیا چیز ہے ؟”

"میں خود سوچ رہا ہوں —— "

"پتہ نہیں میں اسے کیا سمجھوں، سلائی یا کھمبا ؟”

"میرا واقف ہے۔۔۔۔۔۔ "

"خیر ایسا دبلا پتلا بھی نہیں —— "معظم نے کہا۔

"تم خود کون سے پستے والے پٹھان ہو —— "

"کیا مطلب؟”

انور نے ہنس کر کہا۔

"میرا نام عبدالرحمان

پستے والا میں ہوں پٹھان”

"اور تو کیا ہے "معظم نے بے تکی بات کی۔

"خیر میرا تو اس سلسلے میں ذکر کرنا ہی فضول ہے۔ دوڑ تو تم دونوں میں ہو رہی ہے۔ بیچاری لڑکی گھوڑوں کی ریس میں ٹٹو پر داؤ لگا بیٹھی ——"

"بخدا انور مذاق کی بات نہیں، میں بیحد سنجیدہ ہو رہا ہوں —— "

"اور یہاں کسے مذاق سوجھ رہا ہے کم بخت ؟ اپنی بھی تو جان پر بنی ہے ورنہ کون منوڑہ آتا ؟”

معظم نے مسکرا کر پوچھا —— "کیوں کیا وہ یہاں آئے گی؟”

"ایک روز آئی تھی بس اسی دن سے ہر اتوار منوڑے کو سلام کرنے آتا ہوں —— "

معظم نے کرسی کی پشت سے سر لگا لیا اور آہ بھر کر بولا —- "محبت کی یہ سٹیج بڑی پیاری ہوتی ہے۔ اس میں خود کشی کرنے کا خیال آتا ہے ، ٹرین تلے مر جانے کا سودا بھر جاتا ہے۔ ستاروں سے محبت ہوتی ہے ، پھولوں کی خوشبوئیں دل کو لبھاتی ہیں —— لیکن کوئی بھی تو نہیں مرتا —— کیونکہ محبت ہمیشہ ہل من مزید کا نعرہ لگاتی ہے۔ کم از کم محبت کی اس خمار آور منزل پر سبھی مرنے کے خواب دیکھتے ہیں کوئی جان نہیں دے سکتا، مجھے تم پر رشک آ رہا ہے انور —— "

انور نے سر کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر کہا —— "اور میں تمہیں دیکھ کر حسد کی آگ میں جلا جا رہا ہوں —— بھلا ایسی محبوبہ آج کہاں ملے گی جو شادی کا مطالبہ نہ کرے ؟ جو مرد کو اپنی بدی کے شکنجے میں جکڑنا نہ چاہے ؟”

"لیکن ایسی محبوبہ کا فائدہ بھی کیا ہوتا ہے آخر؟” معظم نے پوچھا۔

"فائدہ! ارے جاہل محبت کیا فائدے کے لیئے کی جاتی ہے ؟ اور اگر سوچو تو فائدہ دراصل ایسی ہی محبوبہ کا ہوتا ہے جو محبت کے گرد ہمیشہ نور کا ہالہ بنائے رکھتی ہے۔ وہ اس خمار میں حقیقت کی تلخی کو شامل نہیں ہونے دیتی۔ ایسی محبوبہ مل جائے تو مرد ہمیشہ جوان رہتا ہے ، ہمیشہ آزاد رہتا ہے ، اس کی توند نہیں بڑھتی، اس کا ماتھا پیچھے کو نہیں پھیلتا۔”

معظم نے زنگ آلود سلاخوں والی کھڑکی میں سے سمندر پر نظریں جما دیں۔ سمندر محوِ رقص تھا۔ لہریں گھٹ گھٹ کر جپھیاں ڈال رہی تھیں۔ دھکے مار رہی تھیں۔ معظم اپنی نرم رو محبت کی تال پر ناچتا تھک چکا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ یہ رقص ختم ہو جائے اور وہ تھک کر زرقا کی بانہوں میں سو جائے بالکل کسی معصوم بچے کی طرح جو ماں کی چھاتی پر سر رکھ کر میٹھی نیند سو جاتا ہے ، اس کے گریبان میں ناخن گاڑ دیتا ہے۔

انور نے چائے کا بِل ادا کرتے ہوئے کہا، "سمندر کی طرف چلو گے ؟”

"مجھے دیر ہو رہی ہے ، میں زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا انور —— "

"اور اس نیلے ساگر کے درشن کیئے بغیر ہی لوٹ جاؤ گے ؟”

"مجھے ایسے حسین نظاروں سے اب دلچسپی نہیں رہی۔ میں بلا واسطہ چاہنے سے تنگ آ گیا ہوں”

"کیوں؟ —— "

"میں تمہیں کہہ چکا ہوں کہ میری محبت اب اس سٹیج سے نکل چکی ہے جب انسان چاند تاروں سے عشق کرتا ہے ، میرا تو جی چاہتا ہے کہ اب کسی کا ہاتھ ہاتھ میں ہو تو پھر سمندر کے پانی میں اترتا ہی چلا جاؤں —— اترتا ہی چلا جاؤں —— اور وہ ہاتھ اور جسم میرے قریب ہوتا جائے۔”

انور نے کہا "ابھی لوٹ جائیں گے ، مجھے سمندر کو سلام تو کر لینے دو —— آؤ چلیں —— "

وہ دونوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ معظم کو گھر لوٹ جانے کی جلدی تھی۔ وہ حبیب میرزا کو عین باورچی خانے کے سامنے تخت پوش پر بیٹھا چھوڑ آیا تھا۔ لیکن اسے انور سے ابھی پیسے بھی لینا تھے اور وہ اس وقت انور کو ناراض کرنا نہ چاہتا تھا۔

ریستوران سے باہر نکل کر انور اور معظم نے اپنی جوتیاں اتار کر ہاتھوں میں پکڑ لیں۔

ساحل کنارے کراچی والی آپا شلوار اونچی کیئے اپنی پنجاب سے آئی ہوئی بہن کا ہاتھ تھامے گیلی ریت پر کھڑی تھی۔ کچھ لوگ ساحل سے دور بیٹھے مٹھائی کھانے میں مشغول تھے اور دو لڑکے لنگوٹ باندھے ہاتھ میں ہاتھ دیئے لہروں کے تعاقب میں بھاگے جا رہے تھے۔ اتنی صبح تفریح کرنے والوں سے ساحل قریباً پاک نظر آتا تھا۔ وہ دونوں آہستہ آہستہ اترتے ہوئے سبزی مائل نیلے پانی کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔ سنہری ریت پر لہروں کی آمدورفت نے لکیریں ڈال رکھی تھیں۔

"اندر چلو گے ؟ —— "انور نے پینٹ کے پائینچے اٹھاتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں "

"کیوں ؟ —— "

"عمر گزر گئی ہے ایسی حرکتیں کرتے۔ اب جی نہیں چاہتا "

"بھلا کتنا عرصہ ہو گیا ہے سروس میں —— "

"پانچ سال سے لڑکے دماغ چاٹ رہے ہیں۔ نہ انہیں کچھ آتا ہے نہ ان کے پروفیسر کو !” معظم نے اپنے آپ سے کہا۔

انور نے اس کی بانہہ میں بانہہ ڈال کر کہا —— "بقراط بننے کی کوشش نہ کرو۔ اگر میں تمہاری طرح اتنے لمبے وقفوں کے بعد کراچی آتا تو میں پہلے سمندر دیکھنے آتا۔ کیونکہ مجھے پورا یقین ہو چکا ہوتا کہ اس وقفے میں سمندر ضرور کہیں اور چلا گیا ہو گا —— "

"تمہاری اور بات ہے —— "

"کیوں "

معظم نے مسکرا کر کہا —— "تم ابھی نوگرفتار ہو اور ایسے دور میں ہو جب ہر چیز طلسماتی نیرنگیاں دیکھاتی ہے۔”

انور نے اثبات میں سر ہلا کر جواب دیا —— "تم واقعی ٹھیک کہتے ہو۔ میں تو جیسے خواب میں چلتا پھرتا ہوں۔ ہر اتوار میں یہاں آتا ہوں اور مجھے گھر سے یہ احساس کھینچ کر لاتا ہے کہ شاید سمندر یہاں سے دور چلا گیا ہو، جیسے وہ کہیں دور چلی گئی ہے۔”

معظم مسکرایا، اس کی مسکراہٹ سے اس کی اکتاہٹ عیاں تھی۔

"تمہیں چاہے جتنی بھی جلدی ہو میں پانی میں اترے بغیر نہ جانے دوں گا۔ کیونکہ معظم اس پانی سے مجھے وہ یاد آتی ہے۔ اس روز وہ پانی میں درو تک چلی گئی تھی اور میں جان بوجھ کر پیچھے رہ گیا تھا۔ تاکہ۔۔۔۔۔۔ تاکہ جب لہر اس کے پاؤں چھو کر میرے پاس آئے تو۔۔۔۔۔۔۔ "

معظم جلدی سے بولا —— "دیکھا۔۔۔۔۔۔ محبت ہل من مزید کی قائل ہے۔ فقط نظر سے کام نہیں چل سکتا انور اس کے لمس کا شوق لہروں کو بوسے دیتا ہے۔”

"خدا کے لیئے بقراط نہ بن اور ہر چیز کا تجزیہ کرنے نہ بیٹھ جایا کر۔ آ پانی میں چلیں آ !۔۔۔۔۔”

سیلی گدگدی ریت پر وہ دونوں ہولے ہولے آگے بڑنے لگے۔ لہروں کا شور اتنا شدید ہو گیا تھا کہ جب کوئی لہر قریب آتی تو دونوں ایک دوسرے کی بات نہ سن پاتے۔ پانی پہلے گھٹنوں کو چھو کر لوٹ رہا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ جب لہر کے چھینٹے گھٹنوں تک پہنچنے لگے تو انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنے کے باوجود سمندر کے زور کو محسوس کیا۔

"چلو اب واپس چلیں "—— انور نے کہا۔

"چلو "معظم بولا۔۔۔۔۔۔ "اب تم کچھ سمجھدار ہو گئے ہو”

"لیکن اُس طرف سے چلیں گے وہ لائٹ ہاؤس کے نیچے سے وہاں جہاں چٹان سی نظر آتی ہے۔ میں ہمیشہ وہیں سے لوٹتا ہوں —— "

"مجھے ایک بجے گھر پہنچنا ہے —— "

"ابھی کل آئے ہو اور اب یوں تیزیاں دکھا رہے ہو جیسے لاہور کی ٹرین پکڑنا ہو، تمہیں اجازت ہے جاؤ لیکن میں منوڑا کے پیر کو سلام کیئے بغیر اس جزیرے سے لوٹ نہیں سکتا "انور بولا۔

"واہ رے مجاور ! —— مجھے تیری شخصیت کے اس پہلو کا علم نہ تھا۔” معظم نے طنز کی۔ انور ریت پر چلتے ہوئے بولا —— "تم شاید یہاں کے پیر کی روایت سے ناواقف ہو —— سمندر چاہے کتنا بھی شہ زور کیوں نہ ہو جائے۔ چاند راتیں کتنی بھی سمندر کو ورغلائیں لیکن پانی کبھی منوڑا کے جزیرے پر نہیں چڑھتا۔ بھلا ایسی شخصیت کو سلام کیئے بغیر میں کیونکر لوٹ سکتا ہوں؟”

"ہمارے شہر میں داتا کا مزار ہے لیکن میں تو وہاں کبھی سلام کرنے نہیں گیا۔ مجھے تیری مزار پرستی پر شبہ سا ہونے لگا ہے۔” معظم نے کہا۔

لاہور میں تو ہمیشہ میرے ساتھ رہا کرتا ہے ؟ اسی لیئے میں کبھی داتا کے حضور نہ جا سکا۔” انور نے کہا۔

انور اور معظم سنہری ریت پر قدم بڑھاتے چڑھائی کی طرف چلنے لگے۔ سامنے قطب مینار جیسا اونچا لائٹ ہاؤس نظر آ رہا تھا۔ شام کو یہاں سے بندرگاہ پر آنے والے جہازوں کی رہبری میں گھومتا گیس سا جلنے لگتا۔ ساتھ ہی سگنل ٹاور تھا جو دور کھڑے جہازوں سے باتیں کر رہا تھا۔ دونوں کے پاؤں ریت سے اٹے تھے اور ان کے تلوں میں گدگدی سی ہو رہی تھی۔ منوڑے کے پیر کا مزار گھاٹی سے اوپر ذرا سی ہموار جگہ پر تھا اور یہاں سے سمندر کا رقص صاف نظر آتا تھا۔

بڑی عقیدت سے انور نے سر پر چھوٹا سا رومال باندھا، بمشکل پیچھے چھوٹی سی گرہ دی پھر اس نے مٹکے میں آبخورہ ڈال کر پانی نکالا اور کلی کر کے دونوں ہاتھ فاتحہ کے لیئے اٹھائے۔ معظم کی نگاہیں مزار پر جمی تھیں۔ یہ مزار پنجاب کے مزاروں سے اس لیئے مختلف تھا کہ یہاں کی ہر چیز صاف ستھری اور بڑی آراستہ تھی اور پتہ نہیں وہ کون سی چیز یہاں تھی جو بار بار اسے سندھی کڑھائی یاد دلا رہی تھی۔ خوبصورت نائیلون کا فرش، ریت کے اتنے قرب کے باوجود گرد سے بالکل پاک تھا۔ ایک ذرہ بھی فرش پر نظر نہ آتا تھا۔ چھت کے ساتھ ساتھ اور مزار کے جنگلے کے اردگرد کاغذی پھولوں کی نہایت نازک چادر سائبان کی طرح منڈی تھی۔ اسی کاغذی پھولوں کی چادر نے ساری جگہ کو دلہن کی سی آراستگی اور کنواری لڑکی کی سی نزاکت بخش دی تھی۔ پنجاب میں مزاروں پر عموماً موتیے اور گیندے کے پھولوں کی چادریں چڑھائی جاتی تھیں۔ جابجا سرخ گلاب کی ٹوٹی ہوئی پتیاں نظر آتی تھیں اور جب یہ پھول باسی ہو جاتے ہیں تو ان کا رنگ بھورا اور خوشبو باسی ہو جاتی ہے —— معظم کو اسی خوشبو سے چڑ تھی۔ اسے ہر مزار پر جا کر موت کا سایہ اپنے اردگرد منڈلاتا نظر آتا تھا۔

معظم محض انور کو خوش کرنے کی غرض سے اس مزار پر آیا تھا۔ لیکن یہاں کی پاکیزگی، طہارت اور حسن کو دیکھ کر اس کے جی میں ہوک سی اٹھی، اس نے دونوں ہاتھ جنگلے پر رکھ دیئے اور سر کو سینے پر نیہوڑا کر جی ہی جی میں بولا —- اے منوڑے کے پیر! میں اپنی زندگی سے تھک گیا ہوں۔ میں اس تھوتھی محبت سے تنگ آ گیا ہوں جو برسوں سے اہرام بن کر میرے دل میں جا گزیں ہے۔ مجھے اس کرب سے نجات دلا۔ اے نازک چادر والے ! میں اُس خلوت کے لمحے کا منتظر ہوں جب زرقا کے اور میرے درمیاں کچھ بھی حائل نہ رہے۔ میں جذباتی خط لکھ لکھ کر تھک گیا ہوں۔ میں کراچی کے چکر لگا لگا کر عاجز آ گیا ہوں —— اب یا تو مجھے۔۔۔۔۔۔۔۔”

اور پھر اچانک اسے یوں لگا جیسے انور اس کے قریب کھڑا اُس کی دعا کو پڑھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس نے مندی ہوئی آنکھیں کھول کر انور پر نظر ڈالی، وہ بدستور ہاتھ اٹھائے رومال باندھے دعا مانگنے میں مشغول تھا۔ معظم نے سر جھکا کر ایک بار پھر منوڑے والے پیر سے لو لگانا چاہی لیکن سمندر کی ایک لہر کی طرح عقیدت کا مجسمہ ساحل کو چوم کر لوٹ چکا تھا۔

حبیب میرزا ان آدمیوں میں سے تھا جو سوچتے ہیں کہ اگر تنا ہلایا جائے تو پھل خود بخود زمین پر آ گرتا ہے۔ اپنی واقفیت کے اولین عہد سے لے کر آج تک حبیب میرزا نے اپنی تمام توجہ اماں جی پر مرکوز رکھی تھی۔ اس توجہ کا فوکس کبھی نہ دھندلایا۔ اور کبھی اماں جی کو لمحہ بھر کے لیئے احساس نہ ہو پایا کی حبیب میرزا ان کی لڑکی زرقا کے لیئے یہاں آتا ہے۔ دراصل اماں جی نے کراچی کے قیام کے یہ چند سال جیسے بیوگی میں کاٹے تھے۔ خان صاحب کویت چلے گئے۔ تو پہلی بار انہیں اپنی ذمہ داری کا احساس ہوا اور بڑی شدت سے ہوا۔ ان کے ارد گرد پانچ لڑکیوں کا جمِ غفیر یوں پھنکارا جیسے ان کی ناموس کو ڈسنے آ رہا ہو۔ اس ناموس اور عزت کے بُت کی انہوں نے ساری عمر پرستش کی تھی اور جونہی انہیں لگا کہ بچیاں لمبے کرتے ، چُنے ہوئے دوپٹے ، اونچی ایڑی کی جوتیاں اور کویت سے آئے ہوئے نقلی زیور پسند کرنے لگی ہیں تو وہ مسلح سپاہی کی طرح اپنی بچیوں پر پہرہ دینے بیٹھ گئیں۔ کبھی کبھار ان کی بیجا مداخلت سے تنگ آ کر بڑی بچیاں اگر اونچے بول پڑتیں۔ تو وہ جھٹ قلم اور کاغذ اٹھا کر خان صاحب کو خط لکھنے بیٹھ جاتیں۔

"خان صاحب جی‌! —— میں کہتی ہوں مجھے ریشمی کپڑا نہیں چاہیے ، مجھے فریج اور کار کی ضرورت نہیں، سونا وونا اکٹھا کرنا چھوڑیئے۔ لڑکیاں سیانی ہو گئی ہیں —— دو کانچ کی چوڑیاں پہنا کر انہیں اپنے گھر روانہ کیجیئے —— کیوں میری چھاتی کا بوجھ بڑھاتے جاتے ہیں آپ ؟”

لیکن جب لڑکیاں دوہری بکل مار پائینچوں میں پاؤں چھپا کر ان کے سامنے بیٹھا کرتیں تو ان کے سارے وسوسے ختم ہو جاتے۔ اور وہ سوچتیں کہ اگر اس بار خان صاحب آ گئے تو میں لڑکیاں لے کر ان کے ساتھ کویت چلی جاؤں گی۔ سونا وہاں اس قدر سستا ہے کہ اگر چار چار چوڑیاں بھی ایک ایک کے ہاتھ آ گئیں تو زرقا کے فرض سے بخوبی سبکدوش ہو جاؤں گی ——

کراچی میں رہنے کے باعث زرقا کی شادی ان کے لیئے ایک معمہ بن گئی تھی۔ اگر کبھی وہ لاہور میں ہوتیں تو برادری کے تمام لڑکے دیکھ بھال کر کبھی کا زرقا کو رخصت کر چکی ہوتیں —— یہاں تو لے دے کے ایک معظم اور حبیب میرزا ہی نظر آتے تھے۔

معظم میں اور کوئی خرابی تو اماں جی کو نظر نہ آتی تھی لیکن تنخواہ بے حد قلیل تھی! آخر تین سو روپے میں زرقا کیا کرے گی؟ کویت سے آیا ہوا ریشم پہننے کی عادی زرقا تو عمر بھر ایک ریشمی تار کو ترس جائے گی!

اماں جی کو علم تھا کہ زرقا اور معظم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ اور انہیں یہ بھی علم تھا کہ زرقا اور معظم میں خط و کتابت بھی جاری ہے ، لیکن ساتھ ہی انہیں اپنی نگرانی پر ناز تھا۔ وہ خوب جانتی تھیں کہ فیصلہ ان ہی کے ہاتھ میں ہے۔ پسند و ناپسند کے بس میں نہیں۔ شروع مہینے میں جب رات کو ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلتی، دیوار پر لگی ہوئی تصویر پر سامنے والے سینما گھر کی بتیوں کی رنگ برنگی روشنی پڑتی اور انہیں خان صاحب کی نیکیاں یاد آتیں تو وہ اپنی زرقا کو اپنے ہاتھوں دلہن بنا کر معظم کے ساتھ رخصت کر دیتیں لیکن جب مہینے کے آخر میں خرچ کی کمی واقع ہوتی اور خان صاحب کی ہمدردی پر اماں کو شبہ ہونے لگتا تو وہ حبیب میرزا کو اپنا داماد بنانے کے خواب دیکھتیں۔

میرزا نے جس روز زرقا کو پہلی بار دیکھا وہ ایک ریستوران میں فرائی مچھلی پر ٹماٹر کی چٹنی لگا کر کھا رہا تھا۔ سارے ہوٹل میں سمندری مچھلی کی بُو باس پھیلی ہوئی تھی۔ سمندری ہوا سے ریستوران کے داخلی دروازے کا پردہ پھڑپھڑا رہا تھا۔ پھر اچانک عقبی نشستوں سے جہاں کیبن بنے ہوئے تھے یوڈی کلون اور میکس فیکٹر کے میک اپ کی خوشبو اٹھی۔

حبیب میرزا نے خدا جانے کیوں چھری کانٹا پلیٹ میں دھر دیا اور مڑ کر دیکھنے لگا۔

پانچ چوزوں کہ ہانکتی اماں جی باہر چلی آ رہی تھیں۔ لیلی اور شیریں آپس میں گفتگو کر رہی تھیں۔ اور چھوٹی دونوں لڑکیاں روٹھے روٹھے چہرے لیئے ریستوران میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو گھورنے میں مشغول تھیں۔ سب سے آخر میں زرقا تھی۔

اس نے نقاب اٹھایا ہوا تھا۔ چہرے پر پاؤڈر کی نامعلوم سی تہہ اور لپ سٹک کے غیر قدرتی رنگ کا جماؤ تھا۔ ایک ہی نظر میں زرقا کا چہرہ پُر جمال، برقعہ، لپ سٹک پاؤڈر سب کچھ حبیب میرزا کو اس قدر اچھا لگا کہ اس نے مچھلی کا قتلہ پلیٹ میں چھوڑا اور جلدی سے بِل ادا کر کے ان کے پیچھے باہر نکل آیا۔ اس سے پہلے بھی حبیب میرزا نے ایک بار اپنے دفتر کی ایک لڑکی سے جی ہی جی میں والہانہ عشق کیا تھا۔ لیکن وہاں نوبت تعاقب تک نہ پہنچی تھی۔

اگر اس دن اماں جی لڑکیوں کو بس میں لے کر غائب ہو جاتیں اور پھر اُسے کبھی نظر نہ آتیں تو شاید عشق بھی اس کے ذہن میں ہی دم توڑ دیتا۔

لیکن چند دن بعد اسے اماں جی بنک میں مل گئیں۔ وہ کسی چیک کے سلسلے میں آئی ہوئی تھیں۔ بنک والے انہیں رقم ادا کرنے سے انکار کر رہے تھے۔ کوئی ٹیکنیکل سی مشکل تھی لیکن ادھر اماں جی رقم وصول کرنے پر مصر تھیں۔ ادھر بنک والا ادائیگی سے معذوری ظاہر کر رہا تھا۔ حبیب میرزا اماں جی کے پاس پہنچا اور بڑی ہچکچاہٹ سے بولا —— "شاید آپ کو کچھ مشکل پیش آ رہی ہے ؟”

اتنے مصروف بنک میں جہاں ہزاروں لوگ نفسانفسی کا شکار ہو رہے تھے ، حبیب میرزا کی نظرِ کرم ان کے لیئے بڑی تسکین دہ ثابت ہوئی۔ انہوں نے چیک میرزا کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ "یہ کویت سے آیا ہے جی، ہر مہینے میں چیک بھنوانے آتی ہوں لیکن آج خدا جانے یہ کیوں اسے کیش کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔”

حسن اتفاق سے حبیب میرزا کی مینجر سے اچھی واقفیت تھی۔ اس نے چیک اماں جی سے لیا اور انہیں ایک سٹول پیش کر کے اندر چلا آیا۔ جب وہ چیک کی بجائے اماں جی کو پیسے دے چکا تو اس کی واقفیت کویت والوں سے ہو چکی تھی —— اور یہ واقفیت خاک اس کے کام نہ آتی اگر اس نے اس دن ریستوران میں زرقا کو نہ دیکھا ہوتا !

اماں جی نے ایک بوتل نما صراحی حبیب میرزا کو دکھاتے ہوئے کہا —— "ابھی کل ہی کویت سے آئی ہے۔”

حبیب میرزا نے صراحی کو ہاتھ میں لے کر بڑے غور سے اس کا جائزہ لیا اور پھر بڑے وثوق سے کہا —— "ایسی ہی سوڈا بھرنے والی بوتل پچھلے دنوں میں نے ایک امریکن کے ہاں دیکھی تھی۔”

"آپ سوڈا پیئیں گے تو میں بنا دوں "شیریں نے پوچھا۔

"نہیں بھائی اب کھانا کھانے کا وقت ہے کہ سوڈا پینے کا ؟ —— "

زرقا کھانا پکانے کے بعد غسلخانے میں منہ ہاتھ دھو رہی تھی۔ لیلی صحن والے برآمدے میں لمبے میز پر برتن لگانے میں مشغول تھی۔ فضا میں کچے ٹماٹر، اچار اور پلاؤ کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔

"تم کھانا کھا لو حبیب —— معظم تو خدا جانے کب آئے گا ؟” اماں بولیں۔

"نہیں جی ابھی بھوک نہیں لگی اور پھر پروفیسر صاحب آ لیں تو سب کھائیں گے "حبیب نے خوش اخلاقی سے کہا۔

زرقا نے اس خوشامدی پر ایک نظر ڈالی اور لمبی ہیل والے سیلیپر بجاتی اندر چلی گئی۔ اسے حبیب میرزا کو دیکھ کر خواہ مخواہ کی کوفت ہو رہی تھی۔ ساتھ ہی اُسے رہ رہ کر یہ بھی غصہ آ رہا تھا کہ معظم ساڑھے سات سو میل کا سفر محض انور سے ملنے کی خاطر طے کر کے آیا ہے ؟ کراچی پہنچے ابھی اسے بمشکل تمام اکیس گھنٹے ہوئے تھے اور ابھی سے یہ بے نیازی؟ ابھی سے یہ بے رخی؟ اس سے پہلے تو معظم نے کبھی ایسے نہ کیا تھا۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر اسے یوں لگا کہ سر میں درد ہو رہا ہے۔ اس نے سفید دوپٹہ آنکھوں پر رکھا اور پلنگ پر لیٹ گئی۔

لیلی نے اپنی تھوتھنی سی ناک فضا میں اٹھا کر کہا —— "حبیب صاحب ! آج آپا نے وہ غضب کے شامی کباب بنائے ہیں کہ آپ کبابوں کے ساتھ انگلیاں بھی کھا جائیں گے۔”

"صاحب ہم تو ہمیشہ کے قائل ہیں —— لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ اماں جی جیسے پسندے تو وہ دس بار پیدا ہوں تو بھی نہ پکا سکیں گی۔”

اماں نے مسکرا کر حبیب کی طرف دیکھا اور آہستہ سے کہا۔ "اب تو کبھی باورچیخانے میں گھس کر بھی نہیں دیکھا۔ کبھی خان صاحب سے پوچھنا۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ میرے ہاتھ کا پکا ہوا مرغ مسلم کھا کر ہی انہوں نے مجھ سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا تھا —— "

رانی لیلی کے پاس کھڑی صافی سے چمچے کانٹے صاف کر رہی تھی۔ ان نے کوئی بارھویں مرتبہ کہا —— "ہائے لیلی آپا ایک کباب دے دو، سچ ! ککو کو پتہ بھی نہ لگنے دوں گی —— "

"عجب ندیدی سے پالا پڑا ہے۔ کہہ جو دیا سب کے ساتھ کھانا ہاں —— "

لیلی نے ڈانٹ بتائی پھر اس نے حبیب میرزا کی طرف رُخ کر کے پوچھا —— "کیا وقت ہوا ہے حبیب بھائی "”ڈیڑھ بجنے لگا ہے —— قریباً "اسے جواب ملا۔

"تم کھانا کھا لو حبیب، بچیوں کے لیئے بھی ڈال دیتی ہوں۔ میں مجو کے ساتھ کھا لوں گی۔ "اماں بولیں۔ "میں بھی مجو بھائی کے ساتھ ہی کھاؤں گی امی —— "لیلی بولی۔

"ہمیں تو شوق سے کھلا دیجیئے "شیریں نے ہاتھوں کی چوڑیاں بجا کر کہا اور پھر اپنی زبان میں لیلی سے مخاطب ہوئی —— "انتظار کریں زکی باجی کریں، ہمیں کیا مصیبت پڑی ہے۔ "

ککو نے ابھی سے کلفٹن جانے کی تیاری شروع کر دی تھی۔ وہ ہاتھ پیر دھو کر چھوٹی سی پیڑی پر غسلخانے کے سامنے بیٹھی اپنے ناخنوں پر گہرے سرخ رنگ کا پالش لگا رہی تھی۔ روز وہ بارہ بجے کھانا کھانے کی عادی تھی لیکن آج کلفٹن کا سنکر اُسے کھانا بھول چکا تھا۔ پالش کے دھبے ناخنوں کے علاوہ ہاتھوں پر بھی اتر آئے تھے۔ لیکن وہ اپنی آرائش سے خوش تھی۔ پالش کا برش بوتل میں ڈالتے ہوئے اس نے چلا کر کہا —— "آپا شیریں —— شیریں آپا مجھے وہ موتیوں والا فراک نکال دیں ! "

"کونسا فراک؟” شیریں نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔

"وہی آپا نیلے والا —— "

"ہائے کونسا نیلے والا ؟ مجھے تمارے کپڑوں کی فہرست تو یاد نہیں ——"

بڑی احتیاط سے پنجوں کے بل چلتی ہاتھوں کو جسم سے دور رکھے ککو شیریں کے پاس پہنچ کر بولی۔

"آپا ! —— وہ جو ابا جی پچھلے سال لائے تھے ریڈی میڈ آپا۔ جس پر موتی لگے ہیں۔”

شیریں خفگی سے کہنے لگی۔ "وہ کوئی سمندر پر جانے والا فراک ہے۔ سارا خراب ہو جائے گا پانی میں —— "

اماں نے باورچی خانے سے آواز دی —— "ارے شیریں زکی کو بلاؤ میں کھانا نکال رہی ہوں، تم سب گرم گرم کھا لو۔ میں مجو کے ساتھ کھا لوں گی۔ "

ککو نے منت بھرے لہجے میں کہا —— "آپا قسم لے لو میں پانی میں نہیں جاؤں گی —— خدا کی قسم "

"اچھا اچھا دیکھوں گی —— تم اندر جا کر زکی آپا کو بلا لاؤ۔ کہنا اماں کھانے کے لیئے بلا رہی ہیں۔”

جب ککو زکی آپا کو اندر لینے گئی تو لمحہ بھر کے لیئے حبیب میرزا کی آنکھیں اس کے تعاقب میں گئیں جیسے زکی کو لینے جا رہی ہوں۔ پھر وہ دگنے انہماک کے ساتھ باورچی خانے کے دروازے میں کھڑے ہو کر اماں جی سے باتیں کرنے لگے۔

زکی سر پر دوپٹہ لیئے آنکھیں موندے لیٹی تھی۔ پردے گرے ہوئے تھے اور اندر ہلکا ہلکا اندھیرا تھا۔ یہاں اُسے عجب محرومی کا احساس ہو رہا تھا۔ اس کا جی چاہتا تھا مجو اس سے بات کرے یا نہ کرے ، اُس کی طرف دیکھے نہ دیکھے لیکن گھر پر رہے۔ اُس نے اپنے ہاتھ سے مجو کے لیئے کھانا تیار کیا تھا اور مجو اس وقت انور کے ساتھ بیٹھا تھا۔ زکی کو یوں لگ رہا تھا جیسے اب مجو کو اس میں وہ دلچسپی نہیں رہی۔ مجو وہ نہیں رہا جو آج سے چھ ماہ پہلے تھا۔ ورنہ وہ آج اس وقت یوں باہر نہ جاتا۔ کیا اکیس گھنٹوں میں شوقِ دیدار اس قدر ماند پڑ گیا تھا؟ کیا ایک رات فلیٹ میں گزارنے کے بعد ہی اس کا جی اُوب گیا تھا اور اُسے انور کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی۔

جب ککو نے زور سے آواز دی تو وہ یوں چونک پڑی جیسے اُسے کسی نے برہنہ دیکھ لیا ہو۔

"آپا کھانا کھا لو چل کر اماں بلا رہی ہیں "

"میرے سر میں درد ہے تم کھا لو —— "

"تو تم کلفٹن نہیں جاؤ گی آپا ؟” ککو نے گھبرا کر پوچھا

"تم سب چلے جانا —— میں گھر پر رہوں گی۔”

یکدم ککو کا دل ڈوب گیا۔ اس نے جلدی سے کہا —— "آپا آپ اسپرو کھا لیں، طبیعت ٹھیک ہو جائے گی” پھر قریب آ کر بولی "میں سر دبا دوں آپا ؟ "

ککو کی گھبراہٹ دیکھ کر ایک لمحے کے لیئے زکی کا سر درد غائب ہو گیا۔ اس نے ککو کی طرف مسکرا کر دیکھا اور آہستہ سے بولی —— "تم جاؤ ککو بڑی دیر ہو گئی ہے کھانا کھا لو —— "

جب ککو ناخنوں کا پالش چھیلتی باہر نکلی تو پہلی چیز جو اُسے نظر آئی وہ مجو بھائی تھے۔ لیلی پانی کا لوٹا لیئے کھڑی تھی اور وہ نالی پر جھکے ہاتھ دھو رہے تھے۔ ککو اُلٹے پاؤن آپا کے کمرے میں واپس گئی اور پردہ اٹھا کر بولی —— "آپا آپا جی مجو بھائی آ گئے ہیں۔ سب کھانے پر آپ کو بلا رہے ہیں جی —— "

زرقا اُٹھ کر بیٹھ گئی اور بددلی سے بولی —— "توبہ، کہہ تو رہی ہوں تم سب کھا لو مجھے بھوک نہیں "

ککو اس کے قریب آ کر کھڑی ہو گئی۔ پہلے تو زرقا کا جی چاہا کہ اٹھ کر چلی جائے لیکن پھر اس کے جی میں آیا کہ مجو کی اس بے نیازی کا بدلہ لینا چاہیئے۔ وہ کہنی ٹکا کر لیٹ گئی اور آہستہ سے بولی —— "تُو جاتی کیوں نہیں ککو ؟”

ککو نے اس کا دوپٹہ کھینچ کر کہا —— "آپا ! —— آپا میری خاطر چلی چلو۔۔۔۔۔۔ آپا تم نہیں جاؤ گی تو کوئی بھی نہیں جائے گا —— کوئی بھی کلفٹن نہیں جائے گا آپا —— "

یہ کہہ کر اس نے سرخ پالش لگے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیئے اور پھسک پھسک رونے لگی۔

زرقا گھبرا کر اٹھی، اُس نے دونوں ہاتھوں میں ککو کا چہرہ لے لیا اور جلدی جلدی بولی "ہائے اللہ رونے کیوں لگ گئیں، چپ کرؤ —— چپ کرؤ۔۔۔۔۔۔ ہائے بابا میں چل رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ چل رہی ہوں میں تو !”

لالو نے دونوں ہاتھوں سے جھونپڑی کا دروازہ پٹاخ سے کھولا اور پھر دہلیز میں کھڑے ہو کر بولا —— "کیوں ری ماں تو گئی نہیں ابھی تک ——"

"جاؤں کیسے ؟ جیب میں ایک کوڑی تک نہیں، بس کا کرایہ ہوتا تو چلی بھی جاتی”

"تو چل کر پہنچ جاتی۔ اماں جی تو تو تیرا درد رہتا ہے —— "

ماں نے چڑ کر کہا —— "وہاں کسے میرا درد نہیں تھا۔ کبھی لڑکیوں نے میرے سامنے اونچی آواز نہ نکالی۔ بے چاری زکی بی بی کا بھلا ہو ہمیشہ مائی جی کہہ کر بلاتی تھیں۔ اتنی عزت تو تُو نے بھی نہیں کی میری۔”

لالو نے سگریٹ کا ٹوٹا سلگایا اور غصے سے بولا —— "یہی تو میں کہتا ہوں ماں – مجھ سے زیادہ تو وہ تیرے سگے تھے پھر تُو گئی کیوں نہیں؟”

"ارے لالو کہے تو جا رہی ہوں کہ پلے ایک دمڑی تک نہیں۔ جاتی کیسے ؟”

"اور کہیں شادی بیاہ ہو تو کیسے پہنچ جاتی ہے چل کر، اب بھی چلی جاتی ناں”

ماں نے منہ کو دوپٹہ سے پونچھ کر کہا —— "چلی جاؤں گی لڑکے ! چلی جاؤں گی —— آج میری ٹانگ میں درد زیادہ تھا، پھر صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں، چلنے کی ہمت کہاں سے آتی !”

"آج تو وہ مجو میاں بھی آیا ہوا ہے —— خوش ہو کر زکی بی بی ضرور کچھ نہ کچھ دے دیتی تجھے "

ماں نے مارے غصے کے کچھ نہ کہا اور گھڑے میں سے پانی نکالنے لگی۔ اس کائی جمے گھڑے کو لالو کی ماں کویت والوں کے گھر سے خود لائی تھی۔ اس نے غٹا غٹ پورا کٹورا پانی کا پی لیا اور پھر قہر بھرے لہجہ میں بولی "تجھ سے میں نے سو مرتبہ کہا ہے کم ذات تیری بھی جوان بہن لاہور میں بیٹھی ہے۔ کسی کا ماں بہن کو بات بنائے گا تو بہن کے آگے آئے گی۔ "

لالو ہنس کر بولا —— "ارے اس کی کون سی عزت ہے۔ زیادہ سے زیادہ کس کے ساتھ بھاگ جاے گی ناں ؟”

ماں نے کٹورہ اس کی طرف کھینچ مارا اور گالیاں بکتی ہوئی بولی —— "ارے ماں جائی کے لیئے ایسی باتیں کہتا ہے ، تجھے زکی بی بی سے کیا۔ وہ فرشتہ ہے فرشتہ۔ میں نے کبھی اُسے مجو میاں سے بات تک کرتے نہیں دیکھا۔ جو کبھی خط پتر آتا ہے تو ہمیشہ اماں جی کو دے دیتی تھی ! "

"دے دیتی ہو گی ماں ! —— لیکن میں کہتا ہوں دنیا کی کوئی لڑکی بھی فرشتہ نہیں۔ فلم والیاں کیا پاؤ پاؤ کے آنسو بہاتی ہیں پر۔۔۔۔۔ پر "

ماں بغیر ادوائین کی چارپائی میں اترتے ہوئے بولی "ارے لالو —— تجھے کب عقل آئے گی نامراد ! بہن کو لاہور چھوڑ آیا۔ وہ کنجر تیرا چاچا خدا جانے اسے کس کوٹھے پر چڑھائے گا اور یہاں تجھے منڈوے کی پڑی ہے۔ میں کہتی ہوں کچھ کام ڈھونڈ کام —— "

"تو کام سے کیا رکھی کی شادی ہو جائے گی ماں —— تُو بھی کیسی باتیں کرتی ہے ؟”

ماں تنک کر بولی —— "ارے بیس پچیس پر اگر لگ جائے تو ہم یہ جھگی چھوڑ جائیں۔ کرائے کے جنجال سے جان چھوٹے۔ "

لالو نے پوچھا —— "اور ماں اب کیا ہم کرایہ ادا کرتے ہیں ؟”

"یہ دو مہینے سے مصیبت پڑی ہے ورنہ کیا دیتے نہیں تھے کرایہ۔۔۔۔۔۔ "

ماں نے ماتھا پیٹ لیا اور روتے ہوئے بولی —— "تُو تو بس بحث کرنی جانتا ہے اور میں مصیبت میں گھری ہوں۔ خدا جانے اس اس بیچاری رکھی کا کیا فیصلہ ہو گا۔ مر گئی ہے کی جیتی ہے۔ پندرہ دن سے تو خط بھی نہیں آیا —— "

"تجھے اتنا درد ہے تو ماں تُو یہ جھگی چھوڑ دے ناں "—— "کویت والوں کے یہاں کیوں نہیں چلی جاتی —— "

اب ماں لنگڑاتی ہوئی اس کے پاس پہنچی اور اسے جھنجھوڑ کر کہنے لگی —– "اچھا تو دے پیسے چلی جاؤں گی صبح خدا قسم چھوڑ جاؤں گی تجھے —— اب تک مامتا ساتھ لیئے پھرتی تھی۔ اب چھوڑ دوں گی —— "

"تو نہ جائے گی ماں تو کل مالک مکان نکال دے گا تجھے۔ پھر جو جائے گی تو ابھی کیوں نہیں چلی جاتی۔ "

"جب نکال دے گا تو آپ چلی جاؤں گی، تجھے کیوں اتنی فکر ہو رہی ہے ؟”

لالو بجھے ہوئے چولہے کی پاس آ کر بیٹھ گیا اور راکھ میں اپنی سگریٹ کا جلتا ہوا ٹکڑا پھینک کر بولا —— "ماں آج مجو میاں آئے ہیں وہاں ضیافت ہو رہی ہو گی آج تو چلی جائے تو پیٹ بھر کر کھانے کو مل جائے گا۔

"میں بھک منگی نہیں ہوں بے "

"ماں آج وہاں سب غفلت کی نیند سوئیں گے ، ہن برس رہا ہو گا وہاں "

"کیوں ؟ —— "اماں نے پوچھا

"کہا تو ہے مجو بھائی آئے ہیں "

"پر تجھے کیسے پتہ لگا مجو میاں کا —— "ماں نے پوچھا۔

خالی ہانڈی کو چولہے پر سے اتار کر لالو نے نیچے رکھا اور پھر ہنس کر بولا —— "بس میں نے دیکھا تھا انہیں —— "

"اور بس کے پیسے کہاں سے مل گئے تھے —— "

"وہ تو پھتو نے دیئے تھے —— "لالو بولا۔

ماں نے دوپٹے کا پلو کھولا اور دونی اس کی طرف پھینک کر کہنے لگی —— "دیکھ بے لالو —— پھتو رکھی کے ہونے والے سسرال کو آدمی ہے۔ تُو اس سے مانگ تانگ کر بس میں سفر نہ کیا کر —— "

لالو نے دونی اٹھا کر باہر کی طرف جاتے ہوئے کہا —— "ماں تُو آج شام یہاں سے چلی جانا ضرور —— مالک مکان نکال دے گا ہم دونوں کو صبح —— اور پھر میں آج نہیں لوٹوں گا شام کو —— "

"لیکن تو چلا کہاں ہے بے لالو —— ارے لالو اے ——"

ہونکتی ہانکتی ماں باہر نکلی تو لالو کافی دور جا چکا تھا۔

ماں چلائی —— "ارے بتا تو کہاں سر چھپائے گا جا کر —— "

لالو نے لمحہ بھر کو منہ پھیرا اور اونچی آواز میں للکارا —— "تجھے میری فکر کیا ہے۔ تو بس کویت والوں کے یہاں چلی جانا ہاں —— "

مجو سب سے آخر میں اترا۔

بس گھر گھر کرتی ہوابندر کی طرف چلی گئی۔ سیسہ پلائی میٹل روڈ ہوابندر کے پاس آ کر بہت چوڑی ہو گئی تھی اور یہاں پہنچ کر یوں لگتا تھا بہت لمبے سیمنٹ کے بنے ٹینس لان آپس میں جڑ گئے ہیں۔ بس سے اترتے ہی مجو نے ہوابندر کی جانب رُخ کر کے اپنی گھڑی دیکھی۔ اس جگہ کو دیکھ کر خدا جانے کیوں اُسے لائلپور کا گھنٹہ گھر یاد آ جاتا تھا حالانکہ نہ تو ساخت میں کوئی مماثلت تھی اور نہ ہی بظاہر ماحول کی کوئی ایسی چیز تھی جو ایک دوسرے کی یاد دلائے۔ لیکن مجو اس نتیجے پر پہنچا – کہ چونکہ دونوں ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں اس لیئے ایک کو دیکھ کر دوسرے کی یاد آتی ہے۔

گھڑی میں پورے تین بج کر چار منٹ ہوئے تھے۔ ابھی کل قریباً اسی وقت وہ کویت والوں کے ہاں پہنچا تھا۔

ککو اور رانی بھاگ کر چنے والے سے چنے خریدنے میں مصروف ہو گئیں اور حبیب میرزا ان کے پاس اس لیئے کھڑے تھے کہ پیسوں کی ادائیگی کے وقت وہ اپنی چابکدستی دکھا سکیں۔

سمندر کا یہ حصہ منوڑا سے بہت مختلف تھا۔ بہت دور سے سست رو سمندر ساحل کی طرف بڑھتا ہوا نظر آتا تھا۔ سڑک کے اس کنارے جہاں بسیں، ٹیکسی اور رکشا وغیرہ کھڑے کرنے کا انتظام تھا وہاں سے لے کر ساحل کے کنارے تک بتدریج سیڑھیوں کا ایک سلسہ جاتا تھا۔ کہتے ہیں کسی زمانے میں سمندر ان سیڑھیوں تلے بنے ہوئے محراب دار پلوں میں سے گزرتا تھا۔ لیکن اب ریت کے تودے ارد گرد پھیلے تھے۔ سڑک سے کچھ فاصلے تک بچوں کے کھیلنے کے لیئے سی سو جھولے اور پھسلنے والی پکی گھاٹیاں بنی تھیں۔ لیکن پھر باغ و بہار کا یہ سلسلہ ختم ہو جاتا تھا۔ اور لہریا ریت کے تودے ہر طرف پھیلنے لگتے تھے۔ جو لوگ ان سیڑھیوں پر سے اتر کر ساحل کنارے نہیں جاتے وہ بتدریج اترتی سڑک پر سے ہو کر ساحل کی طرف جا نکلتے ہیں۔ لیکن مجو کے نزدیک وہ راستہ اس قدر رومانٹک نہ تھا۔ شیریں اور لیلی ہولے ہولے سیڑھیاں اترنے لگی تھیں۔ زرقا خدا جانے کس سوچ میں تھی۔ اس کے برقعے کا نقاب اڑ رہا تھا۔ آنکھوں پر لگی سیاہ عینک کے پیچھے وہ آنکھیں کسے دیکھ رہی ہیں اس کا اندازہ مجو لگا نہ سکا۔ کب ککو اور رانی نے چنے خرید لیئے تو وہ دونوں حبیب بھائی کے ساتھ بائیں جانب چلی گئیں۔ سیڑھیوں کے بائیں طرف ایک بہت بڑا مزار ہے اور اس کے طاقچوں میں ہزاروں کبوتر غڑغوں غڑغوں کیا کرتے ہیں۔

ککو اور رانی نے دیوار پر چڑھ کر کبوتروں کو دانہ ڈالا تو پّرے مزار سے اُڑ کر اس طرف آ گئے۔

اماں جی نے حبیب بھائی سے کہا —— "آو چلیں، یہ تو شائد کبوتروں کی خاطر آئی ہیں۔”

مجو نے کنکھیوں سے زرقا کی طرف دیکھا وع زیر لب مسکرائی اور پھر اس سے آگے آگے چل دی۔ ان دونوں میں فقط ایک گز کا فاصلہ تھا۔ اگر مجو چاہتا تو بازو پھیلا کر اس کا نقاب کھینچ سکتا تھا۔ لیکن مجو نے آج تک ایسی کوئی شرارت نہ کی تھی۔ اس دونوں میں ازل سے یہ سمجھوتا ہو چکا تھا کہ کوئی چھچھوری حرکت کوئی گھٹیا بات ہمارے درمیان ہو ہی نہ سکے گی۔ —— مجو اس سوئی سوئی محبت سے جھلا اٹھا تھا۔ سیڑھیاں اترتی کبوتری سی زرقا کو دیکھ کر ایک بار تو اس کے جی میں آئی کہ اسے اپنے بازؤں میں دبوچ لے اور پھر چاہے اماں جی ایک زمانہ اکٹھا کر لیں اسے کبھی اپنے تن سے جدا نہ کرے لیکن پھر اس نے نظریں جھکا لیں اور گلابی مائل بادامی پتھروں کی دیوار دیکھنے لگا جو سیڑھیوں کے ساتھ ساتھ بنی ہوئی تھی۔

"ایک تو کم بخت ان سیڑھیوں کا سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا —— اسی لیئے مجھے کلفٹن زہر لگتا ہے۔” اماں جی بولیں ——

لیلی پلٹ کر بولی —— "ہائے اماں یہی تو کلفٹن کا حسن ہے —— "

"میل بھر تو یہ سیڑھیاں ہی ہوں گی —— "اماں نے گلہ آمیز لہجے میں کہا —— "بھلا سیر کیا رہ جاتی ہے جب ٹانگیں ہی تھک جائیں —— "

زرقا نے آہستہ سے مجو کہ کہا —— "پتہ نہیں آپ کے کندھے پر کالی سی کیا چیز لگی ہوئی ہے —— "

مجو نے اپنے کندھے پر چپکے ہوئے خزاں آلود پتے کو اتار کر تشکر آمیز نظروں سے اُسے دیکھا اور شیریں سے کہنے لگا —— "ہماری فکر تم کو نہیں ہے شیریں صاحبہ ! لیکن یاد رکھیئے مٹھائی کے ہم ہی وارث ہیں۔”

"توبہ توبہ یہ بچیاں ابھی تک کبوتروں کے پاس ہی کھڑی ہیں۔ ان کی تو ساری شام کبوتروں کے ساتھ ہی کٹ جائے گی —— ککو اور —— رانی "اماں جی چلائیں۔

زرقا سانس لینے کے لیئے جنگلے کے ساتھ کمر لگا کر رک گئی تو لیلی نے پلٹ کر اس کر طرف دیکھا اور پھر نعرہ لگایا —— "مجو بھائی کیمرہ نہیں لائے آپ؟”

"نہیں تو —— "

اس نے اور حبیب میرزا نے بیک وقت زرقا پر نظر ڈالی۔ اس کا جسم دیوار کے کنگرے اور کٹاؤ کے ساتھ یوں بل کھا گیا تھا جیسے اس میں کوئی ہڈی نہ ہو۔ مجو نے چہرہ پرے کر لیا اور اس کا بند بند دُکھنے لگا۔

زرقا نے برقعے کے بٹن کھول رکھے تھے اور سیاہ بادبان کے کنارے اس کے سفید چہرے کے گرد پھڑپھڑا رہے تھے۔ کالی اور گرے دھاریوں والی قمیص ہوا کے باعث اور بھی جسم سے چمٹ گئی تھی اور رسی نما چنت کا دوپٹہ گلے میں یوں لٹک رہا تھا جیسے موتیے کا لمبا ہار ہو۔

"حبیب میاں ذرا ان بچیوں کے کان کھینچ کر لاؤ، بدبختیں جب آتی ہیں۔ کبوتروں کے پاس ہی رہ جاتی ہیں "حبیب نے ایک نظر زرقا پر ڈالی اور اُلٹے پاؤں ککو اور رانی کو لینے واپس چلا گیا۔

کوئی فرلانگ بھر لمبی بتدریج اترتی سیڑھیوں کا سلسلہ ختم ہوا اور وہ ہوادار دلان میں پہنچے تو ابھی حبیب میرزا اور بچیاں پہلی سیڑھیاں اتر رہی تھیں۔ اس دالان میں دونوں جانب بنچیں پڑھی تھیں اور بائیں ہاتھ چند ایک مچھیرے بیٹھے اپنے جال مرمت کر رہے تھے۔ سامنے سمندر تھا۔ سمندر کی ریت تھی، ریت کی لہریں تھیں۔

زرقا اس دیوار کے پاس جا کھڑی ہو گئی جو عین سمندر کی جانب تھی۔ اماں جی بنچ پر بیٹھی سانس درست کر رہی تھیں۔ لیلی اور شیریں زرقا کے پاس پہنچیں اور دیوار پر سے نیچے جھانک کر ان میں سے ایک نے کہا —— "آؤ آپا سیپیاں اور گھونگھے دیکھیں —— "

مجو مٹھائی کا لفافہ سنبھالے کچھ ہی دور کھڑا تھا۔ اس نے سوچا زرقا ان دونوں سے کچھ ایسی بڑی تو نہیں لیکن پھر بھی وہ ہمیشہ الگ تھلگ رہتی ہے گویا کچھ سوچ رہی ہو۔ ڈار سے بچھڑی ہوئی کونج فضا کی پنہائیوں میں اکیلی غوطہ زن ہو —— یونہی اسے خیال آیا اگر زمانے کے انقلاب نے اسے میری بیوی نہ بنایا اور یہ حبیب میرزا کی دلہن بن گئی تو —— تو شاید یہ کونج پھر کبھی ڈار سے نہ مل سکے گی۔ اس کا ساتھی اس سے دور دور اڑا کرئے گا اور یہ پھڑپھڑاتی، سینہ پھُلاتی، ہانپتی کانپتی اس سے پرے پرے اڑتی رہے گی۔ اڑتی رہے گی اور ایک دن اس کے پر جواب دے جائیں گے اور یہ دھرتی کے کسی بے آب و گیاہ علاقے میں ہمیشہ کے لیئے معدوم ہو جائے گی تنہا —— اکیلی بے یار و مددگار —— ! "

کلفٹن کا رتیلا ساحل کافی لمبا اور چوڑا ہے۔ سمندر بڑی ہو سست رفتاری سے ساحل کے قدم چومنے آتا ہے اور ہلکے سے لمس کے بعد لوٹ جاتا ہے۔ یہاں منوڑا کی مستانہ لہروں کا شور نہیں، یہاں دور دور تک پھیلی ہوئی استرحت کرتی ابرق جیسی ریت ہے۔ اس رتیلے ساحل کنارے کچھ چائے کے سٹال ہیں کچھ بوسیدہ میزیں ہیں، پرے تختوں پر سمندر کے گھونگھے سیپیاں سنکھ اور خوبصورت پتھر بکتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے گھونگھوں کی مالائیں، گجرے ، کان پھول، چھوٹے چھوٹے شیشے کے بکسوں میں جگمگا رہے تھے۔

مجو شیریں اور لیلی کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا —— انسان کس قدر زبردست واقع ہوا ہے۔ جو تحفے سمندر کی لہریں لا کر ساحل کنارے چھوڑ جاتی ہیں، انسان نے ان کی بھی قیمتیں مقرر کر دی ہیں۔

لیلی نے ٹوپس کی ایک سفید جوڑی ہتھیلی پر رکھ کر شیریں سے کہا —— "ہائے یہ بالکل نیا نمونہ بنایا ہے۔ پچھلی دفعہ تو ایسے ٹوپس یہاں نہ تھے۔”

دوکاندار نے ان لڑکیوں کو اپنے مال میں دلچسپی لیتے دیکھا تو سیپیوں کے سارس بطخوں والا ایک بڑا طباق دکھاتے ہوئے بولا —— "بی بی جی —— دیکھئیے محنت کی ہی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتا۔ یہ سارس کا جوڑا دیکھئیے کیا چھوٹی چھوٹی سپیوں سے چونچ بنائی ہے دیکھو تو سہی —— "

"قیمت کیا ہے ؟” مجو نے لیلی اور شیریں کے کندھوں میں سے سر نکال کر پوچھا۔

"پانچ روپے حضور صرف پانچ روپے —– "

"توبہ مجو بھائی فضول چیز ہے بالکل —— چار دن کی شو ہوتی ہے بالکل- پھر تو اتنے بوسیدہ لگتے ہیں یہ بگلے شگلے کہ توبہ —— "لیلی نے کہا۔

لڑکیوں کی پسند بھانپ کر مجو نے سیپیوں کے بنے ہوئے تین جوڑی کان پھول علیحدہ کیئے اور دوکاندار سے قیمت پوچھنے لگا تو زرقا بھی آن پہنچی۔

"یہ ٹاپس کس کے لیئے خریدے جا رہے ہیں ؟ "زرقا نے پوچھا۔

"تم تینوں کے لیئے ! ——"

"ہم دونوں تو خیر لے لیں گی لیکن زکی آپا کے کانوں کی طرف تو دیکھئے "—— شیریں بولی، زرقا نے شرما کر منہ دوسری طرف کر لیا تو مجو کو اُس کے کان میں کچھ چمکتی چیز نظر آئی اور بس۔

"زکی آپا کے کانوں میں جا ٹاپس اس وقت ہیں ایک ایک کی قیمت دس ہزار ہے —— "

"دو ہزار ! توبہ میری "مجو نے کان کو ہاتھ لگا کر کہا۔

"سچ مجو بھائی اباجی نے کویت سے بھیجے تھے۔ —— تین تین ہیرے ایک ایک ٹاپس میں ہیں۔ سچ "شیریں نے تفصیل سمجھائی ——

زرقا نے دوکان سے درو ہٹتے ہوئے کہا —— "توبہ چپ بھی کرو۔ جو لینا ہے لو اور پھر چلیں۔ "

لیلی اور شیریں نے اپنے اپنے ٹاپس کانوں میں ڈال لیئے اور سمندر کی طرف بھاگ گئیں۔ ان کے اڑتے ہوئے برقعے سمندری ہوا میں کالے بادبانوں کی طرح لہرائے۔ سمندر کی ہوا جیسے بچھڑی ہوئی سہیلی کی طرح ان سے ملی اور وہ کشاں کشاں ساحل کی طرف لپکتی گئیں ——

زرقا کے قدم من من کے ہو گئے۔ اسے احساس ہوا پیچھے آنے والے اماں جی اور حبیب میرزا کی نگاہیں اس پر جمی ہوئی ہیں۔ لہو کی گردش تیز ہو گئی اور کانوں کی لوئیں سرخ سرخ ہونے لگیں۔ ایسے ہی لمحوں کی یاد میں اس نے کئی راتیں سٹور میں اکیلے ہی لیٹے لیٹے کاٹ دی تھیں۔ پچھلے خط میں مجو نے ان تینوں بہنوں کو مخاطب کر کے لکھا تھا کہ کیا میں کراچی آؤں؟ تو اس کے جواب میں زرقا صرف ہاں لکھ سکی تھی۔ لیکن اس ہاں میں جیسے یار کو مہماں کرنے کا سارا خلوص اور نیک نیتی پنہاں تھی۔

زرقا جلدی جلدی قدم اٹھانے لگی تو مجو بولا —— "زرقا اتنی جلدی کیا ہے ؟ کون جانے یہ دوپہر، یہ تنہائی کے لمحے کبھی پھر ملیں نہ ملیں —— "

زرقا کی رفتار کسی نے باگ کھینچ کر ڈھیلی کر دی۔

"میرے خط مل جاتے ہیں ناں ؟”

"جی —— "زرقا نے ہولے سے کہا۔

"کیا کروں اماں جی کے ڈر سے جو لکھنا چاہتا ہوں وہ لکھ نہیں سکتا” مجو نے جلدی سے کہا۔

زرقا نے مسکرا کر اس کی جانب دیکھا اور پھر سر جھکا لیا۔

"تیری خاطر مجھے گھر کے تمام افراد کو باری باری خط لکھنا پڑتے ہیں۔ یہ زیادتی ہے۔ میرے وجود پر بھی اور میرے جذبات پر بھی —— "

زرقا خاموشی سے چلتی رہی۔ وہ مجو کی ساری باتیں اپنے لوحِ محفوظ پر کندہ کرتی جا رہی تھی۔

"ذرا وہ ٹاپس مجھے بھی تو دکھاؤ جن کی شیریں اس قدر تعریف کر رہی تھی "مجو نے کہا۔

"وہ تو یونہی —— فضول‌” زرقا کا گلا رندھ گیا اور وہ جملہ ختم نہ کر سکی۔

"تم نہ دکھاؤ، ہم نے دیکھ لیئے ہیں۔ کبھی عورت کی زیبائش بھی چھپی ہے ؟”

زرقا یکدم رک گئی۔ عورت کے متعلق کچھ بھی کہنا اس کے حضور میں بے ادبی کے مترادف تھا۔ مجو نے زرقا کا چہرہ اس لمحے میں کچھ اس طرح دیکھا کہ یہ چہرہ ہمیشہ کے لیئے اس کے ذہن میں جاگزیں ہو گیا۔ ہلکی ہلکی لپ سٹک، خشک بال جو ڈھیلے ڈھیلے چوٹی میں سے نکل کر گردن پر پڑے تھے ، موٹی موٹی آنکھیں رونے کے بعد پانی کا چھینٹا لگانے سے سوج گئی ہوں۔

اور گردن کے آس پاس پھیلے ہوئے بالوں میں وہ چمکتے سے جگنو ——

ان جگنوں کو زرقا کے کانوں سے چمٹا دیکھ کر مجو کا جی چاہا کہ انہیں اپنی ہتھیلی میں یوں بھینچے کہ وہ اس کے گوشت میں اتر جائیں اور پھر لہو میں زرقا کے جسم کی حدت بن کر گردش کرنے لگیں۔

"زرقا —— !”

"جی ! —— "

"زرقا ایک چیز مانگوں، دو گی ؟”

"کہیئے ؟ "گھبرا کر زرقا نے اس کی طرف دیکھا اور پھر منہ موڑ کر اماں کی طرف نظر کی۔ ککو اور رانی اماں کو لیئے گھونگھے والے کی دوکان پر کھڑی تھیں اور حبیب میرزا دوکاندار سے کچھ مول تول کر رہے تھے۔

"زرقا مجھے اپنے کانوں کے ٹاپس دے دو —— "

"دونوں ؟ ——” حیرت سے زرقا نے پوچھا۔

"چلو ایک ہی سہی —— "

"آپ کو کیوں چاہیے —— ؟” زرقا نے سوال کیا۔

"میں تمہاری نشانی رکھوں گا —— "

زرقا کچھ پشیمان سے ہو کر بولی —— "مجو جی —— یہ تو بڑے مہنگے ہیں۔ اماں پہننے ہی نہیں دیتیں۔ وہ تو میں نے آج زبردستی پہن لیے ہیں "

مجو نے ہنس کر کہا —— "تحفہ اور نشانی ہمیشہ مہنگی ہونی چاہئیے زکی۔ اس طرح اس کی وقعت دونی ہو جاتی ہے۔ کچھ تو چیز کی قیمت کے باعث اور کچھ دلی لگاؤ کی خاطر "

"آپ —— آپ میرا رومال لے لیجیئے —— "اس نے ریشمی رومال ڈرتے ڈرتے اس کی طرف بڑھانے کی کوشش کی۔

مجو نے رومال لیا، ناک کو لگایا، اس میں سے تیز خوشبو آ رہی تھی۔

رومال لوٹاتے ہوئے مجو بولا —— "یہ رومال تمہارا نہیں ہے۔ اس میں سے کسی بدیشی سینٹ کو خوشبو آتی ہے۔ "پھر اس نے ذرا رک کر کہا "ٹاپس دے دیتیں تو میں اس کا ٹائی پِن بنوا کر پہنتا —— اور تمہیں دعائیں دیتا اور اگر کبھی پیسے کی کمی آ جاتی تو اس کے دس ہزار وصول کر لیتا —— "

"ہائے اللہ کیسی باتیں کرتے ہیں آپ "زرقا روہانسی ہو کر بولی۔

مجو نے اونچا سا قہقہہ لگایا اور زور سے لیلی کو آواز دی —— "لیلی لیلی ٹھرو بھئی میں بھی آ رہا ہوں —— زکی بیگم تمہاری مجبوری ہے ورنہ جو چیز مجھے اچھی لگتی ہے وہ میں یوں اُڑا لیا کرتا ہوں” اس نے چٹکی بجا کر زرقا کو دکھائی اور پھر ساحل کنارے مٹھائی کا لفافہ رکھ کر پتلون کے پائنچے اونچے کرنے لگا۔

سمندر سویا ہوا تھا۔ لہریں اس طرح آ کر ساحل کو چھوتیں جیسے کوئی بچہ ٹب میں ہاتھ ڈال کر لہریں پیدا کر رہا ہو۔ دھوپ کڑی تھی اور اگر ہوا نہ چلتی تو ساحل کنارے کافی گرمی ہوتی۔ ابرق ‌جیسی چمکتی ریت دور دور تک جگمگا رہی تھی۔ جب پانی کی لہر سمندر جانب بڑھتی تو یہ چاندی ملی ریت بھی بل کھاتی آتی اور پھر ساحل پر آ کر کسی تھکے ہوئے بچے کی طرح سو جاتی۔

لیلی اور شیریں پہلے سے شلواریں اڑسے ٹخنے ٹخنے پانی میں کھڑی تھیں۔ مجو کو اپنی طرف آتے دیکھ کر شیریں بولی —— "لڑائی ہو گئی "

"چپ کر شیطان مجو بھائی آ رہے ہیں "لیلی نے کہنی کا ٹھوکا دے کر کہا۔

مجو نے ان دونوں کے نزدیک پہنچ کر ایک بار پلٹ کر دیکھا۔ زرقا ساحل کنارے بالکل تنہا کھڑی تھی۔ اس کا سیاہ چوڑیوں بھرا ایک بازو برقعے سے باہر تھا۔ سمندری ہوا میں دھاری دار قمیص اور برقعے کا نقاب اڑ رہا تھا۔ مجو کو لگا کہ وہ کہیں پردیس چلا ہے اور زرقا اسے الوداع کہنے آئی ہے۔ لیکن الوداع کے لیئے اٹھنے والا بازو اٹھ نہیں سکا اور بے جان ہو کر گر گیا ہے۔

"آئیے مجو بھائی چلیں —— "

مجو لیلی کی جانب آ کر کھڑا ہو گیا۔

"میں تو آگے نہیں جاؤں گی، یہیں ٹھیک ہے۔ —— "لیلی بولی۔

"یہ بہت ڈرتی ہے مجو بھائی قسم سے —— "شیریں نے کہا۔

"ڈر کاہے کا ؟” —— مجو نے پوچھا —— "جو لہر سمندر میں لے جاتی ہے وہ واپس بھی لاتی ہے۔ سمندر دھرتی کی امانت ہمیشہ واپس کر دیتا ہے لیلی —— "

ہائے اللہ یہ زرقا آپا کیوں باہر کھڑی ہیں ؟” شیریں نے کہا۔

پھر اپنی زبان میں اس نے لیلی سے بات کی —— "میں انہیں لیکر آتی ہوں تم چلو —— "

مجو نے لیلی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ قدم قدم پر اس کا رنگ پھیکا پڑ جاتا اور وہ مجو سے کہتی —— "بس مجو بھائی اس بار میں لہر کے ساتھ ہی واپس جاؤں گی —— "

"تُو تو بالکل چوہیا ہے لیلی۔ میں نے تیرا ہاتھ جو پکڑ رکھا ہے "

"قسم سے مجو بھائی اب تو پانی گھٹنے گھٹنے آ گیا ہے بھئی اب بس —– "

"ذرا سا اور چل پگلی —— یہ ڈرنے کا احساس بڑا صحت مند ہوتا ہے۔ بس ذرا سا اور —— "

جب لیلی اور مجو پانی کی لہروں میں ہٹکورے کھاتے واپس آئے تو شیریں اور زرقا ٹخنے ٹخنے پانی میں کھڑی تھیں۔ لیلی کا چہرہ خوف سے گھبرایا ہوا تھا اور اس کی شلوار گھٹنے گھٹنے تک ریت اور پانی میں لت پت تھی۔ ساحل کے کنارے ککو اور رانی جوتیاں اتار رہی تھیں اور اماں جی ایک کرسی پر بیٹھی سستا رہی تھیں۔ حبیب میرزا کا کچھ پتہ نہ تھا۔ وہ شاید چائے کا انتظام کرنے چلا گیا تھا۔

"توبہ زرقا آپا —— اتنا زور کا پانی آتا ہے توبہ —— "لیلی چلائی۔

شیریں پانی میں اُچھل کر بولی —— "مجو بھائی دیکھیئے مچھلی —— مچھلی وہ گئی —— "

مجو نے مڑ کر دیکھا تو ایک لہر کے ساتھ ساتھ چند ایک گھونگھے اور ایک چاندی جیسی انگلی بھر مچھلی بہتی چلی آ رہی تھی۔ مجو اس مچھلی کے پیچھے پیچھے ساحل کی طرف چل دیا۔ مچھلی نیم مردہ ہو رہی تھی۔ جب لہر اسے ساحل کی وراثت بنا کر چھوڑ چلی تو اس نے اسے اٹھا کر ہتھیلی پر رکھ لیا۔ اور وہ اسے مٹھی میں دبائے زرقا کی طرف چلنے لگا۔ مچھلی اس کی بند ہتھیلی میں گدگدیاں سی کر رہی تھی۔ لڑکیوں کے قریب پہنچ کر اس نے مچھلی کو زرقا پر اچھال دیا اور وہ پانی میں گرتے گرتے بچی۔

"ہائے مجو —— "وہ گلابی ہو کر بولی۔

"خوب مجو بھائی خوب "شیریں نے تالی بجا کر کہا۔

"آؤ شیریں پانی میں چلیں —— "زرقا نے آہستہ سے کہا۔

"لیلی نے کانوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا —— "مجھے تو کوئی ایک لاکھ روپے دے تو بھی مجو بھائی کے ساتھ نہ جاؤں۔ توبہ یہ منجدھار میں ہاتھ چھوڑنے والے ہیں۔ "

زرقا نے چور نگاہوں سے مجو کی طرف دیکھا۔

"سچ آپا —— وہاں لے جا کر مجھے کہنے لگے جاؤ لیلی میں آ جاؤں گا تھوڑی دیر بعد —— توبہ میرا کلیجہ اچھل کر حلق میں آ گیا آپا —— سچ !”

حبیب میرزا کہیں سے سوڈے کی بوتلیں کھلوا کر لے آئے تھے اور ہاتھ کے اشارے سے انہیں بلا رہے تھے۔ ککو اور رانی نے اپنی اپنی بوتلیں سنبھالیں اور بھاگتی ہوئی پانی میں آ گئیں۔

رانی نے بڑی معصومیت سے پوچھا —— "آپا ہمیں بھی دکھاؤ مچھلی —— کیسی مچھلی تھی مجو بھائی "مجو نے ہنس کر زکی کی طرف اشارہ کیا اور قدرے توقف سے بولا —— "تمہاری آپا نے دوپٹہ میں چھپا رکھی ہے یہ بڑی مچھلی ہے۔”

شیریں نے ککو کو کندھے سے پکڑ کر کہا۔ "اسی لیئے موتیوں والی فراک پہن کر آئی ہے کہ ریت میں اس کا ناس مارے ؟”

ککو نے نظریں سوڈے کی بوتل پر جما کر بڑی سماجت سے کہا —- "آپا سچ میں گہرے پانی میں نہیں جاؤں گی۔ بھیگ گئی تو میرا ذمہ۔”

"ارے تم کہاں چلیں بڑی بی —– "شیریں نے لیلی کو ساحل کی طرف جاتے دیکھ کر پوچھا۔

"جناب مجھے تو معاف کیجئے میں تو آرام سے سوڈا پیوں گی۔ حبیب بھائی بلا رہے ہیں کب سے "

بڑی شوخی سے مجو نے سوال کیا —— "اور ہمارے ساتھ نہیں چلو گی پانیوں میں —— "

"آپ زکی آپا کا حوصلہ بندھائیں، بھئی ان کا چوہے ایسا دل ہے بلی کو دیکھ کر رونے لگتی ہیں۔ ہم تو اب گیلی ریت کا گھروندا بنائیں گے۔”

لیلی ہاتھوں سے پائنچے اٹھائے اماں جی کی طرف چلی گئی۔ زرقا اور شیریں ہاتھ پکڑے کھڑی تھیں۔ مجو ککو اور رانی کے ساتھ مل کر مچھلیاں ڈھونڈنے میں مشغول ہو گیا۔ ہر بار جب لہر ساحل تک آتی اور چھوٹے چھوٹے گھونگھے سپیاں اور ننھی منی چاندی جیسی مچھلیاں اپنی جلو میں لاتی تو تینوں اس کے پیچھے بھاگتے۔ کہ مشغلہ کتنی ہی دیر جاری رہا۔ زرقا اور شیریں پانی میں کھڑے کھڑے سوڈا پی چکیں تو شیریں نے ساحل کی طرف آواز دی "حبیب بھائی آپ نمک ہیں کیا؟”

حبیب نے ہنس کر پوچھا —— "میں سمجھا نہیں تمہاری بات شیریں۔؟”

"پانی میں اگر آپ کے گھل جانے کا امکان نہ ہوتا تو آپ بھی آتے —— "

حبیب نے بڑی حریص نظروں سے زرقا کے ننگے ٹخنوں کو دیکھا اور پھر پتہ نہیں کیا مصلحت جان کر چلایا —— "بھئی تم ہو آؤ، میں اماں جی کے پاس بیٹھا ہوں۔”

اماں جی نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر شفقت بھرے لہجے میں بولیں، "تم بھی کھیل کود آؤ۔”

"آپ چلتیں تو میں بھی چلتا —— "

"بھئی میں تو پیروں کی وجہ سے معذور ہوں۔ ادھر پانی میں اُتری، ادھر ان میں درد اٹھا "

حبیب نے پایاب پانی میں کھڑی زرقا کو کنکھیوں سے دیکھا اور لمبی سانس بھر کر بولا —— "مجھے بھی کوئی ایسا شوق نہیں ! "

ککو اور رانی تو ساحل کنارے تھوڑے پانیوں میں کھیلتی رہیں لیکن شیریں، زرقا اور مجو گہرے پانیوں کی طرف چلے۔ شیریں درمیان تھی۔ ایک جانب مجو نے اس کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور دوسری جانب زکی نے۔ جب یہ گہرے پانیوں کی طرف چلے تو مجو نے ایک بار زرقا کا ہاتھ پکڑنے کی ہلکی سی کوشش کی تھی۔ لیکن زرقا کو یوں لگا جیسے اماں جی سوڈے کی بوتل کے اوپر سے سیدھی اس کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ وہ جلدی سے ہٹ کر شیریں کی طرف ہو گئی۔

جب وہ تینوں واپس لوٹے تو رانی اور ککو نے پھر چلا کر مچھلیوں کی آمد کا مژدہ سنایا۔ زرقا ہولے سے بڑبڑائی —— "ہائے چھوڑیئے بھی مچھلیاں —— مچھلیاں کوئی تُک بھی ہے ——"

وہ تینوں پایاب پانی میں کھڑے تھے۔ ابرق جیسی چمکتی ریت ساحل کی طرف بڑھنے والی ریت میں بل کھاتی پارے کی طرح جگمگاتی بڑھتی جا رہی تھی۔ یکدم کسی بہت ہی چمک دار چیز نے عین زرقا کے پیروں تلے شکل دکھائی اور پھر بل کھاتی ساحل کی طرف چلی۔

"کیسی چمکدار مچھلی ہے —— میں تو اسے ضرور پکڑوں گا۔”

مجو نے اس چمک دار مچھلی کت تعاقب میں بڑھتے ہوئے کہا۔

لیکن شیریں نے پتنگ کی ڈور سمجھ کر جیسے اس کا ہاتھ کھنچا اور بولی —— "واقعی آپ تو بچہ ہیں مجو بھائی، مچھلی پکڑنے سے کیا ہوتا ہے ؟ —— "

"ہوتا ہے کچھ —— جب مچھلی ہتھیلی میں گدگدی کرتی ہے تو عجب اضطراب سا ہوتا ہے —— "

مجو بولا۔

"بس اس بار تو میری اور آپا کی خاطر نہ پکڑیئے —— "

"بہت اچھا سرکار ہم تو حکم کے غلام ہیں !”

چمکدار مچھلی ساحل تک گئی، وہاں چند لمحے رُکی، پھر پلٹنے والی لہر میں بل کھاتی لہراتی خدا جانے کہاں غائب ہو گئی۔

زرقا نے ساحل کی طرف جاتے ہوئے سر پر دوپٹہ کر لیا اور آہستہ سے بولی —— "توبہ ہوا بھی یہاں کتنی ہے ، دوپٹہ سر پر تو ٹکتا ہی نہیں۔ ذرا اپنے بالوں کی پِن دینا شیریں میں ذرا دوپٹہ ٹکا لوں —— "

زرقا سر پر پِن کے ساتھ دوپٹہ اٹکاتی واپس ساحل کی طرف جا رہی تھی اور اس کا بائیں کان کا ننھا سا ٹاپس ابرق جیسی ریت میں بل کھاتا لہراتا آزادی کے گیت گاتا سمندر کی طرف بڑھ رہا تھا۔

دور دور تک سمندر محو رقص تھا۔ اُسے معلوم نہ تھا کہ اس اکیلے ٹاپس کی قیمت دس ہزار ہے۔

سمندر کے ناچ کو نہ طبلے کی تھاپ کی ضرورت تھی نہ سازوں کی ہم آہنگی کی۔ اس کے اپنے سینے کو چیرتا، دھڑکتا، لہکتا ایک ایسا نغمہ موجزن تھا جس کے زیر و بم پر کسی مشتاق رقاصہ کی طرح وہ ہولے ہولے قدم بڑھاتا ننھی ننھی ٹھوکریں مارتا تھیا تھیا کرتا وہ ساحل کی طرف بڑھتا۔ پھر بڑے نامعلوم انداز میں اس کی چال تبدیل ہو جاتی۔ ننھی ننھی ٹھوکریں بھرپور ادائیگی سے بوجھل ہو جاتیں اور وہ ہاتھ بڑھا بڑھا کر بڑی گھن گرج کے ساتھ ترشول کھینچ کر شو شمبھو شو شمبھو کرتا مٹیالی اور سنہری ریت کو اپنی جلو میں لپیٹتا ساحل تک پہنچتا۔ اُس کے پلو میں گھونگھے ، سیپیاں، ننھی ننھی مچھلیاں بندھی ہوتیں۔ پھر ان تحفوں سمیت وہ ساحل کی دیوی کے سامنے آرتی اتارنے کے لیئے آ کھڑا ہوتا تو اس کا طمطراق، ساری اکڑ اور اشانتی بِنتی میں بدل جاتی۔ وہ ہاتھ جھکا کر گھٹنوں کے بل ساحل کی دیوی کے سامنے سرنگوں ہو جاتا۔ پلے سے بندھے ہوئے گھونگھے ، سیپیاں اور ننھی ننھی چمکدار مچھلیاں ریت پر بکھر جاتیں اور وہ سر نیہوڑائے تر آنکھیں لیے چھوٹے چھوٹے قدم دھرتا یوں لوٹ جاتا جیسے اس نے ساحل کی دیوی کے قدم چوم کر اس کا اپمان کیا ہو۔ —— یہ رقص روز ازل سے جاری تھا۔ روز ازل سے ساحل کی دیوی ویسے ہی بیٹھی تھی۔ وہ نہ تو بے نیاز ہو کر لوٹ رہی تھی اور نہ ہی اس نے بازو پھیلا کر کبھی سمندر کو گلے لگایا تھا۔

سمندر کے پھیلائے ہوئے گھونگھے سیپیاں اور ننھی ننھی چمکدار مچھلیاں ساحل کی دیوی کے قدموں میں دھری تھیں —— لیکن ایک تحفہ سمندر بھی ساحل کی دیوی سے چرا کر لے گیا تھا۔ اُس کی لہروں میں ابرق جیسی ریت میں چمکتا بل کھاتا لہراتا آزادی کے گیت گاتا ایک ٹاپس ان گہرائیوں کی طرف بڑھ رہا تھا جہاں کی اتھاہ کو خود سمندر نہ جانتا تھا۔

لیلی نے گیلی ریت میں سے اپنے دونوں پاؤں نکالے۔ دو کھلے دروازوں والا سیلہ گھروندہ بھدی ناک کی طرح ٹکر ٹکر جھانکنے لگا۔ کچھ ہی دور بے روغن کی میز کرسی پر اس کی بہنیں بیٹھی تھیں، چائے کا دور چل رہا تھا۔ مٹھائی کے وہ لفافے جو حبیب میرزا صبح لایا تھا اب خالی ہو کر ریت پر پڑے تھے۔ مجو بھائی نے جیب میں سے تاش نکال لیا تھا اور وہ اسے پھینٹ پھینٹ کر چابکدستی سے پتہ غائب کر رہے تھے۔ کبھی وہ رانی سے پتہ نکلواتے ، کبھی اماں جی سے ، کبھی حبیب میرزا سے —— شیریں ککو اور لیلی ہر بار بے ایمانی وے دو دو پتے نکالتی تھیں۔ اس لیئے اب وہ ان طرف نہ بڑھتے تھے۔ ہاں جب کبھی وہ زرقا کی طرف جاتے تو جیسے تاش کی بجائے ان کے ہاتھوں میں ان کا دل ہوتا اور وہ زکی کے سامنے اسے پیش کر کہتے "زکی کوئی پتہ نکال لو —— ساری تاش تمہاری ہے ! "

زکی بڑی آہستگی سے بغیر مجو کے ہاتھ کو چھوئے ایک پتہ نکالتی اور میز پر رکھ دیتی —— پھر لمحہ بھر کو کھیل رک جاتا۔ مجو تاش پھینٹتا، پتے الٹ پلٹ کر دیکھتا۔ اور جب وہ زکی کا پتہ بتانے کے لیئے اس کے کان میں سرگوشی کرتا تو وہ پتے کی بات ہی نہ ہوتی۔ —-

ہر بار جب مجو زکی کے کان میں پتہ بتانے کے لیئے جھکتا تو لیلی اپنے گھروندے کی طرف دیکھتی اور پھر اسے لات مار کر توڑ دیتی ——

ابھی کل تک وہ بالکل بچی تھی۔ اس نے دو چوٹیاں کر لی تھیں، لمبے کرتے اور کھلے پائینچوں کی شلوار پہن لی تھی۔ فسٹ ایئر میں پڑھتی تھی، لیکن اس کی ذہنی عمر ککو اور رانی جتنی ہی تھی۔ آج وہ سمندر کے گہرے پانیوں سے اپنے وجود کا احساس اور عجب قسم کی تنہائی کا روگ سمیٹ کر واپس آ گئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ہفتے کی شام اور اتوار کی شام میں کل چوبیس گھنٹے کا فرق ہے لیکن ابھی چوبیس گھنٹے پہلے میں کتنی خوش تھی۔ مجھے اپنے کپڑوں سے عشق تھا، مجھے اپنی پروفیسروں سے محبت تھی —- مجھے زندگی کی ہر گھڑی ہر لمحہ عزیز تھا۔ اور آج کُل چوبیس گھنٹے بعد زندگی نے جیسے چولا بدل کر خاکستری روپ دھار لیا تھا۔ اس میں نہ کوئی خوشی نہ کوئی غم تھا۔ ایک سوگوار خالی خولی کیفیت تھی اور بس۔

اس روگ کی وجہ کچھ مجو بھائی نہ تھے —— یا شاید وہ یہی سمجھتی تھی۔ یہ روگ تو اس آگاہی سے پیدا ہوا تھا کہ اب زندگی پہلے سی نہیں رہی۔ اب راتوں کو خواہ مخواہ نیند کھل جائے گی اور اُسے احساس ہو گا کہ اس کا دل سمندر کی مانند ہے۔ اس میں چاروں طرف سر مارنے والی لہریں ہیں لیکن کسی میں بھی اتنی سکت نہیں کہ وہ آسمان پر چمکنے والے چودھویں کے چاند کو چھو سکے۔ اسے آج پہلی بار زکی آپا پر رشک آ رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی کی اگر انسان کسی کے مضبوط اور گرم ہاتھ میں ہاتھ ڈالے سمندر میں اُتر بھی جائے تو بھلا خوف کیسا ؟ اس طرح اترتے اترتے لوگ سیپیوں میں بند ہو کر سمندر کی تہہ میں جا اترتے ہوں گے اور پھر ؟

پتہ نہیں مجو بھائی کے ہاتھ کا گرم لمس اس کی آگاہی کا باعث ہوا یا کسی نہ کسی دن انسان کو جاگنا ہو ہوتا ہے۔

ایک بار پھر زکی کے کان میں جھک کر مجو نے اس کا پتہ بتایا۔

اور ایک بار پھر لیلی نے سیلی مٹی کے گھروندے پر لات مار دی۔

دور سے کوئی بیسویں مرتبہ شیریں نے چلا کر کہا —— "اب آ جاؤ لیلی یہاں بڑا مزہ ہو رہا ہے —— "اور اس کے اندر خوشی کے خلاف احتجاج کرنے والی ضد نے پکارا —— "تم مزے کرو —— میں بہت خوش ہوں —— "

پھر حبیب میرزا اٹھ کر لیلی کے پاس آ گئے۔ وہ اس گھر کے ملاح تھے۔ جب کسی کشتی کو الگ تھلگ دیکھ پاتے تو جھٹ وارد ہو جاتے۔ اب بھی آ کر انہوں نے پوچھا —– "کیوں لیلی چلتی کیوں نہیں؟”

"مجھے ریت کے گھروندے بڑے اچھے لگتے ہیں حبیب بھائی”

حبیب ہنس کر بولے —— "خیر اگلی اتوار پھر سہی، وہاں پکچر کا پروگرام بن رہا ہے ، سب تمہاری راہ دیکھ رہے ہیں — "

لیلی نے اٹھ کر کپڑے جھاڑے اور سیلی مٹی میں اپنے پیروں کے نشانات پر نظر جمائی —- جگانے والا ہاتھ چاہے کسی کا ہو، ہوتا گرم ہے۔

اس کے جی نے آہستہ سے کہا یہاں سے آج ریت کے گھروندے بنانے کا کھیل ختم ہوا —— گھروندا ایسی چیز نہیں جسے انسان اکیلا بنا سکے۔ اور جو گھروندے اکیلے بنتے ہیں وہ ہمیشہ کمزور ہوتے ہیں !

زرقا کے کمرے میں سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی پوری کھلی تھی اور گلناری پردے ہوا میں لہرا رہے تھے۔ اندر بلب روشن تھا اور کھڑکی میں سے روشنی کا تختہ اتر کر اندھیری رات میں سوئی ہوئی سڑک پر اجالا کر رہا تھا۔ لیلی کا پلنگ کھڑکی کی ایک جانب اور زرقا کا پلنگ دوسری جانب تھا۔ اماں جی کے کمرے میں کھلنے والے دروازے کے ساتھ عین الماری کے ساتھ شیریں کی چھوٹی سی چارپائی بچھی تھی۔ ڈرائینگ روم میں کھلنے والے دروازے کے پاس تینوں بہنوں کے ٹرنک اوپر تلے رکھے تھے اور ان پر سفید غلاف بڑے قرینے سے بچھے تھے۔

سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی کے سامنے وہ چھوٹی میز بھی پڑی تھی جس پر لیلی اور شیریں اپنی کتابیں رکھتی تھیں۔ اور جس پر کہنی ٹکا کر زرقا اس وقت سڑک کو دیکھا کرتی تھی جب مجو کے آنے کا وقت ہوتا۔ لیلی اپنے پلنگ پر بیٹھی سلیپروں میں سے ریت جھاڑتی ہوئی بولی —— "مجھے تو ایسی فلمیں اچھی لگتی ہیں بس۔ "

زرقا اپنے پلنگ پر ان کی طرف پشت کیئے بیٹھی تھی اور اور رات کی قمیص پہن رہی تھی۔ گلے میں سر ڈالتے ہی اس نے چمک کر لیلی کی طرف دیکھا اور ڈانٹتے ہوئے کہا —— "ایسی فلمیں اچھی لگتی ہیں عریاں، فحش !” شیریں نے ان کی باتوں میں ذرا بھی دلچسپی نہ لی اور شیشے میں منہ دیکھ دیکھ کر کریم ملتی رہی۔

"آپا —— بھلا آپ عریانی کسے کہتی ہیں ؟ "لیلی نے پوچھا۔

"تو کیا عریانی صرف جسم کی ہوتی ہے ؟ جذبات کی عریانی بھی اتنی ہی شرمناک ہوتی ہے لیلی۔ "

لیلی نے اپنی چوٹیاں کھولتے ہوئے کہا —— "آپا؟ زکی آپا۔ میں پوچھتی ہوں آخر کیا بات تھی ان جذبات میں ؟”

"کم از کم یہ امریکن فلمیں بہت فحش ہوتی ہیں۔”

"آپا —— تو آپ کو وہ فلمیں اچھی لگتی ہیں جن میں تین تین منٹ ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گانے گائے جاتے ہیں۔ پہروں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگا جاتا ہے۔ اور پھر بھی ہیرو ہیروئن ایک دوسرے کے قریب آ کر یون بریک لگاتے ہیں گویا ایک دوسرے کو چھونے کی خاطر انہوں نے تعاقب کیا ہی نہ تھا، جیسے چھونا گناہ ہو ؟”

"گناہ نہیں تو اور کیا ثواب ہے ؟” زرقا لیلی کی دیدہ دلیری پر حیران ہو کر بولی۔

"ہائے بند کرو یہ بحث توبہ —— سینما گھر سے آپ دونوں چھڑی ہوئی ہیں۔” انگلیوں سے رخساروں کی مالش کرتے ہوئے شیریں نے کہا۔

لیلی نے اس کی پرواہ نہ کی۔ آج ہی تو اس نے زندگی کا اتنا بڑا راز پایا تھا۔ آج ہی تو پہلی بار اس پر آگہی کا دروازہ کھلا تھا۔ اس نے بڑے رعب سے کہا۔ "آپا، آپا میں تمہیں کیسے سمجھاؤں؟ مجھے سمجھانا نہیں آتا۔ لیکن جو کچھ میں سمجھتی ہوں آپا وہ۔۔۔۔۔۔ وہ یہ ہے کہ کئی لمس ایسے ہوتے ہیں جو بڑے پاک ہوتے ہیں، بیحد اور کبوتر کی طرح گرم ہوتے ہیں۔”

"اور اس فلم میں جو چوما چاٹی تھی وہ بھی طیب تھی کیا۔” زرقا نے سرہانے پر سر رکھتے ہوئے پوچھا۔

"خدارا بتی بجھاؤ، یہ کیا بک بک جھک جھک ہے۔” شیریں لیٹتے ہوئے بولی۔

لیکن لیلی پلنگ پر بیٹھی رہی۔ اسے آپا کی ذہنیت پر ترس آ رہا تھا۔

"آپا یہ ان کا کلچر ہے۔”

"کلچر کی آڑ لے کر ان کی محبت روحانیت سے خالی ہو چکی ہے۔ "زرقا نے جوش میں آ کر کہا۔

"محبت کبھی روحانیت سے تہی نہیں ہوتی آپا چاہے کچھ بھی ہو ——"

زرقا کہنی ٹکا کر بیٹھ گئی اور بولی —— "لیلی تم ابھی فسٹ ایئر میں ہو، تمہیں ان باتوں کی سوجھ بوجھ نہیں۔ میں جانتی ہوں کہ روحانیت صرف مشرق کے ورثے میں آئی ہے۔ صرف مشرق کی محبت پاک ہے۔”

"آپا تم تیاگ کی باتیں کر رہی ہو۔ مشرق کی محبت تیاگ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں "آج خدا جانے لیلی کو یہ باتیں کیسے سوجھ رہی تھیں۔ ابھی کل تک وہ تیاگ جیسے لفظ کا استعمال تک نہ جانتی تھی۔

"یعنی تم تیاگ کا تمسخر اڑا رہی ہو اپنے بھانویں۔” زرقا بھی لیلی کو باتوں پر حیران ہو رہی تھی۔

لیلی جھلا کر بولی —— "تیاگ کا تمسخر کون اڑا رہا ہے آپا؟ لیکن آپ محبت کی مادی برکتوں سے کیوں منکر ہیں؟”

زرقا لیلی کی بحث سے تنگ آ چکی تھی۔ اس نے آنکھیں موند لیں اور سوچا۔ لیلی بھلا اس محبت کو کیسے سمجھ سکتی ہے جو ہمیشہ سلگتی ہے ، سلگتی ہے اور سلگتی ہی چلی جاتی ہے۔ ایسی محبت جس کا دوسرا نام انتظار ہے۔ ایسی محبت جو ایک طرف سہمی ہوئی اس لیئے کھڑی رہتی ہے کہ کہیں ملوث ہاتھ اس کی روحانیت کو تباہ نہ کر دے —— وہ محبت جو وصل سے اس لیئے ڈرتی ہے کہ اس کی تپسیا کا رنگ بھنگ نہ ہو جائے —— بھلا جب لیلی یہ باتیں ہی نہیں سمجھتی، جب لیلی نے پانچ سال اس آگ میں سلگ کر ہی نہیں دیکھا تو وہ میرا نقطہ نظر کیا خاک سمجھے گی۔

لیلی نے بند آنکھوں والی اپنی بڑی بہن کی جانب دیکھا۔ وہ کتنی خوبصورت لگ رہی تھی۔ گلناری پردوں کی سُرخی مائل حدت اس کی جلد پر آتشیں غبار پھیلا رہی تھی۔ آنکھوں کے پپوٹے رخساروں کے ساتھ چمٹے ہوئے تھے۔ گردن کی سفید صراحی میں ایک رگ پھڑک رہی تھی۔ کسی بلوریں مینا میں شہد کی دھار اتر رہی تھی۔ لیلی کا جی چاہا کہ اپنی بہن کے اس شہد آگیں گلے پر اپنے لب رکھ دے اور پھر اتنا روئے اتنا روئے کہ اس کی ساری تنہائی ساری اداسی ان آنسوؤں میں بہہ جائے۔ وہ اپنے پلنگ پر سے آہستہ سے اٹھی۔

شیریں نے چڑ کر ان کی طرف سے پشت کر لی اور چلا کر کہا —— "ہائے توبہ بند کر دو بتی۔ خدا قسم تم لوگوں کو تو کسی اور کا دھیان ہی نہیں۔”

لیکن جب اس نے دیکھا کہ اس کی بڑی بہنوں پر کچھ اثر نہیں ہوتا تو اس نے آنکھیں بند کر لیں —— اور پھر تھوڑی دیر بعد سو گئی۔ لیلی آہستہ سے اٹھ کر زرقا کے پلنگ پر جا بیٹھی تو گھبرا کر اس نے آنکھیں کھول دیں۔

"بس اب سو جاؤ لیلی میں بہت تھک گئی ہوں۔”

لیلی زرقا کے دائیں بائیں ہاتھ رکھ کر اس پر جھک گئی اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی —— "آپا ایک بات کہوں؟”

"کہو ! —— "گھبرا کر زرقا نے نگاہیں جھکا لیں۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا تھا۔

"آپا کبھی کبھی تو تم مجھے اتنی پیاری لگتی ہو کہ میرا جی چاہتا ہے تمہیں چوم لوں۔ —- "

زرقا معصومیت سے ہنس پڑی۔

"آپا —— بُرا تو نہ مانو گی ؟”

"کہو ناں ؟”

"آپا —— تم مجھے اتنی پیاری لگتی ہو تو کیا مجو بھائی کا جی نہ چاہتا ہو گا کہ۔۔۔۔۔۔ "

زرقا اُٹھ کر بیٹھ گئی۔ دوستی کا لمحہ دونوں کے قریب آیا اور پھر لوٹ گیا۔

"تم نے ایسی بات کیا سوچ کر کہی لیلی —— "

"آپا —— مجو بھائی انسان ہیں آپ انہیں دیوتا کیوں سمجھتی ہیں؟”

زرقا اپنا تکیہ اور چادر اٹھاتے ہوئے بولی۔ "میں ایک لمحہ اور اس کمرے میں نہ گزاروں گی۔ تم نے مجو کو کیا سمجھا ہے ؟”

"اگر مجو دیوتا نہ ہوتا تو کیا میں اس سے محبت کرتی ؟ —— آج مجو کو جانتے مجھے پانچ سال ہو گئے ہیں لیکن اس نے کبھی ایسی کوئی حرکت نہیں کی جو میرے لیئے کسی قسم کی پریشانی کا باعث بنتی۔ اگر۔۔۔۔۔۔ اگر۔۔۔۔۔۔ "

لیلی اپنے پلنگ پر واپس چلی گئی اور اپنے آپ سے بولی —— "آپا تم میری بات نہ سمجھنے پر تلی ہو۔”

زرقا نے تکیہ اور چادر اٹھا کر دروازے کا رخ کیا اور دروازے کے قریب رک کر بولی —— "بہنوں کو آپس میں چاہے کتنی بھی محبت کیوں نہ ہو، کتنی بھی بے تکلفی کیوں نہ ہو، پھر بھی لیلی ایک قسم کا حجاب لازمی ہے۔”

"کہاں چلی ہو آپا؟”

"سٹور میں سوؤں گی میں آج سے ” زرقا بولی۔

"یہیں سو جاؤ آپا میں اب نہ بولوں گی۔ مجھے معاف کر دو۔”

لیکن جب زرقا چلی گئی اور لیلی نے کمرے کی بتی بجھا دی تو بستر کا رُخ کرنے کی بجائے وہ کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی اور سڑک پر اترنے والے روشنی کے اس تختے کو دیکھنے لگی جس میں دو چوٹیوں والی ایک لڑکی کا سایہ پڑ رہا تھا۔

—— اس سائے نے لمبا سا سانس لے کر کہا —— "ابھی کل میں کتنی خوش تھی ! —— ابھی کل تک مجھے معلوم نہ تھا کہ کسی کا گرم ہاتھ جب پانیوں میں لے جاتا ہے تو پانی سے خوف نہیں آتا۔ لیکن کئی اور خوف جاگ اٹھتے ہیں۔

رات بہت جا چکی تھی۔ سارا گھر خاموشی میں لپٹا ہوا تھا۔

مجو جب بھی اپنی خالہ کے ہاں آتا تو ڈرائنگ روم کے دیوان پر بستر بچھا کر سوتا تھا۔ لیکن آج اسے نیند نہ آ رہی تھی۔ ڈبہ بھر سگرٹیں پینے کے بعد گلے میں جلن ہونے لگی تھی اور سینے میں سے دھونکنی کی سی آواز آتی تھی۔ اس گھر کے در و دیوار سے زرقا کی بو باس آ رہی تھی۔ اور اس بو باس میں عجب حلاوت تھی، ایسی حلاوت جو دھونسے ہوئے گلے کے لیئے امرت رس کا کام دیتی تھی۔

شام کا فلم اس پر عجب تاثر چھوڑ گیا تھا۔ From Here to Eternity کا وہ سین جہاں برٹ لنکاسٹر سمندر کنارے ڈبراکر سے والہانہ اظہارِ محبت کرتا ہے اس کے لیئے عجب کش مکش کا باعث بنا ہوا تھا۔ شام کو وہ بھی تو پانیوں میں اترا تھا، لیکن اب اس کا بند بند درد کر رہا تھا اور وہ سوچ رہا تھا کہ اس جہنم کی آگ سے تو موت بہتر ہے۔ کم از کم ایک بار فیصلہ تو ہو ہی جاتا ہے ——

جب کبھی وہ کوئی رسالہ یا کتاب الماری میں سے نکال کر پڑھنے لگتا تو اس کے سامنے سمندر کی طوفانی لہریں اور پھر محبت کی وارفتگی میں لپٹے ہوئے دو شخص آ جاتے۔ وہ سوچنے لگتا کہ بفرضِ محال زرقا اور میں اس طرح سمندر کنارے تنہا رہ بھی جائیں تو کیا زرقا اس والہانہ، جنونی عشق کی متحمل ہو سکتی ہے جو بعض اوقات میرے دل میں راتوں رات موجزن رہتا ہے ؟ اور کیا زرقا او وارفتگی کی حامل بھی ہو سکتی ہے جو محض اُس عورت کو نصیب ہوتی ہے جس نے زندگی میں سب کچھ کھو دیا ہو، جس کی کوکھ بانجھ ہو چکی ہو، زندگی ایک لق و دق صحرا ہو اور وہ آخری بار ہمک کر، بلبلا کر چاند کو حاصل کرنے کی کوشش کرئے۔

مجو کا حلق کچھ اس طرح سے خشک ہو چکا تھا کہ بار بار تھوک نگلنے کے بعد اب تھوک بھی حلق سے نیچے نہ گزرتا تھا۔ اس نے سرہانے پڑا ہوا چھوٹا سا بیڈ لیمپ جلایا۔ دیوان نے نیچے دھرے ہوئے سلیپر ڈھونڈے ، ان میں پیر ٹھونسے اور پھر غسلخانے میں جانے کے لیئے تیار ہو گیا۔

منہ ہاتھ دھو کر جب اس نے بار بار کلی کی اور پانی پیا تو اُسے لگا ساتھ والے سٹور میں کسی نے دروازہ کھولا، روشنی کا دروازے برابر تختہ صحن میں سرچ لائیٹ کی طرح پڑا، پھر پٹ بند ہو گئے ، لیکن دونوں در آدھ کھلے ہونٹوں کی طرح روشنی کی فٹ بھر لکیر صحن پر ڈالتے رہ گئے اور مجو نے محسوس کیا اس دروازے کے پیچھے سے کسی نے جھانک کر دیکھا اور پھر دروازہ اچھی طرح بند کیئے بغیر ہی لوٹ گیا۔

پانی پینے کے بعد مجو لمحہ بھر کو سٹور کے ادھ کھلے دروازہ کے سامنے رُکا، اندر بڑی کم روشنی کا بلب روشن تھا۔ دیوار کے ساتھ ساتھ لنٹل کی سل پر چھوٹے بڑے ہر سائیز کے ٹرنک پڑے ہوئے تھے۔ اور ان ٹرنکوں پر جھالردار سفید غلاف بڑے قرینے سے یوں پڑے تھے گویا مقبروں پر چادریں چڑھی ہوں۔ کمرے میں سے پرچون کی دوکان کی خوشبو کے بھبھاکے اُٹھ رہے تھے۔ ان خوشبوؤں کے درمیان آم اور لیموں کے اچار کے بڑے مرتبانوں کے ساتھ زرقا چارپائی بچھائے اوندھی لیٹی تھی۔ اس کی چوٹی رخسار کو چھوتی ہوئی تکیئے کے نیچے فرش کو چھو رہی تھی۔ رخساروں پر پلکوں کے لمبے لمبے سائے تھے اور وہ دونوں ہتھیلیوں پر ٹھوڑی جمائے گہری نیند سوئی ہوئی تھی۔

جس وقت مجو نے دروازہ ہولے سے بند کیا، اس کی نیت یہی تھی کہ وہ اس سوئی ہوئی بچی کی لٹکتی چوٹی کو آنکھوں سے ہٹا کر واپس چلا جائے گا۔ دروازہ اس نے محض اس ڈر سے بند کر لیا تھا مبادا کوئی اس کی طرح غسلخانے کا رخ کرئے اور سٹور کی بتی جلتی دیکھ کر اندر آ جائے۔

لیکن جونہی اس نے دروازے کی کنڈی لگائی، زکی چوکنی ہو کر اٹھ بیٹھی اور دوپٹہ تلاش کرنے لگی۔

"آپ نے دروازہ کیوں بند کر دیا”

زرقا کے چہرے پر ہلدی کا غبار چھا گیا۔

"مجھے تم سے کچھ کہنا لے زکی۔”

"کہیئے "

اس نے اکتا کر کہا۔

"میں یہاں بیٹھ جاؤں تمہاری چارپائی پر؟”

زرقا خاموش رہی اور مجو اس کی چارپائی پر یوں بیٹھا جیسے کوئی پیر و مرشد کے پاس دو زانو ہو کر بیٹھتا ہے۔

"کہیئے ؟”

زرقا چادر میں اپنے گھٹنے اور بازو چھپاتی ہوئی بولی۔

"کچھ دیر تو مجھے خاموشی سے اس نعمت کا شکریہ ادا کر لینے دو کہ بالآخر میں تمہارے ساتھ ہوں۔ —— "

"میں دروازہ کھول دیتی ہوں، اندر گرمی ہو گئی ہے۔ "زرقا نے اٹھتے ہوئے کہا۔

اور جب زرقا دروازہ کھولنے کے لیئے اٹھ رہی تھی، تو مجو کو اس بے اعتباری پر کچھ اس طرح غصہ آیا کہ اُس لمحے اس کے جی میں انسان کی ازلی درندگی نے سر اٹھایا۔ اور اس کا جی چاہا کہ پانچ سال کی ساری تپسیا کو اس درندگی اور وحشت کے سپرد کر دے۔ زرقا کو اس پر اتنا ہی اعتماد تھا؟ کیا مڈل کلاس کی لڑکی مرد کو ہمیشہ درندہ ہی سمجھتی رہے گی؟

لیکن پھر دوسرے لمحے اس کی نظر زرقا کے گلے پر پڑی عین بائیں جانب کان کی لو سے کچھ نیچے زرقا کی ایک رگ بری طرح پھڑک رہی تھی۔ شہد کی دھار کسی بلوریں مینا میں اتر رہی تھی۔

مجو نے آہستہ سے زرقا کو اپنے بازوؤں میں لے لیا اور شہد کی اس دھار پر اپنے کڑوے اور خشک ہونٹ رکھ دیئے۔

زرقا کے لیئے جیسے سٹور کا بلب فیوز ہو گیا۔ سارے فلیٹ کی بتیاں غائب ہو گئیں۔ چاند پنہائیوں میں غوطہ لگا گیا۔ ساری کائنات اندھیرے میں ڈوب گئی۔ اور وہ بپھری ہوئی زخم خوردہ شیرنی کی طرح مجو سے علیحدہ ہو گئی اور گردن ہلاتے ہوئے بولی —— "آپ کو دیوتا سمجھ کر میں نے آپ کی پرستش شروع کر دی تھی —— "

منوڑے والے پیر کے حضور مانگی ہوئی دعا پوری ہو چکی تھی۔

خلوت کا لمحہ آ کر بیت چکا تھا۔

مجو کی نظروں میں عجب قسم کی سرد مہری تھی۔ اس نے طنز بھرے لہجے میں کہا —— "پھر تو تم نے پانچ سال دھوکا کھایا زرقا میں تو انسان ہوں —— گوشت پوست کا بنا ہوا انسان نہایت ادنیٰ —— نہایت”

زرقا سسکیاں بھرتے ہونے بولی —— "لیلی بھی یہی کہتی ہے —— "

مجو نے کہا —— "پھر تو لیلی تم سے سیانی ہے۔”

زرقا بپھری ہوئی دروازے تک پہنچی، نہایت احتیاط سے اس نے چٹخنی اس طرح اتار لی کی ہلکا سا شور بھی نہ ہوا، پھر وہ کھُلا پٹ دکھاتے ہوئے بولی —— "مجو ! میں اُمید کرتی ہوں کہ صبح تم یہاں نہ ہو گے۔”

"زرقا ! "اس بات کی مجو کو ہرگز توقع نہ تھی۔

"زرقا ! "

"تم نے میرا آئیڈیل توڑ دیا ہے۔ تم نے میری پرستش کو گناہ آلود ہاتھوں سے ملوث کر دیا ہے —- تم نے۔۔۔۔۔ تم نے۔۔۔۔۔ "

زرقا کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہنے لگے۔

مجو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا —— "اگر تم میرے قرب سے اتنی پریشان نہ ہوتیں زرقا تو اس وقت میں تمہارے آنسو اپنی پلکوں سے پونچھتا۔”

زرقا پیچھے ہٹی جیسے آگ کا شعلہ اُسے چھو گیا تھا۔

"میں کہہ رہی ہوں مجو یہ گھر چھوڑ کر چلے جاؤ، صبح کی روشنی تمہیں یہاں نہ دیکھے۔”

"اس وقت بھلا میں کہاں جاؤں زکی؟”

"میں نہیں جانتی، انور کے پاس چلے جاؤ، کہیں بھی چلے جاؤ —— بس چلے جاؤ۔”

مجو نے دروازے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا —— "پانچ سال کی محبت کا یہی صلہ ہوتا ہے کیا ؟”

زرقا نے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپا لیا اور بلک کر بولی —— "تم نے بھی پانچ سال کی تپسیا کا اچھا صلہ دیا —— مجو! اگر تمہاری ہوس میں ذرا بھی محبت کا شائبہ ہے ، تو خدا کے لیئے چلے جاؤ۔”

"اور اگر میں چلا گیا تو کیا تم سمجھ لو گی کہ مجھے تم سے محبت تھی —– یعنی اس ہوس کے واقعہ سے پہلے ؟”

"ہاں ! —— "

مجو نے جھک کر اس کی مانگ کو ایک بار الوداعی بوسہ دینا چاہا لیکن پھر ہاتھوں میں منہ دیئے روتی ہوئی زرقا کو چھوڑ کر وہ اماں جی کے کمرے میں چلا گیا۔ اس کے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔ اور وہ جانتا تھا کہ عین رانی کی تپائی پر رات ہی کو لیلی نے اسپرو کا ایک پیکٹ رکھا تھا۔ اماں جی نے آنکھیں کھولیں پھر کروٹ بدل کر سو گئیں۔

جس وقت لالو کویت والوں کے فلیٹ کی سیڑھیوں میں پہنچا، رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ اگر لالو شام کو ان کے پڑوسیوں کو ہاکس بے کی طرف جاتے نہ دیکھ لیتا تو شائد وہ اس وقت یہاں آنے کا تردد بھی نہ کرتا۔

وہ اس فلیٹ کے کونے کھدروں سے واقف تھا۔ آہستہ آہستہ وہ کویت والوں کے پڑوسیوں کے فلیٹ کے سامنے جا پہنچا۔ یہاں سامنے والے شہ نشین کے ساتھ ساتھ لٹک کر وہ پڑوسیوں کے فلیٹ میں اس جگہ پہنچا جہاں ان کی دیوار اوپر کو اٹھتی تھی۔ دیوار بالشت بھر اس کے قد سے اونچی تھی۔ وہ شہ نشین کے ساتھ لٹک کر یہاں اس لیئے پہنچا تھا کہ سامنے والی بلڈنگ کی تیز روشنی ان فلیٹوں پر پڑتی تھی۔ شہ نشین کے چھجے پر گلہری کی طرح پاؤں جما کر ایک بار اس نے نیچے کی طرف نظر کی۔ سڑک کتنی دور کیسی سنگین نظر آتی تھی۔ اس نے نظریں بند کر لیں۔ پھتو کی بتائی ہوئی ساری ترکیبوں کو ذہن میں پھرایا، چیتے کی طرح جست بھری اور دیوار پر دونوں ہاتھ ٹکا لیئے۔

ہاتھوں کا اٹکنا تھا کہ دیوار لالو کے وجود تلے آ گئی۔ پڑوسیوں کے گھر میں مکمل اندھیرا تھا۔ لالو گربہ پائی کے ساتھ دیوار سے اترا، دھپ کی سی آواز آئی۔ تنور میں کسی نے فِیدے کے ساتھ روٹی لگائی اور بس !

لالو نے باورچی خانے کے سامنے پڑی ہوئی گھڑونچی پر سے گھڑا انڈیل کر پانی پیا۔ اس سے پہلے وہ کبھی ایسے کام پر نہ نکلا تھا اور پھتو کی ساری تربیت کے باوجود اس کا حلق خشک ہو رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں مرچیں سی لگ رہی تھیں اور بار بار اُسے وہم سا ہو جاتا کہ اسے ہچکی لگ جائے گی۔

اس ہچکی کی آواز سن کر ساری بلڈنگ جاگ اٹھے گی اور وہ پکڑا جائے گا۔

اسے اچھی طرح علم تھا کہ کویت والوں کے فلیٹ میں اور اس فلیٹ کے درمیان جو لکڑی کی دیوار ہے وہ بوسیدہ ہے ، اسے آسانی سے کھولا جا سکتا ہے اور پھر اسے یوں بند بھی کیا جا سکتا ہے کہ کسی کو شبہ تک نہ گزرے کہ چور ادھر سے آیا تھا —— ان تمام باتوں کے باوجود وہ دیوار کے ساتھ اکڑوں ہو کر بیٹھ گیا۔ اس کی نظروں میں رکھی کا چہرہ بار بار ابھر رہا تھا۔ مٹی، دھول اور چیکٹ سے بکھرے ہوئے بالوں میں ایک معصوم سا چہرہ !

جب بٹوارہ ہوا تھا تو وہ آٹھ مہینے کی تھی۔ لالو اسے اپنی گود میں اٹھا کر اپنے دیس لایا تھا۔ جہاں کہیں خطرہ زیادہ ہوتا وہ اُسے کھیس کی بُکل میں چھپا لیتا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ بے رحم لوگ لڑکیاں بھی اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اور پھر یہ لڑکیاں کبھی بھائیوں سے نہیں ملتیں، یہ لڑکیاں پھر کبھی بھائیوں کے سہرے نہیں گاتیں۔ —— اور دوسرے مذہب کے آدمی ان کا ایمان تک چھین لیتے ہیں اور وہ پھر کبھی گھر لوٹ کر نہیں آتیں۔ ان کے بھائی بارڈر پار بلاتے ہیں لیکن وہ نہیں آ سکتیں۔

اس وقت وہ نہ تو ایمان کے معنی جانتا تھا نہ ہی اسے اچھی طرح علم تھا کی عصمت کیا چیز ہوتی ہے ؟ ایمان کسے کہتے ہیں؟ اسے تو اتنا بھی پتہ نہ تھا کہ آخر لڑکیوں کو جب بھائی بلاتے ہیں تو وہ آتی کیوں نہیں؟ لیکن لاعلمی کے باوجود وہ سوچتا تھا کی اگر اللہ رکھی ہمارے پاس نہ رہی تو میں دودھ جلیبیاں کسے کھلاؤں گا؟ سکول سے واپسی پر کھٹی میٹھی گولیاں کس کے لیئے لاؤں گا۔ ماں جو بھی خرچ دیتی تھی وہ اسے کبھی خرچ نہ کرتا تھا۔ کبھی تو اللہ رکھی کے غبارہ لے آتا، کبھی گولیاں اور کبھی رنگین توتا ساتھ ہوتا جو ربڑ کی پتلی سی تار سے بندھا ہوتا اور چھوٹے چھوٹے جھٹکوں پر ڈبکیاں لگاتا تھا۔ توتے کو دیکھ کر رکھی بہت خوش ہوتی، اچھل اچھل کر اسے چھونے کی کوشش کرتی، تالیاں پیٹتی، لیکن لالو توتا اس کے ہاتھ میں نہ دیتا۔ جونہی وہ رکھی کے ہاتھ میں آ جاتا وہ غوں غوں کر کے اسے اپنے گنتی کے دانتوں سے پھاڑنے لگتی۔ کچا رنگ دھل دھل کر اس کی فراک کو گندہ کرنے لگتا اور ماں جھڑک کر کہتی —- "لال دین ! تجھے کچھ ہوش نہیں لڑکے سارے کپڑے خراب ہو جائیں گے رکھو رانی کے ! —— "

—— وہ ہنس کر کہتا —— "لیکن ماں دیکھ تو سہی خوش کتنا ہوتی ہے توتے کو دیکھ کر !”

ماں کے جھڑکنے کے باوجود وہ قریباً روز ہی اکنی کا توتا لایا کرتا تھا۔ پھر ایک دن اچانک ماں نے کہہ دیا —— "مجھے پتہ ہے تو اس کی جان لے کر رہے گا —— ہزار بار کہہ چکی ہوں توتا نہ لایا کر، لیکن تجھے تو ضد ہے میری ہر بات سے —— "

"ماں دیکھ تو کیسی خوش ہو رہی ہے —— "

"ہاں خوش ہو رہی ہے اور مر جائے گی تو تُو خوش ہو لینا، پتہ نہیں اس میں زہر ہوتا ہے زہر —— "

"کس میں زہر ہوتا ہے ماں اس توتے میں؟” لالو نے گھبرا کر پوچھا۔

"کچے رنگ میں اور کس میں ؟”

لالو کے باپ نے حقہ کی نَے علیحدہ کر کے کہا —— "لال کی ماں ! دیکھ تو بچہ کیسا سہم گیا ہے۔ زہر وہر کوئی نہیں ہوتا بیٹے ، بس کپڑے خراب ہوتے ہیں۔ "

تب لالو کا باپ زندہ تھا اور اگر وہ آج زندہ ہوتا تو شاید آج بھی کوئی اس کی پیٹھ پر تھپکی دے کر کہتا لالو ! زندگی زہر سے عبارت نہیں —— یہاں انسان اپنی عزت خراب کرنے سے ڈرتا ہے —— لیکن لالو کو تو تب بھی اپنے باپ کی بات پر اعتبار نہ آیا تھا تو اب کیا آتا۔ اُس دن کے بعد وہ پھر کبھی رکھی کے لیئے توتا نہ لا سکا۔ اور اس وقت وہ ڈر رہا تھا کہ جو کچھ آج میں رکھی کے لیئے لے کر جاؤں گا اگر اسکا رنگ بھی کچا ہوا تو ؟

بٹوارے کے ہاتھوں بچائی ہوئی اللہ رکھی جس کے پھولے پھولے گالوں میں کبھی وہ چٹکی بھر لیتا تھا تو لہو کی بوندیں رخسار پر جم کر رہ جاتیں تھیں۔ اس چٹی گوری اللہ رکھی کی رنگت اب دار چینی جیسی ہو گئی تھی۔ چچا کے گھر برتن مانجھتے مانجھتے اس کے ہاتھوں میں گہری لکیریں کیچووں کی طرح پھیل گئی تھیں۔ وہ تاروں کی چھاؤں میں اٹھتی تھی اور خدا جانے کب سوتی تھی؟ لالو نے ایک عرصہ سے اُسے مسکراتے بھی نہ دیکھا تھا —— اور ماں کو یہ فکر تھی کہ وہ اسے چچا کے ہی لڑکے سے بیاہے گی۔ چچا کا بیٹا بشیرا اومنی بس میں ڈرائیور تھا۔ جب گھر آتا تویوں گرج کر رکھی کو بلاتا جیسے وہ ان کی لونڈی ہو جیسے انہوں نے رکھی کو روٹیوں کے عوض خرید لیا ہو۔ لالو کو تو یہی خیال تھا کہ چچا کے گھر پہنچ کر وہ بھی سکول جایا کرے گا اور واپسی پر رکھی کے لیئے میٹھی گولیاں لایا کرئے گا لیکن —— صبح سے شام تک چچا کے گھر میں نوکروں کی طرح کام کرنے کے بعد اُسے رکھی کے لیئے دو پیسے بھی نہ ملتے تو وہ گھر سے بھاگ نکلنے کے خواب دیکھا کرتا۔

جس روز وہ ماں کی آخری انگوٹھی بیچ کر کراچی کے لیئے تیار ہوئے تو لالو کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ رکھی پیچھے رہ جائے گی۔ اس نے ماں کی منتیں کیں، لاکھ بار سمجھایا لیکن مان کی وہی ضد رہی کہ پردیس میں سیانی لڑکی کو لے جانا ٹھیک نہیں۔ آخر اپنے گھر میں ہے۔ جب ہم کچھ مال لے کر آئیں گے تو اسی گھر میں اسے دلہن بنا کر بشیر کے سپرد کر دیں گے پھر اب کرایہ خرچ کر کے کیوں ساتھ لے جائیں، ان ہی پیسوں سے اس کا کچھ بن جائے گا۔

اب بھی لالو کی نظروں میں رکھی کا چہرہ گھوم رہا تھا۔ اس نے جا بجا سے پھٹا ہوا دوپٹہ اوڑھ رکھا تھا۔ کانوں کے اردگرد گردن پر مٹیالے چکٹ جمے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ آنسو پینے کی کوشش کر رہی تھی۔

لالو نے اس پر جھک کر پوچھا تھا "بتا کراچی سے تیرے لیئے کیا لاؤں رکھی؟” تو آنکھوں میں سہمے ہوئے آنسو گالوں پر بہہ نکلے۔ وہ لالو کے بازو سے یوں چمٹ گئی جیسے اس بازو سے علیحدہ نہ ہونے کی قسم کھا چکی تھی ! ——

لالو نے رکھی کے رخسار کو ہتھیلی سے تھپتھپا کر کہا تھا "رکھی میں تیرے ہی لیئے تو کراچی چلا ہوں۔ وہاں سنا ہے لوگ نوکروں کو بہت بہت تنخواہیں دیتے ہیں۔ اتنا پیسہ لے کر آؤں گا تیرے لیئے اتنا پیسہ ——– "

"مجھے پیسہ نہیں چاہیئے لالو” وہ سسکیاں بھرتی ہوئی بولی۔

"ارے پگلی پیسہ نہ ہو تو چاچا تجھے کب چھوڑے گا؟ میں اس لالچی کے منہ پر پیسے پھینک کر تجھے ساتھ لے جاؤں گا۔۔۔۔۔ رکھی۔۔۔۔۔۔ رکھی۔۔۔۔۔۔ رکھی۔۔۔۔۔۔ "

لیکن رکھی اس کے ساتھ چمٹی ہوئی روتی رہی۔ اس کا دنیا میں کوئی سہارا باقی نہ رہا تھا۔

"دیکھ میں تجھے کار والے صاحب سے بیاہوں گا۔ بیوقوف ایسے صاحب سے جس کا بشیر ڈرائیور ہو گا رکھی” رکھی نے ڈبڈبائی ہوئی نظریں اوپر اٹھائیں، مسکرانے کی کوشش کی لیکن دو موٹے موٹے آنسو اس کے گالوں پر آ گرے۔

لالو کی نظروں میں اب بھی رکھی کی شکل گھوم رہی تھی —— اور اسے اپنی بہن کے ساتھ کیا ہوا وعدہ لکڑی کی دیوار کھولنے کی دعوت دے رہا تھا۔ بھلا وہ دیوار پار نہ جاتا تو اور کرتا بھی کیا؟ اس نے جی سے پوچھا۔ کویت والے بہت اچھے تھے۔ تنخواہ بھی دیتے تھے۔ لیکن تنخواہ میں سے دس روپے رکھی کو بھیجنے کے بعد آخر اس کے پاس بچتا ہی کیا تھا۔ وہ تو اگر پھتو کا سہارا نہ ملتا تو کراچی جیسی جگہ میں دو دن کاٹنے بھی محال ہو جاتے۔ پھتو اسے کیا ملا جیسے رکھی سے کئے ہوئے وعدے کے ایفا کا سہارا مل گیا۔ وہ ہولے ہولے رینگ رینگ کر اس دیوار کے سائے میں آ بیٹھا۔

سٹور کی بتی جلے جا رہی تھی۔

بس اس بتی کے بجھنے کی دیر تھی اور پھر راہ بالکل صاف تھی۔ اماں جی کی چارپائی تلے اور رانی بی بی کی الماری کے ساتھ جو ٹرنک تھا اس میں زرقا بی بی کا سارا جہیز پڑا ہوا تھا۔ کویت سے آیا ہوا ریشم، پشمینہ کمخواب اور زری کے سوٹ، شنیل کی قمیصیں، غرارے اور زیور —— زیور کا تو کوئی حساب ہی نہ تھا۔ خان صاحب ہر بار کویت سے سونا لاتے تو بیسیوں چوڑیاں، نکلس اور بالیاں وغیرہ بنتیں۔ زیادہ زیور تو بنک میں محفوظ تھا لیکن لالو کو خوب علم تھا کہ پانچ سات ہزار کا زیور ابھی تک چمڑے کے سوٹ کیس میں موجود ہے۔

سٹور کی بتی جل رہی تھی —— پھر دروازہ بند ہو گیا۔

لالو نے لکڑی کے تختوں پر تھوڑا سا دباؤ ڈالا۔ تختے لکڑی کے ڈنڈے سے علیحدہ ہو گئے اور سر نکالنے کا راستہ پیدا ہو گیا۔ لالو نے اس میں سے سر نکالا اور زنبور سے ڈھیلے ڈھالے کیل نکالنے لگا۔ پھر ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا۔ گہری نیلی دھاریوں والا نائیٹ سوٹ پہنے مجو میاں باہر نکلے۔ اُن کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ آنکھوں کے نیچے گڑھے تھے اور ان کی چال سے لگتا تھا جیسے انہوں نے کوئی نشہ کر رکھا تھا۔ چال لڑکھڑائی ہوئی تھی اور وہ بالوں میں ہاتھ پھیر رہے تھے۔ لالو نے انہیں دیکھتے ہی سر اندر کر لیا۔ اگر اس وقت مجو بھائی کو خیال ہوتا تو انہیں باورچی خانے کی دیوار میں سے ایک تختہ غائب نظر آتا لیکن وہ سیدھے غسلخانے میں گھس گئے۔

سٹور کا دروازہ کھلا، ورشنی کا تختہ صحن میں پڑا، زرقا بی بی سیاہ دھاریوں والی قمیص میں نمودار ہوئی۔ انہوں نے باورچی خانے کی جانب نظر کی اور پھر ادھ کھُلا پٹ چھوڑ کر اندر لیٹ گئیں۔ لالو سہم کر اور پیچھے ہو گیا۔ پھر مجو بھائی منہ دھو کر باہر نکلے اور سٹور کے ادھ کھلے دروازے کو بند کر کے ڈرائینگ روم میں چلے گئے۔

لالو نے کھُلے تختے میں سے اندر چہرہ نکالا۔ زنبور سے دو تختے اور ادھیڑے اور سیدھا اماں جی کے کمرے میں چلا گیا۔ اسے خوب علم تھا کہ اماں جی کے پلنگ تلے بوقت ضرورت چھپنے کی کتنی جگہ ہے۔

اور پھر اس کے پاس پھتو والا رومال بھی تو تھا۔ اس نے ایک بار پھر شلوار کے نیفے میں اڑسے ہوئے رومال کو ٹٹولا —— آہستہ سے اسے نکالا اور پھر اماں جی پر جھک گیا۔

لیلی سڑک کی جانب کھلنے والی کھڑکی میں گم سم کھڑی تھی۔

اس نے کوئی ہزارویں مرتبہ جی میں سوچا کہ کسی طرح زرقا آپا کو منا کر لے ہی آؤں لیکن آج نجانے کیا بات تھی کہ کسی کو منانا آسان نہ تھا۔ ابھی کل اگر زرقا آپا یوں ناراض ہو جاتیں تو وہ کسی نہ کسی طرح انہیں منا ہی لاتی۔ لیکن چوبیس گھنٹوں نے اس کی انا جگا دی تھی اور چڑھے چاند کی روشنی میں بپھرنے والی سمندری موجوں کی طرح اس کا جی بے قابو ہو رہا تھا۔ لاسٹ سیٹر ڈے —— سنڈے۔۔۔۔۔۔ لاسٹ سیٹر ڈے —— سنڈے۔۔۔۔۔۔

شیریں کب کی سو چکی تھی۔ سمندر سے آنے والی ہوائیں پردے جھلا رہی تھیں اور لیلی کے کان کائنات کی دھڑکتی خاموشی کو غور سے سُن رہے تھے۔

ابھی کل شام تک وہ بالکل بچہ تھی۔ اسے کالج کی کتابیں، سہلیاں، وہاں کے مشاغل دل و جان سے عزیز تھے اور آج جیسے کالج لکڑیوں کا چھلا ہوا پھونس تھا جو فضول سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے۔

آج اسے یہ مہینے کا آخری ہفتہ پچھلے جنم کا کوئی دن لگ رہا تھا۔

صرف چوبیس گھنٹے میں زندگی کی تمام قدریں بدل چکی تھیں۔

آج اسے ایک عجیب سا واقعہ یاد آ رہا تھا۔ ان دنوں ابا جی کویت سے آئے ہوئے تھے۔ وہ سب صحن میں بیٹھے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ پھر فلموں کی باتیں ہونے لگیں۔ تو ابا جی بولے —— "ارے بابا تم لوگوں نے کیا فلمیں دیکھنا ہیں، فلمیں تو نیو تھیٹرز سے بن کر آیا کرتی تھیں۔ فلمیں تو بردا اور سہگل سے بنتی تھیں۔”

"ابا جی وہی سہگل جس کی غزلیں ریڈیو پر لگتی ہیں؟ ککو نے پوچھا تھا۔

ابا جی عربوں کا لمبا سا چغہ پہنے ہوئے تھے۔ کویت سے واپسی پر ایسے کئی توب ان کے ساتھ ہوتے —- جنہیں کئی بار ان کی غیر موجودگی میں لیلی اور شیریں پہن کر ڈرامے کیا کرتی تھیں۔ کویت سے صرف روپیہ، ریشمی کپڑا اور سونا ہی نہیں آتا تھا، وہاں سے عرب تہذیب کے کچھ ایسے جزو بھی ان کے فلیٹ میں آ گئے تھے جن کے بغیر اب اس گھر کا ماحول مکمل نہ تھا۔ چوغے کو ٹانگوں پر ٹھیک کرتے ہوئے ابا جی نے کہا —— "تم سہگل کو بطور گلوکار جانتی ہو۔ اور ہم اسے ایک عظیم ایکٹر کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ اگر تم نے اس کا فلم دیوداس دیکھا ہوتا تو۔۔۔۔۔۔ "

لیلی ان دنوں فلمی رسالے بہت پڑھتی تھی فوراً بول اٹھی —— "اباجی اسی نام کا ایک فلم آج کل ہندوستان میں بن رہا ہے —– اور اس میں دلیپ کمار ہے ابا جی دلیپ کمار !”

"ارے بابا اب کیا دیوداس بنے گا ——! وہ فلم ایک بار بن گیا تھا غلطی سے کہیں "

پھر اسی رات جب کھانا کھانے کے بعد اباجی اپنے بستر پر لیٹ گئے تہ لیلی نے ان سے دیوداس کی کہانی سُنی —— کہانی سننے کے بعد اس پر ذرا سا بھی اثر نہ ہوا تھا۔ اور سہ کتنی ہی دیر بیٹھی سوچتی رہی تھی کہ آخر من کا میت جب نہیں آتا تو ایسی چنتا کیوں لگ جاتی ہے۔ انسان زندگی سے اتنا بے پرواہ کیوں ہو جاتا ہے کی اسے ٹھیک طور سے سیڑھیاں بھی نظر نہیں آتیں اور وہ لڑھکتا ہوا یوں گرتا ہے کہ پھر اٹھنے کی سکت باقی نہیں رہتی۔

لیکن آج رہ رہ کر اس کی نظروں کے سامنے دیوداس کی اس محبوبہ کا نقشہ آ رہا تھا جو تھال میں پھل پھول لیئے پوجا کو جاتی ہو گی —— جس کے من کا میت جب نہ آیا تو اس نے واویلا مچایا نہ شور کیا بلکہ سونی راہوں پر آخری نظر ڈال کر سسرال رخصت ہو گئی۔ زندگی کے بھرپور تقاضوں کو پورا کرتی رہی۔ اپنے شوہر کے جوان سال بیٹے کی ماں بنی اور کچھ نہ بولی ——

لیکن ایک دن جب من کا میت نشے میں مست بیل گاڑی موڑ کر اس کے دوار آیا۔ وہ اپنے دیوداس کو ملنے چلی لیکن محبت نے اس کی آنکھیں دھندلا دیں اور وہ سیڑھیوں سے یوں لڑھکی کہ اس کا جسم تو من کے میت کا استقبال نہ کر سکا لیکن اس کی روح چتا کی آگ میں پہنچ کر جلائی گئی اور وہاں پہنچ گئی جہاں محبت پر خاموشی کا پہرہ نہ تھا۔ جہاں من کے میت کے بچھڑنے کا خوف نہیں تھا —— جہاں انتظار کی گھڑیاں نہیں تھیں۔

لیلی نے نگاہیں اندھیرے میں لپٹی ہوئی سڑک پر ڈالیں۔ ابھی یہاں سے اس کے من کا میت آ ہی تو جائے گا۔ کچھ ہی دور بندر روڈ کی کچھ بتیاں اب بھی جگمگا رہی تھیں۔ وہاں سے دبا دبا شور یہاں تک پہنچ رہا تھا۔ لیکن لیلی کا اس گہما گہمی سے کچھ تعلق نہ تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آج سے پہلے مجھے اس تنہائی کا احساس کیوں نہ تھا؟ آج سے پہلے میں نے کسی من کے میت کی چاہ کیوں نہ کی تھی۔ آج سے پہلے مجھے زرقا آپا کی خوش بختی پر رشک کیوں نہ آیا تھا؟ ایک دن —— محض چوبیس گھنٹوں نے اسے اس کے کھوکھلے وجود، بے معنی اندازِ زیست اور غلط نظریوں کا احساس دلا دیا تھا۔

لیلی کے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔ شام سے وہ ایک اضطراب بھری کیفیت میں جیئے جا رہی تھی۔ شام کو سینما گھر میں اس نے دو گولیاں اسپرو کی نگلی تھیں لیکن کچھ بھی افاقہ نہ ہوا تھا۔ پھر اس نے ذہن پر زور ڈال کر سوچا کی آخر میں نے وہ باقی کی گولیاں کہاں رکھی تھیں؟ اور جب اسے یاد آ گیا تو وہ پردہ اٹھا کر اماں جی کے کمرے میں گئی تھی۔

مجو بھائی گردن جھکائے کمرے سے باہر نکل رہے تھے۔

لیلی دبے پاؤں واپس لوٹ آئی اور پھر کھڑکی کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی۔

تھوڑی دیر بعد ڈرائینگ روم میں کھلبلی مچ گئی۔ چیزوں کے گرنے پڑنے کی آواز آئی۔ کتابیں پٹاخ پٹاخ گریں اور پھر سوٹ کیس بند کرنے کی ہلکی سے آواز آئی۔ لیلی کا دل زور زور سے بجنے لگا۔

یہ ساتھ والے کمرے میں کیا ہو رہا ہے اس نے سوچا۔

اگر یہ آج کا دن نہ ہوتا تو شاید وہ دندناتی ہوئی مجو بھائی کے کمرے میں چلی جاتی۔ لیکن اب وہ بڑی لڑکی ہو گئی تھی۔ اب یوں دلیرانہ کسی کے کمرے میں جانا اس کے لیئے ممکن نہ رہا تھا۔

معاً اس کی نظر نیچے سڑک پر جانے والے پر پڑی۔

جانے والے نے کمر پر ایک اٹیچی کیس اٹھا رکھا تھا، بغل میں ایک گٹھڑی تھی اور اس نے شلوار قمیص پہن رکھی تھی۔ اس کا قد مجو بھائی جتنا تھا اور چال بالکل ویسی تھی۔ وہ اسی بلڈنگ میں سے نکل کر کہیں جا رہا تھا۔ لیلی کا دل دھک سے رہ گیا۔

اس نے آہستہ سے ڈرائینگ روم کا دروازہ کھولا ——

مجو بھائی جا چکے تھے اور سارے میں ویرانی اور خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اُس کے اپنے ایک ہاتھ میں گرم ہاتھ کا لمس سنسنانے لگا۔

لیلی اپنے کمرے میں واپس آ گئی اور چپ چاپ بستر پر لیٹ گئی۔

صبح جب زرقا کی آنکھ کھلی تو گھر میں کہرام مچا ہوا تھا۔

اور کوئی زور زور سے اس کا دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔ رات کو دیر تک روتے رہنے کے باعث اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور سر میں شدید درد تھا۔ اُس کا بند بند دکھ رہا تھا اور حلق میں عجیب قسم کی کڑواہٹ تھی۔

اس نے اپنی لٹکی ہوئی چوٹی کو ہاتھ سے تکیئے پر کھینچتے ہوئے آہستہ سے کہا —— "توبہ صبح ہی صبح کیا ہو گیا شیریں آہستہ بولو خدا کے لیئے آہستہ۔”

شیریں نے اس کے دروازے کے ساتھ منہ لگا کر آواز دی —— "آپا —— زرقا آپا رات چوری ہو گئی۔۔۔۔۔۔ دروازہ کھولیئے جلدی”

دوپٹہ اوڑھے بغیر زرقا نے پٹاخ سے دروازہ کھول دیا۔ ککو، رانی، اماں جی اور لیلی سب صحن میں جمع تھیں۔ سفید بڑا ٹرنک برآمدے میں پڑا تھا اور ایک چادر اور چند ربن فرش پر دھرے تھے۔ سب کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ اماں جی کے پاس ہی ان کی عزیز سہیلی بڑا لمبا سا چہرہ بنائے کھڑی تھی۔

زرقا کو دیکھتے ہی اماں چلائیں —— "دیکھا تم نے اس مجو حرامزادے کے کرتوت —— "

"کیا ہوا اماں ؟” وہ دل پر ہاتھ رکھ پر آگے بڑھی۔

ککو نے جلدی سے کہا —— "آپا۔۔۔۔۔۔ آپا مجو بھائی آپ کا سارا جہیز چُرا لے گئے۔”

"کون کہتا ہے ؟” زرقا نے بپھر کر پوچھا۔

"اس کے کرتوت کہتے ہیں۔ اور کون کہے گا ! بھلا راتوں رات کہاں غائب ہو گیا حرامزادہ”

"اماں ——” زرقا نے رات کی تفصیلات بیان کرنے کے لیئے منہ کھولا۔

"رہنے دو "—— اماں کڑک کر بولیں "دونگری صاحب کے گھر جا کر حبیب کو فون کرو۔”

"مجو ایسا نہیں کر سکتے اماں —— مجو۔۔۔۔۔۔ "

"خاموش رہو آئی بڑی مجو کی طرفدار —— دیکھئے بہن رات میری آنکھ پل بھر کے لیئے کھلی تو میں نے دیکھا تھا —— مجھے خیال ہوا شاید اسپرو کی گولی لینے آیا ہے —— لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ کمبخت زرقا کے جہیز پر ہاتھ صاف کرنے آیا ہے —— بدمعاش، شہدا —— "

لیکن جہیز تو اُسے ہی ملتا —— اگر آپ۔۔۔۔۔۔ "امی کی سہیلی رک رک کر بولی۔

"بس جی اس سے اتنی دیر بھی برداشت نہ ہو سکی —— ارے شیریں تُو وہاں کیا کھڑی ہے فون کیا حبیب کو ! —— "

"ہاں اماں جی کر آئی ہوں، وہ آتے ہی ہوں گے اب —— "

پھر اماں جی اپنی سہیلی کو اپنی تمام نیکیاں اور بہن کی ساری غریبی کا کچا چٹھا سنانے بیٹھ گئیں۔ ککو اور رانی خالی ٹرنک کو بار بار کھولتیں اور ربن جھاڑ کر واپس ڈال دیتیں۔ ویسے اس چوری نے اتنی مسرت تو بخش دی تھی کہ آج سکول جانا موقوف ہو گیا تھا۔

زرقا ہولے ہولے ڈرائینگ روم کی طرف بڑھ گئی۔

ابھی کل زندگی کتنی پُر بہار تھی۔ اس کے چھوٹے اٹیچی میں مجو کے خط تھے۔ اس کے دل میں یادوں کے خزینے تھے اور اب یہ سارے خط، یہ تمام یادیں ایک دم ملوث ہو کر سخت گھناؤنی ہو گئی تھیں۔ اس کی نظروں میں وہ شعبدہ باز مجو گھوم رہا تھا جو ساحل کنارے تاش کا پتہ غائب کر رہا تھا —— اس کے ہاتھوں میں تاش کے پتوں کی چلت پھرت اتنی تیز تھی کو یوں لگتا تھا جیسے وہ ازل کا رہزن ہے۔ —— تب زرقا کو خیال آیا تھا کہ مجو تاش کے پتے کی طرح میرا دل غائب کر کے لے گیا اور اب —— اب وہ سوچ رہی تھی مجو؟۔۔۔۔۔۔

مجو کیا صندوقوں میں سے چیزیں بھی غائب کر سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ کیا مجو۔۔۔۔۔۔ کیا مجو۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کا دل دھڑک دھڑک کر کہہ رہا تھا مجو ایسے نہیں کر سکتا —— مجو یوں نہیں کر سکتا —— مجو دیوتا نہ ہو لیکن مجو انسان تو ہے —— اور انسان اتنے رذیل نہیں ہوتے ——

جب وہ فلیٹ کی سیڑھیاں اترنے والی تھی تو لیلی دروازہ کھول کر اس کے مقابل آ گئی۔ لیلی کی آنکھوں میں تازہ آنسوؤں کی چمک تھی۔ اس نے اہستہ سے کہا۔

"آپا —— کہاں چلی ہو؟”

"نیچے —— "

"کیوں آپا ؟ —— "لیلی نے پوچھا

پھر اس کی نظریں تنگ ہو گئیں۔ اُس نے زرقا کے کان پر سے بال اٹھائے اور آنکھیں سکوڑ کر بولی —— "آپا رات مجو بھائی سٹور میں گئے تھے کیا ؟”

زرقا نے نگاہیں جھکا کر بمشکل تمام کہا —— "ہاں —— "

لیلی لب بھینچ کر جیسے اپنے آپ سے بولی —— "اب مجھے یقین ہو گیا ہے —— اب مجھے یقین ہو گیا ہے۔”

"کس بات کا یقین لیلی؟” زرقا نے پوچھا۔

"آپ کا ٹاپس کہاں ہے بائیں کان کا —— ؟”

زرقا نے لمحہ بھر کو اپنے آپ کو جھٹلانا چاہا جیسے ٹاپس اپنی جگہ موجود ہو! لیکن پھر اس نے آہستہ سے ہاتھ اٹھایا اور خالی کان کی لَو کو چھو کر گرا دیا۔

لیلی بولی —— "رات جب مجو بھائی اماں کے کمرے سے نکلے ہیں، میں بھی وہاں گئی تھی۔ مجھے اسپرو کی ضرورت تھی —— لیکن انہیں جاتا دیکھ کر میں لوٹ آئی پھر میں کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی آپا —— اور میں نے مجو بھائی کو فلیٹ سے اترتے دیکھا۔ ان کی پیٹھ پر ایک اٹیچی کیس اور بغل میں کوئی گٹھڑی سی تھی —— اب میں چپ نہ رہوں گی۔۔۔۔۔۔ اب میں چپ نہ رہوں گی —— آپا میں مجو بھائی کو دیوتا سمجھتی تھی، وہ تو انسان بھی نہ نکلے —— "

پھر پٹاخ سے دروازہ اپنے پیچھے بند کرتی لیلی اندر چلی گئی۔

زرقا ہولے ہولے سیڑھیاں اترنے لگی۔ اس کا ایک ایک پاؤں زنجیروں سے بندھا تھا اور کمر کی جانب سے اسے کوئی گھسیٹ رہا تھا۔

اس کی نظروں میں سمندر کی بڑھتی سمٹتی شور مچاتی لہریں تھیں۔ پاؤں ابرق الود ریت کا بھربھرا پن محسوس کر رہے تھے اور مجو اس سے کان کا ٹاپس مانگ رہا تھا —— اب بھی اس کے کانوں میں مجو کی آواز صاف آ رہی تھی ——

"زرقا بیگم تمہاری مجبوری میری مجبوری ہے ورنہ جو چیز مجھے اچھی لگتی ہے وہ میں یوں اُڑا لیا کرتا ہوں —— "

حبیب اسے سیڑھیوں میں ملا اور چھوٹتے ہی بولا —— "کمال ہے پروفیسر صاحب۔۔۔۔۔۔ بھی ایسے ہو سکتے تھے –"

زرقا کے پاؤں سیڑھیوں پر جم گئے۔ اس نے سہارے کے لیئے ایک ہاتھ ریلنگ پر رکھ کر پوچھا۔

"میرزا صاحب آپ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟”

حبیب میرزا نے بوکھلا کر کہا —— "ہاں —— زرقا۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں —— دل و جان سے ! "

"تو پھر آپ کو میری ایک شرط ماننا ہو گی —— "

"کہیئے —— جو شرط بھی ہو گی میں سر کے بل پوری کروں گا —— فرمائیے "

زرقا نے آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کو چھپانے کی خاطر منہ پرے کر لیا اور بمشکل بولی —— "اماں آپ کو تھانے میں رپورٹ لکھوانے بھیجیں گی —— اور۔۔۔۔۔۔ اور آپ وہ رپورٹ نہیں لکھوائیں گے "

زرقا کی آنکھوں میں آنسو پھیل گئے۔

"ضرور ضرور —— میں وعدہ کرتا ہوں۔ یہ تو میرے اپنے بس کی بات ہے ” وہ چٹکی بجا کر بچوں کی سی تازگی سے اوپر چڑھ گیا۔

لیکن یہ چٹکی زرقا کے کان کے پاس بجی اور اس نے اس کا ٹاپس اتار لیا —— پھر کان تلے ایک ٹھنڈا بوسہ دہکنے لگا۔ زرقا کے آنسو رخساروں پر بہہ رہے تھے۔ وہ ریلنگ کا سہارا لیئے کھڑی تھی۔ شاید اُسے کسی انسان سے کبھی بھی محبت نہ ہو سکتی تھی۔

جب تک مجو دیوتا رہا اس کے من کے سنگھاسن پر براجمان رہا۔

اور اب ذلت کی گہرائیوں میں اُتر کر وہ اس کے پیروں سے چمٹا ہوا تھا۔ اُس کے آنسوؤں پر حکمرانی کر رہا تھا۔ اور گلے کے قریب ایک رگ تھی کہ دھڑکتی چلی جا رہی تھی۔ مینا پر شہد کی دھار ٹپک رہی تھی۔

ٹرین حیدرآباد سٹیشن پر رُکی ہوئی تھی۔ مجو کی سیٹ پر ایک پرانا اٹیچی کیس اور ایک چھوٹی سی گٹھڑی تھی جس میں ریت میں سنے ہوئے اس کے کپڑے تھے۔ اس کا سارا وجود جیسے چوری ہو گیا تھا۔ صرف انور کے دیئے ہوئے پچاس روپئے جیب میں تھے۔ وہ رات کو جب چپکے سے فلیٹ سے نکلا تو سوچ رہا تھا کہ جو لڑکی ایک بوسے کی متحمل نہیں ہو سکتی وہ شادی جیسے رگڑ کھانے ، الٹا لٹکانے ، آزمانے اور آزمائے جانے والے رشتے کی متحمل کیسے ہو گی؟ اس نے پانچ سال کے بعد یہی سوچا کہ ایسی نازک لڑکی پر مزید اپنی محبت کا بوجھ ڈالنا ظلم ہو گا۔ اسی فیصلے پر پہنچ کر اس نے اپنا مختصر سامان اٹھایا۔

اور جس وقت وہ کمرے سے نکلا اسی وقت لالو نے ماں جی کے تخت پوش کے نیچے سے سفید کویتی بکس یوں نکالا کہ اماں جی کو آواز تک نہ آئی۔

مجو نے چہرہ نکال کر باہر دیکھا۔ سامنے رنگین مٹی کا نازک صراحیوں والا اپنا سارا مال پونچھ پونچھ کر لگا رہا تھا۔ ابھی کل کی بات تھی یہاں دو امریکن عورتیں ان صراحیوں کا سودا کر رہی تھیں۔ ان کے لکیر دار فراک گھٹنوں سے نیچے تنگ اور بغلوں تلے بہت زیادہ کھلے تھے۔

آج مجو نے پیٹ پھر کر چائے پی رکھی تھی۔ اور اسے حلوہ پوری والے سے ذرا بھی دلچسپی نہ تھی۔ وہ ٹرین سے اترا اور ایک نازک سی صراحی خرید لی۔ اس کے کولہے ، گردن اور بند بند منہ اُسے پرسوں بھی بہت پسند آیا تھا۔ لیکن پرسوں کی پسند اور آج کی پسند میں بڑا فرق تھا۔ آج اس نے چپکے سے یہ صراحی خرید لی تھی۔

اور جب ٹرین سٹیشن چھوڑ کر آگے بڑھی اور بنجر زمین، بجلی کے کھمبے ، دھونسی ہوئی جھاڑیاں پیچھے کی طرف بھاگنے لگیں تو وہ کھڑکی میں گیا اور آہستہ سے کوری صراحی ہاتھ سے چھوڑ دی۔

ٹرین کے شور میں صراحی کے ٹوٹنے کی رتی بھر آواز نہ آئی

Related posts

Leave a Comment