غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی دوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
Read MoreDay: مئی 11، 2022
شیخ تراب علی قلندر
شہر میں اپنے یہ لیلٰی نے منادی کر دی کوئی پتھر سے نہ مارے مرے دیوانے کو
Read Moreنادر لکھنوی
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
Read Moreمحمد قدرت اللہ شوق
غافل تجھے کرتا ہے یہ گھڑیال منادی گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
Read Moreعرفی شیرازی
نوبت بہ من افتاد، بگویید کہ دوران آرایشی از نو بکند مسند جم را
Read Moreڈاکٹرمحمدافتخارشفیع ۔۔۔ الف د نسیم :عقیدۂ راسخہ کی غزل
الف د نسیم :عقیدۂ راسخہ کی غزل ڈاکٹر الف ۔ د ۔ نسیم کی ارد وغزل محبت کے اس سرمدی رشتے سے منسلک ہے ، جس کے فروغ میں ولی دکنیؒ، سراج اورنگ آبادیؒ، اورمیرزامظہرؒ سے خواجہ میردردؒ تک کے شعرانے حصہ لیا۔امیرمینائیؒ،بیدم شاہ وارثیؒ،فانی بدایونیؒ،امجدحیدرآبادیؒ،آسی غازی پوریؒ اوراصغر گونڈویؒ سے سید وجیہ السیماعرفانیؒ اوربابا ذہین شاہ تاجیؒ تک کے شعرانے اس محبوبۂ دل براں صنف سخن میں حسن وعشق کے ازلی وابدی تصورات کو شاعرانہ اندازمیں بیان کیاگیا۔’’تصوف برائے شعرگفتن خوب است‘‘والی بات ہمارے شعراکی تصوف اور اس کے…
Read Moreعلامہ بشیر رزمی … کون سی آس لگا بیٹھا ہے
کون سی آس لگا بیٹھا ہے وہ ابھی کر کے دعا بیٹھا ہے سرِ معبد پہ ہے شیطان سوار بادہ خانے میں خدا بیٹھا ہے روٹھ کر مجھ سے کہاں جاتا وہ پھر مری راہ میں آ بیٹھا ہے شہر کا شہر جلانے والا اپنا گھر بار جلا بیٹھا ہے اس کے چہرے پہ ہے سورج کا گماں شعلہ سینے میں دبا بیٹھا ہے گفتگو کرتے نہیں آپس میں لمحہ ،لمحے سے جدا بیٹھا ہے زرِ امید پہ اترائے تو کیا جو ملا تھا وہ گنوا بیٹھا ہے اس کی…
Read Moreسبطین رضا… اک زمانے کا حالِ دل ہے عیاں
اک زمانے کا حالِ دل ہے عیاں دشت ہے مجھ کو بس یہاں سے وہاں میں اگر سامنے سے ہٹ جاوں پھر تو خالی ہے دامنِ امکاں اُس گلی کے لئے اٹھا رکھوں رتجگے اور آبلوں کے نشاں شہر کے انتظام سے باہر اک گلی ہو برائے دل زدگاں روشنی روشنی کا پہناوا دیدہ ور ہیں برائے دیدہ وراں
Read Moreتنویر سیٹھی
یہ بھی اچھا ہی ہوا اس نے مجھے چھوڑ دیا وصل تو یوں بھی مقدر میں مرے تھا ہی نہیں
Read Moreتنویر سیٹھی… دل سے محسوس کیا ہے تجھے چاہا بھی بہت
دل سے محسوس کیا ہے تجھے چاہا بھی بہتاور درختوں پہ ترے نام کو لکھا بھی بہت روز تحریر کیا ایک محبت نامہاور جب کر لیا تحریر، تو چوما بھی بہت تھک گیا تجھ کو مناتے ہوئے آخر میں بھیکیا کہوں یار مرے، مجھ سے تو روٹھا بھی بہت رخصتِ یار پہ پاگل کی طرح ہنستا رہااور پھر بیٹھ کے تنہائی میں رویا بھی بہت ہجر کا فیصلہ کب میں نے کِیا عجلت میںخود سے اک عمر لڑا، ذہن سے سوچا بھی بہت راستوں کی یہ شناسائی تو ویسے ہی…
Read More