ڈاکٹر خورشید رضوی ۔۔۔ اسیری

اسیری ۔۔۔۔۔۔۔ بلندیوں کی مہیب و خاموش وسعتوں میں کبھی کبھی بادلوں کے روزن سے دیکھتا ہوں ہرے بھرے پیڑ ہم صفیروں کی خوش دلی ندّیوں کا چھل بل مگر اب ان میں کشش نہیں ہے زمین کے سِحر کی حدیں ختم ہو چکی ہیں مری اسیری عجب اسیری ہے میں فقط اپنے بال و پر کا اسیر ہوں اور مرا قفس میری اپنی پرواز کی حدیں ہیں

Read More

وحید اختر واحدؔ ۔۔۔ پسینہ بِیج کر سمجھا کہ زرخیزی کا غم کیا ہے

پسینہ بِیج کر سمجھا کہ زرخیزی کا غم کیا ہے مکمل پانی پانی ہو کے جانا میں نے، نم کیا ہے پسینہ بِیج کر سمجھا دمادم کیا ہے! کُن کیا ہے! پسینہ بِیج کر جانا دو عالم کا ردھم کیا ہے پسینہ بِیج کر سمجھا کہ برگد کیسے اُگتا ہے پسینہ بِیج کر جانا جڑوں کا پیچ و خم کیا ہے کھلا معراج سے مجھ پر محمدؐ کس کو کہتے ہیں سمے کی ماہیّت کیسی، حقیقت میں قدم کیا ہے کشادہ پنکھ تتلی کے خدا کی ڈائری نکلی نقوشِ لوح…

Read More

جاوید قاسم ۔۔۔ رہِ طلب میں وہی دھوپ بھرنے والا ہے

رہِ طلب میں وہی دھوپ بھرنے والا ہے وہ اک پہاڑ جو صحرا میں جھرنے والا ہے مجھے خبر ہے کہ اس بار کس ہتھیلی پر ستارۂ شبِ ہجرت اترنے والا ہے بہت قریب ہے تسخیرِ کائنات کا پل تمھاری یاد کا لمحہ گزرنے والا ہے مجھے ہے اس لئے غم اپنے ٹوٹ جانے کا تمام عہد مرے ساتھ مرنے والا ہے وہ ایک زخم جو سینے میں جم گیا تھا کبھی مجھے چراغ سے خورشید کرنے والا ہے یہی صدی ہے وہ اک آ خری صدی قاسم کہ جس…

Read More

عرفان صادق ۔۔۔ اہل دل سمجھتے ہیں دائمی کمائی ہے

اہلِ دل سمجھتے ہیں دائمی کمائی ہے خواب دیکھنے والو خواب ہی کمائی ہے لڑ جھگڑ کے جیتا تھا جس کو ساری دنیا سے میں نے اس تعلق سے خامشی کمائی ہے بارشوں کا موسم ہے میری اجڑی آنکھوں میں آخری محبت کی آخری کمائی ہے کچھ چراغ جیسے پل میرے دل میں روشن ہیں میں نے ان میں جل جل کر روشنی کمائی ہے فکر ِدنیا کیا کرتے وقت ہی نہیں تھا پاس مصرعہ مصرعہ جھیلا ہے شاعری کمائی ہے

Read More

شاہد ماکلی ۔۔۔ نہیں معــــلوم کب سے غـائب ہے

نہیں  معلوم کب سے غائب ہے ایک پل روز و شب سے غائب ہے کوئی پوری طرح نہیں سرشار اک نہ اک لہر سب سے غائب ہے ہو نہیں پا رہا تعیّنِ سمت تیری آواز جب سے غائب ہے کس دہانے پہ تھا ستارۂ بخت جب سے چمکا ہے، تب سے غائب ہے معنی کیسے ہو ملتوی شاہدؔ استعارہ ادب سے غائب ہے

Read More

خورشید ربانی ۔۔۔۔ ہر ایک گھر میں ، ہر اک بام پر اندھیرا ہے

ہر ایک گھر میں ، ہر اک بام پر اندھیرا ہے چراغ جل تو رہے ہیں مگر اندھیرا ہے دکھائی دیتا نہیں اپنا آپ بھی مجھ کو سو کیا بتاؤں یہاں کس قدر اندھیرا ہے یہ جان لو کہ یہاں آخری دیا ہوں میں کوئی پکارا اُدھر سے جدھر اندھیرا ہے زمیں ٹھکانہ کروں یا فلک پہ اُڑتا پھروں مرے نصیب میں تو عمر بھر اندھیرا ہے ہوائے کم نظراں لے اُڑی چراغوں کو کسی نے دیکھا نہیں اِس قدر اندھیرا ہے ہوائیں اُس کی طرف ہیں ، دیے ہیں…

Read More

ڈاکٹر خالدہ انور ۔۔۔ فضاے شہرِ محبت سے کھینچ لائے ہیں

فضاے شہرِ محبت سے کھینچ لائے ہیں دل آج گوشۂ جنّت سے کھینچ لائے ہیں وہ چاند بن کے ہے روشن ہمارے ماتھے پر جو داغ کوچۂ اُلفت سے کھینچ لائے ہیں کشید کر لیے آنسو تمھاری فُرقت سے خُمار لمحۂ وصلت سے کھینچ لائے ہیں خزاں کے دور میں چٹکی کلی بہاروں کی گُلِ مُراد عبادت سے کھینچ لائے ہیں ہر ایک رات میں اُن کے ہی خواب دیکھتی ہوں مجھے جو دارِ ملامت سے کھینچ لائے ہیں یہی نہ ہوں ترے قاتل، بڑی عقیدت سے جو سُوکھے پھُول…

Read More