سعید راجہ ۔۔۔ مدارِ عشق میں آ کر کلام کرنے لگا

مدارِ عشق میں آ کر کلام کرنے لگا
ازل سے چپ تھا جو فر فر کلام کرنے لگا

تمام ہونے لگی تھی سماعتوں کی طلب
پھر ایک روز وہ پتھر کلام کرنے لگا

ہمارے شہر میں قدغن تھی بات کرنے پر
میں اپنے آپ سے چھپ کر کلام کرنے لگا

مری زبان کو لکنت نے آ لیا تھا مگر
وہ ہنس پڑا تو میں بہتر کلام کرنے لگا

درونِ چشم ذرا سی تری جھلک اُتری
مری نگاہ سے منظر کلام کرنے لگا

یہ کس طلسم کدے میں صدا لگا بیٹھے
جواب میں عجب اک ڈر کلام کرنے لگا

کچھ اس طرح مرا باہر خفا ہوا مجھ سے
اک اجنبی مرے اندر کلام کرنے لگا

کسی صدا کی ضرورت ہی کب رہے گی سعید
اگر وہ لمس برابر کلام کرنے لگا

Related posts

Leave a Comment