ایشیا
۔۔۔۔۔۔
آخرش جاگ اُٹھا وقت کا خوابیدہ شعور
شب کے پروردہ اندھیروں کا فسوں ٹوٹ گیا
اِک کرن پھوٹ کے چمکا گئی مشرق کا نصیب
دستِ اوہام سے ہر دامنِ دل چھوٹ گیا
کل تلک سرد تھی جن ذروں کے احساس کی آگ
آج تپ تپ کے وہ خورشید ہوئے جاتے ہیں
جن کو روندا گیا صدیوں وہی مجبور عوام
انقلابات کی تمہید ہوئے جاتے ہیں
لاکھ پھینکے شبِ تاریک سویرے پہ کمند
کارواں صبح کا بڑھتا ہی چلا جائے گا
اپنے ہمراہ لیے سینکڑوں کرنوں کا جلوس
وسعتِ عالمِ آفاق پہ چھا جائے گا
Related posts
-
اکرم سحر فارانی ۔۔۔ چھ ستمبر
ظُلمت کے جزیرے سے اَندھیروں کے رسالے آئے تھے دبے پاؤں اِرادوں کو سنبھالے دُشمن کے... -
حامد یزدانی ۔۔۔ سوالیہ اندیشے
سوالیہ اندیشے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خزاں کی نئی اداسی کا رنگ کتنے برس پرانا ہے؟ زندگی مسکرا... -
خاور اعجاز ۔۔۔ امکان (نثری نظم) ۔۔۔ ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)
امکان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو پیدا ہونے والی تاریکی روشنی کا مطالبہ کرتے ہُوئے گھبرا جاتی ہے...