نظام رامپوری ۔۔۔ وہی لوگ پھر آنے جانے لگے

وہی لوگ پھر آنے جانے لگے مرے پاس کیوں آپ آنے لگے کوئی ایسے سے کیا شکایت کرے بگڑ کر جو باتیں بنانے لگے یہ کیا جذبِ دل کھینچ لایا انھیں مرے خط مجھے پھر کے آنے لگے ابھی تو کہا ہی نہیں میں نے کچھ ابھی تم جو آنکھیں چرانے لگے ہمارے ہی آگے گلے غیر کے ہماری ہی طرزیں اڑانے لگے نہ بن آیا جب ان کو کوئی جواب تو منہ پھیر کر مسکرانے لگے

Read More

محمد علوی ۔۔۔ آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں

آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں ٹیبل پر سر رکھ کر سو جاتا ہوں میں گلی گلی میں اپنے آپ کو ڈھونڈتا ہوں اِک اِک کھڑکی میں اُس کو پاتا ہوں میں اپنے سب کپڑے اس کو دے آتا ہوں اس کا ننگا جسم اٹھا لاتا ہوں میں بس کے نیچے کوئی نہیں آتا پھر بھی بس میں بیٹھ کے بے حد گھبراتا ہوں میں مرنا ہے تو ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں ٹھہر ذرا گھر جا کے ابھی آتا ہوں میں گاڑی آتی ہے لیکن آتی…

Read More

محمد علوی ۔۔۔ سچ ہے کہ وہ برا تھا ہر اک سے لڑا کیا

سچ ہے کہ وہ برا تھا ہر اک سے لڑا کیا لیکن اُسے ذلیل کیا یہ برا کیا گلدان میں گلاب کی کلیاں مہک اٹھیں کرسی نے اُس کو دیکھ کے آغوش وا کیا گھر سے چلا تو چاند مرے ساتھ ہو لیا پھر صبح تک وہ میرے برابر چلا کیا کوٹھوں پہ منہ اندھیرے ستارے اُتر پڑے بن کے پتنگ میں بھی ہوا میں اُڑا کیا اُس سے بچھڑتے وقت میں رویا تھا خوب سا یہ بات یاد آئی تو پہروں ہنسا کیا چھوڑو پرانے قصوں میں کچھ بھی…

Read More

سید آل احمد ۔۔۔ اے رسم و راہِ شہر کے محتاط ظرف رنگ

اے رسم و راہِ شہر کے محتاط ظرف رنگ ٹھوکر بھی کھا کے آیا نہ جینے کا ہم کو ڈھنگ آتی نہیں ہے سطحِ یقیں پر وفا کی لہر رہتی ہے صبح و شام مزاجوں میں سرد جنگ ہر صبح دُکھ سے چور ملا زخم زخم جسم ہر شب تھرک تھرک گیا آہٹ پہ انگ انگ تھا جس سے میرے سچ کے تحمل کا ربطِ خاص اترا اسی کے غم کا مری روح میں خدنگ ناآشنائے لذتِ لہجہ تھے سب ہی لوگ کیا کیا بساطِ لب پہ بکھیری نہ قوسِ…

Read More

مرزا غالب ۔۔۔ عالم جہاں بعرضِ بساطِ وجود تھا

عالم جہاں بعرضِ بساطِ وجود تھا جوں صبح، چاکِ جَیب مجھے تار و پود تھا جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار صحرا، مگر، بہ تنگیِ چشمِ حُسود تھا بازی خورِ فریب ہے اہلِ نظر کا ذوق ہنگامہ گرم حیرتِ بود و نمود تھا عالم طلسمِ شہرِ خموشاں ہے سر بہ سر یا میں غریبِ کشورِ گفت و شنود تھا آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا…

Read More

فانی بدایونی ۔۔۔ خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا

خلق کہتی ہے جسے دل ترے دیوانے کا ایک گوشہ ہے یہ دنیا اسی ویرانے کا اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا حسن ہے ذات مری ،عشق صفت ہے میری ہوں تو میں شمع مگر بھیس ہے پروانے کا کعبہ کو دل کی زیارت کے لیے جاتا ہوں آستانہ ہے حرم میرے صنم خانے کا مختصر قصۂ غم یہ ہے کہ دل رکھتا ہوں رازِ کونین خلاصہ ہے اس افسانے کا زندگی بھی تو پشیماں ہے یہاں لا کے مجھے…

Read More

رسا چغتائی … تیرے آنے کا انتظار رہا

تیرے آنے کا انتظار رہا عمر بھر موسمِ بہار رہا پا بہ زنجیر زلفِ یار رہی دل اسیرِ خیال یار رہا ساتھ اپنے غموں کی دھوپ رہی ساتھ اک سروِ سایہ دار رہا میں پریشان حال آشفتہ صورتِ رنگِ روزگار رہا آئنہ آئنہ رہا پھر بھی لاکھ در پردۂ غبار رہا کب ہوائیں تہِ کمند آئیں کب نگاہوں پہ اختیار رہا تجھ سے ملنے کو بے قرار تھا دل تجھ سے مل کر بھی بے قرار رہا

Read More

محمد علوی ۔۔۔ سردی میں دن سرد ملا

سردی میں دن سرد ملا ہر موسم بے درد ملا اونچے لمبے پیڑوں کا پتہ پتہ زرد ملا سوچتے ہیں کیوں زندہ ہیں اچھا یہ سر درد ملا ہم روئے تو بات بھی تھی کیوں روتا ہر فرد ملا ملا ہمیں بس ایک خدا اور وہ بھی بے درد ملا علوی خواہش بھی تھی بانجھ جذبہ بھی نا مرد ملا

Read More